سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اُن انبیا میں سے تھے، جنھیں اللہ نے منصبِ رسالت پر سرفراز کیا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے اور اُن پر اتمام حجت کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ فرشتوں نے آپ کی ولادت کے ساتھ آپ کی رسالت کی بشارت بھی آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم علیہا السلام تک پہنچا دی تھی۔ آل عمران میں مذکور ہے:
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ. ﶫوَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ. قَالَتْ رَبِّ اَنّٰي يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌﵧ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُﵧ اِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ. وَيُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ. وَرَسُوْلًا اِلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ. (۳: ۴۵- ۴۹)
’’اِنھیں یاد دلاؤ، جب فرشتوں نے کہا: اے مریم، اللہ تجھے اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے۔ اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ وہ دنیا اور آخرت، دونوں میں صاحب وجاہت اور مقربین میں سے ہو گا۔لوگوں سے گہوار ے میں بھی (اپنی نبوت کا) کلام کرے گا اوربڑی عمر کو پہنچ کربھی اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔وہ بولی: پروردگار، میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔ فرمایا: اِسی طرح اللہ جو چاہے ،پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کو اتنا ہی کہتاہے کہ ہو جا، پھر وہ ہوجاتا ہے۔ (لہٰذا اِسی طرح ہوگا)اور اللہ اُسے قانون اورحکمت سکھائے گا، یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔ اور اُس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔‘‘
اِس مقام پر مسیح علیہ السلام کے منصب رسالت کے لیے ’رَسُوْلًا اِلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ امام امین احسن اصلاحی اِن کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’’رَسُوْلًا‘سے پہلے ایک فعل محذوف ہے۔ یعنی ’يَبْعَثُهٗ رَسُوْلًا‘۔ سیدنا مسیح حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح صرف ایک نبی نہیں تھے، بلکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، اُسی طرح یہ بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ رسول اور نبی میں فرق ہوتا ہے۔ رسول جس قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے ،اُس کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے۔ اِس کے لازمی نتیجے کے طور پراُس قوم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ایمان لاتی ہے تو نجات پاتی ہے اور اگر اپنے کفر پر اڑی رہ جاتی ہے اور اپنے نبی کو گزند پہنچانے کی کوشش کرتی ہے تو فنا کر دی جاتی ہے۔ اِس حقیقت کی طرف حضرت یحییٰ علیہ اسلام نے مختلف اسلوبوں سے اشارہ فرمایا تھا۔ مثلاً یہ کہ ’میں تو تمھیں پانی سے بپتسمہ دے رہا ہوں، پر جو آ رہا ہے، وہ تمھیں آگ سے بپتسمہ دے گا، یا یہ کہ، اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے‘؛ یا یہ کہ اُس کے ہاتھ میں اُس کا چھاج ہو گا اور وہ اپنے کھلیان کو اچھی طرح پھٹکے گا اور گندم کو بھس سے علیحدہ کرے گا...۔
اِس سے حضرت عیسیٰ کی رسالت کا بنی اسرائیل کے لیے خاص ہونا بھی واضح ہو گیا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا خود اپنا اعلان بھی یہی ہے۔ اُنھوں نے جب اپنے حواریوں کو تبلیغ دین کی مہم پر روانہ کیا تو اُن کو غیر بنی اسرائیل کی طرف جانے سے نہایت صاف لفظوں میں روک دیا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ ’میں صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں ہی کی تلاش کے لیے آیا ہوں‘۔ ایک غیر اسرائیلی عورت اُن سے دعاے شفا کی طالب ہوئی تو اُنھوں نے اُسے جواب میں یہی کہا کہ ’بچوں کے حصے کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنا ٹھیک نہیں۔‘ انجیل میں ضیافت والی جو تمثیل ہے، اُس میں بھی اِسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کی دعوت جن معروفات پر مبنی تھی، یہ معروفات بنی اسرائیل کے لیے دلیل و حجت بن سکتے تھے، لیکن دوسری قوموں کے لیے اِن کا سمجھنا ممکن نہیں تھا۔ اِس وجہ سے یہ دعوت اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے دوسری قوموں کے لیے بالکل ناموزوں تھی۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ دوسری قوموں نے، جن کے سامنے یہ دعوت پیش کی گئی، اِس کو بالکل نہیں سمجھا۔ اُنھوں نے انجیلوں سے بس یہ سمجھا کہ حضرت عیسیٰ نے بے شمار معجزے دکھائے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۹۵)
حضرت مسیح کی وجاہت آپ کی رسالت کا خاص جز تھی۔ مذکورہ آیات میں اِس کے لیے ’وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ‘کے الفاظ آئے ہیں، یعنی آپ دنیا اور آخرت، دونوں میں صاحبِ وجاہت ہوں گے۔ اِس وجاہت کی کیا نوعیت تھی، اِسے امام امین احسن اصلاحی نے لوقا کی انجیل کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...لوقا کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ ۱۲سال کی عمر میں حضرت مسیح نے پہلی بارہیکل میں تعلیم دی ، لیکن اِس کم سنی کے باوجود اُن کی تعلیم کی حکمت و معرفت، کلام کی بلاغت و جزالت اور لب ولہجہ کی عظمت و جلالت کا عالم یہ تھا کہ فقیہ اورفریسی، سردار و کاہن اورہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ وہ حیرانی کے عالم میں ایک ایک سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے جو اِس شکوہ سے بات کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اِس کو اختیار ملاہوا ہے۔ یہودیہ کی بستیوں میں جب اُنھوں نے تبلیغ شروع کی تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہلچل مچ گئی۔ خلقت اُن پر ٹوٹی پڑتی تھی۔ فقیہ اورفریسی سب پر ایک سراسیمگی کا عالم تھا، وہ اُن کو زچ کرنے اورعوام میں اُن کی مقبولیت کم کرنے کے لیے اُن سے طرح طرح کے سوالات کرتے، لیکن سیدنا مسیح دو دو لفظوں میں اُن کو ایسے دندان شکن جواب دیتے کہ پھر اُن کو زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوتی۔ تھوڑے ہی د نوں میں اُن کی وجاہت کا یہ غلغلہ ہوا کہ عوام اُن کو اسرائیل کا بادشاہ کہنے اوراُن کی بادشاہی کے گیت گانے لگے، یہاں تک کہ رومی حکام ـــــ ـ ہیرو دیس اورپیلاطوس ــــــ کے سامنے بھی یہ مسئلہ ایک نہایت اہم مسئلہ کی حیثیت سے آگیا ، لیکن وہ بھی اپنی تمام قوت و جبروت کے باوجود سیدنا مسیح کی عظمت وصداقت اور اُن کی بے پناہ مقبولیت سے مرعوب ہوگئے۔
اِس وجاہت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ باوجود یکہ سیدنا مسیح بن با پ کے پیدا ہوئے اوربن باپ کے پیدا ہونے والے کسی بچے کے لیے عام حالات میں کسی عزت و وجاہت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، لیکن سیدنا مسیح چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمۂ ’كُنْ‘ سے پیدا ہوئے تھے، اِس وجہ سے اِس کا معجزانہ اثر یہ ظاہر ہوا کہ روزِ اول سے اُن کو خلق کی نگاہوں میں وہ وجاہت حاصل رہی جو اُس عہد میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ زندگی بھر اپنے جانی دشمنوں میں گھرے رہے ، لیکن اِس پہلو سے کسی کو اُن پر طعن کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ۔ یہود کے ایک گروہ نے اگر جسارت بھی کی تو بعد کے زمانوں میں کی، اُن کے عہد ِمبارک میں کسی کو بھی اِس قسم کی جرأت نہ ہوسکی۔ اُن کی اِس وجاہت کی بشارت اُن کی ولادت کی بشارت کے ساتھ ہی حضرت مریم کو اِس لیے دی گئی کہ اُن کو اِس پہلو سے کوئی خلجان نہ ہو کہ بن باپ کے پیدا ہونے کے سبب سے بچے کی یا خود اُن کی وجاہت پر کوئی اثر پڑے گا۔
اِس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اِس سے اُن تمام خرافات کی تردید ہورہی ہے، جو انجیلوں میں مذکورہیں کہ یہودیوں نے سیدنا مسیح کے نعوذ باللہ طمانچے لگائے، اُن کا مذاق اڑایا، اُن کو گالیاں دیں، اُن کے منہ پرتھوکا۔ اِن خرافات کا اکثر حصہ، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے،غلط ہے۔ اللہ کے رسولوں کے دشمن اُن کی توہین و تحقیر کی جسارت تو کرتے ہیں اوراِس سلسلے میں ایک حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو ڈھیل بھی مل جاتی ہے ، لیکن یہ ڈھیل بس ایک خاص حد تک ہی ہوتی ہے ، جب کوئی قوم اِس حد سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے اور اُس ناہنجار قوم کا بیڑا غرق کر دیا جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۹۲ -۹۳)
اللہ کے رسول کی حیثیت سے حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت کے بنیادی نکات یہ تھے:
۱۔ تورات کی تصدیق،
۲۔ بعض حرمتوں کی تحلیل،
۳۔ اختلافات کی توضیح،
۴۔ آیندہ آنے والے نبی آخرالزماں کی بشارت ۔
قرآن مجید کے مختلف مقامات سے اِنھی کی وضاحت ہوتی ہے۔
سورۂ آل عمران میں آیا ہے کہ آپ کی بعثت کا مقصد تورات کے قوانین کی تائید اور اُس کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کرنا تھا۔ اِسی ضمن میں آپ کا کام اُن چیزوں کو لوگوں کے لیے حلال کرنا تھا، جو اللہ کی شریعت میں تو حلال تھیں، مگر علماےبنی اسرائیل نے اُنھیں اپنی جانب سے حرام قرار دے رکھا تھا:
وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْﵴ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ. اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُﵧ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ. (۳: ۵۰-۵۱)
’’اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو مجھ سے پہلے آچکی ہے اور اِس لیے آیا ہوں کہ تمھارے لیے بعض اُن چیزوں کو حلال ٹھیراؤں جوتم پر حرام کردی گئی ہیں، اور (دیکھو) میں تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔ یقیناً اللہ ہی میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔‘‘
سورۂ صف میں بیان ہوا ہے کہ آپ کے فرائضِ منصبی میں یہ فریضہ بھی شامل تھا کہ آپ اپنے بعد میں آنے والے رسول کی بشارت دیں۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کی تصریح کے ساتھ اِس خوش خبری کا اعلان کیا تھا:[1]
وَاِذْ قَالَ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًاۣ بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۣ بَعْدِي اسْمُهٗ٘ اَحْمَدُﵧ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ. (۶۱: ۶)
’’ اُن کی یہ ٹیڑھ اِسی طرح قائم رہی۔ یاد کرو، جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تورات کی اُن پیشین گوئیوں کا مصداق ہوں جو مجھ سے پہلے موجود ہیں، اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا۔ مگر اُن کے پاس جب وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر آگیا تو اُنھوں نے کہا: یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘
سورۂ زخرف میں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت کے مقاصد میں ایک مقصد بنی اسرائیل کے مذہبی اختلافات کو رفع کرنا بھی تھا۔ یہ اختلافات اُن کی ظاہر پرستی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے:[2]
وَلَمَّا جَآءَ عِيْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِاُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِﵐ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ. (۴۳: ۶۳)
’’اور (یاد رکھو کہ) جب عیسیٰ کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا تھا تو اُس نے یہ دعوت دی تھی کہ (لوگو)، میں تمھارے پاس حکمت لے کر آگیا ہوں، اِس لیے کہ تم کو دین کی حقیقت سمجھا دوں اور اِس لیے کہ میں تم پر بعض اُن باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔ سو اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔‘‘
حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان معجزات اور خوارق سے لیس کر کے بھیجا تھا۔ وہ اللہ کی مجسم آیت تھے۔ اُن کی پیدایش بھی خارقِ عادت تھی اور اُن کا گہوارے میں کلام کرنا بھی اللہ کی عظیم نشانی تھی۔ پھر جب اُنھوں دعوت کا سلسلہ شروع کیا تو اللہ نے اپنی بینات کو بھی اُس کے ساتھ شامل کر دیا ۔ مزید برآں، باقی رسولوں کی طرح آپ کے لیے بھی روح القدس، یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کی مدد کا بندوبست فرمایا۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے:
وَاٰتَيْنَا عِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ. (۲: ۸۷)
’’اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اُس کی تائید کی۔‘‘
اِس کے باوجود بنی اسرائیل نے آپ کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا۔ معجزات کو اُنھوں نے معاذ اللہ شیاطین اور بھوتوں کے سردار کی کارفرمائی قرار دیا ۔ امام امین احسن اصلاحی سورۂ بقرہ کی اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’...’بَيِّنٰت‘ سے مراد وہ معجزات ہیں، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے اور جو اِس قدر واضح تھے کہ اُن کے خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی ہٹ دھرم ہی شک کر سکتا تھا ۔ لیکن یہود نے اِن کھلے کھلے معجزات کو بھی تائید ربانی اور فیض روح القدس کا نتیجہ قرار دینے کے بجاے نعوذ باللہ شیطانی تصرف کا نتیجہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ معجزے شیطانوں اور بھوتوں کے سردار بعلزبول کی مدد سے دکھاتے تھے۔ قرآنِ مجید نے یہود کے اِسی الزام کی تردید کرتے ہوئے حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بار بار یہ فرمایا ہے کہ ’اَيَّدْنٰهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ‘ (ہم نے روح القدس سے اس کی مدد کی) ۔ یعنی اُس سے جو معجزے صادر ہوئے، یہ تائید روح القدس کا نتیجہ ہیں، نہ کہ کسی شیطان یا جن کی مدد کا، جیسا کہ یہود سمجھتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۲۶۸)
آل عمران میں اِن معجزات کی تفصیل کی گئی ہے۔ اِس کے مطابق وہ لوگوں کو بتا دیتے تھےکہ وہ کیا کھا کرآئے ہیں ، وہ یہ بھی جان لیتے کہ لوگوں نے اپنے گھروں میں کیا کچھ جمع کر رکھا ہے، وہ مٹی کا پرندہ بنا کر اُس میں پھونک مارتے تو وہ حقیقی پرندہ بن جاتا تھا، وہ پیدایشی اندھے کو بینا کر دیتے، کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریض اُن کے پاس آ کر شفا یاب ہو جاتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مردہ انسانوں کو زندہ کر دیتے تھے۔ اِن تمام معجزات کا ظہور، ظاہر ہے کہ اللہ کے اذن سے ہوتا تھا۔ چنانچہ اللہ نے باذن اللہ کے الفاظ کا مکرر ذکر فرمایا ہے تاکہ اِس معاملے میں ادنیٰ درجے میں بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہونے پائے۔ ارشاد ہے:
وَرَسُوْلًا اِلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَﵿ اَنِّيْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْﵖ اَنِّيْ٘ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْـَٔةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًاۣ بِاِذْنِ اللّٰهِﵐ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْيِ الْمَوْتٰي بِاِذْنِ اللّٰهِﵐ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَﶈ فِيْ بُيُوْتِكُمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ. (۳: ۴۹)
’’اوراُس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔ (چنانچہ یہی ہوا اوراُس نے بنی اسرائیل کو دعوت دی کہ)میں تمھارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمھارے لیے مٹی سے پرندے کی ایک صورت بناتا ہوں، پھر میں اُس میں پھونکتا ہوں تو اللہ کے حکم سے وہ فی الواقع پرندہ بن جاتی ہے؛ اور مادر زاد اندھے اورکوڑھی کو اچھا کرتا ہوں؛ اوراللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتا ہوں؛ اور میں تمھیں بتا سکتا ہوں جو کچھ تم کھا کر آتے ہواورجو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ اِس میں تمھارے لیے یقیناً ایک بڑی نشانی ہے، اگرتم ماننے والے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی کتاب بھی نازل فرمائی۔ یہ انجیل تھی ، جو اللہ کی حکمت کا خزانہ تھی ۔ اِس میں رأفت و رحمت تھی اور بنی اسرائیل کے لیےہدایت اور روشنی تھی۔اِس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ اُس کی مصدق ثابت ہوئی۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:
وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًي وَّنُوْرٌﶈ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًي وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ. (۵ :۴۶)
’’اور ہم نے اُس کو انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی جو اُس سے پہلے موجود تھی، خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کے طور پر۔‘‘
انجیل اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت تھی۔ استاذِ گرامی نے اِس کے بارے میں لکھا ہے:
’’یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اِسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔‘‘ (میزان ۱۵۷)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ استاذ ِگرامی نے اِس آیت کے تحت ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے:
’’یعنی تورات کو اپنی نبوت و رسالت کی دلیل کے طور پر پیش کرنے کے بعد اُنھوں نے اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دی۔ یہ بشارت اگرچہ اکثر انبیا نے دی ہے، لیکن آں جناب کی بشارت بعض پہلوؤں سے بالکل مختلف ہے:
ایک یہ کہ اِس بشارت کو اُنھوں نے اپنی بعثت کا خاص مقصد بتایا ہے، یہ اُن کا کوئی ضمنی کام نہیں تھا۔ چنانچہ اُن پر جو صحیفہ نازل ہوا، اُس کا نام ہی انجیل ہے جس کے معنی یونانی میں بشارت کے ہیں۔ اِس نام سے موسوم ہونے کی کوئی وجہ اگر سمجھ میں آتی ہے تو وہ یہی ہے کہ اُن کا امتیازی وصف اور خاص مشن یہی تھا کہ اپنے بعد آنے والے آخری رسول کی بشارت دیں۔ آسمانی بادشاہت سے وہ اِسی رسول کے عہد مبارک کو تعبیر کرتے اور اپنی تمثیلات میں اُس کے ظہور اور ارتقا کی پوری تصویر کھینچ دیتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ’يَاْتِيْ مِنْ م بَعْدِي‘ کے الفاظ سے اُنھوں نے اِس رسول کے ظہور کا زمانہ بھی پوری قطعیت کے ساتھ متعین کر دیا ہے۔ چنانچہ کوئی انصاف پسند شخص اِس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بعد تنہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شخصیت ہے جس پر وہ تمام صفات اور تمثیلات پوری طرح منطبق ہوتی ہیں جو آں جناب نے بیان فرمائی ہیں۔
تیسرا یہ کہ اُنھوں نے یہ بشارت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کی صراحت کے ساتھ دی ہے۔ اِس کے شواہد انجیلوں میں جگہ جگہ دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔‘‘(۵/ ۱۹۳-۱۹۴)
۲۔ اِن اختلافات کی نوعیت امام امین احسن اصلاحی نے ’’تدبر قرآن‘‘ میں اِن الفاظ میں بیان کی ہے:
’’...حضرت عیسیٰ علیہ السلام کسی نئی شریعت کے داعی نہیں تھے، بلکہ وہ تورات ہی کے مصدق تھے۔ البتہ اُنھوں نے حکمت، یعنی روح دین اور مغز دین سے بنی اسرائیل کو آشنا کرنا چاہا ،لیکن اُنھوں نے اِس کی کوئی قدر نہیں کی۔ بلکہ اپنی اُسی ظاہر پرستی میں مبتلا رہے، جس میں مبتلا تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اصل دین تو اُن کے اندر سے غائب ہو گیا ،البتہ کچھ رسوم رہ گئے جن کو ادا کر کے وہ مطمئن ہو جاتے کہ اللہ اور اُس کے دین کے تمام حقوق سے وہ سبکدوش ہو گئے۔
اگر دین کی حکمت غائب ہو جائے، صرف رسوم اور الفاظ باقی رہ جائیں تو اُس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ دین کے اندر طرح طرح کے اختلافات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جن کو دور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہود بھی حکمت دین سے محروم ہو جانے کے بعد اِسی فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تعلیم حکمت کے ذریعہ سے اُن کے اِن مذہبی اختلافات کو دور کرنا چاہا ،لیکن یہود نے اِس حکمت کی قدر نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے اختلافات برابر بڑھتے ہی رہے، یہاں تک کہ وہ اپنے اُس انجام کو پہنچ گئے، جو اُن کی اِن ناقدریوں کا لازمی نتیجہ تھا۔‘‘ (۷/ ۲۴۵- ۲۴۶)