HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سرگذشتِ رسالت (۲)

بنی اسرائیل پر اتمام حجت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسولوں کی سنت کے مطابق بنی اسرائیل کے بااثر لوگوں کو دعوت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُنھوں نے اُن کے علما اور سرداروں کے سامنے حقائق کو پوری طرح واضح کر دیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ حضرت مسیح کی رسالت سے پوری طرح آ گاہ ہو چکےتھے۔ وہ آپ کے من جانب اللہ ہونے کا ادراک رکھتے تھے اور آپ کی دعوت کی حقانیت کو درونِ خانہ تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اِس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کے کفر اور عناد پر کمر بستہ ہو گئے۔ تاہم عام لوگوں کے ایک مختصر گروہ نے آپ کی دعوت کو قبول کر لیا ۔ سورۂ صف میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک بڑا گروہ آپ کے انکار پر جم گیا ، جب کہ ایک چھوٹا گروہ[3]  آپ کی رسالت پر ایمان لے آیا:

فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْۣ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّآئِفَةٌﵐ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ.(۶۱: ۱۴)
’’چنانچہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک بڑا گروہ اپنے کفر پرجما رہا۔ پھر ہم نے ایمان والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی تو وہی غالب ہو کر رہے۔ ‘‘

امام امین احسن اصلاحی اِس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...انبیا علیہم السلام کی یہ سنت رہی ہے کہ اول اول تو اُنھوں نے اپنی اپنی قوموں کے با اثر لوگوں کو جھنجھوڑنے اور جگانے کی کوشش کی ہے، لیکن جب اُنھوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہ خوابِ غفلت کے مارےلوگ کروٹ بدلنے والے نہیں ہیں تو اُنھوں نے اِن سرمستوں کو اِن کے حال پر چھوڑ کر اپنی ساری توجہ اپنے غریب باایمان ساتھیوں پر مرکوز کر دی ہے۔ قرآنِ مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار سے اعراض کرنے اور اہل ایمان کو تذکیر کرنے کی جو بار بار ہدایت ہوئی ہے، وہ اِسی مرحلے کی بات ہے۔ اور یہی مرحلہ ہے جس میں سیدنا مسیح علیہ السلام نے دریا کے کنارے کے ماہی گیروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے مچھلیوں کے پکڑنے والو، آؤ، میں تمھیں آدمیوں کا پکڑنے والا بناؤں۔
 اِس آیت سے حضرات انبیا علیہم السلام کے کردار پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ حالات کے بگاڑ اور قوم کی ہٹ دھرمی سے مایوس اور دل شکستہ نہیں ہوتے، بلکہ خدا کی راہ میں وہ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ اگر زور و اثر رکھنے والے لوگ اُن کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ اپنے غریب، وفادار اور کم زور و بے اثر ساتھیوں ہی کو لے کر اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ حالات کی تاریکی اُن کے اندر روشنی اور قوم کی بے مہری اُن کے اندر مزید قوت اور عزم پیدا کرتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۹۹)

بالآخر حضرت مسیح علیہ السلام اِس امر پر مطلع ہو گئے کہ بنی اسرائیل کے علما اور سردار اُن کی دعوت پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یہ انکار کا پختہ فیصلہ کر چکے ہیں، اِس لیے اب اِن کے بجاے اپنے حواریوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ وہ دعوت کے اگلے مراحل میں آپ کے معاون و انصار بن سکیں۔ چنانچہ آپ نے اُنھیں مدد کے لیے پکارا۔ قرآنِ مجید نے اِس معاملے کو اِن الفاظ میں نقل کیاہے:

فَلَمَّا٘ اَحَسَّ عِيْسٰي مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْ٘ اِلَي اللّٰهِﵧ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِﵐ اٰمَنَّا بِاللّٰهِﵐ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ. رَبَّنَا٘ اٰمَنَّا بِمَا٘ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ.( آل عمران ۳: ۵۲-۵۳)
’’پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ یہ لوگ انکار ہی کریں گے تو اُس نے (حواریوں سے) کہا: کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟ حواریوں نے جواب دیا: ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اورآپ گواہ رہیے کہ ہم نے سرتسلیم خم کردیا ہے۔پروردگار، ہم نے اُسے مان لیا ہے جو آپ نے نازل کیا ہے اور (اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ) رسول کی پیروی اختیار کرلی ہے۔ سو آپ ہمیں اُس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لیں۔‘‘

استاذِ گرامی لکھتے ہیں:

’’...مسیح علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے علما اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کر لیا کہ اِن پتھروں میں جونک لگانا ممکن نہیں ہے اوراب یہ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی کہ اللہ تعالیٰ آگے کے مراحل میں جو ذمہ داری بھی اُنھیں دیں، اُس کو پورا کرنے میں وہ اُن کے مددگار بن کر کھڑے ہوں۔ اِس کے لیے جو جملہ اُن کی زبان سے نکلا ہے، اُس سے ، اگر غور کیجیے تو استاذ اما م کے الفاظ میں جس طرح جوش دعوت کا اظہار ہورہا ہے ، اُسی طرح یہ بات بھی نمایاں ہو رہی ہے کہ اِس دعوت کے ساتھ وہ گویا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں تو اپنے رب کی راہ پر ، یہ دیکھو، چل کھڑا ہوا ہوں ۔ اب جس کے اندر حوصلہ ہو، وہ اِس وادی پر خار میں میرا ساتھ دے۔‘‘ (البیان ۱/ ۳۵۶)

 بنی اسرائیل کی حق دشمنی بڑھتے بڑھتے اِس آخری حد تک پہنچ گئی کہ اُنھوں نے اللہ کے رسول کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ کام اُنھوں نے اپنی خفیہ سازشوں کے ذریعے سے کیا ۔ اِن سازشوں کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا تھا ، جن کے نتیجے میں آپ صلیب کی سزا کے مستحق قرار پائیں ۔ قرآنِ مجید نے اِن سازشوں کو ’وَ مَكَرُوۡا‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل نے حضرت مسیح کے خلاف خفیہ تدبیریں کرنا شروع کر دیں ۔

یہ خفیہ تدبیریں کیا تھیں؟ امام امین احسن اصلاحی نے اناجیل کی روشنی میں اِن کا خلاصہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک تو اُنھوں نے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اسلاف کی روایات توڑنے اور بزرگوں کی توہین و تحقیر کا الزام لگایا تاکہ عوام کے جذبات اُن کے خلاف بھڑکائے جا سکیں۔
 دوسرا جال اُنھوں نے یہ بچھایا کہ اپنے مخصوص آدمی بھیج بھیج کر اُن سے ایسے سوالات کیے، جن کے جوابوں سے اُن کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے کا مواد فراہم ہو سکے۔ یہ کام یہود کے فقیہوں اور فریسیوں نے بڑی سرگرمی سے انجام دیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی تمثیلوں اور تشبیہوں کے اندر سے اُنھوں نے اپنی دانست میں وہ مواد فراہم کر لیا ،جس کی بنیاد پر اُن کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا جا سکے۔
تیسرا یہ کہ اُس زمانے میں چونکہ ملک پر سیاسی اقتدار رومیوں کا تھا ،اِس وجہ سے اُن کو بھڑکانے کے لیے مواد فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے تو خراج کی ادائیگی سے متعلق سیدنا مسیح علیہ السلام سے سوالات کیے گئے، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ شخص لوگوں کو قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے۔ لیکن اِس قسم کے سوالوں کے جواب سیدنا مسیحؑ نے ایسے دندان شکن دیے کہ علماے یہود اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ پھر اُنھوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اسرائیل کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہے۔ اِس کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض تمثیلی اقوال سے مواد حاصل کرنے اور اِس کے ذریعے سے رومی حکومت کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
چوتھی تدبیر یہ کی گئی کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد یہودا کو، جو منافق تھا، یہود نے رشوت دے کر اِس بات پر راضی کر لیا کہ وہ آں حضرت علیہ السلام کی مخبری کرے اور اُن کو گرفتار کرائے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۰۲)

اللہ کی طرف سےحضرت مسیح کی نصرت و بشارت کا اعلان

رسولوں کے باب میں اللہ کی سنت ہے کہ جب اُن کی مخاطب قوم پر اتمام حجت ہو جاتا ہے تو رسول کی اصل ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد منکرین کے لیے سزا اور مومنین کے لیے جزا کا وقت آ جاتا ہے ۔ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ قوم کے حالات کے لحاظ سے رسول کی زندگی کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں۔ اگر جزا و سزا کو رسول کے سامنے برپا کرنا مقصود ہو تو اُسے زندہ رکھا جاتا ہے ، وگرنہ اُسے وفات دے دی جاتی ہے۔ سورۂ مومن اور سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اِسی سنت سے آ گاہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّﵐ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ.(المومن ۴۰: ۷۷)
’’(یہ نہیں مان رہے، اے پیغمبر)، توصبر کرو۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا وعدہ بر حق ہے۔ پھر جس عذاب کی وعید ہم اِنھیں سنا رہے ہیں، اُس کا کچھ حصہ ہم تمھیں دکھا دیں یا تم کو وفات دیں اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں، بہر کیف اِن کو پلٹنا ہماری ہی طرف ہے۔‘‘
وَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِيْدٌ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ. (يونس  ۱۰: ۴۶)
’’ہم جس چیز کا وعدہ اُن سے کر رہے ہیں، اُس کا کوئی حصہ ہم تمھیں دکھا ئیں، (اے پیغمبر)، یا تم کو وفات دیں اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں، بہرکیف اِن کو لوٹنا ہماری ہی طرف ہے، پھر اللہ اُس پر گواہ ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔‘‘

امام امین احسن اصلاحی نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’...خطاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس عذاب سے اُن کو ڈرایا جا رہا ہے اور یہ اُس کے مؤخر ہونے کے سبب سے اُس کو خالی خولی دھمکی سمجھ رہے ہیں اور تمھیں زچ کرنے کے لیے اُس کی جلدی مچائے ہوئے ہیں، اگر حکمت الہٰی مقتضی ہوئی تو تمھاری زندگی ہی میں اُن کو اِس کا کچھ حصہ دکھا دیا جائے گا، ورنہ اللہ تعالیٰ تمھیں وفات دے گا اور اُن کی واپسی ہماری طرف ہو گی پھر اللہ اُن کا سارا کچا چٹھا اُن کے سامنے رکھ دے گا۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۶۰)

عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں یہ مرحلہ اُس وقت آیا ،جب بنی اسرائیل اپنی منصوبہ بندی کو روبہ عمل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو گئے ۔ اِس موقع پر اللہ نے وفات کی صورت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اللہ نے آپ کے لیے اپنی نصرت و بشارت کا یہ اعلان فرمایا کہ وہ آپ کی روح کو قبض کر لیں گے اور آپ کی ذاتِ اقدس کو منکرین سے پاک کر یں گے۔ بنی اسرائیل کی جزا و سزا کا معاملہ اِس طرح ہو گا کہ آپ کے ماننے والے ـــــ نصاریٰ ـــــ قیامت تک آپ کے منکرین ـــــ یہود ــــــ پر غالب رہیں گے۔ ارشاد ہے:

وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُﵧ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ. اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰ٘ي اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِﵐ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ.( آل عمران ۳: ۵۴-۵۵)
’’یہ ہوا  اور بنی اسرائیل نے ( اُس کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنا شروع کیں، اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تیرے اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا ۔ اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے تو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘

مسیح علیہ السلام کی ہجرت

جب اللہ کا رسول اپنے منکرین پر حجت تمام کر دیتا ہے اور وہ اُس کےدلائل و براہین کے آگے بالکل زچ ہو جاتے ہیں تو وہ رسول سے چھٹکارا پانے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اِس ذلالت اور رذالت کے لیے اُنھیں عموماً دو ہی راستے سجھائی دیتے ہیں : یا وہ پیغمبر کو جلا وطن کر دیں یا اُس کے قتل کے درپے ہو جائیں۔ قرآن سے واضح ہے کہ رسولوں کی قوموں نے یہ دونوں طریقے اختیار کرنے کی جسارت کی ہے۔ سورۂ ابراہیم میں جہاں اللہ کے رسولوں کی سرگذشت بیان ہوئی ہے، وہاں کفار کی طرف سے رسولوں کو جلا وطن کر دینے کی دھمکی بھی نقل ہوئی ہے:

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَا٘ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَاﵧ فَاَوْحٰ٘ي اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَ.(۱۴ : ۱۳)
’’اِس پر منکروں نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ہم تم کو اپنی اِس سرزمین سے لازماً نکال دیں گے یا تمھیں بالآخر ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔ تب اُن کے پروردگار نے اُن کی طرف وحی بھیجی کہ ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔‘‘

امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’ہر رسول کی زندگی میں بالآخر یہ مرحلہ بھی پیش آیا ہے کہ اُس کی دعوت سے تنگ آ کراُس کی قوم نے اُس کو یہ نوٹس دے دیا کہ یا تو تم ہماری ملت میں واپس آ جاؤ، ورنہ ہم تمھیں اپنی سرزمین سے جلاوطن کر دیں گے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بہ ذریعہ وحی اپنے رسولوں کو یہ بشارت دے دی ہے کہ ہم اِن ظالموں ہی کو ہلاک کر دیں گے اور اِن کے بعد تمھیں زمین میں بسائیں گے۔‘‘ (تدبر قرآن ۴/ ۳۱۷ )

سورۂ بنی اسرائیل میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کفارِ قریش کی اِنھی کارستانیوں کا ذکر آیا ہے:

وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا.(۱۷: ۷۶)
’’یہ اِس سرزمین سے تمھارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ تم کو یہاں سے نکال دیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو تمھارے بعد یہ بھی کچھ زیادہ دیر ٹھیرنے نہ پائیں گے۔‘‘

اِسی طرح یہ بات بھی معلوم و معروف ہے کہ جس رات آپ نے مکہ سے ہجرت فرمائی ، اُس رات کفار ِقریش نے آپ کے قتل کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تو اِس کا اقدام بھی کر دیا گیا تھا۔ سورۂ عنکبوت میں بیان ہوا ہے کہ جب اُن کی قوم کے پاس اُن کی دعوت کا کوئی جواب نہ رہا تو اُس نے اُنھیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اُس پر عمل درآمد بھی کر دیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اُنھیں پوری طرح محفوظ رکھا:

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ٘ اِلَّا٘ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ. (۲۹ :۲۴)
’’سو (ابراہیم نے اپنی دعوت پیش کی تو) اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے: اِسے قتل کر دو یا جلا دو۔ پھر اللہ نے اُس کو آگ سے بچا لیا۔‘‘

جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ ہے تو بنی اسرائیل نے اُنھیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس مقصد کے لیے اُنھوں نے سازشی منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبے کو قرآن نے ’وَ مَكَرُوۡا‘ (اُنھوں نےخفیہ تدبیریں کرنا شروع کیں)کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ویسا ہی منصوبہ تھا، جیسا اُن سے پہلےحضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بعد نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اُن کی قوموں نے بنایا تھا۔ چنانچہ دیکھیے، قرآن نے حضرت مسیح کے قتل کی سازش کے لیے ’مَكَر‘ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کی گئی سازش کے لیے ’كَيْد‘ (چال)  کا لفظ استعمال کیا ہے۔[4]سورۂ صافات میں ارشاد فرمایا ہے:

فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِيْنَ(۳۷ : ۹۸)
’’سو اُنھوں نے اُس کے ساتھ چال کرنی چاہی تو ہم نے اُنھی کو نیچا دکھا دیا۔‘‘

اللہ کے رسولوں کے ساتھ جب اُن کی قومیں ایسا بہیمانہ سلوک اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو پھر اللہ اپنے رسولوں کو محفوظ کر کے اُن قوموں کا فیصلہ نافذ کر دیتا ہے۔ اِس موقع پر رسول کو اُس قوم سے الگ کر لیا جاتا ہے۔الگ کرنے کی صورت بہ شکلِ حیات ہجرت الی الارض بھی ہو سکتی اور بہ شکلِ وفات ہجرت الی السماء بھی ہو سکتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں یہ ہجرت الی اللہ ہوتی ہے ، جس کا اظہار اُس کے حکم سے اوراُس کی حکمتِ عملی کے مطابق ہوتا ہے۔ قرآن نے اِسی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ’مُهَاجِرٌ اِلٰي رَبِّيْ اور ’ذَاهِبٌ اِلٰي رَبِّيْ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ وہ موقع تھا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم اُن کو قتل کر دینے اور آگ میں جلا دینے کے درپے ہو گئی تھی:

وَقَالَ اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰي رَبِّيْﵧ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(العنکبوت  ۲۹: ۲۶)
’’ابراہیم نے کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرتا ہوں۔ بے شک، وہی زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
وَقَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰي رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ.(الصافات ۳۷: ۹۹)
’’ابراہیم نے کہا: (تم لوگوں کو چھوڑ کر اب) میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں، وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔‘‘

استاذِ گرامی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اِس ہجرت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اپنی قوم پر اتمام حجت کے بعد یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ہجرت کے فیصلے کا اظہار ہے۔ لوگ داعی حق کی جان کے درپے ہو جائیں تو انبیا علیہم السلام کو اِسی طرح ہجرت کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ آگے کیا پیش آئے گا، اِس طرح کے موقعوں پر اِس کا کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے کہ وہی پروردگار رہنمائی فرمائے، جس کے بھروسے پر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘ (البیان ۴/ ۲۷۵)

حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قوموں پر اتمام حجت کے بعد جب اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہوا تواِن رسولوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اُن قوموں سے الگ کر لیا۔ حضرت لوط کو حکم دیا کہ اپنی بیوی کے سوا باقی اہل و عیال کو لے کر اس قوم کے مسکن سے دور نکل جائیں ۔ حضرت شعیب کے حوالے سے فرمایا کہ ہم نے شعیب کو اور اُن پر ایمان لانے والوں کو ظالموں سے نجات عطا فرمائی ہے۔ سورۂ ہود میں بیان ہوا ہے:

قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْ٘ا اِلَيْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَﵧ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَا٘ اَصَابَهُمْﵧ اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُﵧ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ.( ۱۱: ۸۱)
’’فرشتوں نے کہا: اے لوط، ہم تمھارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔ (مطمئن رہو)، یہ تمھارے قریب بھی نہیں آ سکیں گے۔ سو اپنے اہل و عیال کو لے کر کچھ رات رہے نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ تمھاری بیوی نہیں، اِس لیے کہ اُس پر وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے۔ اِن (پر عذاب) کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ (تم پریشان کیوں ہوتے ہو)؟ کیا صبح قریب نہیں ہے؟‘‘
وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَّالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ.(۱۱: ۹۴)
’’ جب ہمارا حکم صادر ہو گیا تو ہم نے شعیب کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے، خاص اپنی رحمت سے نجات دی اور جنھوں نے (اپنی جان پر) ظلم ڈھایا تھا، اُن کو کڑک نے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘

حضرت مسیح علیہ السلام کو بنی اسرائیل سے نجات دلانے اور اللہ کی طرف ہجرت کرنے کی صورت یہ اختیار کی گئی کہ اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے جسم مبارک کو اُن سے الگ کر کے اپنی طرف اٹھا لیا۔[5] سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا ہے:

وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْﵧ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُﵧ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّﵐ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًاۣ. بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا.(۴: ۱۵۷- ۱۵۸)
’’اِنھوں نے نہ اُس کو قتل کیا اور نہ اُسے صلیب دی، بلکہ معاملہ اِن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ اِس میں جو لوگ اختلاف کر رہے ہیں، وہ اِس معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، اُن کو اِس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمانوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ اِنھوں نے ہرگز اُس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ ہی نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

ان آیات میں سے ’بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ‘ سے مراد اللہ کا سیدنا مسیح علیہ السلام کی روح قبض کر کے اُن کے جسم کو بنی اسرائیل کے اندر سے اٹھا لینا ہے۔ استاذِ گرامی لکھتے ہیں:

’’...اِس رفع کی وضاحت قرآن نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۵۵ میں اِس طرح فرمائی ہے کہ وفات کے بعد اللہ تعالیٰ اُنھیں اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ روح قبض کر کے اُن کا جسم بھی اٹھا لیا جائے گا تاکہ اُن کے دشمن اُس کی توہین نہ کر سکیں۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک اُن کا مشن پورا نہ ہو جائے، اُن کے دشمن ہرگز اُن کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اِسی طرح اُن کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتا اور جو لوگ اِس کے درپے ہوں، اُنھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً  اُن کی دست درازی سے محفوظ کر دیتا ہے۔‘‘ (البیان ۱/ ۵۷۳)

بنی اسرائیل کی جزا و سزا

سیدنا مسیح علیہ السلام کی ہجرت الی اللہ کے بعد سنتِ الہٰی کا آخری مرحلہ یہ تھا کہ ایمان لانے والوں کو اُن کے ایمان کی جزا دی جائے اور منکرین پر اُن کے انکار کے باعث عذاب نازل کیا جائے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے منکرین، یعنی یہود کو بہ حیثیت قوم تاقیامت مغلوبیت کے عذاب میں مبتلا کر دیا گیا۔ اِس کے اہلِ ایمان، یعنی نصاریٰ کو یہ جزا دی گئی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیےیہود پر غالب رہیں گے۔ سورۂ صف میں ارشاد ہے:

فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ.( ۶۱:  ۱۴)
’’پھر ہم نے ایمان والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی تو وہی غالب ہو کر رہے۔‘‘

آلِ عمران میں اِسی جزا و سزا کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِﵐ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِﵟ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ.(۳: ۵۵-۵۶)
’’اورتیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے تو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ سو یہی منکرین ہیں جن کو میں دنیا اور آخرت، دونوں میں سخت سزا دیتا ہوں اور وہ اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پاتے۔‘‘

استاذِ گرامی نے اِن آیات کے تحت اِس جزا و سزا کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’یہ بنی اسرائیل کے لیے خدائی دینونت کا ظہور ہے، جسے گذشتہ دو ہزار سال سے ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ اِس غیر معمولی طور پرحیرت انگیز پیشین گوئی کو دنیا کا کوئی تغیر ، زمانے کی کوئی گردش اور وقت کی کوئی کروٹ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی باطل نہیں کر سکی ۔ خدا اور اُس کی عدالت کا یہ ایسا صریح ثبوت ہے جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اِس کے بعد وہ کیا چیز ہے جو قیامت کے بارے میں قرآن کی وعید کو جھٹلا سکتی ہے؟
رسولوں کے منکروں کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ اُن کی طرف سے اتمام حجت کے بعد وہ اِسی دنیا میں عذاب سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔ پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کے جس منصب پرفائز کیا ہے، اُس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُن کے گناہوں کی سزا اُنھیں دنیا میں دی جائے ۔ چنانچہ قیامت تک کے لیے وہ جس طرح نصاریٰ کے محکوم بنائے گئے ہیں اور اُن پر جو دل ہلا دینے والی آفتیں وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں، وہ سب اِسی قانون کے مطابق ہیں۔‘‘(البیان ۱/ ۳۵۹- ۳۶۰)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

  ۳۔یعنی ایک مختصر سا گروہ ایمان لایا اور ایک بڑا گروہ اپنے کفر پر جما رہا۔ قرینہ دلیل ہے کہ اصل میں جو لفظ ’طَآئِفَةٌآیا ہے، اُس کی تنکیر ایک جگہ تقلیل کے لیے، اور دوسری جگہ تکثیر کے مفہوم میں ہے۔(البیان ۵/ ۱۹۹)

۴۔ استاذِ گرامی نے ’كيد‘ کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’ یعنی آتش کدہ بنا کر کسی بہانے سے اُن کو اُس میں پھینکنا چاہا۔ اِس کی وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ علانیہ اقدام کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی طرف سے مزاحمت کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بھی قریش کے سرداروں کو اِسی طرح کی تدبیر کرنی پڑی تھی۔‘‘ ( البیان ۴/ ۲۷۵)

۵۔ ایسا غالباً اِس لیے کیا گیا کہ مبادا بنی اسرائیل آپ کے وجود کی بے حرمتی کی جسارت کریں ۔

B