HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

تصور امت یا تصور مسلک

آج سفر کے دوران میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے انھوں نے بتایاکہ میرا ”مسلک“ فلاں ہے اور میں اپنے مسلک کو ثا بت کرنے کے لیے لوگوں کو کھلے طور پر ”مناظرے“ کی دعوت دے رہاہوں۔ میں نے کہا: کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم یہ دیکھیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’امت‘ کا تصور دیا ہے یا ’مسلک‘ کا؟ وہ ایک سنجیدہ آدمی تھے۔چنانچہ قدرے خاموشی کے بعد انھوں نے فرمایا: ہم نے اِس طرح سوچا نہیں تھا، مگر اب غور کرنے سے معلوم ہورہاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو مسلک کا نہیں، بلکہ امت کا تصور دیاہے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی ترجمان پر آخر وقت تک جو کلمہ جاری رہا، وہ ’امت‘ جیسا ابدی اور وسیع تصور تھا، نہ کہ معروف معنوں میں ’مسلک‘ جیسا محدود اور گروہی تصور۔ اِس پیغمبرانہ تصور امت کے مطابق پوری انسانی دنیا ایک عظیم برادری کی حیثیت رکھتی ہے۔

قرآن کے مطابق، اللہ رب العٰلمین (الفاتحہ ۱: ۱)ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعٰلمین (الانبیاء ۲۱:  ۱۰۷) ہیں۔ ایسی حالت میں اصل بات یہ ہے کہ اللہ پوری انسانیت کا خالق اور مالک ہے اور اُس کا رسول پوری انسانیت کا پیغمبر۔ حقیقت یہ ہے کہ نفرت و تفریق اور احساس برتری پر قائم موجودہ قسم کے متعصبانہ ”مسلک“ کا تصور اللہ اور رسول کے ہاں سرتاسراجنبی ہے۔اللہ کے رسول نے محبت اور اتحادپر مبنی ”امت“ کا تصور دیا ہے، نہ کہ معروف قسم کے کسی ”مسلک“کا تصور۔

تاریخ کا تجربہ ہے کہ مسلک کایہ تصور عملاً وحدت و اخوت کے بجاے نفرت اور انتشار کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ یہ تصور ہم کو صرف ایک محدود قسم کامتعصبانہ گروہ بنادیتاہے، جب کہ امت کا تصور ہمارے اندر ایک وسیع تر عالمی برادری کا احساس پیدا کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس قسم کا کوئی گروہ محض ایک گروہ کی حیثیت سے کبھی ’حق‘ کا نمایندہ نہیں ہوتا، یہ صرف افراد ہیں جو عملاً حق پرستی کا ثبوت دے کر نمایندۂ حق کے عظیم مقام پر فائز ہونے کی سعادت سے ہم کنار ہوا کرتے ہیں۔

مناظرہ یاجدال احسن

یہی معروف قسم کے مناظروں کا حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناظرے کے بجاے ہمیشہ جدال احسن(النحل ۱۶: ۱۲۵)کا طریقہ اختیار فرمایا ہے، یعنی حریفانہ نفسیات کے بجاے داعیانہ مزاج کے تحت سنجید ہ علمی اور برتر انسانی اسلوب میں باہم گفت و شنیداور ڈائیلاگ کا طریقہ اختیار کرنا۔ مناظرے کا روایتی طریقہ اگرچہ ”احقاق حق“ کے خوب صورت عنوان کے تحت اختیار کیاجاتاہے، مگر اِس قسم کے مناظرے کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ وہ اکثر حق کے بجاے ناحق اور موحدانہ امت کے بجاے متعصبانہ مسلک کو فروغ دینے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ معروف ’مذہبی‘ مناظرہ اور پیغمبرانہ جدال احسن کے درمیان وہی فرق ہے جو خود حق اور باطل کے درمیان پایا جاتا ہے۔ ڈائیلاگ کے دور میں مناظرے جیسا فرسودہ اور غیر علمی طریقہ اختیارکرنا صرف اِس بات کا ثبو ت ہوگا کہ دینی اور زمانی بصیرت، دونوں اعتبار سے، ہم فکری افلاس کی اُس انتہائی حد پر پہنچ چکے ہیں جس کے بعد ذلت واِدبار کے سوا ہمارے لیے اور کوئی انجام مقدر نہیں۔

امت کا وسیع تصور

امت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اِس حقیقت کو یادرکھنا چاہیے کہ امت سے مراد معروف معنوں میں صرف موجودہ مسلم گروہ نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مرد وعورت اِس میں شامل ہیں، یعنی بعثت محمدی سے لے کر قیامت تک، آپ کے دور رسالت میں پیدا ہونے والے تمام انسان، پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حصہ ہیں؛اِس فرق کے ساتھ کہ انسانیت کا ایک گروہ اگر ’امت دعوت‘ ہے تو اُس کا دوسراگروہ’امت  اجابت‘کی حیثیت رکھتا ہے۔

رب العٰلمین،رحمۃ للعٰلمین

بلاتشبیہ، خدااور رسول کا معاملہ بھی یہی ہے۔ خدا اور اُس کا رسول نہ کسی مسلک کے نمایندے ہیں، نہ کسی مشرب کے نمایندے، یعنی وہ نہ سلفی ہیں اور نہ غیرسلفی؛ وہ نہ سنی ہیں اور نہ غیر سنی، وغیرہ۔خدا رب ہے، اور محض رب نہیں، بلکہ رب ا لعٰلمین ہے، یعنی تمام انسانوں اور تمام جہانوں کا پروردگار۔اِسی طرح اُس کا رسول صرف کسی مخصوص گروہ کا رسول نہیں، بلکہ وہ رحمۃ للعٰلمین ہے۔ چنانچہ اپنے بندوں سے خدا کا یہی مطالبہ ہے کہ وہ ربانی انسان (آل عمران ۳: ۷۹) بن کر رہیں اور اِس طرح وہ خدائی اخلاقیات کا زندہ نمونہ ثابت ہوں۔وہ خدا کے شاکر اور انسانوں کے سچے ہم درد بن کر زندگی گزاریں۔اِسی مقصد کے تحت خدا نے اپنے پیغمبر کو ’خلق عظیم‘ (القلم ۶۸: ۴) کا بہترین نمونہ بناکر مبعوث فرمایا ہے۔

پیغمبرانہ تعلیمات اوراخلاق کی اِس میزان اور فرقان پر جوشخص یا گروہ اپنے آپ کو قائم رکھے، وہی پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا امتی قرار پائے گا،اور رب ا لعٰلمین کے ایسے ہی بندوں اور رحمۃ للعٰلمین کے ایسے ہی امتیوں کے لیے اِس دنیا میں پاکیزگی، قلبی آسودگی اور سکینت سے بھرپور زندگی (حیات طیبہ)، نیز آخرت میں خدا کی خوشنودی اور ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیاگیاہے۔

(مجیب منزل،کرنیل گنج، گونڈہ، یوپی، ۳/  نومبر ۲۰۲۲ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

B