ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «مَا بُعِثَ نَبِيٌّ إِلَّا [قَدْ۲ ] أَنْذَرَ أُمَّتَهُ [الدَّجَّالَ۳ ] الأَعْوَرَ الكَذَّابَ۴ [فَاحْذَرُوهُ۵ ]، أَلَا إِنَّهُ أَعْوَرُ [بِعَيْنِ الشِّمَالِ،۶ عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ، غَلِيظَةٌ۷ ]، وَإِنَّ رَبَّكُمْ [تَبَارَكَ وَتَعَالَى۸ ] لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ: كَافِرٌ،۹ [يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ أُمِّيٌّ وَكَاتِبٌ۱۰ ]».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا، مگر یہ کہ اُس نے اپنی امت کو جھوٹے اور یک چشم دجال سے ضرور خبردار کیا ہے۔چنانچہ تم بھی اُس سے پوری طرح خبردار رہو۔جان رکھو کہ وہ بائیں آنکھ سے اندھا ہے، اُس پر ایک موٹی جھلی ہے۔ اور تمھارا پروردگار جس کی ہستی بڑی بابرکت اور بلندوبرتر ہے، یک چشم نہیں ہے۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے مابین ’کافر‘ لکھا ہواہے۔ جو نبی بھی مبعوث ہوا،اُس نے اپنی امت کو جھوٹے یک چشم سے ضرور خبردار کیا ہے۔آ گاہ رہو، وہ یک چشم ہے، جب کہ تمھارا رب یک چشم نہیں ہے۔اور یہ بھی کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ’کافر‘ لکھا ہوا ہے، جسے ہر صاحب ایمان پڑھ لے گا، چاہے وہ اَن پڑھ ہو یاپڑھا لکھاہو۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس روایت میں دجال سے متعلق جتنی چیزیں بیان ہوئی ہیں، اُن کی وضاحت پیچھے ہو چکی ہے۔ رہی یہ بات کہ اِس سے ہر پیغمبر نے اپنی امت کو خبردار کیا ہے تو اِس کے شواہد یہود و نصاریٰ، دونوں کے ہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ Anti Christ یا دجال کا ذکر، دونوں کی مذہبی روایت میں اُسی کثرت سے ہوا ہے، جس طرح یہ مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر میں ہے۔ملاحظہ ہو مضمون: Anti Christ، دائرۃ المعارف، بریطانیہ۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۷۱۳۱سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مسند طيالسی، رقم۲۰۷۵۔ جزء الحسن بن موسىٰ الاشيب، رقم۱۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۶۹۔ مسند احمد، رقم ۱۲۰۰۴، ۱۲۱۴۵، ۱۲۷۷۰، ۱۳۰۸۱، ۱۳۱۴۹، ۱۳۲۰۶، ۱۳۳۸۵، ۱۳۳۹۴، ۱۳۴۳۸، ۱۳۵۹۹، ۱۳۶۲۱، ۱۳۹۲۵، ۱۴۰۹۴۔صحيح بخاری، رقم۷۴۰۸۔صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۳۔ سباعيات ابی المعالی الفراوی، رقم ۲۰۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم ۱۶، ۳۱، ۳۴۔ سنن ابی داؤد، رقم۴۳۱۶، ۴۳۱۷، ۴۳۱۸۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۰۰۲، ۱۰۰۹، ۱۲۳۳، ۱۲۳۵۔ مسند بزار، رقم۶۶۳۵، ۷۰۳۱، ۷۰۴۴، ۷۱۴۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۳۰۱۷، ۳۰۷۳، ۳۰۹۲، ۳۲۶۵، ۳۷۶۸، ۳۸۴۶۔ صحيح ابن حبان رقم ۶۷۹۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۸۸۴۔ الشريعۃ، آجری، رقم۸۸۰۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۴۸، ۱۰۴۹، ۱۰۵۰، ۱۰۵۲، ۱۰۵۴۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، رقم۷۱۸۔ الاسماء والصفات، بیہقی، رقم۶۷۹، ۶۸۰، ۶۸۱۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےاِس ارشاد کا ایک شاہد ابو بکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے مسند احمد، رقم۲۰۴۰۱میں اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’«الدَّجَّالُ أَعْوَرُ بِعَيْنِ الشِّمَالِ، بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ: كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ الْأُمِّيُّ وَالْكَاتِبُ»‘، ’’ دجال بائیں آنکھ سے اندھا ہے،اُس کی دونوں آنکھوں کے مابین ’ کافر‘ لکھا ہوا ہے، جسے پڑھا لکھا اور اَن پڑھ، دونوں پڑھ لیں گے ‘‘،جب کہ ایک اور شاہد میں جابر رضی اللہ عنہ سے آپ کا ارشاد اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’«مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيِ الدَّجَّالِ: كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ»‘، ’’دجال کی دونوں آنکھوں کے مابین ’ کافر‘ لکھا ہوا ہے، جسے ہر صاحب ایمان پڑھ لے گا‘‘ (مسند احمد، رقم ۱۴۵۱۲)۔
۲۔ سنن ابی داؤد، رقم۴۳۱۶۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۱۴۰۹۴۔
۴۔ مسند احمد، رقم ۱۳۴۳۸ میں یہاں ’لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا يُحَذِّرُ قَوْمَهُ مِنَ الدَّجَّالِ الْكَذَّابِ فَاحْذَرُوهُ‘ ، ’’ مجھ سے پہلے جو نبی بھی مبعوث ہوا ہے،وہ اپنی قوم کوجھوٹے دجال سے خبر دار کرتا رہا ہے، لہٰذا تم بھی اُس سے خبر دار رہنا‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۵۔ مسند احمد، رقم ۱۳۴۳۸۔
۶۔ مسنداحمد، رقم ۱۳۰۸۱ میں یہاں ’إِنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى‘،’’یقیناً دجال کی بائیں آنکھ نہیں ہے‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، جب کہ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۶۹ میں یہاں ’الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى‘ ، ’’ دجال دائیں آنکھ سے اندھا ہے ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۷۔ مسند احمد، رقم۱۲۱۴۵۔
۸۔ مسند بزار، رقم ۷۱۴۶۔
۹۔ بعض روایتوں، مثلاً صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۳ میں یہاں ’وَمَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: كَ فَ رَ‘ ، ’’اور اُس کی دونوں آنکھوں کے ما بین ’كَ فَ رَ‘ لکھا ہوا ہے‘‘کے الفاظ ہیں۔
۱۰۔ مسند احمد، رقم۱۳۳۹۴۔ بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۳۶۲۱ میں یہاں ’يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ، قَارِئٌ وَغَيْرُ قَارِئٍ‘ ،’’ اُسے ہر صاحب ایمان پڑھ لے گا، چاہے وہ پڑھا لکھاہو یا اَن پڑھ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ۲ عَنِ الدَّجَّالِ حَدِيثًا مَا حَدَّثَهُ نَبِيٌّ قَوْمَهُ إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ مِثْلُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَالَّتِي يَقُولُ إِنَّهَا الْجَنَّةُ، هِيَ النَّارُ، وَإِنِّي أَنْذَرْتُكُمْ۳ بِهِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ رہو، میں تمھیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی ۔وہ یقیناً ایک آ نکھ سے اندھا ہے اور اپنے ساتھ جنت اور دوزخ کی طرح کے مقامات لیے ہوئے آئے گا۔۱سو جس کے بارے میں وہ کہے گا کہ باغ ہے، وہ در حقیقت آگ ہوگی۔میں نے تمھیں اِس سے اُسی طرح خبر دار کر دیا ہے، جس طرح نوح (علیہ السلام) نے اِس کے بارے میں اپنی قوم کو خبردار کیاتھا۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی وہ نعمت و نقمت کے ایسے مظاہر سامنے لائے گا کہ لوگ خیال کریں گے کہ یہ تو گویا دوزخ اور جنت کو ہم نے اِسی دنیا میں دیکھ لیا ہے۔ اِس وقت، اگر غور کیجیے تو یہ تعبیریں افرنگ کے ہر قریے کو دیکھ کر اِسی طرح لوگوں کی زبان پر رہتی ہیں۔
۲۔ پچھلے انبیا کے بارے میں صرف یہی نہیں، اِس کے علاوہ بھی بہت سے اخبار ہیں، جو ہمیں قرآن وحدیث ہی کے ذریعے سے معلوم ہوئے ہیں۔ چنانچہ اِسے بھی مستبعد نہیں سمجھنا چاہیے۔
۱۔اِس روایت کا متن صحيح مسلم،رقم ۲۹۳۶ سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۸۲۔صحيح بخاری،رقم ۳۳۳۸۔ مسند ابی اميۃ الطرسوسی، رقم۳۹۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۹۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ،لالکائی،رقم ۲۲۸۷، ۲۲۸۸۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۳۴۔
۲۔ کئی طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۸۲ میں یہاں ’أُخْبِرُكُمْ‘ کے بجاے ’أُحَدِّثُكُمْ‘ کا لفظ آیا ہے۔معنی کے لحاظ سے دونوں مترادف ہیں۔
۳۔ دوسرے طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم ۳۳۳۸ میں یہاں ’انذار‘ کا یہ فعل ماضی کے بجاے مضارع کی صورت میں نقل ہوا ہے۔
قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عُمَرَ: ۱ كُنَّا نُحَدَّثُ بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَلَا نَدْرِي أَنَّهُ الْوَدَاعُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،۲ فَلَمَّا كَانَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، خَطَبَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، [فَحَمِدَ اللّٰهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ،۳ ] فَذَكَرَ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَأَطْنَبَ فِي ذِكْرِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا بَعَثَ اللّٰهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَهُ أُمَّتَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ أُمَّتَهُ، وَالنَّبِيُّونَ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِهِ، [وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِيكُمْ،۴ ] أَلَا مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ شَأْنِهِ، [فَلَا يَخْفَى عَلَيْكُمْ إِنَّهُ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ،۵ ] فَلَا يَخْفَيَنَّ عَلَيْكُمْ أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ شَأْنِهِ، فَلَا يَخْفَيَنَّ عَلَيْكُمْ أَنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ».
وَعَنْهُ فِي لَفْظٍ قَالَ:۶ قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللّٰهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: «إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ،۷ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ، تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان حجۃ الوداع کا ذکر کیا جا رہا تھا اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الوداعی حج ہوگا۔ پھر جب اُس کا موقع آ یا اور آپ حجۃ الوداع میں تھے تو آپ نے خطبہ دیا،جس میں آپ نے اللہ کی حمد وثنا فرمائی۔ پھر یک چشم دجال کا ذکر کیا اور اُس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی مبعوث کیا ہے، اُس نے اپنی امت کو اِس سے لازماً خبردار کیا۔ بلاشبہ نوح (علیہ السلام) نے بھی اِس سے اپنی امت کو خبردار کیا تھا اور اُن کے بعد کےتمام انبیا علیہم السلام بھی اِسی طرح خبردار کرتے رہے ہیں۔ وہ، یقیناً تم میں ظاہر ہوگا۔ آ گاہ رہو کہ اُس کی کوئی چیز اب تم سے چھپی ہوئی نہیں رہ گئی۔ چنانچہ یہ بات بھی تم پر مخفی نہ رہے کہ وہ دائیں آ نکھ سے اندھا ہے،۱ اور وہ آنکھ گویا انگور کا پھولا ہوا دانہ ہے۔ سو تم پر بالکل مخفی نہ رہے کہ تمھارا رب یک چشم نہیں ہے۔۲ آ گاہ رہو کہ دجال کی کوئی چیز اب تم سے چھپی ہوئی نہیں رہ گئی ۔ سو تم پر بالکل مخفی نہ رہے کہ تمھارا رب یک چشم نہیں ہے۔
اِنھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک طریق میں اِس روایت کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں، اُن میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے۔پھر آپ نےاللہ کی حمد وثنا فرمائی، جس طرح کہ اُس کے شایان شان ہے۔ اِس کے بعد دجال کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میں تم سب کو اُس سے خبردار کرتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اُس سے نہ ڈرایا ہو۔ بلاشبہ نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اُس سے خبردار کیا تھا۔لیکن میں اُس کے بارے میں تمھیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی،اور وہ یہ کہ اب تم جانتے ہو کہ وہ یک چشم ہے، جب کہ اللہ ہرگز یک چشم نہیں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ دائیں اور بائیں آنکھ کے ذکر میں اِس غلطی کی وضاحت ہم پیچھے کر چکے ہیں۔
۲۔ یہ تقابل کس پہلو سے ہے؟ اِس کی وضاحت بھی پیچھے ہو چکی ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاًمسند احمد، رقم ۶۱۸۵سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۲۰۸۲۰۔ مسند احمد، رقم ۶۳۶۵۔ صحيح بخاری، رقم ۳۳۳۷، ۴۴۰۲، ۶۱۷۵، ۷۱۲۷۔ الادب المفرد، بخاری، رقم ۹۵۸۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۱۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۷۵۷۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۳۵۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۹۹۹، ۱۰۱۲، ۱۲۳۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۵۸۶۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۸۰، ۶۷۸۵۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۳۳۳۸۔ الايمان،ابن منده، رقم ۱۰۴۱، ۱۰۴۷۔
۲۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۵۸۶ میں روایت کا یہ پہلا جملہ اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے : ’كُنَّا نَتَحَدَّثُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا لَا نَدْرِي مَا حَجَّةُ الْوَدَاعِ‘، ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حجۃ الوداع کا ذکر رہے تھے، تاہم ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپ کا آخری حج کون سا ہوگا‘‘۔
۳۔ صحيح بخاری، رقم ۴۴۰۲۔
۴۔ نفس مصدر۔
۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۵۸۶۔
۶۔ صحيح بخاری، رقم ۶۱۷۵۔
۷۔ اکثر طرق، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۳۳۳۷ میں یہ فعل لام تاکید کے ساتھ، یعنی ’لَأُنْذِرُكُمُوهُ‘، ’’ میں تم سب کو اُس سے خبر دار کرنا چاہوں گا‘‘ نقل ہوا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ۱ جَاءَتْ يَهُودِيَّةٌ، فَاسْتَطْعَمَتْ عَلَى بَابِي، فَقَالَتْ: أَطْعِمُونِي، أَعَاذَكُمُ اللّٰهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ. قَالَتْ: فَلَمْ أَزَلْ أَحْبِسُهَا حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَا تَقُولُ هٰذِهِ الْيَهُودِيَّةُ؟ قَالَ: «وَمَا تَقُولُ؟» قُلْتُ: تَقُولُ: أَعَاذَكُمُ اللّٰهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَامَ رَسُولُ اللّٰهِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا يَسْتَعِيذُ بِاللّٰهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا فِتْنَةُ الدَّجَّالِ: فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ [قَبْلِي۲ ] إِلَّا قَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ [الدَّجَّالَ۳ ]، وَسَأُحَذِّرُكُمُوهُ تَحْذِيرًا لَمْ يُحَذِّرْهُ نَبِيٌّ أُمَّتَهُ، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَاللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ... الحديث.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے دروازے پر آئی، پھر کھانا مانگتے ہوئے کہنے لگی: اللہ تم لوگوں کو دجال سے اپنی پناہ میں رکھے، اور عذاب قبر کی آزمایش سے بھی۔ مجھے کھانے کو کچھ دیں۔سیدہ کہتی ہیں کہ میں نے اُس کی یہ بات سنی تو اُس عورت کو اپنے پاس روک لیا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، یہ یہودی عورت کیا کہہ رہی ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا کہہ رہی ہے؟ میں نے کہا: یہ کہہ رہی ہے کہ اللہ تمھیں دجال کی آزمایش سے اپنی پناہ میں رکھے، اور عذاب قبر کی آزمایش سے بھی۔ سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ کھڑے ہوگئے، پھر آپ نےاپنے ہاتھ اُٹھائے اور اُنھیں پھیلا کر دجال کی آزمایش اور عذاب قبر کی آزمایش سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے،اِس کے بعد فرمایا: فتنۂ دجال کا معاملہ تو یہ ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اِس سے خبردار نہ کیا ہو، لہٰذا میں بھی اِس کے بارے میں تم لوگوں کو اِس درجے میں متنبہ کروں گا کہ کسی نبی نے اپنی امت کو نہ کیا ہو گا۔ یاد رکھو، وہ ایک آنکھ سے اندھا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ’کافر‘ لکھا ہوا ہے، جسے ہر بندۂ مومن پڑھ لے گا۱... الحدیث۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس روایت سے معلوم ہو اکہ دجال کے آنے کی خبر یہود مدینہ کے ہاں بھی اُسی طرح موجود تھی، جس طرح یہ ہماری روایتوں میں نقل ہوتی آرہی ہے۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہود کے بتانے سے پہلے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس فتنے سے آ گاہ تھے۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۵۰۸۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۱۱۷۰۔ مسند الحارث، رقم ۷۸۵۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۴۸۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۵۵، ۱۰۶۷۔ اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۲۹۔
۲۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۱۱۷۰۔
۳۔ مسند الحارث، رقم ۷۸۵۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ:۱ ذُكِرَ الدَّجَّالُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَأَنَا لَفِتْنَةُ بَعْضِكُمْ أَخْوَفُ عِنْدِي مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَلَنْ يَنْجُوَ أَحَدٌ مِمَّا قَبْلَهَا إِلَّا نَجَا مِنْهَا، وَمَا صُنِعَتْ فِتْنَةٌ مُنْذُ كَانَتِ الدُّنْيَا صَغِيرَةٌ وَلَا كَبِيرَةٌ، إِلَّا تَتَّضِعُ لِفِتْنَةِ الدَّجَّالِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دجال کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھے (تمھارے حق میں) دجال کے فتنے سے زیادہ اُس فتنے کا اندیشہ ہے جو تمھارے ہی بعض لوگ تمھارے لیے پیدا کر دیں گے۔۱ لہٰذا جو شخص بھی دجال کے فتنے سے پہلے کے اِس فتنے سے بچ گیا، وہ فتنۂ دجال سے بھی بچ جائے گا۔۲a (یاد رکھو)، یہ دنیا جب سے بنی ہے، ہر چھوٹا بڑا فتنہ دجال کے فتنے سے کم تر ہی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ غالباً اُس فتنے کی طرف اشارہ ہے جو سیدنا عثمان کی شہادت سے مسلمانوں کے لیے پیدا ہوا۔
۲۔ جس فتنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اُس سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اعتزل تلک الفرق کلھا‘ (صحیح بخاری، رقم۷۰۸۴) ’’اپنے اپنے امام کی دعوت لے کر اٹھنے والے سب گروہوں سے الگ رہو‘‘ کی ہدایت فرمائی تھی۔مدعا یہ ہے کہ دجال کے فتنے سے بھی اگر بچنا چاہتے ہو تو اپنی تربیت اِسی رویے کے لیے کرتے رہو۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۳۳۰۴سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مسند بزار، رقم ۲۸۰۷، ۲۸۰۸۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۰۷۔
عَنْ أَنَسٍ،۱ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمَدِينَةُ يَأْتِيهَا الدَّجَّالُ فَيَجِدُ الْمَلَائِكَةَ يَحْرُسُونَهَا، فَلَا يَدْخُلُهَا۲ الدَّجَّالُ، وَلَا الطَّاعُونُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ».
وَعَنْهُ فِي بَعْضِ الطُّرُقِ:۳ أَنَّ قَائِلًا مِنَ النَّاسِ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللّٰهِ، أَمَا يَرِيدُ الدَّجَّالُ الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: «[بَلَى،۴ ] إِنَّهُ لَيَعْمِدُ إِلَيْهَا، وَلَكِنَّهُ يَجِدُ الْمَلَائِكَةَ صَافَّةً بِنِقَابِهَا وَأَبْوَابِهَا يَحْرُسُونَهَا مِنَ الدَّجَّالِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: دجال مدینہ کے پاس آئے گا تو فرشتوں کو اُس کی حفاظت کرتے ہوئے پائے گا۔چنانچہ دجال اور طاعون، اگر اللہ نے چاہا تو اِس شہر میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔۱
اِنھی سے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ لوگوں میں سے کسی نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی، کیا دجال مدینہ کا قصد نہیں کرے گا؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، وہ اُس کا ارادہ بھی لازماً کرے گا۔ لیکن مدینہ کے دروازوں اور اُس میں داخل ہونے کے راستوں پر وہ فرشتوں کو صف بستہ پائے گا ، جو دجال سے حفاظت کے لیے اُس پر پہرا دے رہے ہوں گے۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کے اسلوب میں اپنی خواہش کا اظہار فرمایا ہے، جسے اللہ تعالیٰ جس حد تک مناسب سمجھے گا، قبول فرمائے گا۔
۲۔ یہ حفاظت اُسی فیصلے کی فرع ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے ام القریٰ مکہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو حرم قرار دے کر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: بخاری، رقم ۱۸۶۷۔ مسلم، رقم ۳۳۱۷، ۳۳۳۶۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۲۲۴۴ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم ۱۳۰۸۹ ،۱۳۱۴۵، ۱۳۳۹۳، ۱۳۹۴۷۔ صحيح بخاری، رقم ۷۱۳۴، ۷۴۷۳۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۴۲۔ مسند بزار، رقم ۷۰۳۵، ۷۰۳۶۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم ۲۹۴۰، ۳۰۱۶، ۳۰۵۱، ۳۰۷۳، ۳۲۳۴۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم۳۷۳۸۔ الاسماء والصفات، بیہقی، رقم۳۵۲۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً صحيح بخاری، رقم ۷۱۳۴ میں یہاں ’فَلَا يَدْخُلُهَا‘ ، ’’ چنانچہ وہ اُس میں داخل نہیں ہوسکے گا ‘‘کے بجاے ’فَلَا يَقْرَبُهَا‘ ، ’’ چنانچہ وہ اُس کے قریب بھی نہیں آسکے گا ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۱۳۱۴۵۔
۴۔ مسند احمد، رقم ۱۳۳۹۳۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «يَجِيءُ الدَّجَّالُ فَيَطَأُ الْأَرْضَ۲ [كُلَّهَا۳ ] إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، فَيَأْتِي الْمَدِينَةَ، فَيَجِدُ بِكُلِّ نَقْبٍ مِنْ أَنْقَابِهَا صُفُوفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَيَأْتِي سَبْخَةَ الْجَرْفِ، فَيَضْرِبُ رِوَاقَهُ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ كُلُّ مُنَافِقٍ وَمُنَافِقَةٍ»۴.
وَعَنْهُ فِي لَفْظٍ: أَنَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ۵ «لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، وَلَيْسَ نَقْبٌ مِنْ أَنْقَابِهَا إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ تَحْرُسُهَا، فَيَنْزِلُ بِالسِّبْخَةِ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، يَخْرُجُ إِلَيْهِ مِنْهَا كُلُّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ».
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ: ۶ خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ، مَا حَدَّثَنَا عَنِ الدَّجَّالِ، وَيُحَذِّرُنَاهُ، فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «وَإِنَّهُ لا يَبْقَى مَوْضِعٌ مِنَ الأَرْضِ إِلَّا وَطِئَهُ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، وَتَرْجُفُ بِأَهْلِهَا ثَلاثَ رَجَفَاتٍ، فَلا يَبْقَى مُنَافِقٌ وَلا مُنَافِقَةٌ إِلَّا خَّرَجَ إِلَيْهِ، تَنْفِي الْمَدِينَةُ يَوْمَئِذٍ خَبَثَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ، يُدْعَى ذٰلِكَ الْيَوْمُ يَوْمُ الْخَلَاصِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال جب آئے گا تو مکہ اور مدینہ کے سوا ساری زمین۱ کو (اپنی تاخت سے) روند ڈالے گا۔ وہ مدینہ کی طرف بھی آئے گا، لیکن اِس میں داخل ہونے کے ہر راستے پر وہ خدا کے فرشتوں کو (پہرا دیتے ہوئے) صف بستہ پائے گا۔پھر وہ ’جرف‘۲ کی شوریلی زمین پر پہنچ کر اپنا خیمہ لگائے گا تو مدینہ اُس وقت تین مرتبہ لرزے گا، جس (کے خوف) سے ہر منافق مرد و عورت مدینہ سے نکل کر دجال سے جاملے گا۔
اِنھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےبعض طرق میں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال مکہ اور مدینہ کے سوا ہر شہر کو روندے گا۔اِن دو شہروں میں جن راستوں سے داخل ہوتے ہیں، اُن میں سے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ پہرا دے رہے ہوں گے۔ پھر وہ ایک شوریلی زمین پر جا اترے گا تو مدینہ اُس وقت تین مرتبہ لرزےگا۔ ہر کافرومنافق اِس کے نتیجے میں مدینہ سے نکل کر دجال سے جا ملے گا۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے خطاب فرمایا۔ خطبوں میں آپ اکثر ہمیں دجال کے بارے میں بتاتے اور اُس سے خبردار کیا کرتے تھے۔ سو اُس دن آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا، اُس میں یہ بات بھی بیان ہوئی تھی کہ دجال مکہ ومدینہ کے سوا دنیا کے ہر علاقے کوروندے گا، اور مدینہ اپنے مکینوں سمیت تین مرتبہ لرزے گا، چنانچہ (اِس کے خوف سے) ہر منافق مرد وعورت مدینہ سے نکل کر دجال سے جا ملے گا۔مدینہ اُس دن اپنا سب میل کچیل اُسی طرح باہر نکال پھینکے گا، جس طرح لوہے کی بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔اُس دن کو ’چھٹکارے کا دن‘ کہا جائے گا۔۳
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ زمین سے مراد یہاں غالباً وہ خطہ ہے جس میں دجال کا خروج ہو گا، یعنی خراسان سے فلسطین تک مشرق وسطیٰ کے وہ علاقے جس میں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں۔اِس لیے کہ یہود اِسی علاقے میں اپنی میراث کی سلطنت بحال کرنا چاہتے ہیں۔
۲۔ مدینہ سے شام کی طرف تین میل کے فاصلے پر ایک مقام کا نام ہے، جہاں عمر رضی اللہ عنہ کی بھی کچھ جایداد تھی۔
۳۔ یعنی لوگ کہیں گے کہ اچھا ہے، یہ شہر منافقوں سے پاک ہوا، اِس میں اب خدا کے سچے ماننے والے ہی رہ گئے ہیں۔لفظ ’منافق‘ یا ’کافر‘ اِس روایت میں غالباً اُسی طرح کے لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن سے ملیے تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اب نام ہی کے مسلمان رہ گئے ہیں۔چنانچہ اِن میں الحاد کے علم بردار بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی جن کے علم وعمل میں دین نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں ہوتی۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۲۹۸۶ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: احاديث عفان بن مسلم، رقم ۲۳۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۴۲۸، ۳۷۴۹۱۔ مسند احمد، رقم ۱۳۴۹۵۔ حديث موسىٰ بن عامر المری، رقم ۴۳۳۔ صحيح بخاری، رقم ۱۸۸۱، ۷۱۲۴۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۳۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم ۱۹۔ اخبار مکۃ، فاكہی، رقم ۱۴۸۱، ۱۴۸۲۔ مسند بزار، رقم ۶۴۲۰۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۴۲۶۰۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۰۳۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۷۳۲۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۳۱، ۶۳۶، ۶۳۷، ۶۳۸۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۹۱ میں ’يَطْوِي الْأَرْضَ كُلَّهَا‘کے الفاظ آئے ہیں۔ مفہوم کے لحاظ سے یہ کم و بیش وہی بات ہے جو مرکزی متن کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
۳۔ احاديث عفان بن مسلم، رقم ۲۳۸۔
۴۔ صحيح بخاری، رقم ۱۸۸۱ میں یہاں ’فَيُخْرِجُ اللّٰهُ كُلَّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ‘ ، ’’ پھر ہر کافر و منافق کو اللہ مدینہ سے نکال دے گا‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ مسند بزار، رقم ۶۴۲۰ میں ’فَلا يَبْقَى كَافِرٌ، ولَا مُنَافِقٌ إلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ‘ ، ’’ چنانچہ ہر کافر ومنافق مدینہ سے نکل کر اُس سے جا ملے گا‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۵۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۳۔
۶۔ اِس روایت کا متن صفۃ النفاق ونعت المنافقين، ابو نعیم، رقم ۱۶۶ سے لیا گیا ہے۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کا یہی تنہا ماخذ اور طریق ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ، لَا يَدْخُلُهَا الدَّجَّالُ وَلَا الطَّاعُونُ».
وَعَنْهُ فِي بَعْضِ الطُّرُقُ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ المَدِينَةَ المَسِيحُ، وَلَا الطَّاعُونُ»۲.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں داخل ہونے کے راستوں پر کچھ فرشتے مقرر ہوں گے۔ (چنانچہ) اِس میں نہ دجال داخل ہوپائے گا، نہ طاعون۔۱
اِنھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ میں نہ (جھوٹا) مسیح داخل ہوپائے گا، اور نہ طاعون۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس کی وضاحت پیچھے ہوچکی ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۷۲۳۴ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: موطا مالك،رقم ۱۶۔مسند احمد، رقم ۸۸۷۶۔ حديث موسىٰ بن عامر المری، رقم ۴۳۲۔صحيح بخاری، رقم ۱۸۸۰، ۵۷۳۱، ۷۱۳۳۔صحيح مسلم، رقم ۱۳۷۹۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۴۲۵۹، ۷۴۸۴۔ فضائل المدينۃ، جندی، رقم ۱۵۔حديث سراج، رقم ۱۹۳۷۔ حديث ابی الفضل الزہری، رقم ۶۹۳۔ المسند المستخرج على صحيح مسلم، ابی نعیم، رقم ۳۱۹۳۔ امالی ابن بشران، رقم ۳۳۹۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۴۰۔
۲۔ صحيح بخاری، رقم ۵۷۳۱۔
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ۱ «لاَ يَدْخُلُ۲ المَدِينَةَ رُعْبُ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، لَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، عَلَى كُلِّ بَابٍ [مِنْهَا۳ ] مَلَكَانِ».
وَعَنْهُ فِي بَعْضِ الطُّرُقِ: قَالَ: ۴ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي مُسَيْلِمَةَ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَقَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَفِي شَأْنِ هٰذَا الدَّجَّالِ الَّذِي قَدْ أَكْثَرْتُمْ فِيهِ، وَإِنَّهُ كَذَّابٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كَذَّابًا يَخْرُجُونَ بَيْنَ يَدَيِ الْمَسِيحِ، وَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا يَبْلُغُهُ رُعْبُ الْمَسِيحِ إِلَّا الْمَدِينَةَ، عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْ أَنْقَابِهَا مَلَكَانِ يَذُبَّانِ عَنْهَا رُعْبَ الْمَسِيحِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کا رعب (بھی) مدینہ میں داخل نہیں ہوگا۔۱ اُس زمانے میں مدینہ کے سات دروازے۲ ہوں گے، جن میں سے ہر دروازے پر دو فرشتے پہرہ دے رہے ہوں گے۔
اِنھی ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے بعض طرق میں روایت ہوا ہے، وہ کہتے ہیں:اِس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرمائیں، لوگوں نے مسیلمہ کے بارے میں بہت باتیں کیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو ابتدائی کلمات کے بعد فرمایا: اِس دجال کے بارے میں تم لوگوں نے بہت باتیں کرلی ہیں۔ بلاشبہ، یہ اُنھی تیس بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے جو مسیح دجال سے پہلے پہلے ظاہر ہوں گے۔۳اِس جھوٹے مسیح کا رعب مدینہ کے سوا ہر شہر میں پہنچے گا۔ مدینہ میں داخل ہونے والے راستوں میں سے ہر راستے پر دو فرشتے مقرر ہیں، جو مدینہ سے اِس جھوٹے مسیح کے رعب کو باہر دھکیل رہے ہوں گے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کی فتوحات سے مرعوبیت کی جو کیفیت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی، اور وہ پے در پے شکست کھاتے چلے جائیں گے، اللہ تعالیٰ مدینہ کے لوگوں کو اُس سے محفوظ رکھے گا۔
۲۔ یعنی سات راستے، جہاں سے لوگ شہر میں داخل ہو سکتے ہوں۔
۳۔ اِس طرح کے بعض جھوٹوں کا ذکر تاریخ میں موجود ہے، لیکن نہیں کہہ سکتے کہ اِن میں سے کتنے آچکے اور کتنے ابھی آنا باقی ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۱۸۷۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۲۰۸۲۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۴۲۵، ۳۷۴۸۳۔ مسند احمد، رقم ۲۰۴۴۱، ۲۰۴۴۲۔ صحيح بخاری، رقم ۷۱۲۵، ۷۱۲۶۔ صحيح ابن حبان، رقم ۳۷۳۱، ۶۸۰۵۔ مسند الشاميين، طبرانی، رقم ۳۲۱۶۔ مستدرك حاكم، رقم ۸۶۲۷۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۴۱۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۴۲۵ میں یہاں ’لَا يَدْخُلُ‘،’’ داخل نہیں ہوگا ‘‘کے بجاے ’لَنْ يَّدْخُلَ‘ ، ’’ہرگز داخل نہیں ہوگا‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۲۰۴۴۱۔
۴۔ جامع معمر بن راشد، رقم ۲۰۸۲۳۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ