HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

بچوں کے ادب میں تشدد پسندی اور سفاکیت

جانے انجانے میں بچوں کے ادب میں سفاکیت اور تشدد پسندی کے عناصر کا در آنا ہماری خاص توجہ کا متقاضی ہے۔

ہمٹی ڈمٹی کی بے بسی، اس کا دیوار سے گرنا اورٹوٹ کرجڑنہ سکنا، ایک المیہ ہے، نہ کہ طربیہ کہ جس سے لطف کشید کیا جائے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی شہرۂ آفاق نظموں کے مجموعے’’ جھولنے‘‘کی نظم:

چیونٹی کاسر پھوڑ دو

چلاّئے تو چھوڑ دو

سانپ کی دم مروڑ دو

چلاّئے تو چھوڑ دو

بے حسی اور سفاکیت کی تعلیم دیتی ہے، جو بچپن میں ذہنوں میں جگہ بنا لیتی ہے۔ اونٹ اور گیدڑ کی کہانی میں اونٹ کا گیدڑ سے بدلہ لینے کے لیے اسے دریا میں ڈبو کر مار ڈالنا، برائی کے بدلے میں اس سے زیادہ برائی کا بیانیہ ہے۔ روبن ہڈ کی کہانی میں امیروں سے مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرنے کو ہیروازم سمجھنا نیک نیتی کی بنیاد پر قانون شکنی کے جواز کی تعلیم دیتا ہے۔ دولت مند سے محض اس کی دولت مندی کی وجہ سے نفرت اور پھر اس کی دولت کو قانونی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے چھین لینے کی خواہش کے پیچھے اسی قسم کے خیالات کارفرما ہوتے ہیں۔ ون مین آرمی جیسی فلموں سے طاقت کے بل پر مسائل کو حل کرنے کی خُو پیدا ہوتی ہے۔

بچوں کے ادب میں یہ منفی خیالات بہت غیر محسوس انداز سے بچوں کے ذہن کا حصہ بنتے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بد نما رویوں کو پھیلاتے ہیں۔ مخبوط الحواس افراد کو چھیڑنا، سوئے ہوئے کتے کوپتھر مارنا، پنجرے میں قید جانوروں اور پرندوں کو ستانا، کیڑے مکوڑوں کو بلا وجہ کچل دینا، لوگوں پر دھونس جما کر طاقت اور اختیار کے سوء استعمال کا لطف اٹھانا، ماحول کے اثر کے علاوہ ایسی تعلیمات سے جواز بھی پاتے ہیں۔

بچوں کے ادب میں منفی رویوں کی موجودگی کی نشان دہی اور اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسکولوں میں تفریح کے اوقات کی بندش کی سزا

اسکولوں میں جب سے طلبا کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان کی تنبیہ و تادیب کے لیے متبادل طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں، جن میں کچھ معقول اور مناسب ہیں، لیکن کچھ جسمانی سزا سے بھی زیادہ مضر نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک طلبا کی تفریح کے اوقات (Break Time) کی بندش ہے۔

تفریح کا مختصر دورانیہ بچوں کا محبوب ترین وقت ہوتا ہے۔ پے در پے اسباق کی تدریس سے تھکے ہوئے اذہان کے لیے نصف یا پون گھنٹے کی تفریح بڑی غنیمت ہوتی ہے، جس میں وہ اپنی تھکن بھی اتار لیتے اور آنے والے اسباق کے لیے کچھ تازہ دم بھی ہو جاتے ہیں۔ اس دوران میں وہ دیگر طلبا سے تعامل، مسابقت، تصادم، دوستی اور دشمنی وغیرہ کے غیر نصابی اسباق بھی سیکھتے ہیں، جو ان کی عملی زندگی کے لیے ضروری ہیں، نیز ان کی جسمانی توانائی بھی درست مصرف میں خرچ ہوتی ہے۔

اس قیمتی وقت کی بطور سزا بندش ناقابل تلافی نقصان ہے، جو طالب علم کی کسی بھی کوتاہی یا قصور کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ خصوصاً کم سن بچوں کے لیے تو یہ سزا انھیں دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ 

کھیل بچوں کے لیے عبادت کی طرح ہے اور کسی کو حق نہیں کہ بچے کو اس کی عبادت سے روک دے۔

تفریح کی بندش سے بچے میں جو پژمردگی پیدا ہوتی ہے، وہ تفریح کے بعد کے اسباق کے لیے اس کی ذہنی حاضری اور سیکھنے کی سکت کو بھی شدید متاثر کردیتی ہے۔ اگر کسی تعلیمی کوتاہی کی بنا پر بچے کو یہ سزا دی گئی ہے تو یہ اس کے مزید تعلیمی نقصان کا باعث بنتی ہے۔

تادیب و تنبیہ کے لیے کوئی بھی معقول اور موثر طریقہ سوچا جا سکتا ہے، مگر تفریح کے اوقات کی بندش کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B