HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۱۶)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین

کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت عمرو بن امیہ اسدی رضی اللہ عنہ

حضرت عمرو كا قبیلہ

حضرت عمرو بن امیہ اسدی بنو اسد سے تعلق ركھتے تھے۔ قریش كا یہ بطن قریش اصغر قصی بن كلاب كے پوتے اسد بن عبدالعزیٰ كے نام سے موسوم ہے۔

 بنو اسد بن عبدالعزیٰ سے تعلق ركھنے والے كئی نفوس قدسیہ كو رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے صحابہ ہونے كا شرف حاصل ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد اسی قبیلہ سے تھیں۔ حضرت خدیجہ كے چچیرے ورقہ بن نوفل نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كی نبوت كی تصدیق كی، لیكن ایمان لانے سے پہلے وفات پائی۔ مشہور روایات كے مطابق حضرت خدیجہ كے بھائی حزام بن خویلد مسلمان نہ ہوئے، تاہم ان كے بیٹے حضرت خالد بن حزام، حضرت حكیم بن حزام اور پوتے حضرت خالد بن حكیم اور حضرت ہشام بن حكیم آپ كی صحبت سے مستفید ہوئے۔ معروف صحابی حضرت زبیر بن عوام اسد بن عبدالعزیٰ كے پڑپوتے اور حضرت عبدالله بن زبیر سكڑپوتے تھے۔ بنو اسد كے حضرت اسود بن نوفل اور حضرت یزید بن زمعہ بھی اصحاب رسول ہونے كا اعزاز ركھتے ہیں۔ فتح مكہ كے موقع پر ایمان لانے والے حضرت ہبار بن اسود حضرت یزید كےچچا تھے۔

بنو اسد بن عبدالعزیٰ كا نوفل بن خویلدكینہ پرور مشرک تھا۔ كافر اسے شیر قریش، جب كہ مسلمان شیطان قریش كے نام سے پكارتے تھے۔ جنگ بدر میں اسے قریش كی فوج میں دیكھ كر نبی صلی الله علیہ وسلم نے دعا كی: اے الله، میری طرف سے نوفل كا مقابلہ كر لے، چنانچہ حضرت علی كے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ اسد بن عبدالعزیٰ كا پڑپوتا ابوالبختری بن ہشام ایمان نہ لایا اور جنگ بدر میں حضرت مجذر بن زیاد كے ہاتھوں قتل ہوا، تاہم وہ كم زور مسلمانوں كو ایذائیں دینےوالے بدبختوں كو منع كرتا رہا اور بنو ہاشم كا مقاطعہ ختم كرانے میں اہم كردار ادا كیا۔

بنو اسد بن عبدالعزیٰ كو بنو اسد بن خزیمہ سے ممیز كر لینا چاہیے، جو ایك مضری قبیلہ تھا۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش، حضرت عبدالله بن جحش، حضرت ابو احمد بن جحش، حضرت عكاشہ بن محصن اور حضرت ضرار بن ازوراس قبیلہ سے تعلق ركھتے تھے۔

 كنبہ

حضرت عمرو بن امیہ مكہ میں پیدا ہوئے۔ ان كے دادا كا نام حارث بن اسد تھا۔ بنو تیم كی زینب بنت خالد (:ابن اثیر۔ عاتكہ بنت خالد: ابن سعد ) ان كی والده تھیں۔ مجمع قریش قصی بن كلاب كے بیٹے عبدالعزیٰ حضرت عمرو كے سكڑ دادا تھے۔ نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم قصی كے دوسرے بیٹے عبدمناف (اصل نام: مغیرہ) كی اولاد میں سے تھے۔ آپ كی والده سیده آمنہ بنت وہب اسد بن عبدالعزیٰ كی بہن برہ بنت عبدالعزیٰ كی بیٹی تھیں۔

قریش كی شاخ بنواسد سے تعلق ركھنے كی بنا پر حضرت عمرو بن امیہ قرشی، اسدی كہلاتے ہیں۔ نسبت بیان كرنے سے وه اپنے ہم نام صحابی حضرت عمرو بن امیہ ضمری سے ممیز ہو جاتے ہیں۔

دخول اسلام

حضرت امیہ بعثت محمدی صلی الله علیہ وسلم كے ابتدائی دنو ں میں نور ایمان سے منور ہوئے۔

حبشہ كی طرف ہجرت

قریش کی مار پیٹ اور ایذا ؤں کا سلسلہ بڑھ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان سے فرمایا: بہتر ہو اگر تم حبشہ کی سرزمین چلے جاؤ، جہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی بادشاہی میں ظلم نہیں۔ رجب ۵ ؍ نبوی میں آپ كے حکم پر گیاره مرد اورچار عورتوں نے حبشہ کو ہجرت کی۔ پھر حضرت جعفر بن ابوطالب اسی افراد کا قافلہ لے كر حبشہ روانہ ہوئے۔ حضرت عمرو بن امیہ اسدی ہجرت ثانیہ كے اسی قافلے كا حصہ تھے۔ بنو اسد بن عبدالعزیٰ كے حضرت زبیر بن عوام پہلے قافلے میں شامل ہوئے، جب كہ اس قبیلے كے حضرت اسود بن نوفل اور حضرت یزید بن زمعہ حضرت عمرو بن امیہ كے رفیق سفر تھے۔ خویلد بن اسود كے پوتے حضرت خالد بن حزام نے بھی حبشہ ہجرت كی، لیكن حبشہ پہنچنے سے پہلے ہی انھیں سانپ نے ڈس لیااور ان كی وفات ہو گئی۔

حبشہ میں داخل ہونے كے بعد مہاجرین ملك میں پهیل گئے۔ ان میں سے زیادہ تر موجودہ ادیس ابابا سےسات سو نوے كلومیٹردور واقع نجاش (Negash)كے قصبے میں مقیم رہے۔

وفات

تمام مورخین كا اتفاق ہے كہ حضرت عمرو بن امیہ نے حبشہ میں وفات پائی۔

 قیام حبشہ كے دوران میں نوصحابہ اورپانچ صحابیات نے انتقال كیا۔ عبیدالله بن جحش كو اس لیے شمار نہیں كیا گیا، كیونكہ انھوں نے نصرانی ہو كر وفات پائی۔ مسجد نجاشی كے عقب میں شارع صحابہ پرواقع احاطے میں پندرہ قبریں اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے حضرت فاطمہ بنت صفوان، حضرت عدى بن نضلہ، حضرت حاطب بن حارث، حضرت حطاب بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت سفيان بن معمر، حضرت عروہ بن عبدالعزیٰ اورحضرت مطلب بن ازہر كی قبروں كی شناخت ممكن ہے۔

عائلی زندگی

حضرت عمرو بن امیہ اكیلے حبشہ گئے۔ ان كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)، Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ


حضرت عتبہ بن مسعود رضی الله عنہ

حسب و نسب

رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے سترھویں جد مضر بن نزار حضرت اسمٰعیل كے بیٹے قیدار كی اولادمیں سے تھے۔ ان كے پردادا عدنان بن اددقیدا ر كے پوتے تھے۔ مضر بہت خوش الحان تھے، دوران سفر میں اونٹوں كو مستعد كرنے كے لیے حدی خوانی انھوں نے شروع كی۔ الیاس اور قیس عیلان مضر كے دو بیٹے تھے۔ الیاس كو حكیم لقمان كی طرح دانا سمجھا جاتا تھا۔ الیاس كے تین بیٹے مدركہ(عامر)، طابخہ(عمرو) اور قمعہ(عمیر) ہوئے۔ مدركہ بن الیاس كے دو بیٹے خزیمہ اورہذیل ہوئے اور ان كی اولاد بنوخزیمہ اور بنوہذیل كہلائی۔ بنو اسد، بنو كنانہ اور قریش بھی مدركہ كی اولاد میں ہوئے۔

حضرت عتبہ بن مسعود مكہ میں پیدا ہوئے۔ غافل بن حبیب ان كے داداتھے۔ بانی قبیلہ ہذیل بن مدركہ ان كے بارھویں جد تھے۔ اپنے قبیلہ بنو ہذیل كی نسبت سے ہذلی كہلاتے ہیں۔ بنو ہذیل كی حضرت ام عبد بنت عبدود ان كی وا لدہ، جب كہ بنو كلاب كی ہند بنت عبد نانی تھیں۔ حضرت عتبہ كے والد مسعود بن غافل زمانہ ٔ جاہلیت میں بنو زہرہ كے عبدالله بن حار ث كے حلیف بن گئے تھے۔ مدركہ بن الیاس پر حضرت عتبہ كا سلسلۂ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے، مدركہ حضرت عتبہ كے تیرھویں اور آپ كے سولھویں جد تھے۔

ابو عبدالله (ابو عون :بلاذری) حضرت عتبہ بن مسعود كی كنیت تھی۔

نام ور صحابی حضرت عبدالله بن مسعود حضرت عتبہ كے سگے بھائی تھے۔ شاذ روایت كے مطابق حضرت عتبہ كی والدہ حضرت ام عبد نہیں، بلكہ بنو ہذیل كی كوئی اور عورت تھیں، اس طرح وه حضرت عبدالله بن مسعودكے سگے بھائی نہ ہوئے۔ عبیدالله بن عبدالله اور عون بن عبدالله حضرت عتبہ كے پوتے تھے۔ عبیدالله بن عبدالله بن عتبہ نے علم فقہ میں مہارت حاصل كی اور مدینہ كے فقہاے سبعہ میں شمار ہو كر شہرت پائی۔ سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر،قاسم بن محمد، خارجہ بن زید، عبید اللہ بن عبد اللہ، سلیمان بن یسار اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن بڑی فضیلت ركھنے والے تابعین تھے، مدینہ كے ان سات فقہا کے ذریعے سے فتوے اور فقہ کا علم پھیلا۔ عون بن عبدالله شاعر تھے۔

ایمان و اسلام

حضرت عتبہ آفتاب اسلام كی پہلی كرنوں سے منورہوئے۔

ہجرت حبشہ

كفار مكہ كا نوواردان اسلام پر ظلم و ستم بڑھا تو حضرت عتبہ نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود كے ساتھ حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ كی۔

مدینہ آمد

حضرت عتبہ بن مسود جنگ بدر كے بعد مدینہ آئے۔ ابن اسحٰق اورابن ہشام نے ان كا زمانہ ٔ ورود ۷ھ بتایا ہے۔ وه كہتے ہیں كہ حضرت عتبہ بن مسعود حضرت جعفر بن ابو طالب اور حضرت عمر و بن امیہ ضمری كے قافلے میں شامل ہوئے اور غزوۂ خیبر كے فوراًبعد مدینہ پہنچے۔

غزوات میں شركت

 حضرت عتبہ بن مسعود نے جنگ خیبر كے بعد ہونے والے معركوں میں شركت كی، اگرچہ كتب تاریخ میں اس كی تفصیل ذكر نہیں كی گئی۔ حیرت كی بات ہے كہ امام بخاری نے اہل بدر كا شمار كرتے ہوئے حضرت عتبہ بن مسعود كا نام ان كے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود كے نام سے متصل درج كیا ہے، حالاں كہ وه مدینہ میں موجود ہی نہ تھے۔ ابن حجر كہتے ہیں:مغازی كا بیان كرنے والے كسی مصنف نے بدری اصحاب رسول میں حضرت عتبہ بن مسعود كا نام نہیں لیا۔ خود بخاری كے دوسرے نسخے میں جو نسفی نے مرتب كیا، ان كا نام شامل نہیں۔ ابو نعیم احمد اصفہانی اور ابوبكر اسمٰعیلی نے صحیح بخاری سے ماخوذ اپنی اپنی ’’ المستخرج علی الصحیح‘‘ میں حضرت عتبہ كا نام ذكر نہیں كیا (فتح الباری ۵/ ۱۸۳)۔ قاضی سلیمان منصورپوری نےبھی ’ اصحاب بدر ‘ میں ان كا نام نہیں لكھا۔ ابن سعد كہتے ہیں كہ حضرت عتبہ نے حبشہ سے لوٹ كر غزوۂ احد میں حصہ لیا۔ ابن اسحٰق كی ۷ھ والی روایت كو صحیح مان لیا جائے تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ابن كثیر نے حضرت عتبہ بن مسعود كی مدینہ آمد ۷ھ میں بتا ئی اور یہ بھی كہہ دیا كہ وہ جنگ احد میں شریك ہوئے۔

عہد فاروقی

خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر فاروق نے حضرت عتبہ كے بیٹے حضرت عبدالله كو مدینہ كے بازار كا محصل ( كلكٹر) مقرر كیا( موطا امام مالك، رقم ۸۰۹ ۔ جامع الاصول، ابن اثیر، رقم ۱۱۵۷)۔

وفات

حضرت عتبہ بن مسعود نے حضرت عمر بن خطاب كے عہد خلافت میں مدینہ منوره میں وفات پائی۔ حضرت عمر نے ا ن كی نماز جنازہ پڑھائی۔ ایك روایت كے مطابق حضرت عمر نے حضرت عبدالله بن مسعود(الاصابہ فی تمییز الصحابہ۱۲۳۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۱۷۰۳) یا ان كی والده حضرت ام عبد (ابن سعد۳/۸۸۔المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۲۰۹۳۴۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۱۲۲) كی آمد كا انتظار كیا۔ ان كی والده حضرت ام عبد پہلے آگئیں اور انھوں نے نماز جنازہ میں شركت كر لی۔ حضرت عبدالله بن مسعود پہنچے توشدت غم كا اظہار كیا (مصنف ابن ابی شیبہ،   رقم ۳۵۰۱۵) اوررونے لگے، كسی نے كہا: آپ بھی روتے ہیں؟فرمایا:یہ آنسو الله كی دی ہوئی رحمت ہیں، ابن آدم ان كو روك نہیں سكتا۔ میرا نسبی بھائی اور میرے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی صحبت میں رہنے والا صحابی فوت ہو گیا ہے۔ وه مجھے سب لوگوں سے زیاده محبوب تھے، سواے اس كے جو محبت عمر بن خطاب سے رہی (مستدرك حاكم، رقم ۵۱۲۱۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۳۷۸۴)۔

قاسم بن عبدالرحمٰن كی روایت كے مطابق حضرت عتبہ بن مسعود نے ۴۴ھ میں، عہد معاویہ میں حضرت عبدالله بن مسعود كے انتقال كے بعد وفات پائی(المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۳۷۸۰)۔

روایت حدیث

زہری كہتے ہیں: ہمارے نزدیك حضرت عبدالله بن مسعود اپنے بھائی حضرت عتبہ سے صحبت و ہجرت اور فقاہت میں برتر نہ تھے، لیكن حضرت عتبہ جلد فوت ہوگئے(مستدرك حاكم، رقم ۵۱۲۳۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۳۷۸۱)۔ ان كے بیٹے حضرت عبدالله بن عتبہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم كا زمانہ پایا اور آپ كی صحبت سے مستفید ہوئے۔ حضرت عتبہ بن مسعود سے براه راست كوئی حدیث نقل نہیں ہوئی۔ حضرت عبدالله بن عتبہ كے بیٹوں عبیدالله، عون اورحمزہ نے اپنے والد حضرت عبدالله كے علاوه حضرت عمر، حضرت زید بن خالد جہنی، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت ابوواقد لیثی، حضرت عائشہ، حضرت ام قیس بن محصن، حضرت عبدالله بن مسعود، حضرت ابومسعودانصاری، حضرت ابوسعید خدری، حضرت سہل بن حنیف، حضرت عبدالله بن زمعہ اور حضرت عثمان بن حنیف سے كئی روایات منتقل كی ہیں، لیكن اپنے دادا حضرت عتبہ بن مسعود سے بہ طریق عنعنہ(عن أبیه عن جدہ) دو ر وایتوں كے علاوه كوئی حدیث بیان نہیں كی۔ ان روایتوں كے تمام طرق كا تتبع كیا جائے تو پتا چلتا ہے كہ ’عن جدہ‘ سے جد حضرت عتبہ كے بجاے برادر جد حضرت عبدالله بن مسعود مراد ہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، معرفۃ الصحابۃ (ابونعیم اصفہانی)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ


حضرت حارث بن خالد رضی الله عنہ

سلسلۂ نسب

حضرت حارث بن خالد كے داداكا نام صخر بن عامر(عمرو:بلاذری۔ عامر بن عمرو:ابن ہشام) تھا۔ ابو قبیلہ تیم بن مرہ ان كے چھٹے جد تھے۔

 تیم بن مره عربوں كے مشہور معاہدۂ امن ’حلف الفضول ‘میں شریك تھے، جو بعثت نبوی سے بیس برس قبل ۵۹۰ء میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چچا زبیر بن عبدالمطلب كی دعوت پر قریش كے متمول سردار عبدالله بن جدعان تیمی كے گھر پر ہوا۔ تب قریش كے قبائل بنو ہاشم، بنو المطلب، بنو اسد، بنوتیم اوربنو زہره كے سردار جمع ہوئے اور مل کر عہد کیا کہ ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے، خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں، امن و امان قائم کریں گے، مسافروں کی حفاظت کریں گے، غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے، کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی اپنے چچاؤں كے ساتھ اس میں حصہ لیا۔ rآپ زمانۂ رسالت میں بھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے کہ اس معاہدے کے عوض مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ لیتا۔

حضرت حارث كی والدہ یمن سے تھیں۔ ان كی اہلیہ حضرت ریطہ بنت حارث بھی بنو تیم سے تعلق ركھتی تھیں، عامر بن كعب پر ان كا شجره حضرت حارث كے شجرے سے جا ملتا ہے۔ حضرت ابوبكر حضرت حارث كے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ان كی والده كا نام حضرت ام الخیرسلمیٰ بنت صخر تھا۔

 قبول اسلام

وادی بطحا میں نور اسلام پھیلا تو حضرت حارث بن خالداس سے منور ہونے والے اولیں اہل ایمان میں شامل ہوئے۔

ہجرت حبشہ

۵/ نبوی  میں نبی صلی الله علیہ وسلم كے ارشاد پر حضرت حارث بن خالدحضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں حبشہ كی طرف ہجرت كرنے والے دوسرے قافلے میں شامل ہوئے۔ ان كی اہلیہ حضرت ریطہ بنت حارث ان کے ساتھ عازم حبشہ ہوئیں۔ وه حبشہ ہی میں انتقال كر گئیں۔

حبشہ سے واپسی

حضرت حارث بن خالد ۷ھ میں شاه حبشہ نجاشی كی فراہم كرده كشتیوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب كے قافلہ ٔ رجوع میں شامل ہو كر بولا (الرایس)كے ساحل پر اترے اور وہاں سے اونٹوں پر سفر كر كے مدینہ پہنچے۔

مدنی زندگی

حضرت حارث كی مدنی زندگی اور غزوات میں ان كی شركت كے بارے میں معلومات ہمیں میسر نہیں ہوئیں۔

اولاد

قیام حبشہ كے دوران میں حضرت حارث بن خالد كے ہاں چار بچے ہوئے: موسیٰ، عائشہ، زینب اورفاطمہ۔ یہ چاروں حبشہ ہی میں انتقال كر گئے۔ دوسری روایت كےمطابق حبشہ سے مدینہ واپسی كے سفرمیں ایک گھاٹ پر كنبے نے پانی پیا جو زہر آلود تھا۔ بس بھرے پانی نے تمام بچوں كی زندگی كا چراغ گل كر دیا۔ خود حضرت حارث بچ گئے اور راہ خدا میں پورے گھر کو سپر دخاك کر كے یکہ و تنہا مدینہ چلے آئے۔ ابن سعد كہتے ہیں: موسی ٰ كا انتقال حبشہ میں ہوا، حضرت ریطہ، عائشہ اور زینب كی وفات زہریلا پانی پینے سے ہوئی اور فاطمہ كی زندگی بچ گئی۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابی كی دل جوئی كی اور عبد یزید بن ہاشم کی لڑکی سے ان كی شادی کردی۔ عبد یزید رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چوتھے جد عبد مناف بن قصی كے پڑپوتے تھے، اس طرح رشتے میں آپ كے چچا ہوئے۔ عبد یزید ان كا نام ہے، اس كا ترجمہ ’یزید كا غلام ‘كرنا غلط ہے۔ یہی عبد یزید امام شافعی كی ساتویں پشت تھے۔ حضرت حارث كے ایك بیٹے ابراہیم كا ذكر كیا گیا ہے جو شاید ان كی دوسری بیوی سے تھے، مدینہ كے محدث اورفقیہ محمد بن ابراہیم تیمی انھی كے بیٹے تھے، حفصہ بنت یحییٰ كومحمدكی والده بتایا گیا ہے۔ ابن عبدالبرنے حضرت ریطہ سے حضرت حارث كی چار اولادوں میں زینب كے بجاے ابراہیم كانام شامل كیا ہے۔ محمد بن ابراہیم كو دین سیكھنے كا اتنا شوق تھا كہ مسجد نبوی میں بیٹھے رہتے اور حضرت عبدالله بن عمر كا طریقۂ نماز تكتے رہتے (التاریخ الكبیر۱/ ۲۳)۔ اس انہماك كا نتیجہ یہ ہوا كہ وه سالم اور نافع كے پایہ كے عالم ہو گئے۔ انھوں نے حضرت سعدبن ابی وقاص سے بھی ملاقات كی اور متعدد صحابہ كی روایات نقل كیں۔

وفات

حضرت حارث بن خالد كا سن وفات معلوم نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، معرفۃ الصحابۃ (ابونعیم اصفہانی)، جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ  (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)،  Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B