اولاد کی خواہش فطری امر ہے۔ تاہم اولاد پیدا کرنا دین کا کوئی حکم نہیں۔ یہ دین کا موضوع نہیں۔ دین کا موضوع تزکیۂ نفس ہے اور اولاد کے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا تز کیۂ نفس سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے قرآن مجید میں اس کے لیے کوئی نص بھی موجود نہیں۔ یہ فطرت کا ایک تقاضا ہے اور اس کے لیے بھی ایسے ہی منصوبہ بندی اختیار کرنی چاہیے، جیسے دیگر دنیاوی امور میں عقل عام کا رویہ ہے۔
نبی اکرم صلى الله علیہ وسلم سے منسوب ایک ارشاد سے، البتہ کثرت اولاد کا استدلال کیا جاتا ہے۔ روایت میں بیان ہوا کہ اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ پیار کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو اور یہ کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اپنی امت کی کثرت کی بنا پر دوسرے انبیا پر فخر کریں گے۔
یہ ارشاد محض زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب نہیں، بلکہ قابل فخر بچے پیدا کرنے کی تلقین ہے، اور قابل فخر بچے وہی ہو سکتے ہیں جن کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا ممکن ہو۔ اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی تعداد والدین کے وسائل کے مطابق ہو۔
رسول اللہ کا ہر ارشاد دین کا مطالبہ نہیں ہوتا تھا۔ آپ بطور سربراہ ریاست انتظامی امور سے متعلق بھی ہدایات جاری کرتے تھے، جن کی نوعیت وقتی ہوتی تھی۔ کثرت اولاد سے متعلق رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کو قبائلی دور کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جہاں افرادی قوت بقا کے لیے ناگزیر تھی۔ آج کی حکومتیں جس طرح اپنے ملکی حالات کے تقاضوں کے پیش نظر لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، اسی طرح حالات اگر تقاضا کریں تو آبادی بڑھانے کی ترغیب بھی دے سکتی ہیں۔ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم ایک قبائلی تمدن میں کھڑے تھے، مسلمانوں کی مختصر تعداد اپنے سے کئی گنا بڑے دشمنوں سے برسر پیکار تھی، مستقبل میں روم و ایران سے جنگیں پیش آنا بھی رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے علم میں تھا، ادھر مال غنیمت اور خراج بھی مدینے میں وافر مقدار میں آنے لگے تھے، جس سے معاشی صورت حال بھی بہتر ہو رہی تھی۔ ان حالات میں آبادی بڑھانے کی ترغیب مصلحتاً برمحل تھی۔ لیکن اسے ہر گھرانے، ہر دور اور ہر سماج کے حالات کے لیے ایک مطلق ہدایت، بلکہ دینی ہدایت سمجھ لینے کی کوئی وجہ نہیں۔
قرآن مجید اولاد اور کھیتی کا تقابل کر کے اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ اولاد ہو یا کھیتی اسے پیدا خدا ہی کرتا ہے، مگر اس کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چنانچہ کھیتی کی طرح اولاد کو بھی پیدا کرنے سے پہلے وہ تمام منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو ایک کسان فصل بونے سے پہلے کرتا ہے، آیات ملاحظہ کیجیے:
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ. ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗ٘ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ. (الواقعہ ۵۶: ۵۸ - ۵۹)
’’پھرکبھی سوچا ہے، یہ نطفہ جو تم ٹپکاتے ہو،اُس سے جو کچھ بنتا ہے، اُسے تم بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں؟‘‘
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ. ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗ٘ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ. (الواقعہ ۵۶: ۶۳ - ۶۴)
’’پھرتم نے کبھی سوچا ہے، یہ جو کچھ تم بوتے ہو، اِسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟‘‘
یہ دونوں عمل ایک ہی اصول پر مبنی ہیں کہ کوشش انسان کرتا ہے، باقی سب خدا کی قدرت کرتی ہے۔ خدا پر بھروسے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ فصلیں اندھا دھند اگا لی جائیں اور پھر ناقص منصوبہ بندی کی نذر کر دی جائیں، اسی طرح اولاد کو بھی بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا کر لینا ایک نامعقول عمل ہی کہلائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل سے نہیں روکا، جو منصوبہ بندی کی ایک تدبیر ہے۔ تاہم،صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں عزل کو ’’واد خفي‘‘ (خفیہ طور پر زندہ درگور) کہا گیا ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا:
ثُمَّ سَأَلُوهُ عَنِ الْعَزْلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ». زَادَ عُبَيْدُ اللّٰهِ فِي حَدِيثِهِ: عَنِ الْمُقْرِئِ، وَهِيَ: ﴿وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُئِلَتْ﴾.
’’لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ واد خفی ہے۔عبیداللہ کی روایت میں مقری سے یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی ہے وہ موؤدہ ہے، قیامت میں جس کے بارے میں سوال ہو گا۔“
یہ روایت ان کثیر اور مستند روایات کے خلاف ہے جس میں عزل کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ عمل اگر غلط، جرم اور حرام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت کبھی نہ دیتے۔ خوش قسمتی سے ترمذی کی ایک روایت اس تناقض کو حل کر دیتی ہے:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ، فَزَعَمَتِ اليَهُودُ أَنَّهَا الْمَوْءُودَةُ الصُّغْرَى، فَقَالَ: «كَذَبَتِ اليَهُودُ، إِنَّ اللّٰهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُ».
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یہود کہتے ہیں کہ عزل بھی ایک چھوٹی قسم کی موؤدہ (یعنی بچی کو زندہ درگور کرنا) ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا: یہود جھوٹے ہیں۔ اگر اللہ کسی کو پیدا کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح مسلم کی مذکورہ روایت میں جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے، وہ درحقیقت یہود کا خیال تھا جس کی تردید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی، مگر راوی کے تصرف نے تردید کو تصویب سے بدل دیا۔
رزق میں صرف خوراک ہی نہیں، وہ تمام ضروریات زندگی شامل ہیں جن کے بغیر زندگی ممکن اور سہل نہیں ہوتی۔ خدا رازق ہے، مگر اس نے دنیا کو آزمایش کے اصول پر تخلیق کیا ہے۔ اس میں رزق کا معاملہ بھی آزمایش کے اصول پر مبنی ہے۔ یہ کوشش اور قسمت کے پیچیدہ تعامل پر مبنی ہے، جس میں خدا کی مدد جب مناسب ہو، شامل حال ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے تخلیق رزق کی ذمہ داری بتائی ہے، ترسیل رزق کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں تخلیق رزق کی ذمہ داری کا بیان ہے، نہ کہ ترسیل رزق کی ذمہ داری کا:
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَاﵧ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ.(ہود ۱۱: ۶)
’’زمین پر چلنے والا کوئی جان دار نہیں ہے، جس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو۔ اور وہ اُس کے ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور اُس جگہ کو بھی جہاں وہ (مرنے کے بعد زمین کے) سپرد کیا جائے گا۔ یہ سب ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔‘‘
قرآن مجید کی جس آیت سےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ترسیل رزق کے بھروسے پر بے دریغ اولاد پیدا کرنے کا استدلال کیا جاتا ہے، درحقیقت وہی آیت اس فہم کی نفی کرتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
وَلَا تَقْتُلُوْ٘ا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍﵧ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْﵧ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱)
’’تم لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقیناً بہت بڑا جرم ہے۔‘‘
خدا کا یہ ارشا د’’ہم اُنھیں بھی روزی دیتےہیں اورتمھیں بھی‘‘، ان مفلس والدین کے بارے میں ہے جو اس قدر تنگ دست تھے کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو مفلسی کی وجہ سے قتل کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ پھر یہ والدین بھی کسی کی اولاد ہی تھے، جن کو بقدر ضرورت بھی رزق نہیں ملا۔
اس آیت سے یہ استدلال کسی طرح درست نہیں کہ والدین کو تو بقدر ضرورت رزق نہیں ملا، مگر اولاد ہو جانے کے بعد اب دونوں کو رزق ملے گا۔ آیت کا درست مفہوم یہ ہے کہ مفلسوں کے وہ بچے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیدا ہو گئے ہیں، اب انھیں مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کیا جائے۔ یہ ایک بڑا جرم ہے۔ جیسے کچھ روزی والدین کو ملتی ہے، انھیں بھی مل سکتی ہے۔ بہرصورت، ان کی قسمت کا فیصلہ اب قدرت پر چھوڑ دیا جائے۔
اولاد کی پیدایش کے بعد خدا نخواستہ کوئی مصیبت آ پڑے اور آدمی وسائل سے تہی ہو جائے تو الگ معاملہ ہے، لیکن اپنے وسائل کے مطابق بچے پیدا کرنے کی منصوبہ بندی انسان کے اختیار میں ہے۔ وسائل کی کمی میں مبتلا والدین اپنی مرضی سے پیدا کیے ہوئے بچوں کی پرورش میں اگر مشقتیں اٹھاتے اور تکلیفیں جھیلتے ہیں تو دوسری طرف ان کے بچے ان سے زیادہ اذیتیں برداشت کرتے ہیں۔ والدین نے تو یہ مشقتیں اپنے اختیار سے چنی ہوتی ہیں، مستقبل میں بہتر ی کی امید بھی انھیں ہو سکتی ہے، اگر کوئی امید نہ بھی ہوتب بھی ان کے خیال میں آخرت میں انھیں ان کی مشقتوں کا اجر مل سکتا ہے، لیکن بچے جو بغیر ان کی مرضی کے مفلس والدین کی تکلیفوں میں شامل کر لیے جاتے ہیں، ان کو اپنے دکھوں کا کوئی مداوہ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ان والدین کا اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کو پالنا والدین کا احسان نہیں، اپنی عاقبت نااندیشی کی تلافی کی ناکافی کوشش ہے۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جاتے ہیں۔ کفایت شعاری کا یہ اصول وسائل کی کم یابی کے سبب سے زندگی کے ہر معاملے میں برتنا عقل مندی سمجھا جاتا ہے، مگر یہی عقل مندی وسائل کے مطابق بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے میں کام میں لانا توکل کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے کی کوئی دینی بنیاد نہیں۔
قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ کم وسائل کےحامل کثیر العیال والدین اپنی اولاد کے قتل کے اسی جرم کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ مناسب خوراک اور علاج معالجہ کی عدم استطاعت سے جو بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، وہ دراصل والدین کی نادانی کے مقتول ہوتے ہیں۔ یہ تسلیم کہ معاشی نظام منصفانہ اور ہم دردانہ نہیں، غربا کی بہبود کے ریاستی اقدامات تسلی بخش نہیں، مگر والدین کو اس پر کون مجبور کرتا ہے کہ اس استحصالی نظام میں وسائل سے زیادہ بچے پیدا کر لیں۔ نظام میں بہتری لانے کی قدرت اگر نہ ہو تو وسائل سے زیادہ بچے پیدا کر کے اس نظام کو ایندھن بھی کیوں مہیا کیا جائے؟ سستی مزدوری کے ذریعے سے استحصال کا امکان بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ افرادی قوت میسر ہوتی ہے، اس لیے ان کا استحصال کر کےانھیں کم تر مزدوری پر مجبور کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
غربت کی چکی میں پسنے والے لاکھوں کروڑوں غریب بچوں میں سے چند ایک کی قسمت اگر چمک اٹھتی ہے تو اسے بطور مثال پیش کر دیا جاتا ہے کہ خدا چاہے تو یوں بھی ہو سکتا ہے، اس لیے بچے پیدا کرنے میں تردد نہیں کرنا چاہیے۔ جب کہ دوسری طرف دنیا کے عام معمول کے مطابق لاکھوں کروڑوں مفلس بچوں کے ہاں کوئی چمتکار نہیں ہوتا۔ وہ غربت کی چکی میں پستے رہ جاتے ہیں۔ ان سے عبرت کیوں نہ حاصل کی جائے؟ اسی طرح امیر سے غریب ہو جانے کے واقعات بھی موجود ہیں، ان سے برعکس استدلال کیوں نہ کیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ منفرد اور غیر معمولی واقعات عمومی پیٹرن مہیا نہیں کرتے، افراد کی اکثریت کو عمومی حالات ہی پیش آتے ہیں۔
کسی بھی دوسری شے کے مقابل میں انسان سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی پیدایش کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے بعد خدا پر بھروسا کیا جائے۔ توکل کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تدبیر کے بعد کیا جائے، نہ کہ اس سے پہلے۔
ـــــــــــــــــــــــــ