HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

دین داری یا مسلک پرستی

۲۴/ جون ۲۰۲۲ء کا واقعہ ہے۔ ہمارے محلے کے ایک عزیز کے ہاں عقد نکاح کا پروگرام تھا۔اِس موقع پر اُن کے بہت سے اعزہ یہاں آئے ہوئے تھے۔ اِن میں ایک ”مفتی صاحب“بھی تھے۔وہ اپنے علاقے میں سنی مسلک کے ایک غالی نمایندہ مانے جاتے ہیں۔ ملاقات ہوئی تو میں نے بڑھ کر سلام کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے رشتے کے ایک عزیز ہیں۔چنانچہ اُنھیں گھر پر مدعو کیا۔

اِس دوران میں دل سوزی اورحکمت کے ساتھ تبادلۂ خیال جاری رہا۔میں نے ایک بات یہ کہی کہ ہم مسلکی مسلمان ہیں، مگر ہم محمدی مسلمان نہیں۔انھوں نے اِس کا مطلب پوچھا تو میں نے کہا:اسوۂ رسول کے مطابق، محمدی مسلمان سے مراد اللہ سے ڈرنے والااور تعصبات سے بلند ہو کر عملا ًانسانوں کے ساتھ حسن اخلاق کا معاملہ کرنے والا آدمی ہے۔ انھوں نے اِس بات سے پوری طرح اتفاق کیا اور کہا:اگر ہم محمدی بن سکیں، پھر تو سارے جھگڑے ہی ختم ہوجائیں گے۔

اِس دوران میں نماز  عشا کا وقت ہوگیا۔میں نے اُن کے ذہن کو دیکھتے ہوئے عمداً نماز کے لیے اُن سے نہیں کہا، مگر انھوں نے خودہی فرمایا: ہم بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے چلیں گے۔ میں نے کہا: ضرور۔ مسجد پہنچے تو جماعت کا وقت ہورہاتھا۔میں نے اُنھی سے نماز پڑھانے کی درخواست کی۔ چنانچہ وہ مقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئے اور ’حيّ علي الصلوٰة‘ پر کھڑے ہوکر نماز کی امامت فرمائی۔ نماز کے بعد میں نے کہا: آج جمعہ کا مبارک دن ہے۔ آپ نعت  پاک کے چند اشعار پڑھ دیں تو ہمارے دلوں میں بھی ایمان اور محبت رسول کی حرارت پیدا ہو جائے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور چند اشعار پیش فرمائے۔ پھر میں نے صلوٰۃ وسلام کی گزارش کرتے ہوئے کہا: اگر آپ سلام پڑھ دیں تو آج جمعہ کے اِس دن کا حسن خاتمہ صلوٰۃ وسلام پر ہو گا۔ چنانچہ انھوں نے سلام پڑھا اور ہم لوگ کھڑے ہوکر اُن کے ساتھ صلوٰۃ و سلام کی اِس محفل میں شریک ہوئے۔

 وہ بہت خوش ہوئے اور سلام کے بعدانتہائی پرجوش انداز میں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آپ حضرات کے متعلق ہم پہلے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کو حضور سے محبت نہیں، مگر آج ہماری غلط فہمی دور ہوگئی۔پھر انھوں نے کہا: آج ضرورت ہے کہ ہر جگہ ایسا ماحول بنایا جائے اور ایسے امام تیار کیے جائیں جو مسلک پرستی سے بلند ہوکر لوگوں کو اللہ اور رسول کی طرف بلائیں تاکہ امت کا انتشار ختم ہو اور ہم سب مل کر انسانوں کی بھلائی اور اُن کی فلاح کا کام موثر انداز میں کرسکیں۔بعد میں معلوم ہواکہ اِس تجربے سے متاثر ہوکر موصوف اب مسلکی تشدد کے بجاے اعتدال اور توسط کے داعی بن گئے ہیں۔

اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہم محبت اور حکمت کے ساتھ دعوت الی اللہ کا کام کریں تو ہمارے درمیان اِس طرح کے بہت سے مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بے روح اور مبنی بر جمود ’مذہبیت‘اور متشددانہ مسلک پرستی کے بجاے خدا کے سچے دین کو اختیار کریں۔ یہی سچا دین ہمارے لیے مطلوب صراط مستقیم اور رسول خدا کا اصل مسلک قرار پائے گا۔

[لکھنؤ، ۱۰/ ستمبر ۲۰۲۲ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

B