بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يَسْـَٔلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا ٦٣
(تم اِس انجام سے خبردار کرتے ہو تو) لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں(کہ جس سے ڈرا رہے ہو، وہ کہاں رہ گئی)؟[131]اِن سے کہو کہ اُس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور تمھیں کیا پتا، شاید قیامت قریب ہی آلگی ہو۔[132]۶۳
اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَهُمْ سَعِيْرًا ٦٤ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اَبَدًا لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا ٦٥ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَا٘ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا ٦٦ وَقَالُوْا رَبَّنَا٘ اِنَّا٘ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا٦٧ رَبَّنَا٘ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ٦٨
حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے منکروں پر اللہ نے لعنت کر چھوڑی ہے اور اُن کے لیے دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ وہ اُس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ اپنے لیے کوئی حامی پائیں گے، نہ مددگار۔[133] جس دن اُن کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے،[134] وہ کہیں گے: اے کاش، ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے اُس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی! اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں[135] کی بات مانی تو اُنھوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔ اے ہمارے رب، اُن کو دوہرا عذاب دے اور اُن پر بھاری لعنت کر۔[136] ۶۴- ۶۸
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰي فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا ٦٩ يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا٧٠ يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا ٧١
ایمان والو، (اِس سے عبرت حاصل کرو اور اپنے پیغمبر کے معاملے میں) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنھوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی[137] تو اللہ نے اُن کی تہمتوں سے اسے بری ثابت کیا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت رکھتا تھا۔[138] ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو،[139] اللہ اِس کے صلے میں تمھارے اعمال تمھارے لیے سدھارے گا[140] اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی، اُس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ۶۹- ۷۱
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ٧٢ لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِكِيْنَ وَالْمُشْرِكٰتِ وَيَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٧٣
(اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیارکی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے)۔ ہم نے یہ امانت[141] زمین اور آسمانوں اور پہاڑو ں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنھوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگرانسان نے اُس کو اٹھا لیا۔[142] حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔[143] یہ اِس لیے پیش کی گئی تھی کہ اللہ (اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اورمشرک عورتوں کو سزا دے، اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو اللہ اپنی عنایتوں سے نوازے۔[144] اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔[145]۷۲- ۷۳
[131]۔ یعنی ابھی تک آئی کیوں نہیں؟ اور آنی ہے تو اُس کا وقت کیوں نہیں بتاتے؟ اِس طرح کے سوالات، ظاہر ہے کہ مذاق اڑانے کے لیے پوچھے جاتے تھے۔
[132]۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی بڑی حقیقت کے بارے میں کہ زمین و آسمان جس سے بوجھل ہو رہے ہیں، یہ کس طرح کی باتیں کر رہے ہو؟ خدا کا آخری پیغمبر آچکا ہے۔ اِس کے بعد اب دنیا کی عدالت کے لیے قیامت ہی کا مرحلہ باقی ہے۔ اُس کا انکار کرنے کے لیے کیا یہ کافی ہے کہ تمھیں وہ اُس کا وقت نہیں بتا سکتا؟
[133]۔ یعنی اپنے جن شرکا و شفعا پر اعتماد کرکے بے خوف بیٹھے ہیں اور اپنی جس جماعت اور جمعیت پر اِنھیں بڑا ناز ہے، اُن میں سے کوئی بھی وہاں اِن کے کام نہ آئے گا۔
[134]۔ یہ گوشت کو آگ پر بھوننے کی تصویر ہے کہ اُسے کبھی ایک طرف سے بھونا جاتا ہے اور کبھی دوسری طرف سے۔ فرمایا کہ دوزخ کی آگ میں یہ لوگ بھی اِسی طرح بھونے جائیں گے۔اِس کے لیے چہروں کا ذکر خاص طور پر اِس وجہ سے کیا ہے کہ انسان کے اندر حق کے مقابل میں رعونت اور استکبار کا سب سے نمایاں اظہار اُس کے چہرے ہی سے ہوتا ہے۔
[135]۔ بڑوں سے یہاں اُن کے خاندانی اور مذہبی پیشوا مراد ہیں۔
[136]۔ اِس کا جواب سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۳۸ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نقل ہوا ہے کہ تم اور تمھارے لیڈر، دونوں ہی دوہرے عذاب کے سزاوار ہو۔
[137]۔ یہود کی طرف اشارہ ہے جن کی اذیتوں کا شکوہ خود حضرت موسیٰ کی زبان سے قرآن میں بھی نقل ہوا ہے اور کتاب استثنا میں بھی*۔اِس کے واقعات قرآن اور بائیبل، دونوں میں جگہ جگہ مذکور ہیں۔استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ میں اِنھیں اِسی آیت کے تحت ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ تفصیل کے طالب وہاں دیکھ لے سکتے ہیں۔
[138]۔ یعنی باوقار اور سرخ رو تھا۔ اُس کی یہ وجاہت دنیا نے بھی دیکھی اور آخرت میں بھی اور نمایاں ہو کر سامنے آئے گی۔اِس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت موسیٰ کو ہر الزام سے بری کیا، ہر تہمت کے مقابل میں اُن کی سچائی اور راست بازی مزید آشکارا ہوئی اور اُن کے سب دشمن رسوا ہو کر رہ گئے، خدا نے چاہا تو آپ کے ساتھ بھی یہی ہو گا اور آپ کے دشمن بھی اُسی طرح ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔
[139]۔ یعنی وہی بات جو اہل ایمان کے شایان شان اور اُن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اُن کا کلمہ اور شعار یہی ہو کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ پیرے کے آخر میں ’وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘ کے الفاظ سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’قَوْلٌ سَدِيْدٌ‘کا لفظ یہاں سمع و طاعت کے اِسی اقرار کے لیے استعمال ہوا ہے۔
[140]۔ یعنی ایسا درست کر دے گا کہ جو قدم بھی اٹھاؤ گے، صحیح سمت میں اٹھے گا۔
[141]۔ اِسے امانت سے اِس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ یہ اصلاً ایک خدائی چیزہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے کہ اِسے وہ خدا ہی کی دی ہوئی ایک چیز سمجھ کر استعمال کرے۔ چنانچہ اُس کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے بھی اِس کی حفاظت کا عہد لیا گیا اور بعد میں بھی صدیوں تک انبیا علیہم السلام اِسی عہد کی تجدید اور یاددہانی کے لیے بھیجے جاتے رہے۔ انسان اِس عہد کا امین ہے اور اِس کے لیے مسئول بنایا گیا ہے۔
[142]۔ زمین و آسمان اور پہاڑوں کی یہ معذرت زبان قال سے بھی ہو سکتی ہے اور زبان حال سے بھی، جس طرح مثال کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ پاؤں سے کہتا ہوں، مگر وہ اُس طرف جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے یا ملنے تو چلا جاؤں، مگر طبیعت ابا کرتی ہے یا کھاتا تو ہوں، مگر معدہ اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ اپنے مادی وجود کے اعتبار سے انسان اگرچہ ایک مشت استخواں اور ایک حقیر سی ہستی ہے، لیکن معنوی صلاحیتوں اور باطنی کمالات کے اعتبار سے ایسا مضبوط اور توانا ہے کہ جس بار امانت کو اُس نے اٹھا لیا ہے، اُس کا تحمل زمین و آسمان اور بلند و بالا پہاڑ بھی نہیں کر سکتے۔
[143]۔ یہ انسان کی فطرت کا بیان ہے جس کی بنا پر اُس نے یہ بار امانت اٹھایا ہے۔ چنانچہ انسان کے سامنے اگر اُس کی کوئی محبوب چیز پیش کی جائے، جیسے علم، حسن، اقتدار، ابدیت، عزوجاہ اور مال و دولت وغیرہ تو اُس کے لیے بسا اوقات وہ ایسا ازخود رفتہ ہو جاتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور اِس طرح اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ علم و تحقیق، کشف والہام، عشق و عاشقی، جرأ ت و عزیمت اور حرص و طمع کی تمام داستانیں اِس کی شہادت دیتی ہیں کہ کسی چیز کی محبت انسان کو دیوانہ بنا سکتی ہے۔ انسان کی تمام ترقی، خواہ وہ آخرت کے حوالے سے ہو یا دنیا کے، اِسی دیوانگی کی مرہون منت ہے۔ آیت میں ’ظَلُوْمًا جَهُوْلًا‘کے الفاظ اِسی لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ امام حمید الدین فراہی کے الفاظ میں، ’فاجترأ علی أمر عظیم، فظلم نفسه و أوردھا مھالک‘**۔ مطلب یہ ہے کہ ارادہ و اختیار جیسی چیز جو خدا کی صفات میں سے ہے، جب انسان کے سامنے پیش کی گئی تو نتائج و عواقب کی پروا کیے بغیر اُس نے لپک کر اُسے قبول کرلیا، اِس لیے کہ اُس کی فطرت میں یہ چیز ودیعت ہے کہ کسی چیز کی کشش اُسے دیوانہ بنا سکتی ہے اور اُس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان پر اُس کو ظلم بھی کرنا پڑے تو وہ کر گزرتا ہے۔
[144]۔ آیت میں ’يَتُوْبَ‘ کا لفظ ہے جس میں ’عَلٰي‘ کے صلے نے رحمت و عنایت کا مفہوم بھی شامل کر دیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ارادہ و اختیار کی امانت جب دی گئی تو اِسی لیے دی گئی کہ ایک دن پوچھا جائے کہ اُس کو کس طرح استعمال کیا گیا ہے؟ اور پوچھا جائے گا تو اِسی لیے پوچھا جائے گا کہ اُس کو غلط استعمال کرنے والے اِس کی سزا بھگتیں اور صحیح استعمال کرنے والے اپنے پروردگار کی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازے جائیں، عام اِس سے کہ وہ مردوں میں سے ہوں یا عورتوں میں سے۔ انسان نے یہ بار امانت اٹھا لیا ہے تو اِس کا لازمی اقتضا یہی ہے۔
[145]۔ یعنی اگرچہ یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے، لیکن دینے والا غفور و رحیم ہے۔ وہ صحیح راہ پر چلتے ہوئے کہیں پھسل جائیں گے، پھر سنبھلنے کی کوشش کریں گے تو وہ اُن پر رحم فرمائے گا اور اُن کی توبہ قبول کر لے گا۔
کوالالمپور
۱۲/ اپریل۲۰۱۴ء
ـــــــــــــــــــــــــ
* الصف۶۱: ۵۔ استثنا ۹: ۷۔
** تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم ۲/ ۹۹۔