ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:۱ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ فِتْنَةٌ أَكْبَرُ۲ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ۳».
وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:۴ «مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آدم کی تخلیق سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک دجال کے فتنے سے زیادہ بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔
اِنھی سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے، یہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: آدم کی تخلیق سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک دجال سے بڑی کوئی مخلوق نہیں ہے۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ دوسرے لفظوں میں وہی بات بیان ہوئی ہے، جو اوپر مذکور ہے، مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے، جو اپنی فتنہ پردازی میں دجال سے بڑھ کر لوگوں پر حاوی ہو سکتی ہو۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۶۲۶۵ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: الطبقات الكبرىٰ، ابن سعد، رقم ۱۰۷۱۲، ۱۰۷۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۴۷۱۔ مسند احمد، رقم ۱۶۲۵۳، ۱۶۲۵۵، ۱۶۲۶۷۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۶۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم۱۵۵۵، ۱۵۵۶۔ المفاريد، ابو یعلیٰ، رقم۶۷، ۶۸۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم۴۵۰، ۴۵۱، ۴۵۲، ۴۵۳۔ مستدرك حاكم، رقم ۸۶۱۰۔ حليۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم، ۲/ ۲۵۴۔ السنن الواردۃ فی الفتن، دانی، رقم ۲۴، ۲۵۔ الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، خطيب بغدادی، رقم۱۷۶۶۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً : الطبقات الكبرىٰ، ابن سعد، رقم ۱۰۷۱۲میں یہاں ’أَكْبَرُ‘ کے بجاے اِسی معنی کا ایک دوسرا لفظ ’أَعظَمُ‘ آیا ہے۔
۳۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۶۲۶۷میں یہاں ’فِتْنَةٌ أَكْبَرُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ‘ ، ’’ دجال کے فتنے سے زیادہ بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے ‘‘کے بجاے ’أَمْرٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ‘،’’دجال سے بڑا کوئی معاملہ‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں ۔
۴۔ صحيح مسلم، رقم۲۹۴۶۔
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ:۱ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ، يُقَالُ لَهَا: خُرَاسَانُ، يَتَّبِعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا ہے کہ دجال اُس مشرقی علاقے سے نکلے گا، جسے خراسان کہا جاتا ہے۔۱ اُس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے ڈھالوں کی طرح چوڑے ہوں گے۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ بلاد عراق سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلے ہوئے وسیع علاقے کا قدیم نام ہے۔ آگے اصفہان کا ذکر بھی اِسی لحاظ سے آیا ہے۔
۲۔اِس سے بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ دجال کی پیروی کے لیے ابتدا میں جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یاجوج و ماجوج میں سے بھی ہوں گے۔ڈھالوں کی طرح چوڑے چہرے بالعموم اِسی نسل کے لوگوں کے ہوتے ہیں۔ اِن کے لیے یہ تعبیر بعض دوسری روایتوں میں بھی منقول ہے۔ اِسے مستبعد نہیں سمجھنا چاہیے، اِس لیے کہ دجال کے خروج کا جو علاقہ اوپر بیان ہوا ہے، اُس کے گرد و نواح میں زیادہ تر یہی لوگ آباد ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۵۰۰۔ مسند احمد، رقم۳۳۔ مسند عبد بن حميد، رقم ۴۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۲۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم۲۳، ۲۴۔ سنن ترمذی، رقم۲۲۳۷۔ مسند بزار، رقم۴۶، ۴۷، ۴۸۔ مسند ابی بكر الصديق، احمد بن علی المروزی، رقم۵۷، ۵۸، ۵۹۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم۳۳، ۳۴۔ معجم الصحابۃ، ابن قانع۲/ ۶۱۔ مستدرك حاكم، رقم۸۶۰۸۔ السنن الواردۃ فی الفتن، دانی، رقم۶۲۹۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «يَأْتِي الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَهِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ، حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ،۲ وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا۱ اور اُس کا عزم مدینہ کا ہوگا۔۲ (وہ قریب پہنچے گا)، یہاں تک کہ احد پہاڑ کے پیچھے آکر پڑاؤ ڈال دے گا۔ پھر خدا کے فرشتے اُس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے۳ اور وہ وہیں ہلاک ہوجائے گا۔۴
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس سے وہی خراسان کا علاقہ مراد ہے، جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔
۲۔ یہود جس مسیح کے منتظر ہیں، اُس کا اصلی مشن، اُن کے نزدیک یہی ہے کہ وہ داؤد کی سلطنت اُن کے لیے بحال کرے گا۔ مدینہ کو وہ اِس سلطنت کا حصہ سمجھتے ہیں اور بارہا اِس کا اظہار کر چکے ہیں۔ چنانچہ اپنی مہمات میں دجال اگر مدینہ کا قصد بھی کرے گا تو اِس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی لکھتے ہیں:
’’ اب اگر کوئی شخص مشرق وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کے پس منظر میں اِن کو دیکھے تو وہ فوراًیہ محسوس کرے گا کہ اُس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہےجو حضور کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا’’مسیح موعود‘‘ بن کر اُٹھے گا۔فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جا چکے ہیں او روہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔اِس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھچ کھچ کر چلے آرہے ہیں۔ امریکا ،برطانیہ اور فرانس نے اِس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے۔ یہودی سرمایے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس دان اور ماہرین فنون اِس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جا رہے ہیں۔اور اِس کی یہ طاقت گرد و پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرۂ عظیم بن گئی ہے۔ اِس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اِس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں،... اُس سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ پورا شام ،پورا لبنان،پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ترکی سے اسکندر ون ،مصر سے سینا اور ڈیلٹاکا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز اور نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں، جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ اِن حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آیندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑ بونگ سے فائدہ اُٹھا کر وہ اِن علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اُس موقع پر وہ دجال اکبر اُن کا مسیح موعود بن کر اُٹھے گا ،جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبی Aصلی اللہ علیہ وسلم نے اکتفا نہیں فرمایا ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اُس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہو گا۔اِسی بنا پر آپ فتنۂ مسیح دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی اُمت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔‘‘(تفہیم القرآن ۴ / ۱۶۶)
۳۔ یعنی ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے بجاےوہ مجبور ہو جائے گا کہ شام کی طرف متوجہ ہو۔ چنانچہ مدینہ اِس کے نتیجے میں اُس کی تاخت سے محفوظ رہے گا۔
۴۔ اِس کی تفصیلات آگے روایتوں میں بیان ہوئی ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۹۱۶۶سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں آئے ہیں: احاديث اسماعيل بن جعفر، رقم۲۷۹۔ صحيح مسلم، رقم۱۳۸۰۔ مسند ابی يعلىٰ، رقم۶۴۵۹۔ حديث علی بن حجر، رقم ۹۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۱۰۔ مستخرج ابی نعیم، رقم۳۱۹۴۔
۲۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۱۰میں یہاں ’ ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ‘ ، ’’ پھر خدا کے فرشتے اُس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے ‘‘کے بجاے ’ثُمَّ يَغْدُو قِبَلَ الشَّامِ‘، ’’پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوجائے گا‘‘ کے الفاظ ہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ، سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصفہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزارلوگ دجال کی پیروی کریں گے،۱وہ اپنے اوپر چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِ س سے معلوم ہوا کہ اِس علاقے کے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ابتدا ہی میں دجال کی پیرو ہو جائے گی۔ایران میں اِس وقت (۲۰۲۱ء) یہودیوں کی تعداد اگرچہ نو دس ہزار سے زیادہ نہیں ہے، تاہم نہیں کہا جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی جس زمانے سے متعلق ہے، اُس میں یہ اِس سے بڑھ کر کیا سے کیا ہو جائے گی۔ آپ کی نسبت سے یہ بیان، اگر غور کیجیے تو اِس بات کا واضح قرینہ بھی ہے کہ دجال یہود ہی میں سے ہوگااور اُنھی کے مسیح موعود کی حیثیت سے مسلمانوں کے علاقوں، خاص کر مکہ اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا۔
۲۔ اِس سے اشارہ غالباً اُس خاص لباس کی طرف ہے، جو یہود کے مذہبی لوگ بالعموم پہنتے ہیں۔
۱۔اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۴ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات کے مصادر یہ ہیں: الفوائد المنتقاة، ابن ابی الفوارس، رقم۲۱۳۔ حلیۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم ۶/۷۷۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم۶۳۰، ۶۳۱۔
أَخْبَرَتْ أُمُّ شَرِيكٍ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:۱ «لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ۲ مِنَ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ۳»، قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «هُمْ قَلِيلٌ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ام شریک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا: لوگ دجال سے فرار ہوکر پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔۱ام شریک نے عرض کیا:اللہ کے رسول، اُس وقت یہ عرب کہاں ہوں گے؟آپ نے فرمایا: (اُس علاقے میں) ۲ یہ بہت کم ہوں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی اُس کے فتنے سے بچنے کے لیے۔اِس طرح کے حالات میں اگر مقابلے کی قوت نہ ہو تو ہر سلیم الطبع شخص کو یہی کرنا چاہیے۔
۲۔ اِس سے غالباً وہی علاقہ مراد ہے، جہاں سے دجال اپنے فتنے کی ابتدا کرے گا۔
۱۔اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم ۲۹۴۵سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مسند احمد، رقم۲۷۶۲۰۔ سنن ترمذی، رقم۳۹۳۰۔ الآحاد والمثانی،ابن ابی عاصم، رقم۳۳۲۶۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۹۷۔ معرفۃالصحابۃ، ابو نعیم، رقم۷۹۶۳۔
۲۔ معرفۃالصحابۃ، ابو نعیم، رقم۷۹۶۳ میں یہاں ’النَّاسُ‘ کے بجاے ’أُنَاسٌ‘ کا لفظ ہے۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔
۳۔ سنن ترمذی، رقم ۳۹۳۰ میں یہاں ’فِي الْجِبَالِ‘ کے بجاے ’حَتَّى يَلْحَقُوا بِالجِبَالِ‘ ، ’’یہاں تک کہ پہاڑوں پر جا کر بیٹھ جائیں گے‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:۱ «مَنْ سَمِعَ [مِنْكُمْ۲ ] بِالدَّجَّالِ۳ فَلْيَنْأَ عَنْهُ۴ [مَا اسْتَطَاعَ۵ ]، [- فَقَالَهَا ثَلَاثًا-۶ ] فَوَ اللّٰهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ فَيَتَّبِعُهُ، مِمَّا يَبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ»، أَوْ «لِمَا يَبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ»۷.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص دجال کے خروج کے بارے میں سنے، اُس کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو، اُس سے دور رہے۔ ۱ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔(اور فرمایا:) اللہ کی قسم، آدمی اُس کے پاس یہ خیال کر کے آئے گا کہ وہ مومن ہے،۲ لیکن پھر اُس کے اٹھائے ہوئے شبہات میں اُس کی پیروی کرنے لگے گا ،یا فرمایا کہ وہ دجال کے اٹھائے ہوئے شبہات کی وجہ سے اُس کی پیروی کرنے لگے گا۔۳
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔اِس لیے کہ عام لوگوں کے لیے فتنوں سے دور رہنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔
۲۔ یعنی خدا اور آخرت کا ماننے والا ہے، جس طرح کہ تمام یہود، مسیحی اور مسلمان ہمیشہ سے مانتے رہے ہیں۔
۳۔ یعنی وہ شبہات جو مسیح موعود کی حیثیت سے اپنے دعوے کے اثبات اور اُس کے لازمی نتیجے کے طور پر دینی حقائق کی تردید کے لیے دجال لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔لفظ ’شبہات‘ یہاں نتیجے کے لحاظ سے بالکل اُسی طرح استعمال ہوا ہے، جس طرح ہم جدیدیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُس نے جو شبہات مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دیے ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً سنن ابی داؤد، رقم ۴۳۱۹سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا عمران بن حصین ہیں۔ متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۵۹۔ مسند احمد، رقم۱۹۸۷۵، ۱۹۹۶۸۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم۱۰، ۱۴۔ مسند بزار، رقم ۳۵۹۰۔ السادس من مشیخۃ ابن حيویہ، رقم۳۔ امالی ابی بكر النجاد، رقم ۱۵، ۱۶، ۱۷۔ المعجم الكبير،طبرانی،رقم۵۵۰، ۵۵۱، ۵۵۲۔ الابانۃ الكبرىٰ، ابن بطۃ، رقم ۴۷۵۔ مستدرك حاكم، رقم۸۶۱۵، ۸۶۱۶۔ امالی ابن بشران ، رقم۱۴۱۴۔
۲۔ مسند بزار، رقم۳۵۹۰۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۵۹میں یہاں ’مَنْ سَمِعَ مِنْكُمْ بِخُرُوجِ الدَّجَّالِ‘، ’’ تم میں سے جو شخص دجال کے خروج کے بارے میں سنے ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۴۔ بعض روایتوں، مثلاً الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم۱۴ میں یہاں ’فَلْيَنْأَ عَنْهُ‘ ، ’’ اُس کو چاہیے کہ اُس سے دور رہے ‘‘کے بجاے ’فَلْيَفِرَّ مِنْهُ‘ ، ’’ اُس کو چاہیے کہ اُس سے فرار ہوجائے‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۴۵۹۔
۶۔ مستدرك حاكم، رقم۸۶۱۶۔
۷۔ مسند احمد،رقم ۱۹۹۶۸میں یہاں ’بِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ‘ کے الفاظ ہیں۔ مسند بزار، رقم ۳۵۹۰ میں ’بِمَا يَرَى مَعَهُ مِنَ الشُّبُهَاتِ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ مستدرك حاكم، رقم ۸۶۱۶ میں ’لِمَا بُعِثَ بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ در اصل ایک ہی مدعا ہے جو اِن طرق میں متعدد اسالیب میں نقل ہواہے۔
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:۱ مَا سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ لِي: «أَيْ بُنَيَّ، وَمَا يُنْصِبُكَ۲ مِنْهُ؟ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ، [وَمَا مَسْأَلَتُكَ عَنْهُ؟ إِنَّكَ لَنْ تُدْرِكَهُ۳ ]» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ جِبَالَ الْخُبْزِ وَأَنْهَارَ الْمَاءِ۴ فَقَالَ: «هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَاكَ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ دجال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا کچھ میں نے پوچھا ہے، کسی اور نے نہیں پوچھا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے مجھ سےفرمایا: بیٹے،کیا بات ہے جو تمھیں اُس سے پریشان کررہی ہے؟(اطمینان رکھو)، وہ تمھیں ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور یہ تم باربار اُس کے بارے میں سوال کیوں کرتے ہو؟ تم اُس کا زمانہ ہرگز نہیں پاؤ گے۔ مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، لوگ سمجھتے ہیں کہ اُس کے ساتھ ر وٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں ہوں گی۔۱lاِس پرآپ نے فرمایا: اللہ کے لیے یہ اِس سے کہیں آسان تر ہے۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ وسائل رزق کی تعبیر ہے۔ جن لوگوں کے پاس اِن کی بہتات ہوتی ہے، لوگ اُنھی کو ان داتا سمجھ کر اُن کے عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کو اختیار کرنے کے لیے مائل ہو جاتے ہیں۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال بھی اپنی فتوحات کے نتیجے میں بافراط یہ وسائل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔اُس کی اِن فتوحات کا ذکر آگے روایتوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے سوا وہ مشرق وسطیٰ کی ساری زمین کو اپنی تاخت سے روند ڈالے گا۔
۲۔ مطلب یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن اِس سے کیوں پریشان ہو؟ وہ جس پروردگار کو مانتا ہے، اُس کے لیے کیا مشکل ہے؟ وہ جب چاہے، زمین و آسمان کے خزانے اپنے ماننے والوں کے لیے کھول دے۔ پھر یہ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں کیا چیز ہیں؟ یہ تو اللہ کے لیے کہیں آسان تر ہے۔ تاہم اُس نے ابتلا کے جس اصول پر انسان کو پیدا کیا ہے، اُس کے تقاضے سے فتنہ پردازوں کو بھی مہلت مل جاتی ہے، جس طرح کہ وقت کے فراعنہ کو ہمیشہ ملتی رہی ہے۔ اِس سے تمھارے جیسے کسی شخص کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۸۱۶۷سے لیا گیا ہے۔ متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھے جاسکتے ہیں: مسند حميدی، رقم۷۸۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۶۵۵۵، ۳۷۴۶۰۔ مسند احمد، رقم۱۸۱۵۵، ۱۸۲۰۴۔ صحيح بخاری، رقم۷۱۲۲۔ صحيح مسلم، رقم۲۱۵۲، ۲۹۳۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۷۳۔ شرح مشكل الآثار،طحاوی، رقم ۵۶۹۳۔ معجم ابن اعرابی، رقم۱۲۴۲۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۸۲، ۶۸۰۰۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۹۵۱، ۹۵۲، ۹۵۳، ۹۵۴، ۹۵۵، ۹۵۶، ۹۵۷، ۹۵۸۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۰، ۱۰۳۱۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، لالکائی، رقم۲۲۸۶۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۶۵۵۵ میں یہاں ’يُنْصِبُكَ‘ ، کے بجاے ’يُصِيبُكَ‘ کا لفظ آیا ہے۔یہ ایک ہی بات کو بیان کرنے کے دو مختلف اسالیب ہیں ۔
۳۔ مسند حميدی، رقم۷۸۲۔
۴۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۶۰ میں یہاں ’إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔بعض روایتوں، مثلاًمسند احمد، رقم ۱۸۲۰۴ میں ’إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهْرَ مَاءٍ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ بعض طریقوں، مثلاً صحیح مسلم، رقم ۲۹۳۹ میں ’إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالْأَنْهَارَ‘ اور ’مَعَهُ جِبَالٌ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ، وَنَهَرٌ مِنْ مَاءٍ‘ کے الفاظ ہیں۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۶۹۳ میں ’إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالْأَنْهَارَ‘، جب کہ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۹۵۷ میں ’إِنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا وَالطَّعَامَ وَالشَّرَابَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ کم وبیش ایک ہی مدعا ہے، جو الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مختلف طرق میں نقل ہوا ہے۔
عَنْ الْفَلْتَانَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:۱ «أَمَّا مَسِيحُ الدَّجَّالِ۲ فَرَجُلٌ أَجْلَى الْجَبْهَةِ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، عَرِيضُ النَّحْرِ، فِيهِ دَمَامَةٌ كَأَنَّهُ فُلَانُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى أَوْ عَبْدُ الْعُزَّى بْنُ فُلَانٍ»۳.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فلتان بن عاصم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسیح دجال ایک کشادہ پیشانی والا شخص ہے، جس کی بائیں آنکھ نہیں ہے۔ وہ چوڑے سینے والا ہے، اُس کی شخصیت میں کچھ بدصورتی سی ہے۔۱ دیکھنے میں گویا عبد العزیٰ کا فلاں بیٹا ہو یا فرمایا کہ فلاں کا بیٹا عبد العزیٰ ہو۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ وہ تصویر ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً رؤیا میں اُسے دیکھا ہے۔ روایت کا آخری جملہ، جس میں اُس کو عبد العزیٰ کے بیٹے سے مشابہ ٹھیرایا گیا ہے، اِس کا واضح قرینہ ہے۔ اِس طرح کے مشاہدات میں صورت بالعموم معنی ہی کا عکس ہوتی ہے، جسے سمجھ لیا جائے تو رؤیا کی حقیقت بھی بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے، اور ہم اُس کی تعبیر کر سکتے ہیں۔ اِس کے بعد پھر اُس کے لیے کسی لفظی استدلال کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ ایک طرف کشادہ پیشانی اور چوڑے سینے کا ذکر ہے اور دوسری طرف ’فِيهِ دَمَامَة‘ کا۔ اِس سے مقصودغالباًیہ ہے کہ دجال کی شخصیت میں خوب و ناخوب اور خیر و شر کا ایسا امتزاج ہو گا کہ ظاہر کو دیکھنے والے جس طرح متاثر ہوں گے، اہل بصیرت اُسی طرح اُس کے اندھے پن کو بھی محسوس کر لیں گے، اور اُن پر واضح ہو جائے گا کہ یہ صرف دنیا ہی کو دیکھ اور دکھا سکتا ہے، آخرت کو دیکھنے کے لیے جو آنکھ خدا نے انسان کو عطا فرمائی ہے، یہ اُس سے بالکل اندھا ہے۔
۲۔ یہ راوی کا شبہ ہے۔ اُسے یاد نہیں رہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بات فرمائی تھی یا دوسری۔
۱۔اِس روایت کا متن مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۵۸ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات مسند بزار، رقم ۳۶۹۸ اور المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۸۵۷اور ۸۶۰ میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔
۲۔ روایت کے دوسرے تینوں طرق میں یہاں ’مَسِيحُ الدَّجَّالِ‘ کے بجاے ’مَسِيحُ الضَّلَالَةِ‘ ، ’’گم راہی کی دعوت دینے والا مسیح‘‘کے الفاظ منقول ہیں۔
۳۔ مسند بزار، رقم ۳۶۹۸میں یہاں شک کے اسلوب کے بجاے صراحت کے ساتھ ’كَأَنَّهُ عَبْدُ الْعُزَّى بْنُ قَطَنٍ‘ ، ’’گویا وہ عبد العزیٰ کا بیٹا قطن ہو‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
ــــــ ۹ ــــــ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ أَنَّهُ قَالَ فِي الدَّجَّالِ: «أَعْوَرُ [جَعْدٌ، ] هِجَانٌ أَزْهَرُ،۲ كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ،۳ [مَطْمُوسُ عَيْنِهِ الْيُسْرَى، وَالْأُخْرَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ،۴ ] أَشْبَهُ النَّاسِ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، [رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ،۵ ] فَإِمَّا هَلَكَ الْهُلَّكُ، فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا: وہ کانا، گھنگریالے بالوں والا ہے۔ اُس کا رنگ نہایت سفید ہے۔ اُس کا سر گویا سانپ کی طرح ہے۔ اُس کی بائیں آنکھ نہیں ہے اور دوسری آنکھ ایسی ہے، جیسے وہ انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خزاعہ قبیلے کے ایک شخص عبدالعزیٰ بن قطن کے مشابہ ہے۔ اگر ہلاک ہونے والے۱ہلاک ہونے لگیں گے تو (یاد رکھنا کہ) تمھارا پروردگار یک چشم نہیں ہے۔۲
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی اُس کی پیروی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے۔
۲۔ اِس سے بھی یہی اشارہ نکلتا ہے کہ اوپر جو تصویر بیان ہوئی ہے، وہ دجال کے باطن ہی کی تصویر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات میں اِسی طرح نمایاں ہوئی۔چنانچہ آپ کا یہ جملہ کہ تمھارا پروردگار یک چشم نہیں ہے، اُسی کے تقابل میں ہے۔ اِس سے خدا کے جسم کا کوئی تصور پیدا نہیں ہونا چاہیے۔مدعا یہ ہے کہ تمھارا پروردگار اپنی ہدایت میں دنیا اور آخرت، دونوں کو اُن کے صحیح محل پر دیکھتا اور دکھاتا ہے، جس طرح کہ اُنھیں دیکھنا اور دکھانا چاہیے، لہٰذا وہ یک چشم نہیں ہے۔
متن كے حواشی
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً، مسند احمد، رقم ۲۱۴۸سے لیا گیا ہے۔ اِس کے دوسرے طرق اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: مسند طيالسی، رقم ۲۸۰۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۰۔ مسند احمد، رقم ۲۸۵۲۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم ۲۔غريب الحديث، ابراہیم الحربی۲/ ۳۷۲، ۴۹۷۔السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۰۰۳، ۱۰۱۳، ۱۱۳۰۔التوحيد، ابن خزيمہ۱/ ۱۰۱۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۹۶۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۱۷۱۱، ۱۱۷۱۲، ۱۱۷۱۳۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۴۷۰ میں یہاں ’أَزْهَرُ‘ کے بجاے اِسی مفہوم کا ایک لفظ ’أَقْمَرُ‘ آیا ہے۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۱۷۱۲ میں یہاں ’كَأَنَّ رَأْسَهُ أَصَلَةٌ‘ ،’’ اُس کا سر گویا سانپ کی طرح ہے ‘‘کے بجاے ’كَأَنَّ رَأْسَهُ غُصْنُ شَجَرَةٍ‘ ، ’’ اُس کا سر گویا کسی درخت کا گھونسلا ہے‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۴۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۱۷۱۳۔
۵۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم۱۰۰۳۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ،۱ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الدَّجَّالَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ، فَقَالَ: [«يَا أَيُّهَا النَّاسُ،۲ ] إِنَّ اللّٰهَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِئَةٌ۳».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: لوگو،اللہ تعالیٰ یک چشم نہیں ہے۔ سن رکھو،بلاشبہ مسیح دجال دائیں آنکھ سے اندھا ہے۔ اُس کی وہ آنکھ گویا خشک انگور کے دانے کی طرح ہے۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہی تصویر پیچھے بھی بیان ہو چکی ہے۔اِس میں بائیں کے بجاے دائیں آنکھ کے اندھے ہونے کا ذکر ہے۔ اِس طرح کی غلطیاں راویوں سے بالعموم ہو جاتی ہیں۔ ہم نے پیچھے اِس تعبیر کی وضاحت جس طریقے سے کی ہے، اُس کے بعد، اگر غور کیجیے تو دائیں آنکھ کا اندھا پن زیادہ معنی خیز ہے۔اِس کے علاوہ بھی کچھ تضادات ہیں جو راویوں کے بیانات سے پیدا ہوگئے ہیں۔اِس طرح کی روایتوں میں اِن سے صرف نظر کر کےاصل بات پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحيح مسلم، رقم ۱۶۹سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۵۶۔ مسند احمد، رقم ۴۹۴۸، ۶۰۷۰، ۶۱۴۴۔ صحيح بخاری، رقم ۷۴۰۷۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم۳۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۴۱۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۰۰۰، ۱۰۱۱۔ التوحيد، ابن خزيمۃ۱/ ۹۸، ۱۰۰۔ الشريعۃ، آجری، رقم ۸۸۳۔ الايمان، ابن منده ۱۰۴۲، ۱۰۴۳، ۱۰۴۴، ۱۰۴۶۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم۶۵۰۔
۲۔ التوحيد، ابن خزيمۃ۱ / ۱۰۰۔
۳۔ دوسرے طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۴۹۴۸ میں یہاں ’طَافِئَةٌ‘ کے بجاے ’طَافِيَةٌ‘ ’’ابھرے ہوئے‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
إِنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ يَقُولُ:۱ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «الدَّجَّالُ أَعْوَرُ، وَهُوَ أَشَدُّ الْكَذَّابِينَ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جابررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دجال یک چشم ہے، اور وہ سب سے بڑھ کر جھوٹا ہوگا۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ لفظ دجال ہی کی مزید وضاحت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس طریقے سے مہدی و مسیح ہونے کے دعوے کرنے والے جتنے جھوٹے اُس سے پہلے پیدا ہوئے ہوں گے، وہ اُن سب سے بڑھ کر جھوٹا ہو گا۔
متن كے حواشی
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۴۵۶۹سے لیا گیا ہے اور اِس کا ایک ہی متابع ہے جو مسند الحارث، رقم ۷۸۱ میں نقل ہوا ہے۔
إِنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ:۱ ذُكِرَ الدَّجَّالُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِحْدَى عَيْنَيْهِ كَأَنَّهَا زُجَاجَةٌ خَضْرَاءُ۲».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دجال کا ذکر ہوا تو آپ نےفرمایا :اُس کی ایک آنکھ ایسی ہوگی، گویا وہ سبز رنگ کا شیشہ ہو۔ ۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ وہی بات ایک دوسرے اسلوب میں بیان ہوئی ہے، جس کے لیے پیچھے ’عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند شاشی، رقم ۱۴۵۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: مسند طيالسی، رقم۵۴۶۔ مسند احمد، رقم ۲۱۱۴۵، ۲۱۱۴۶، ۲۱۱۴۷، ۲۱۱۴۸۔ الاغراب، نسائی، رقم۵۵۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۱۸۸، ۵۱۸۹۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۹۵۔ طبقات المحدثين باصبہان والواردين علیہا، ابو الشیخ اصبہانی۱/ ۳۷۴۔ حليۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، ابو نعیم۴/ ۳۶۳۔ اخبار اصبہان، ابونعیم۱/ ۲۹۷، ۳۴۷۔
۲۔ اخبار اصبہان، ابو نعیم ۱/ ۲۹۷ میں یہاں ’عَيْنَاهُ خَضْرَاءُ كَالزُّجَاجَةِ‘ ،’’ اُس کی دونوں آنکھیں شیشے کی طرح سبز ہوں گی‘‘کے الفاظ ہیں۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:۱ «الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعْرِ،۲ مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ».
وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي الدَّجَّالِ: ۳ «إِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا، فَنَارُهُ مَاءٌ بَارِدٌ، وَمَاؤُهُ نَارٌ، [فَلَا تَهْلِكُوا۴ ]» قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.
وَفِي لَفْظٍ عَنْهُ قَالَ: ۵ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ جَنَّةً، وَنَارًا، وَجَبَلَ خُبْزٍ، وَنَهْرَ مَاءٍ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ، وَهُوَ جَعْدُ الرَّأْسِ، مَمْسُوحُ عَيْنِ الْيُسْرَى».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کی بائیں آنکھ نہیں ہے۔ وہ گھنے بالوں والا ہے۔ اُس کے ساتھ ایک باغ ہے اور ایک آگ۔ اُس کی آگ درحقیقت باغ ہے اور باغ اصل میں آگ ہے۔۱
حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا: یقیناً اُس کے ساتھ پانی بھی ہے اور آگ بھی۔۲ اُس کی آگ درحقیقت ٹھنڈا پانی اور اُس کا پانی آگ ہے۔ چنانچہ (اُس کی پیروی کرکے) تم ہلاک نہ ہوجانا۔ ابو مسعودرضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میں نے بھی سنی ہے۔
روایت کے ایک طریق میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے پاس ایک باغ، ایک آگ، ایک روٹی کا پہاڑ اور پانی کی ایک نہر ہے۔۳ اُس کی آگ درحقیقت باغ ہے اور باغ اصل میں آگ ہے۔ وہ گھنگریالے بالوں والا ہے اور اُس کی بائیں آنکھ نہیں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ نعمت اور نقمت کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کی پیروی سے دنیا میں جو نعمت بھی حاصل ہو گی، وہ نتیجے کے لحاظ سے نقمت ہے اور اُس سے اختلاف دنیا میں جس نقمت کا باعث ہو گا، وہ نتیجے کے لحاظ سے نعمت ہے۔
۲۔ اِس کے بعد جو طریق نقل ہوا ہے، اُس سے واضح ہے کہ اصل جملہ’’ایک باغ، ایک آگ، ایک روٹی کا پہاڑ اور پانی کی ایک نہر‘‘ ہی تھا، جسے راوی نے غلطی سے اِس طرح مختصر کر دیا ہے۔
۳۔ روٹی اور پانی وسائل رزق کی تعبیریں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کا ساتھ دینے والوں کو جو چیزیں اِسی دنیا میں حاصل ہو جائیں گی، اُن میں سامان راحت کے علاوہ وسائل رزق کی فراوانی بھی شامل ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۳۲۵۰سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم ۲۳۳۶۵۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۴۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۱۔ مسند بزار، رقم ۲۸۶۶۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۸۔
۲۔ مسند بزار، رقم ۲۸۶۶ میں یہاں ’جُفَالُ الشَّعْرِ‘ ، ’’ گھنے بالوں والا ‘‘کے بجاے ’جَعْدٌ‘، ’’گھنگریالے بالوں والا ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
۳۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۷۱۳۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس متن کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مسند احمد، رقم ۲۳۳۸۳۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۴۔ مسند بزار، رقم ۲۸۲۳، ۲۸۶۷۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۶۔ امالی المحاملی روايۃ ابن یحییٰ البيع، رقم ۳۱۵۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۵۲۔
۴۔ مسند احمد، رقم ۲۳۳۸۳۔
۵۔ مسند بزار، رقم ۲۸۶۷۔
عَنْ حُذَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «لَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنَ الدَّجَّالِ، إِنَّ مَعَهُ نَارًا تَحْرِقُ، وَنَهْرَ مَاءٍ بَارِدٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلَا يَهْلَكَنَّ بِهِ فَلْيُغْمِضَنَّ عَيْنَيْهِ، وَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَى أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ نَهْرُ مَاءٍ بَارِدٍ».
وَعَنْهُ أَيْضًا قَالَ: ۲ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنَ الدَّجَّالِ، مَعَهُ نَهْرَانِ يَجْرِيَانِ: أَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَاءٌ أَبْيَضُ، وَالْآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ، فَإِنْ أَدْرَكَنَّ وَاحِدًا۳ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِ النَّهَرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا فَلْيُغْمِضْ [عَيْنَيْهِ۴ ] ثُمَّ لِيُطَأْطِئْ رَأْسَهُ، فَلْيَشْرَبْ فَإِنَّهُ مَاءٌ [عَذْبٌ۵ ] بَارِدٌ، وَإِنَّ الدَّجَّالَ [يَعْرِفُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ،۶ ] مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ۷ كَاتِبٌ وَغَيْرُ كَاتِبٍ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے پاس جو کچھ ہو گا، اُس کے بارے میں مجھے خود دجال سے زیادہ علم ہے۔اُس کے پاس جلادینے والی آگ اور ٹھنڈے پانی کی ایک نہر ہوگی۔ سو تم میں سے جو اُسے پائے، اُس کے فریب میں آکر ہرگز ہلاک نہ ہو، بلکہ اپنی دونوں آنکھیں بند کرلے اور جو چیز اُس کو آگ دکھائی دے رہی ہو، اُس میں کودجائے، اِس لیے کہ در حقیقت وہی ٹھنڈے پانی کی نہر ہوگی۔۱
اِنھی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے پاس جو کچھ ہو گا، میں اُس کے بارے میں خود دجال سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔اُس کے پاس دو بہتی ہوئی نہریں ہوں گی، جن میں سے ایک کو دیکھیں تو لگے گا کہ سفید رنگ کا پانی ہے اور دوسری بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی دے گی۔ اُس نے تم میں سے کسی کو پالیا تو اُسے چاہیے کہ اُس نہر کی طرف آئے، جسے وہ آگ (کی طرح )دیکھ رہا ہو اور اپنی دونوں آنکھیں بند کرے،پھر اپنا سر جھکا ئے اور (اُس میں سے) پیے، اِس لیے کہ یہ میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔ اور دجال کو ہر صاحب ایمان پہچان لے گا۔اُس کی بائیں آنکھ بند ہوگی۔اُس کے اوپر موٹی جلد ہوگی۔۲ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’ کافر‘ لکھا ہوگا جسے ہر صاحب ایمان پڑھ لے گا،۳خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔۴
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کی مخالفت کرنے میں جیسے کچھ خطرات بھی نظر آرہے ہوں، اُن کی پروا کیے بغیر پورے عزم و جزم کے ساتھ اُس کا انکار کر دے ۔ اِس لیے کہ بالآخر اِسی کا نتیجہ اُس کے لیے خدا کی ابدی جنت کی صورت میں نکلے گا۔
۲۔ اِس کی وضاحت پیچھے ہو چکی ہے۔
۳۔ یہ اِس بات کی تعبیر ہے کہ دجال کا یہ کفر کہ وہ خدا کے نام پر لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے، ہر مسلمان کے لیے ایسا واضح ہو گا کہ گویا وہ اُس کی پیشانی پر لفظ ’ کافر‘ لکھا ہوا پڑھ رہا ہے۔
۴۔ مطلب یہ ہے کہ دجال کے اِس کفر کو پڑھنے کا تعلق لوگوں کے پڑھا لکھا ہونے سے نہیں، بلکہ اُن کی بصیرت سے ہو گا، جو آدمی کو اُس کے سچے ایمان اور اللہ کی کتاب کے ساتھ اُس کے اشتغال سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اِس بات کی مزید دلیل ہے کہ دجال سے متعلق یہ روایتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات ہی ہیں، جو آپ کو رؤیا میں ہوئے، لہٰذا لازماً محتاج تعبیر ہیں۔ اِنھیں اِن کے لفظی مفہوم میں نہیں لینا چاہیے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۳ سے لیا گیا ہے۔ متن کے کچھ اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۳ ، ۳۷۵۰۵۔ مسند احمد، رقم ۲۳۳۳۸، ۲۳۳۵۳۔صحيح بخاری، رقم ۳۴۵۰۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۵۔ الفتن،حنبل بن اسحاق، رقم ۳۳ ۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم ۵۶۹۱۔ امالی المحاملی روايۃ ابن یحییٰ البيع، رقم۳۱۲۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۷۹۹۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۵۰۳۔ الايمان، ابن مندہ، رقم۱۰۳۵، ۱۰۳۷۔ شعب الايمان، بیہقی، رقم ۶۷۶۰۔
۲۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۳۲۷۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۲۔ مسند احمد، رقم۲۳۴۳۹۔ صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۴۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم ۳۲۔ المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۳۰۱۸۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۲، ۱۰۳۳۔ مستدرك حاكم، رقم ۸۵۰۷۔ فوائد تمام، رقم ۱۳۹۳۔
۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۲ میں یہاں ’فَإِمَّا أَدْرَكَ أَحَدٌ ذَلِكَ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔صحيح مسلم، رقم ۲۹۳۴میں ’فَإِمَّا أَدْرَكَنَّ أَحَدٌ‘ کے الفاظ ہیں، جب کہ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۲ میں ’فَإِنْ أَدْرَكَهُ أَحَدٌ مِنْكُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ ایک ہی معنی کے لیے مختلف اسالیب ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ’’اگر تم میں سے کسی نے اُس کو پالیا‘‘۔
۴۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۲۔
۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۰۵۔
۶۔ الايمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۲۔
۷۔ بعض طرق، مثلاً الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم ۳۲ میں یہاں ’مُؤْمِن‘، ‘‘صاحب ایمان‘‘ کے بجاے ’مُسْلِم ‘، ’’مسلمان‘‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ