بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّا٘ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰي طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْﵟ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّﵧ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِوَلَا٘ اَنْ تَنْكِحُوْ٘ا اَزْوَاجَهٗ مِنْۣ بَعْدِهٖ٘ اَبَدًاﵧ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا٥٣ اِنْ تُبْدُوْا شَيْـًٔا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا ٥٤
(یہ منافقین اپنی شرارتوں سے باز نہیں آرہے، اِس لیے) ایمان والو،[113] تم اب نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو، الاّ یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے، جب بھی اِس طرح کہ اُس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔ ہاں جب تم کو بلایا جائے تو (وقت کے وقت) داخل ہو، پھر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو۔[114] اِس سے پیغمبر کو اذیت ہوتی ہے، مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔[115] اور تمھیں جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔[116] یہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔[117] تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ اُس کے بعد تم اُس کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سنگین بات ہے۔ تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا اُس کو چھپاؤ، اللہ کے لیے برابر ہے، اِس لیے کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔[118]۵۳ -۵۴
لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْ٘ اٰبَآئِهِنَّ وَلَا٘ اَبْنَآئِهِنَّ وَلَا٘ اِخْوَانِهِنَّ وَلَا٘ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَا٘ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِيْنَ اللّٰهَ اِنّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا ٥٥
نبی کی بیویوں پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں، البتہ کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ اپنے بیٹوں کے، نہ اپنے بھائیوں کے، نہ اپنے بھتیجوں کے، نہ اپنے بھانجوں کے، نہ اپنے میل جول کی عورتوں کے اور نہ اپنی لونڈیوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ ہے۔ تم اللہ سے ڈرتی رہو، (بیبیو)۔ بے شک، اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔[119] ۵۵
اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ٥٦ اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُفِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ٥٧ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ٥٨
(یہ منافقین نہیں جانتے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیج رہے ہیں۔ ایمان والو، (تمھارے لیے بھی صحیح رویہ یہ ہے کہ) تم بھی اُس پر درودوسلام بھیجو۔[120] اللہ اور اُس کے رسول کو جو لوگ اذیت پہنچا رہے ہیں، اُن پر اللہ نے دنیا اور آخرت، دونوں میں لعنت کر دی ہے[121]اور اُن کے لیے اُس نے رسوا کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو (اِسی طرح اُن پر تہمتیں لگا کر)، بغیر اِس کے کہ اُنھوں نے کچھ کیا ہو، اذیت دے رہے ہیں، اُنھیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اُنھوں نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔[122]۵۶ -۵۸
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٥٩
(اِن کی شرارتوں سے اپنی حفاظت کے لیے)، اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو)اپنی چادروں میں سے کوئی بڑی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔[123] اِس سے امکان ہے کہ الگ پہچانی جائیں گی تو ستائی نہ جائیں گی۔[124]اِس کے باوجود (کوئی خطا ہوئی تو) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۵۹
لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَا٘ اِلَّا قَلِيْلًا ٦٠ مَّلْعُوْنِيْنَ اَيْنَمَا ثُقِفُوْ٘ا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا ٦١ سُنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا ٦٢
یہ منافقین اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے[125] اور جو مدینہ میں لوگوں کو بھڑکانے کے لیے جھوٹ اڑانے والے ہیں[126] تو ہم اُن پر تمھیں اکسا دیں گے،[127] پھر وہ تمھارے ساتھ اِس شہر میں کم ہی رہنے پائیں گے۔ اُن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے، پکڑے جائیں گے اور بے دریغ قتل کر دیے جائیں گے۔[128] یہی اُن لوگوں کے بارے میں اللہ کی سنت ہے جو پہلے گزر چکے ہیں[129] اور اللہ کی اِس سنت میں تم ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔[130]۶۰ -۶۲
[113]۔ یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن اِس کے پس پردہ وہی منافقین ہیں جن کا ذکر سورہ کی ابتدا سے ہو رہا ہے۔ تدریجی انکشاف کے اصول پر یہ چیز آگے کی آیتوں سے واضح ہو جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو اُن کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں چند مزید ہدایات دی ہیں۔
[114]۔ یہ پہلی ہدایت ہے کہ اب کوئی مسلمان بغیر اجازت اور بن بلائے حضور کے گھروں میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ لوگوں کو کھانے کی دعوت بھی دی جائے گی تو وہ وقت کے وقت آئیں گے اور کھانا کھانے کے بعد منتشر ہو جائیں گے۔ کھانے کی تیاری کے انتظار میں وہ نہ پہلے جا کر بیٹھ جائیں گے اور نہ کھانے کے بعد بغیر کسی وجہ کے باتوں میں لگے ہوئے وہاں بیٹھے رہیں گے۔یہ اِس لیے بھی ضروری تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے ساتھ کوئی مردانہ بیٹھک نہیں تھی۔لوگ خواتین کے قریب ہی صحن میں کہیں جا کر بیٹھ جاتے تھے اور منافقین اِس سے فائدہ اٹھا کر اپنی کوششوں میں لگ جاتے تھے کہ اُن کو ازواج مطہرات کے اندر کوئی موقع وسوسہ اندازی اور ریشہ دوانی کا ہاتھ آئے۔
[115]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کم زوری کا ذکر نہیں ہے، بلکہ آپ کی ایک پسندیدہ خصلت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آپ نہایت کریم النفس اور ذی مروت ہیں۔
[116]۔ یہ دوسری ہدایت ہے کہ ازواج مطہرات اب پردے میں رہیں گی اور تم میں سے کوئی اُن کے سامنے نہ آئے گا۔ جس کو کوئی چیز لینا ہو گی، وہ بھی پردے کے پیچھے ہی سے لے گا، دندناتا ہوا اُن کے سامنے نہیں چلا جائے گا۔
[117]۔ یہ ایک دفع دخل مقدر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... مطلب یہ ہے کہ بظاہر یہ بات ایک غیر ضروری تکلف محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو اُن سے ایک گلاس پانی مانگنے کی بھی ضرورت پیش آئے تو اُس کے لیے بھی پردے کا اہتمام کرے، لیکن یہ کوئی تکلف نہیں ہے، بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کی ایک نہایت ضروری تدبیر ہے۔ انسان کا دل جس نے بنایا ہے، وہ اُس کی کم زوریوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کن کن مخفی راستوں سے یہ دل برے اثرات قبول کرتا ہے اور دل ہی وہ چیز ہے جس پر انسان کی تمام اخلاقی صحت کا انحصار ہے۔ اِس وجہ سے ضروری ہے کہ جن کو اپنے دل کی صحت مطلوب ہو، وہ اُس کو اُن تمام چیزوں سے محفوظ رکھیں جو اُس کو غبار آلود کر سکتی ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۶۴)
[118]۔ یہ تیسری ہدایت ہے کہ پیغمبر کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں، جو منافقین اُن سے نکاح کے ارمان اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، اُن پر واضح ہو جانا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ازواج مطہرات سے کسی کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ اُن کی یہ حرمت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی ہے۔ لہٰذا ہرصاحب ایمان کے دل میں احترام و عقیدت کا وہی جذبہ اُن کے لیے ہونا چاہیے جو وہ اپنی ماں کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کی یہ باتیں باعث اذیت رہی ہیں۔ اب وہ متنبہ ہو جائیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔یہ بڑی ہی سنگین بات ہے۔ یہاں توہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی کسی نازیبا سے نازیبا حرکت کے لیے بھی کوئی عذر تراش لے، لیکن وہ پروردگار جو دلوں کے بھید تک سے واقف ہے، یہ باتیں اُس کے حضور میں کسی کے کام نہ آ سکیں گی۔
اوپر کی آیتوں میں حضور کا ذکر بار بار ’نَبِيْ‘کے لفظ سے ہوا ہے، لیکن یہاں ’رَسُوْلَ اللّٰهِ‘ کا لفظ ہے۔ اِس سے اِس تنبیہ کی شدت کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تمھارا معاملہ خدا کے رسول سے ہے اور رسول اپنی قوم کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے، وہ محض وعظ سنانے کے لیے نہیں آتا۔ چنانچہ متنبہ ہو جاؤ، تمھیں اندازہ نہیں ہے کہ تم اپنے لیے کس انجام کو دعوت دے رہے ہو۔
اِس میں ، اگر غور کیجیے تو اُ ن لوگوں کے چہرے سے اللہ تعالیٰ نے نقاب اٹھا دی ہے، جن کو پیش نظررکھ کر یہ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اِس لیے کہ یہ منافقین ہی تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کے درپے رہتے اور اپنے دلوں میں یہ ارمان رکھتے تھے کہ آپ کی ازواج سے نکاح کریں تاکہ اللہ و رسول کے خلاف فتنہ انگیزی کا کوئی ذریعہ میسر ہو سکے، کسی سچے مسلمان سے اِس طرح کی کوئی چیز متصور نہیں ہو سکتی تھی۔
[119]۔ یہ اوپر کے حکم سے استثنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اب یہی لوگ بے تکلفی کے ساتھ داخل ہو سکیں گے یا جو اِن کے حکم میں ہوں گے۔ باقی سب لوگوں کے لیے آپ کی بیویاں اب حجاب میں رہیں گی۔ پیغمبر کے دشمنوں اور منافقین نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے، اُس میں یہ پابندی ضروری ہے اور یہ پوری خدا ترسی اور تقویٰ کے ساتھ ہونی چاہیے،اِس سے محض خانہ پری مقصود نہیں ہے۔
اِس سے واضح ہے کہ لوگوں سے حجاب میں رہنے کا یہ حکم ایک خصوصی حکم ہے جو منافقین کی پیدا کردہ ایک خاص صورت حال میں اُن کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کودیا گیا تاکہ پیغمبر کا گھرانا کسی اسکینڈل کی زدمیں نہ آجائے۔ اِس کا عام عورتوں اور عام حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[120]۔ اِس آیت سے جوحقیقتیں سامنے آتی ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ایک یہ کہ جس نبی کا مرتبہ اللہ اور اُس کے فرشتوں کی نظروں میں یہ ہے کہ اللہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے اُس پر رحمت کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، حیف ہے اگر انسانوں میں سے کچھ لوگ اُس کے درپے آزار ہوں، دراں حالیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی احسان انسانوں ہی پر ہے، نہ کہ خدا اور اُس کے فرشتوں پر۔
دوسری یہ کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی احسان نہیں کرتے، بلکہ خدا اور اُس کے فرشتوں کی ہم نوائی کر کے وہ اپنے کوسزاوار رحمت بناتے ہیں۔ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے، جب آپ کو اللہ کی رحمت اور فرشتوں کی دعائیں حاصل ہیں تو وہ دوسروں کی دعاؤں کے محتاج نہیں ہیں۔
تیسری یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا مرض نفاق کا علاج ہے۔ اِس لیے کہ یہاں جس محل میں اِس کی ہدایت فرمائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ منافقوں کی طرح نبی کو ایذا پہنچانے کے بجاے اہل ایمان کو نبی پر درود بھیجنا چاہیے۔ اِس سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ جو لوگ درود کا اہتمام رکھتے ہیں، اُن کے اندر نفاق راہ نہیں پاتا۔
چوتھی یہ کہ مقصود درود و سلام کی تکثیر ہے۔ موقع و محل بھی اِس مفہوم کا متقاضی ہے اور آیت کے الفاظ بھی اِسی کے شاہدہیں ۔ اِس لیے کہ ’سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا‘ میں مصدر تاکید و تکثیر کے مفہوم پر دلیل ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۲۶۷)
[121]۔ دنیا میں بھی اِس لیے کہ معاملہ خدا کے رسول کا تھا اور رسولوں کے باب میں یہی سنت الٰہی ہے۔
[122]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے ہی نہیں، دوسرے مسلمان مرد اور عورتیں بھی اُس زمانے میں منافقین کی شرارتوں کا ہدف بنے ہوئے تھے اور اُن کی اخلاقی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے وہ اُنھیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے متہم کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ آگے جو حکم دیا گیا ہے، اُس میں عام مسلمان عورتوں کو اِسی بنا پر شامل کردیا ہے ۔ تاہم اُس طرح کے خطرات اُن کے لیے نہیں تھے، جن کا پیچھے ازواج مطہرات سے متعلق ذکر ہوا ہے۔ چنانچہ وہاں شامل نہیں کیا گیا۔
[123]۔ اصل میں ’يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلاَبِيْبِهِنَّ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں تبعیض ہمارے نزدیک ’جِلْبَابًا مِّنْ جَلاَبِيْبِهِنَّ‘کے مفہوم پر دلالت کے لیے ہے، یعنی اپنے گھروں میں موجود چادروں میں سے کوئی بڑی چادر جو بالعموم اوڑھنی کے اوپر لی جاتی تھی۔
[124]۔ اِن الفاظ سے بھی واضح ہے اور حکم کا سیاق و سباق بھی بتا رہا ہے کہ یہ عورتوں کے لیے پردے کا کوئی حکم نہیں تھا، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے اُن کی الگ شناخت قائم کر دینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اور تہمت تراشنے والوں کے شر سے اُن کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ وہ اندیشے کی جگہوں پر جائیں تو دوسری عورتوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کے بہانے سے اُن پر تہمت لگانے کے مواقع پیدا کرکے کوئی اُنھیں اذیت نہ دے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو منافقین کے اشرار اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو فوراً کہہ دیتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی*۔
[125]۔ یعنی حسد، کینہ اور بغض و عناد کی بیماری ہے۔ یہ بھی منافقین ہی کے ایک گروہ کی طرف اشارہ ہے جو صرف منافق ہی نہیں تھا، اِس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے دل میں سخت عناد بھی رکھتا تھا اور مسلمانوں کے اندر داخل ہوکر اُن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
[126]۔ اصل میں لفظ ’اِرْجَاف‘استعمال ہوا ہے، یعنی لوگوں کے اندر اضطراب اور بے چینی پھیلانے کے ارادے سے فتنہ انگیزخبروں کا پروپیگنڈا کرنا۔ اِس گروہ کا کردار پیچھے کئی مقامات پر زیر بحث آچکا ہے۔سیدہ زینب کے نکاح کے معاملے میں بھی یہی سب سے بڑھ کر فتنہ انگیزی کر رہا تھا۔
[127]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِن کے معاملے میں اب تک عفوودرگذرہی کی ہدایت کی گئی تھی۔
[128]۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اوپر کا حکم کس طرح کے اشرارسے مسلمانوں کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔
[129]۔ یعنی جن کی طرف اِس سے پہلے رسولوں کی بعثت ہوئی۔
[130]۔ اِس لیے کہ تم بھی خدا کے رسول ہو اور تمھارے دشمنوں کے ساتھ بھی خدا وہی کرے گا جو رسولوں کے دشمنوں کے ساتھ اِس سے پہلے کرتا رہا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۳/ ۵۱۸۔