ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی/محسن ممتاز
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:۱ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ،۲ فَنَادَى رَجُلٌ آخَرَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَعْنِكَ يَارَسُولَ اللّٰهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے، وه كہتے ہیں : رسول الله صلی الله علیہ وسلم بقیع كے مقام پر تهے، جب ایك آدمی نے دوسرے شخص كو ’ابو القاسم ‘كے الفاظ سے آواز دی۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم یہ سن کر اُس كی طرف متوجہ ہوئے تو اُس نے كہا: میری مراد آپ نہیں تهے۔ اِس پر آپ نے فرمایا: تم لوگ میرے نام پر نام ركھ سکتے ہو، لیكن میری كنیت اختیار نہ كرو۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ رسول کی حیثیت سے آپ پر ایمان کے جو تقاضےاور آپ کے ساتھ معاملات کے جو آداب قرآن میں بیان ہوئے ہیں، یہ ہدایت بھی اُنھی کی فرع ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم اپنے بیٹوں کو جس طرح اور جس بے تکلفی کے ساتھ پکار سکتے ہو، اُس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ گویا مجھے ہی پکارا جا رہا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ ہدایت آپ کے نام یا لقب اور آپ کی کنیت کو آپ کے زمانے میں ایک شخص کے لیے جمع کر دینے کے ساتھ خاص تھی۔ آپ کے بعد اب اِس طرح کے التباس کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اِسے ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دیا جائے۔
۱۔ اِس روایت كا متن مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۹۲۶ سے لیا گیا ہے۔ اِس كےتنہا راوی انس بن مالك رضی الله عنہ ہیں۔ الفاظ كے معمولی فرق كے ساتھ اِس كے متابعات اِن مصادر میں دیکھے جا سکتے ہیں:
جامع ابن وہب، رقم ۵۱۔ مسند ابن جعد، رقم ۱۴۶۲۔الطبقات الكبرىٰ، ابن سعد ۱/۸۶۔ الادب ، ابن ابی شیبہ، رقم ۲۷۹۔ مسند احمد، رقم ۱۲۱۳۰، ۱۲۲۱۸، ۱۲۷۳۱، ۱۲۹۶۱۔المنتخب من مسند عبد بن حمید، رقم ۱۴۰۸۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۴۰۶۔صحیح بخاری، رقم ۲۱۲۰، ۲۱۲۱، ۳۵۳۷۔ الادب المفرد، بخاری، رقم ۸۳۷ ، ۸۴۵۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۳۱، ۵۷۰۸ ۔سنن ابن ماجہ، رقم ۳۷۳۷ ۔ سنن ترمذی، رقم ۲۸۴۱۔عوالی الحارث، رقم ۶۔ مسند بزار، رقم ۶۵۴۶، ۶۵۴۷۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۳۷۸۷، ۳۸۱۱۔الكنىٰ والاسماء، دولابی، رقم ۲۱۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم۷۲۴۰۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۱۳۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی ، رقم ۱۹۳۲۵ ، ۱۹۳۲۶۔ معرفۃ السنن والآثار، بیہقی ، رقم ۱۹۱۷۶۔ الادب ، بیہقی، رقم ۳۸۴۔
۲۔ بعض روایات مثلاً ، مسند احمد، رقم ۱۲۷۳۱ میں ’البقيع‘كے بجاے ’في السوق‘،كے الفاظ اور بعض روایات مثلاً، مسند بزار، رقم ۶۵۴۶ میں ’في بعض سكك المدينة‘(مدینہ كے كسی راستے) كے الفاظ آئے ہیں۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ:۱ وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ فَسَمَّاهُ الْقَاسِمَ۲ فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا۳ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَسَمَّيْتُهُ الْقَاسِمَ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: لَا نَكْنِيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْسَنَتِ الْأَنْصَارُ، سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي۴، ۵ فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ»۶، ۷.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جابر بن عبداللہ انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وه كہتے ہیں: ہمارے ایك آدمی كے یہاں لڑكا پیدا ہوا تو اُس نے اُس كا نام قاسم ركها۔ اِس پر انصار كے لوگوں نے كہا: ہم تمھیں ابوالقاسم كی كنیت سے پكاریں گے، نہ اِس طرح تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ اُس نے یہ دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض كی: یا رسول الله ،میرا بیٹا پیدا ہوا اور میں نے اُس كا نام قاسم ركها ہے توانصار کہتے ہیں: ہم تمھیں ابوالقاسم كی كنیت سے پکاریں گے اور نہ اِس طرح تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا : انصار نے صحیح بات كہی ہے ۔ تم میرے نام پر نام تو ركھ سكتے ہو ، لیكن میری كنیت اختیار نہ كرو، اِس لیے کہ قاسم صرف میں ہی ہوں۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ راوی کی غلطی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً وہی بات فرمائی ہو گی جو مسند احمد، رقم ۱۴۲۲۷ میں نقل ہوئی ہے، یعنی ’فإني أنا أبوالقاسم، أقسم بینکم‘ (اِس لیے کہ ابو القاسم میں ہی ہوں، میں خدا کی ہدایت تمھارے درمیان تقسیم کرتا ہوں)۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کنیت ابوالقاسم ، کس رعایت سے اختیار فرمائی تھی۔
۱۔ اِس روایت كا متن صحیح بخاری ، رقم ۳۱۱۵ سے لیا گیا ہے۔ اِس كے راوی جابر بن عبدالله انصاری رضی الله عنہ ہیں۔ الفاظ كے معمولی فرق كے ساتھ اِس كے متابعات جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۸۶۷۔ جامع ابن وہب ، رقم۸۰۔ مسند طیالسی،رقم ۱۸۳۶، ۱۸۳۷، ۱۸۵۶۔ مسند الحمیدی، رقم ۱۲۶۷۔ طبقات ابن سعد۱/ ۵۰۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۹۲۵ ، ۲۵۹۲۷ ، ۲۵۹۲۹۔ الادب، ابن ابی شیبہ، رقم ۲۶۰، ۲۶۲، ۲۶۴ ۔ مسند احمد، رقم ۱۴۱۸۳، ۱۴۲۲۷، ۱۴۲۴۹ ،۱۴۲۹۶ ، ۱۴۳۵۷ ، ۱۴۳۶۳ ، ۱۴۳۶۴، ۱۴۹۶۳، ۱۴۹۶۴ ، ۱۴۹۷۳ ، ۱۵۱۳۰۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۱۰۲۳، ۱۱۱۲۔ صحیح بخاری، رقم ۳۱۱۴ ،۳۱۱۵، ۳۵۳۸، ۶۱۸۶ ، ۶۱۸۷، ۶۱۸۹ ، ۶۱۹۶۔ الادب المفرد ، بخاری، رقم ۸۱۵ ، ۸۳۹ ، ۸۴۲۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۳۳، ۵۷۱۸ ، ۵۷۱۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم۳۷۳۶۔ سنن ترمذی، رقم ۲۸۴۲۔ تاریخ ابن ابی خیثمہ، رقم ۱۸۹۶، ۱۸۹۸۔ مسندابی یعلىٰ، رقم۱۹۱۵، ۱۹۲۳ ،۲۰۱۶ ، ۲۳۰۲۔ الكنیٰ والاسماء، دولابی ، رقم ۲۰۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۷۲۳۳، ۷۲۳۸ ، ۷۲۳۹، ۷۲۴۶، ۷۲۴۷۔ معجم ابن اعرابی ، رقم ۲۱۶۲۔ جزء من حدیث خیثمہ ، رقم ۲۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۱۶۔ مستدرك حاكم، رقم ۷۷۳۵۔ الآداب، بیہقی، رقم ۳۸۵۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۸۲۶۶۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۹۳۲۱، ۱۹۳۲۲، ۱۹۳۲۳، ۱۹۳۲۴، ۱۹۳۲۸۔
الفاظ كے معمولی فرق كے ساتھ یہ متن ابوہریره رضی الله عنہ سے بهی روایت ہوا ہے ۔ اِس كے شواہد اِن مراجع میں ہیں:
جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۸۶۶۔ جامع ابن وہب، رقم ۷۲۔ مسند طیالسی، رقم ۲۵۴۱۔ مسند حمیدی، رقم ۱۱۷۸۔ مسند ابن جعد، رقم ۶۹۹۔ الادب ، ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۹۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۹۲۴۔ مسند اسحاق، رقم ۱۸۰۔ مسند احمد، رقم۷۳۷۷، ۷۳۷۸، ۷۶۵۴، ۷۷۲۸، ۹۰۹۴، ۱۰۷۲۶۔ مسند دارمی، رقم ۲۷۳۵، ۲۸۹۸۔ الادب المفرد، بخاری، رقم ۸۳۶ ۔ صحیح بخاری، رقم ۱۱۰ ، ۳۵۳۹، ۶۱۸۸ ۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۳۴۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۷۳۵۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۹۶۵۔ تاریخ ابن ابی خیثمہ،رقم ۹۴، ۱۸۸۰، ۱۸۸۱، ۱۸۹۹، ۱۹۰۰۔ مسند ابی یعلىٰ، رقم ۶۰۶۳۔ الكنیٰ والاسماء، دولابی، رقم ۱۹۔ شرح معانی الآثار، رقم ۷۲۲۸، ۷۲۲۹، ۷۲۳۰، ۷۲۳۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۱۲۔ ناسخ الحدیث ومنسوخہ، ابن شاہین، رقم ۴۸۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۶۰۰۱۔مستدرك حاكم، رقم ۴۱۸۷۔ مسند شہاب، رقم ۵۵۰۔ الآداب،بیہقی، رقم۳۸۳۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۹۳۱۹۔
یہی مضمون محمد بن ابی بكر سے بهی الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ روایت ہوا ہے۔ اس كے شواہد یہ ہیں:
معرفۃ الصحابہ، ابو نعیم، رقم ۶۷۴۔ تاریخ دمشق، ابن عساكر ۵۵/ ۱۰۔
۲۔ بعض روایات، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۴۱۸۳میں ’فأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا‘(چنانچہ اُس نے چاہا كہ اُس كا نام محمد ركهے) كے الفاظ آئے ہیں، اور مسند احمد ، رقم ۱۵۱۳۰ میں انصار كا یہ جملہ بهی بیان ہوا ہے: ’لَا نَدَعُكَ تُسَمِّيهِ مُحَمَّدًا بِاسْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘ (ہم تمھیں نبی صلی الله علیہ وسلم كے نام پر اِس كا نام نہ ركهنے دیں گے)۔
۳۔ بعض روایات، مثلاًصحیح بخاری، رقم ۶۱۸۷ میں اِس كے بجاے انصار كے الفاظ ’قَالُوا: لَا نَكْنِيهِ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘(انهوں نے كہا: ہم اِس سے تمھاری كنیت قبول نہیں كریں گے، جب تک نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں)روایت ہوئے ہیں۔
۴۔ بعض روایات ، مثلاً مسند طیالسی،رقم ۱۸۵۶ میں ’سَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي‘ (میرے نام پر نام ركھ لو اور میری كنیت نہ ركھو) كے بجاے ’مَنْ تَسَمَّى بِاسْمِي فَلَا يَكْتَنِي بِكُنْيَتِي، وَمَنِ اكْتَنَى بِكُنْيَتِي فَلَا يَتَسَمَّيَنَّ بِاسْمِي‘ (جو میرے نام پر نام ركهے تو وه میری كنیت نہ ركهے اور جو میری كنیت ركهے، وه ہرگز میرے نام پر نام نہ ركهے) كے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۵۔ بعض روایات، مثلاً صحیح مسلم، رقم ۲۱۳۳ میں نبی صلی الله علیہ وسلم كی طرف سے اُس كے بیٹے كا نام ركهنے كا ذكر ’اِسْمُ ابْنِكَ عَبْدُالرَّحْمٰن‘ (تمھارے بیٹے كا نام عبدالرحمٰن ہو گا) كے الفاظ میں ہوا ہے۔
۶۔ بعض روایات، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۴۲۲۷ میں ’فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ‘ (میں تو بس تقسیم كرنے والا ہوں) كے بجاے ’فَإِنِّي أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ، أُقْسِمُ بَيْنَكُمْ‘ (یقیناً میں ابو القاسم ہوں ، میں تمھارے مابین تقسیم كرنے والا ہوں) كے الفاظ آئے ہیں، اور بعض روایات، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۹۲۷ میں ’فَإِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أُقْسِمُ بَيْنَكُمْ‘ (مجهے تو بس قاسم بنایا گیا ہے، میں تمھارے مابین تقسیم كرنے والا ہوں) كے الفاظ روایت ہوئے ہیں، اِسی طرح بعض روایات، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۴۲۴۹ میں ’فَإِنَّمَا بُعِثْتُ قَاسِمًا بَيْنَكُمْ‘ (میں تو تمھارے درمیان تقسیم كرنے والے كی حیثیت سے مبعوث ہوا ہوں) كے الفاظ ہیں۔
۷۔ بعض روایات، مثلاً معرفۃ الصحابہ، ابو نعیم، رقم ۶۷۴ میں نومولود لڑكے كے حوالے سے ’كَنَّاهُ النَّبِيُّ بِأَبِي عَبْدِ الْمَلِكِ‘ (نبی صلی الله علیہ وسلم نے اُس كی كنیت ابو عبد الملك ركهی) كے الفاظ آئے ہیں۔
عَنْ عَبدِ الرَّحْمٰنِ بنِ أَبي عَمْرَةَ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ:۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْمَعُوا بيْنَ اسْمِي وَكُنْيَتِي۲».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عبدالرحمٰن بن ابی عمره اپنے چچا سے روایت كرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میرا نام اور میری كنیت ایك ساتھ اختیار نہ كرو۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ روایتوں کا جو مدعا ہم نے سمجھا ہے، یہ اُسی کی تائید ہے۔
۱۔ اِس روایت كا متن مسند احمد ، رقم ۲۳۰۸۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس كے راوی عبدالرحمٰن بن ابی عمره كے چچا ہیں۔ اِس كے متابعات درج ذیل كتب میں موجود ہیں:
مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم۲۵۹۲۸۔ الادب، ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۶۳ ۔مسند اسحاق، رقم۱۲۷۵۔ مسند احمد، رقم ۱۵۷۳۴، ۲۳۰۸۱۔ تاریخ ابن ابی خیثمہ، رقم ۱۸۹۳۔مسند رویانی، رقم ۱۴۹۷۔ معجم الصحابہ، ابن قانع ۱/ ۸۵۔
یہ متن الفاظ كے كچھ فرق كے ساتھ ابو ہریره رضی الله عنہ سےبهی روایت ہوا ہے۔ اِس كے شواہد درج ذیل كتب میں دیكهے جا سكتے ہیں:
مسند اسحاق، رقم ۱۸۱۔الادب المفرد، بخاری، رقم ۸۴۴۔ الطبقات الكبرىٰ۱ /۸۵۔سنن ترمذی، رقم ۲۸۴۱۔ الكنیٰ والاسما ء، دولابی، رقم۲۴۔ صحیح ابن حبان، رقم۵۸۱۴، ۵۸۱۵، ۵۸۱۷۔شعب الایمان، بیہقی، رقم ۱۳۴۳۔ ناسخ الحدیث ومنسوخہ، ابن شاہین رقم۴۷۴۔ دلائل النبوة ، بیہقی۱/ ۱۶۲۔
۲۔ بعض روایات، مثلاً مسند اسحاق، رقم ۱۸۱كے الفاظ ’مَنْ تَسَمَّى بِاسْمِي فَلَا يُكَنِّي بِكُنْيَتِي، وَمَنِ اكْتَنَى بِكُنْيَتِي فَلَا يَتَسَمَّ بِاسْمِي‘ (جو میرا نام ركهے، وه میری كنیت اختیار نہ كرے اور جو كنیت اختیار كرے، وه میرے نام پر نام نہ ركهے) ہیں۔
أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط 1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.
ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط 1. حيدر آباد الدكن. الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
ابن أبي شيبة عبد الله بن محمد. (1420هـ/1999م). الأدب لابن أبي شيبة. ط۱. تحقيق: د. محمد رضا القهوجي. لبنان: دار البشائر الإسلامية.
ابن أبي شيبة عبد الله بن محمد. (۱٤۰۹هـ). المصنف في الأحاديث والآثار. ط۱. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.
ابن الأعرابي أبو سعيد أحمد بن محمد. (1418هـ/1997م). معجم ابن الأعرابي. ط1. تحقيق وتخريج: عبد المحسن بن إبراهيم. السعودية: الناشر: دار ابن الجوزي.
ابن الجعد علی البغدادي. (۱٤۱۰هـ/۱۹۹۰م). مسند ابن الجعد. ط۱. تحقيق: عامر أحمد حيدر. بيروت: مؤسسة نادر.
ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. دار السميعي.
إبن حبان أبو حاتم محمد البُستي. (۱٤۱٤هـ/۱۹۹۳م). صحيح ابن حبان. ط۲. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط 3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط 1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: لبنان. مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط 1. تحقيق: د. عاصم بن عبد الله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط 1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
ابن راهويه إسحٰق بن إبراهيم. (۱٤۱۲هـ /۱۹۹۱م). المسند. ط۱. تحقيق: د.عبد الغفور بن عبد الحق. المدينة المنورة: مكتبة الإيمان.
ابن رجب عبد الرحمٰن السلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).
ابن سعد أبو عبد الله محمد الهاشمي. (۱٤۰۸هـ). الطبقات الكبرى. ط۲. تحقيق: زياد محمد منصور. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.
ابن شاهين أبو حفص عمر بن أحمد. (۱٤۰۸هـ/۱۹۸۸م). ناسخ الحديث ومنسوخه. ط۱. تحقيق: سمير بن أمين الزهيري. الزرقاء: مکتبة المنار.
ابن عدي عبد الله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط 1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.
ابن عساكر أبو القاسم علي بن الحسن. (1419هـ/1998م). تاريخ دمشق. ط۱. بيروت: دارالفكر.
ابن قانع أبو الحسين عبد الباقي. (۱٤۱۸هـ). معجم الصحابة. ط۱. تحقيق: صلاح بن سالم المصراتي. المدينة المنورة: مكتبة الغرباء الأثرية.
ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط 2. تحقيق: عبدالقيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الامدادية.
إبن ماجه محمد بن يزيد القزويني. (د.ت). سنن ابن ماجه. ط۱. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار الفکر.
ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط 1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. لبنان، بيروت: دار الكتب العلمية.
ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط 2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.
ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط 1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.
ابن وهب أبو محمد عبد الله. (۱٤۲5هـ/۲۰۰5م). الجامع. ط۱.تحقيق: الدکتور رفعت فوزي، والدکتور علي عبد الباسط. د.م: دار الوفاء.
أبو اسحاق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط 1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.
ابو بكر أحمد بن أبي خيثمة. (1427هـ/2006م). التاريخ الكبير/تاريخ ابن ابي خيثمة. ط1. تحقيق: صلاح بن فتحي هلل. القاهرة: الناشر: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.
أبو الحسن خيثمة بن سليمان. (2004م). جزء من حديث خيثمة. ط1. الناشر: مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم.
أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط 1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
أبو داود سليمان بن الأشعث السِّجِسْتاني. (۱٤۳۰هـ/۲۰۰۹م). سنن أبي داود. ط۱. تحقيق: شعيب الأرنؤوط وآخرون. دار الرسالة العالمية.
أبو عبد الله محمد بن سلامة. (1407هـ/1986م). مسند الشهاب. ط2. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. بيروت: مؤسسة الرسالة.
أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (۱٤۱۹هـ/۱۹۹۸م). معرفة الصحابة. ط۱. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي. الرياض: دار الوطن للنشر.
أبو يعلى أحمد بن علي التميمي. (۱٤۰٤هـ/۱۹۸٤م). المسند. ط۱. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط 2. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1408هـ/1988م). العلل و معرفة الرجال. ط 1. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. بيروت: المكتب الإسلامي. الرياض: دار الخاني.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (۱٤۲۱هـ/۲۰۰۱م). المسند. ط۱. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.
البخاري أبو عبد الله محمد بن إسمٰعيل.(۱٤۲۲هـ). الجامع الصحيح. ط۱. تحقيق: زهير الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.
البخاري ابو عبد الله محمد بن إسمٰعيل. (۱٤۰۹ه/۱۹۸۹م). الأدب المفرد. ط۳. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار البشائر الإسلامية.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط 1. حلب. القاهرة: دار الوعي مكتبة دار التراث.
البزار أبو بکر أحمد بن عمرو. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (۱٤۲٤هـ/۲۰۰۳م). السنن الكبری. ط۳. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. بيروت: دار الكتب العلمية.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (1412هـ/1991م). معرفة السنن والآثار. ط1. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي. دمشق: دار قتيبة.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (۱٤۱۲هـ/۱۹۹۱م). الآداب. ط۱. تحقيق: ابو عبد الله السعيد المندوه. بيروت: مؤسسة الكتب الثقافية.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (۱٤۰5هـ). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط۱. بيروت: دار الكتب العلمية.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (۱٤۲۳هـ/۲۰۰۳م). شعب الإيمان. ط۱. تحقيق: الدكتور عبد العلي. الرياض: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع.
الترمذي أبو عيسى محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). سنن الترمذي. ط 2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر (ج1، 2) ومحمد فؤاد عبد الباقي(ج3) وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (ج4، 5). مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.
الحارث بن محمد بن أبي أسامة. (1411هـ). عوالي الحارث بن أبي أسامة. ط۱. تحقيق: عبد الله عبد العزيز الهليل. بيروت: دار الفکر.
الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله. (۱٤۱۱ه/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.
الحميدي أبو بكر عبد الله بن الزبير. (۱۹۹٦م). المسند. ط۱. تحقيق وتخريج: حسن سليم أسد الداراني. دمشق: دار السقا.
خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430 هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.
الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط 1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض: دار طيبة.
الدارمي أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمٰن. (۱٤۱۲هـ/۲۰۰۰م). مسند الدارمي. ط۱. تحقيق: حسين سليم أسد. المملكة العربية السعودية: دار المغني للنشر والتوزيع.
الدولابی أبو بِشْر محمد بن أحمد. (۱٤۲۱هـ/۲۰۰۰م). الکنی والأسماء. ط۱. تحقيق: أبو قتيبة نظر محمد الفاريابی. بيروت: دار ابن حزم.
الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: إمام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علوم القرآن.
الذهبي محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط 2. تحقيق: حماد بن محمد الأنصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.
الروياني أبو بکر محمد بن هارون. (۱٤۱۷هـ). المسند. ط۱. تحقيق: أيمن علي أبو يماني. القاهرة: مؤسسة قرطبة.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط 1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة: دار الحديث.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط 1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت: دار الكتب العلمية.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط 1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت: عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.
الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقيق: طارق بن عوض الله، عبد المحسن بن إبراهيم. القاهرة: دار الحرمين.
الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد. (۱٤۱٤هـ/۱۹۹٤م). شرح معاني الآثار. ط.۱. تحقيق: محمد زهري النجار ومحمد سيد جاد الحق. د.م: عالم الكتب.
الطيالسي أبو داود سليمان بن داود. (1419هـ/1999م). مسند أبي داود الطيالسي. ط1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن. مصر: دار هجر.
العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط 1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة. مكتبة الدار.
الكَسَّي عبد الحميد بن حميد. (۱٤۰۸ه/۱۹۸۸م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط۱. تحقيق: صبحي البدري، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.
مسلم بن الحجاج أبو الحسين النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي. (۱٤۰۳ه). الجامع معمر بن راشد. ط۲. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. باكستان: المجلس العلمي، بيروت: توزيع المكتب الإسلامي.
مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001 م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط 1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ