’’ زکوٰۃ کے بارے میں یہ سنت قائم کی ہے کہ یہی تنہا ٹیکس ہے جومسلمانوں پر عائد کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان ۴۹۱)
’’ زکوٰۃ کے علاوہ جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کر دی ہے، وہ نہ مسلمانوں پر اُن کی رضامندی کے بغیر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس عائد کر سکتے ہیں نہ ایک مٹھی بھر گندم، ایک پیسا، ایک حبہ اُن کے اموال میں سے، کسی بھی مد میں، بالجبر لینے کی جسارت کر سکتے ہیں۔“ (میزان ۴۹۴)
اس بحث سے متعلق مختلف پہلوؤں کی وضاحت مصنف کی مختلف دیگر تحریروں اور زبانی گفتگوؤں میں کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہاں تین سوالات تنقیح طلب ہیں:
۱۔ کیا مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ اجتماعی مصارف کے لیے کوئی محصول لیا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی اجتماعی ضرورت زکوٰۃ کی رقم سے پوری نہ کی جا سکے تو کیا حکومت ہنگامی حالات میں زکوٰۃ کے علاوہ کوئی محصول عائد کر سکتی ہے؟
۲۔ اگر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی محصول نہیں لیا جا سکتا تو زکوٰۃ کی شرح شرعاً طے شدہ ہونے اور اس کے مصارف متعین اور محدود ہونے، نیز تملیک ذاتی کی شرط کے تناظر میں ریاست کی مجموعی ضروریات کی تکمیل کا انتظام کیا ہوگا؟
۳۔ جدید ریاستوں میں ٹیکس کے عنوان سے شہریوں کی آمدنی سے جو رقم وصول کی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جمہور فقہا واہل علم کا موقف یہ رہا ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ حکومت مستقلاً کوئی اضافی ٹیکس مسلمانوں پر عائد نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی ہنگامی ضرورت کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہو تو فقہی روایت میں عموماً حکومت کے لیے پیش آمدہ ضرورت کے بقدر وقتی طور پر شہریوں سے مخصوص رقم وصول کرنے کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔[*] امام الحرمین الجوینی نے اس کا جواز اس پہلو سے واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کی کسی اجتماعی ضرورت کو پورا کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور مسلمان پابند ہیں کہ ضرورت پیش آنے پر باہم مل کر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔ چونکہ حکومت اجتماعی امور کے انتظام وانصرام میں تمام مسلمانوں کی نمایندہ ہوتی ہے اور انھی کی طرف سے تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو بجا لاتی ہے، اس لیے حکومت بوقت ضرورت اصحاب اموال سے بقدر ضرورت رقم وصول کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور اصحاب اموال پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنا شرعاً لازم ہے (غیاث الامم ۲۸۰ - ۲۸۶)۔
تاہم جدید دور میں اہل علم کے ایک بڑے گروہ کا رجحان یہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ مسلمانوں کے اموال پر کوئی ٹیکس عائد کرنے میں نہ صرف یہ کہ شرعاً کوئی مانع نہیں، بلکہ جدید دور میں ایسا کرنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ نئے حالات میں اس کا جواز صرف ہنگامی اور اضطراری حالات کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ریاستی نظم ونسق کی ایک مستقل ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی نے اس ضمن میں درج ذیل استدلالات پیش کیے ہیں:
۱۔ مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کا بندوبست مسلمان معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اگر زکوٰۃ کی رقم ان مختلف اور متنوع ضروریات کے لیے کافی نہ ہو تو اجتماعی ذمہ داری کے اصول پر مسلمان مزید وسائل مہیا کرنے کے پابند ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت ان سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی محاصل وصول کر سکتی ہے۔
۲۔ زکوٰۃ کے مصارف مخصوص اور متعین ہیں اور زکوٰۃ ان کے علاوہ دیگر مصارف پر خرچ نہیں کی جا سکتی، جب کہ ریاستی ذمہ داریوں کا دائرہ نوعیت کے لحاظ سے ان سے بہت وسیع ہے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانوں میں غنائم اور مال فے کی صورت میں دو بڑے ذریعے موجود تھے جن سے بیت المال میں رقم جمع ہوتی تھی اور ان سے ریاستی ذمہ داریاں پوری کی جاتی تھیں۔ جدید دور میں یہ دو ذرائع ناپید ہو گئے ہیں، جب کہ ریاستی ضروریات جوں کی توں موجود ہیں، چنانچہ ان کے متبادل کے طور پر زکوٰۃ کے علاوہ محاصل وصول کرنا شرعی اصول کی رو سے ناگزیر ہے۔
۳۔ ریاستی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے علاوہ خود ریاست کی بقا بھی جدید دور میں ٹیکسوں کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے شریعت کے عمومی قواعد، یعنی حفظ مصلحت اور دفع ضرر کا بھی یہ تقاضا ہے کہ حکومتیں زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس لازماً وصول کریں۔ اس کی تائید میں قرضاوی نے امام غزالی اور امام شاطبی کی آرا نقل کی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اگر عسکری اخراجات کے لیے بیت المال میں موجود وسائل ناکافی ہوں تو حکمران کے لیے فوجی ضروریات کے حساب سے ملک کے مال دار طبقات پر ٹیکس عائد کرنا جائز ہے۔
۴۔ جدید دور میں عسکری وفوجی اخراجات کا حجم بہت ہی بڑھ گیا ہے جو کثیر مالی وسائل کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید برآں کسی ملک کی طاقت میں عسکری قوت کے علاوہ سائنسی، صنعتی اور اقتصادی قوت کا بھی بنیادی کردار ہے اور ان سب پہلوؤں سے ایک مضبوط اور محفوظ ملک کو تشکیل دینے کے لیے جس قدر وسائل کی ضرورت ہے، وہ ٹیکس کے بغیر مہیا نہیں ہو سکتے۔
۵۔ حکومت رفاہ عامہ اور حکومتی نظم ونسق کی مد میں جو متنوع اخراجات کرتی ہے، ان سے ملک کے شہری مستفید ہوتے ہیں۔ یہ تمام بندوبست ٹیکس کی رقم کے بغیر ممکن نہیں، چنانچہ ان سہولیات کے معاوضے کے طور پر بھی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریوں سے ٹیکس وصول کرے (فقہ الزکوٰۃ ۱۰۷۳ - ۱۰۷۸)۔
البتہ قرضاوی اس اجازت کو چند بنیادی شرائط کے ساتھ مشروط قرار دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ٹیکس واقعتاً اس وقت لیا جائے جب اس کی ضرورت ہو اور جتنی ضرورت ہو، اتنا ہی لیا جائے۔ مزید یہ کہ اس کو دیانت داری کے ساتھ ملک وقوم کی حقیقی ضروریات پر خرچ کیا جائے اور حکمران کے اللے تللے میں نہ اڑایا جائے۔ سب سے اہم یہ کہ ٹیکس وصولی اور اس کی مقدار وغیرہ کا فیصلہ اجتماعی مشاورت سے کیا جائے (فقہ الزکوٰۃ ۱۰۷۹ - ۱۰۸۵)۔
مذکورہ استدلال کی روشنی میں قرضاوی ان احادیث کا مصداق جن میں مسلمانوں پر مکوس، یعنی تجارتی محصولات عائد کرنے کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے ، عہد نبوی میں دنیا کی مختلف سلطنتوں میں رائج ان محصولات کو قرار دیتے ہیں جو ظالمانہ تھے اور ان کی مقدار کی تعیین اور مصارف وغیرہ میں عدل وانصاف کو بالکل ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ یہ محاصل قوم کی اجتماعی ضروریات کے بجاے حکمرانوں کے شاہانہ طرز زندگی اور عیاشیوں پر صرف ہوتے تھے اور ان کا بوجھ بھی ملک کے غریب اور کم زور طبقات پر ڈالا جاتا تھا۔ قرضاوی کہتے ہیں کہ دور جدید کی ریاستوں میں ٹیکس کا نظام اور ضوابط اس سے بہت مختلف ہیں اور ان کا بنیادی مصرف قوم کی اجتماعی ضروریات ہی ہوتی ہیں، اس لیے ان ٹیکسوں کو مذکورہ احادیث کا مصداق قرار نہیں دیا جا سکتا (۱۰۹۵- ۱۰۹۶)۔
مولانا مودودی کا نقطۂ نظر بھی اس باب میں یہی ہے اور وہ مختلف شرعی اصولوں کی روشنی میں حکومت کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ دیگر محاصل عائد کرنے کا اختیار تسلیم کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’حدیث میں اصول بیان کیا گیا ہے کہ ’ان فی المال حقًا سوی الزکوٰة‘، آدمی کے مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق ہے۔ اس اصولی ارشاد کی موجودگی میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کیا ایک اسلامی حکومت زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے محاصل عائد کر سکتی ہے۔ پھر جب کہ قرآن میں زکوٰۃ کے لیے چند مخصوص مصارف معین کر دیے گئے ہیں تو لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان مصارف کے ماسوا جو دوسرے فرائض حکومت کے ذمے عائد ہوں، ان کو بجا لانے کے لیے وہ دوسرے محاصل پبلک پر عائد کرے۔“ (رسائل و مسائل ۲ /۱۱۳، ۳ / ۳۰۷، ۴ / ۱۵۵)
مصنف کا نقطۂ نظر اس بحث میں بنیادی طور پر دور جدید کے اہل علم سے مختلف اور فقہا کے روایتی موقف کے قریب ہے۔ جدید دور کے اہل علم مستقل بنیاد پر ٹیکس عائد کرنے کا حق دیتے ہیں ، جس کا جواز ان کے نزدیک قوم کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل سے اخذ ہوتا ہے۔ چونکہ اجتماعی ضرورت کی تکمیل کی ذمہ داری اصولاً پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے، اس لیے یہ اہل علم مستقل بنیاد پر ٹیکس کی ادائیگی کو قوم کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ مصنف کا موقف اس کے برعکس یہ ہے کہ اصولاً زکوٰۃ کے علاوہ مسلمانوں پر کوئی ٹیکس حکومت کو ادا کرنا شرعاً لازم نہیں اور حکومت بھی اس کا اختیار نہیں رکھتی۔
البتہ مصنف اور جمہور فقہا کے موقف میں ایک فرق یہ ہے کہ جمہور فقہا حکومت کو ہنگامی حالات میں ضرورت کی بنیاد پر ٹیکس لگانے کا اختیار دیتے ہیں، جب کہ مصنف نے اس کو ضرورت سے متعلق قرار دینے کے بجاے اسے مسلمانوں کی رضامندی سے مشروط قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق جبراً ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد اب صرف ان کی رضامندی سے ہی حکومت کسی بھی اجتماعی ضرورت کے لیے ان کا مال لے سکتی ہے۔ مصنف نے اپنی ایک تحریر میں یہ رجحان ظاہر کیا ہے کہ ہنگامی ضروریات کے لیے حکومت کو لوگوں سے تبرع اور نفلی انفاق کی اپیل کرنی چاہیے اور اگر حکومت پر لوگوں کو اعتماد ہوگا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنے اموال میں سے اپنا حصہ شامل نہ کریں (ماہنامہ اشراق )۔ یوں ٹیکس کے جواز کی بنیاد فقہا کے موقف اور مصنف کے نقطۂ نظر میں کافی مختلف ہو جاتی ہے۔ تاہم اس سوال کے حوالے سے مصنف کی تحریر میں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی رضامندی سے ان کا مال لینے کی عملی اور اطلاقی صورت کیا ہوگی؟ کیا اس کے لیے ہر اس شخص کی انفرادی رضامندی مطلوب ہے ، جس پر زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس عائد کیا جائے گا یا جمہوری اصول کے مطابق عوامی نمایندوں کی اکثریت کا کسی ٹیکس کے عائد کیے جانے پر اتفاق کر لینا جواز کے لیے کافی ہوگا؟
بہرحال مصنف کا یہ بنیادی رجحان ان کے مختلف مواقف سے بہت واضح ہے کہ ان کے نزدیک مسلمانوں پر عائد کیے جانے والے محصولات کو بنیادی طور پر زکوٰۃ تک ہی محدود ہونا چاہیے اور حکومت کو اس سے زائد کوئی ٹیکس ان پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہنگامی طور پر اس کی ضرورت محسوس ہو تو اسے بقدر ضرورت محدود اور لوگوں کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے۔
مصنف کا یہ رجحان ان متعدد فقہی اختلافات سے واضح ہوتا ہے جو ان کے اور عام اہل علم کے موقف کے مابین پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عام اہل علم کے نزدیک زکوٰۃ کے مصارف مخصوص ومتعین ہیں اور ریاست کو جن مختلف مدات میں وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، ان سب کا احاطہ نہیں کرتے، اس لیے دیگر مدات کے لیے ٹیکس عائد کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ تاہم مصنف نے زکوٰۃ کے مصارف کی بحث میں مصارف کا وسیع تر مفہوم مراد لینے کا زاویۂ نظر اختیار کیا ہے۔ ان کی راے میں فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم میں جہاد او رحج کے علاوہ مساجد ومدارس کا قیام، مردوں کی تکفین، قلعوں کی تعمیر ، دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں اور ہر طرح کے اعمال خیر بھی شامل ہیں۔ ’الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا‘ کے تحت مصنف کے نزدیک صرف زکوٰۃ کے محصلین کو نہیں، بلکہ تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جا سکتی ہیں، اس لیے کہ ساری ریاستی مشینری بنیادی طور پر زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے اور اسے قومی مصارف پر خرچ کرنے ہی کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ مصنف نے ’مولفۃ القلوب ‘ کے مفہوم کو بھی توسیع دیتے ہوئے ہر قسم کے سیاسی اخراجات کو اس میں شامل کیا ہے، جن کو اسلامی ریاست مسلمانوں اور اسلام کے مفاد کے لیے ضروری خیال کرے۔ مصنف کے زاویۂ نظر سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کا مقصد معاشرے کے اصحاب حاجت اور نظم اجتماعی کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے مصارف زکوٰۃ کو چند محدود صورتوں تک محدود کرنا درست نہیں۔ اس کے بجاے بنیادی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصارف کا وسیع تر مفہوم مراد لینا ضروری ہے تاکہ ریاست کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں آسانی ہو۔
اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے جمہور فقہا کے نزدیک رقم کو کسی کی ذاتی ملکیت میں دینا بھی ضروری ہے اور اس لحاظ سے بھی زکوٰۃ کی رقم اجتماعی مصارف پر خرچ نہیں کی جا سکتی۔ مصنف کا نقطۂ نظر اس حوالے سے بھی عام راے سے مختلف ہے اور انھوں نے زکوٰۃ کی رقم کو کسی کی ذاتی ملکیت میں دینے سے متعلق ان اہل علم کی راے سے اتفاق کیا ہے جن کے نزدیک زکوٰۃ میں تملیک ذاتی ضروری نہیں اور زکوٰۃ کی رقم ذاتی طور پر کسی کی ملکیت میں دینے کے علاوہ بالواسطہ اس کی بہبود اور بھلائی کے لیے بھی صرف کی جا سکتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مویدین کا استدلال یہ ہے کہ تملیک ذاتی کو شرط قرار دینے کے حق میں کوئی واضح دلیل قرآن یا حدیث میں نہیں پائی جاتی اور مصنف نے بھی ان کے استدلال سے اتفاق کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صنعتی پیداوار اور فیس کرایہ وغیرہ کی شرح زکوٰۃ سے متعلق مصنف کا نقطۂ نظر پیش نظر رہے تو ان کا یہ رجحان مزید واضح ہوتا ہے ۔ مصنف کا موقف یہ ہے کہ صنعتی پیداوار، کسی فنی مہارت، مثلاً موسیقی یا خطاطی وغیرہ سے حاصل ہونے والی آمدن، جایداد یا مختلف قسم کی اشیا کے استعمال کا کرایہ، مہیا کی گئی خدمات کی فیس اور ملازمت یا محنت مزدوری کے معاوضے میں ملنے والی تنخواہ کو مال تجارت سے ملحق کر کے اس پر ڈھائی فی صد زکوٰۃ عائد کرنے کے بجاے زمین کی پیداوار کے حکم میں سمجھنا چاہیے اور ان سب کا عشر بطور زکوٰۃ وصول کرنا چاہیے۔ مصنف کے نزدیک جس طرح زراعت میں پیداوار کا ایک مستقل اور محفوظ ذریعہ، یعنی قابل کاشت زمین موجود ہوتا ہے جس پر سرمایہ اور محنت صرف کر کے آدمی پیداوار حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح ضروری مشینری اور سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ ایک صنعت لگا لی جائے تو وہ بھی زمین کی طرح ایک دیرپا اور مستقل ذریعۂ پیداوار کے طور پر موجود رہتی ہے جس سے سرمایہ اور محنت کی مدد سے پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ دونوں کی نوعیت ایک جیسی ہے، اس لیے دونوں پر عائد کردہ زکوٰۃ کی شرح بھی ایک جیسی ہونی چاہیے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[*]اس ضمن میں فقہی مواقف کی تفصیل کے لیے دیکھیے: الدکتور یوسف القرضاوی، فقہ الزکوٰۃ ۱۱۰۰ - ۱۱۰۵۔