HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۱۵)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین

کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ،ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت سویبط بن سعد  رضی اللہ عنہ

شجرہ ٔ نسب

حضرت سویبط ( شاذ روایت: سلیط)بن سعد كا تعلق قریش كے قبیلے بنو عبدالدار بن قصی سے تھا۔سوانح نگاروں  نے ان كے والد كا نام سعد بن حرملہ(ابن عبد البر)، سعد بن حریملہ یا حرملہ بن مالك (ابن اثیر،ابن حجر) بتایا ہے۔ بانی  قبیلہ عبدالدار پہلی اور دوسری  صورت میں حضرت سویبط كے چھٹے اورتیسری صورت میں پانچویں جد بنتے ہیں ۔كچھ مؤرخین یہ بھی كہتے ہیں كہ حرملہ كو والد قرار دینے والوں نے  اصل میں انھیں ان كے دادا كی طرف منسوب كر دیا ہے۔قصی پر حضرت سویبط كا سلسلۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرے سے جاملتا ہے۔ عبدالدار كے بھائی عبد مناف  بن قصی آپ كے چوتھے جد تھے۔  بنو خزاعہ كی ہنیده بنت خباب حضرت سویبط كی والدہ تھیں ۔

قبول دین حق

حضرت سویبط ابتداے اسلام میں ایمان لے آئے۔

ہجرتین

حضر ت سویبط صاحب الہجرتین تھے۔ پہلی ہجرت حبشہ كی طرف كی ،وہاں سے جلد مكہ لوٹ آئے۔ وه ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو مشركین مكہ كے ایمان لانے كی افواہ سن كر مكہ میں داخل ہوئے۔پھر  انھوں نے یہاں  سے مدینہ كو ہجرت ثانیہ كی۔

مدینہ میں آمد اور مواخات

مدینہ میں حضرت سویبط قبا میں حضرت عبدالله بن سلمہ عجلانی كے مہمان ہوئے۔حضرت عبیده بن حارث، حضرت طفیل بن حارث، حضرت حصین بن حارث،حضرت مسطح بن اثاثہ،حضرت طلیب بن عمیر اور حضرت خباب بن ارت بھی ان كے ساتھ ٹھیرے ۔

 نبی صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں  مواخات قائم فرمائی تو بنو زریق كے حضرت عائذ بن ماعص كو حضرت سویبط كا انصاری بھائی قرار دیا۔

غزوۂ بدر

حضرت سویبط بن سعدنے جنگ بدر میں بھرپور حصہ لیا۔

جنگ احد

حضرت سویبط بن سعد نے جنگ احد میں  جاں فشانی سے حصہ لیا۔

افراط مزاح

حضرت سویبط خوش طبع تھے ۔حضرت ام سلمہ نے ان كے افراط مزاح كا ایك قصہ بیان كیا ہے: حضرت ابوبكر رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی وفات سے ایك سال قبل تجارت كے لیے بصریٰ[*] گئے ۔دو بدری اصحاب حضرت نعیمان بن عمرو اور حضرت سویبط بن سعد ان كے ساتھ تھے۔زادراه حضرت نعیمان كے سپرد تھا۔ حضرت سویبط نے حضرت نعیمان  سے كھانا مانگا تو انھوں نے حضرت ابوبكر  كے آنے تك انتظار كرنے كو كہا، جو اس وقت موجود نہ تھے۔اس اثنا میں حضرت سویبط كو شرارت سوجھی۔وه ایك برده فروش كے پاس گئے اور كہا: ہمارے پاس نعیمان  نامی ایك ہوشیار عربی غلام ہے ، دس چھوٹے اونٹوں كے عوض اسے خرید لیجیے ، خیال رہے كہ وه اپنے غلام ہونے كا انكار كرے گا۔ اس كے كہے كی پروا نہ كیجیے گا۔تاجر نے اونٹ ان كے حوالے كیے اور رسی یا  عمامہ لے كر حضرت نعیمان كے پاس آیا ۔وه كہتے رہے: میں غلام نہیں ،آزاد ہوں ۔ تاجر نے ایك نہ سنی اور ان كے گلے میں عمامہ باندھ كر لے گیا۔اسی وقت حضرت ابوبكر آن پہنچے اور اونٹ واپس كر كے حضرت نعیمان كو چھڑایا۔  رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كو اس قصے كا پتا چلا توسب مسكرا دیے(ابن ماجہ ، رقم 3719۔ احمد، رقم  26687۔ مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم 1864۔شرح مشكل الآثار، رقم 1620)۔

طحاوی نے یہ واقعہ برعكس بیان كیا ہے، یعنی ان كے نزدیك حضرت نعیمان  نےدل لگی كركے حضرت سویبط كو غلامی كے لیے پیش كیا۔ابن اثیر نے بھی اسے ور ست قرار دیا ہے۔

امام ابوداؤد،امام نسائی، یحیی ٰ بن معین ، ابوحاتم ،ابوزرعہ اور ابن حجر نے اس حدیث كے راو ی زمعہ بن صالح كو ضعیف قرار دیاہے۔

المعجم الكبیر ،طبرانی، رقم 19176 اور مسند ابوداؤد طیالسی، رقم 1705میں یہ واقعہ مكمل بیان نہیں ہوا۔

كیا حد سے بڑھا ہوا مذاق كرنا جائز ہے؟

امام طحاوی نے یہ عنوان قائم كر كے  اس روایت كو نقل كیا ہے:رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی، اشكال ركھنے والی ان حل طلب روایات كا بیان، جن میں  مزاح كر كے كسی كو خوف زده كرنے كا ذكر ہوا ہے،آیا ایسا كرنے والے كا عمل جائز ہے یا اسے اس سے منع كیا جائے گا؟ پھر وه كہتے ہیں :كہنے والا كہہ سكتا ہے كہ حضرت نعیمان  نے حضرت سویبط سے جو مذاق كیا، چونكہ اس كا ذكر سن كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور تمام صحابہ ہنس پڑے  ،اس لیے یہ اس بات كی دلیل ہے كہ ایك مسلما ن كا مخول كركے دوسرے مسلمان كو ڈرانا جائزہے۔

 اس كے بعد انھوں نے  حضرت سویبط كے واقعے سے ملتا جلتا ایك دوسرا واقعہ بیان كیا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علقمہ بن مجزز مدلجی  كی قیادت میں ا یك سریہ بھیجا۔راستے میں آپ نے حضرت عبدالله بن حذافہ كی امارت میں ایك دستے كو الگ ذمہ داری سونپ دی۔ وه اصحاب بدر میں سے تھے، لیكن ہنسی ، دل لگی كا ذوق ركھتے تھے۔مہم سے واپسی پر لوگوں نے كھانا پكانے كے لیے آگ جلائی تو حضرت عبدالله بن حذافہ نے ساتھیوں سے پوچھا:كیا میری اطاعت تم پر واجب نہیں ؟انھوں  نے جواب دیا:ہاں ہے۔تب تو تمھیں میرا ہر حكم ماننا پڑے گا،اٹھو اور اس آگ میں كود جاؤ ۔كچھ صحابی اٹھے اور آگ میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبدالله ہنس پڑے اور كہا :ركو ركو، میں تو تم سے مذاق كر رہا تھا۔ یہ بات رسول الله صلی الله علیہ وسلم تك پہنچی تو فرمایا: اب تو تم نے ایسا حكم مان لیا ہے ،آینده الله كی نافرمانی میں دیے ہوئے حكم میں حكمرانوں كی  اطاعت نہ كرنا  (ابن ماجہ، رقم 2863۔ احمد، رقم 11639۔مصنف ابن ابی شیبہ،ر قم 34397۔مسند ابویعلیٰ، رقم 1349۔صحیح ابن حبان، رقم  4558 )۔

امام طحاوی كہتے ہیں: ان دونوں احادیث میں اس بات كی كوئی دلیل نہیں كہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایك دوسرے كے ساتھ ایسا سلوك كرنے كی اجازت دے دی ہے۔ان واقعات میں آپ كی طرف سے صریح نہی كا نہ ہونا ایسے ہی ہے، جیسے حضرت جابر بن سمرہ كی اس روایت سے واضح ہوتا ہے: میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كی مجالس میں سیكڑوں بار شركت كی ہے۔ صحابہ اشعار پڑھتے اور  جاہلیت كے واقعات سناتے۔آپ سكوت كرتے اور بسااوقات تبسم بھی فرماتے (ترمذی،ر قم 2850۔ احمد،رقم 21010۔صحیح ابن حبان، رقم 5781)۔ آپ انھیں منع نہ فرماتے، اگرچہ ان سنائے جانے والے اعمال جاہلیت كا  اسلام میں مباح ہونا لازم نہ تھا۔

حضرت یزید بن سائب كی روایت ان كے پوتے عبدالله نے نقل كی۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے كوئی ہنسی مذاق كرتے ہوئے یا سنجیدگی سے اپنے بھائی كا مال و متاع نہ چھین لے۔ اگر كسی نے اپنےساتھی كا عصا بھی لیا تو اسے لوٹائے گا (ابوداؤد، رقم 5003۔ احمد، رقم 17941۔  ترمذی، رقم 2160۔ السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم  11544)۔ عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ نے كچھ صحابہ سے یہ واقعہ نقل كیا ہے :ہم نبی صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ محو سفر تھے۔ ایك صحابی سویا ہوا تھا كہ دوسرے صحابی نےاس كی رسی پكڑ كر كھینچی تو وه گھبرا گیا۔آپ نے فرمایا : كسی مسلمان كے لیے جائز نہیں كہ دوسرے مسلمان كو خوف زدہ كرے(ابو داؤد، رقم  5004۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم 21177)۔ یہی روایت مسند احمد میں مختلف طرح بیان ہوئی ہے۔اس میں سوئے ہوئے  صحابی كا تركش چھپا نے كا ذكر ہے۔جب وه بیدار ہو كر پریشان ہوا تو دوسرے اصحاب ہنسنے لگے ۔اس اثنا میں نبی صلی الله علیہ وسلم آ گئے اور دریافت فرمایا: كس بات پر آپ اتنا ہنس رہے ہیں ؟انھوں نے بتایا: اتنی ہی بات ہوئی ہے كہ ہم نے دل لگی كرنے كے لیے ان كا تیر دان چھپا لیا ہے ،یہ پریشان ہوئے تو ہم ہنسنے لگے ۔آپ نے فرمایا : كسی مسلمان كےلیے جائز نہیں  كہ دوسرے مسلمان كو خوف زده یا پریشان كرے (رقم23064)۔ طحاوی نے اسی روایت كو اختیار كیا ہے۔

اس بحث كے آخر میں امام طحاوی نے یہ تجزیہ كیا:حضرت سویبط كا واقعہ اور صحابہ كا تركش چھپانے كا عمل مماثل ہیں ۔اصحاب رسول نے مباح سمجھ كر یہ عمل كیے ہوں گے۔آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے صریحاً حرمت كا حكم صادر فرما دیا تو قبل ازیں سمجھی جانے والی اباحت منسوخ ہو گئی(شرح مشكل الآثار4/ 304-310 )۔ 

 عائلی زندگی اور وفات

بدر واحد كے بعد كسی غزوه یا سریہ میں حضرت سویبط  كی شركت نہیں بتائی گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ ان كی زندگی مختصر رہی ہو گی۔ بلاذری كہتے ہیں كہ انھوں نے اس وقت وفات پائی جب نبی صلی الله علیہ وسلم غزوه ٔ تبوك كے لیے جا رہے تھے۔

حضرت سویبط بن سعد كی اولادكے بارے میں معلومات نہیں ملتیں ۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،  الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ

حضرت فراس بن نضر رضی الله عنہ

حضرت فراس بن نضر ام القریٰ مكہ میں پیدا ہوئے۔ حارث بن علقمہ ان كے دادا اور بانی قبیلہ عبدالدار بن قصی چھٹے جد تھے۔ قصی بن كلاب پر ان كا سلسلہ ٔنسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجره سے جاملتا ہے جو آپ كے پانچویں جد تھے۔ عبدالدار كے تین بیٹے عثمان ، عبدمناف اور سباق ہوئے۔حضرت فراس عبد مناف كی اولاد میں سے تھے، كلده بن عبدمناف ان كے سكڑ دادا تھے۔حضرت مصعب بن عمیر، حضرت ابوالروم بن عمیر كلده كے بھائی ہاشم بن عبد مناف كے پوتے اور حضرت جہم بن قیس سكڑپوتے تھے۔ حضرت سویبط بن سعد عبدالدار كے تیسرے بیٹے سباق كی اولاد میں سے تھے۔ حضرت فراس كے چچا حضرت نضیر بن حارث مؤلفۃ القلوب میں سے، مخلص مومن تھے۔انھوں نے مدینہ ہجرت كی اور جنگ یرموك میں شہادت پائی۔

 بنو تمیم كی زینب بنت نباش حضرت فراس كی والدہ تھیں۔

ابو الحارث حضرت فراس كی كنیت تھی، قبیلے كی نسبت سےقُرَشی ،عبدری اور داری كہلاتے ہیں۔

قبول اسلام

ساتویں صدی عیسوی : دوسرے دہے كے آغاز میں مكہ میں اسلام كا آفتاب طلوع ہوا ۔حضرت فراس بن نضر اس كی كرنوں سے مستفید ہونے والے اولیں اہل ایمان میں شامل تھے۔

ہجرت حبشہ

حضرت فراس كا با پ نضر بن حارث حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كا بدترین دشمن تھا۔وه اہل ایمان كو اذیتیں دینے میں پیش پیش تھا۔ اس كا كہنا تھا كہ قرآن معاذالله پہلی قوموں كی جھوٹی سچی كہانیاں ہیں، اس طرح كا كلام تو ہم بھی كہہ سكتے ہیں۔ یہی وجہ ہے كہ حضرت فراس مكہ سے ہجرت كرنے پر مجبور ہوئے۔وه حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ كرنے والے مہاجرین میں شامل ہوئے۔

حبشہ سے واپسی

حضرت فراس بن نضر جنگ بدر كے بعد ،فتح خیبر سے پہلے یا بعد كسی وقت مدینہ لوٹے ۔ابن اسحاق كے بیان كے مطابق وه حضرت جعفر بن ابو طالب كے قافلۂ رجوع میں شامل نہ تھے۔

غزوات

حضرت فراس كا والد نضر بن حارث جنگ بدر میں كفار كی طرف سے لڑا اور مسلمانوں كی قید میں آیا۔ جیش اسلامی میدان جنگ سے واپسی پر صفرا كے مقام پر پہنچا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس كی اسلام دشمن سرگرمیوں كی بنا پر حضرت علی كو اس كی گردن اڑانے كا حكم دیا۔ تب حضرت فراس سرزمین حبشہ میں تھے۔ حضرت فراس كی مدنی زندگی كے بارے میں معلو مات میسر نہیں، اگرچہ صحابہ كی زندگیوں كے بارے میں تركی كی ’ org nurkoy ‘ كے زبیر اگابےكےمرتبہ سلسلۂ مضامین میں بتایا گیا ہے كہ حضرت فراس بن نضر فتح مكہ، غزوه ٔ حنین، محاصرۂ  طائف اور غزوۂ تبوك كے مواقع پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ ساتھ تھے۔ حجۃ الوداع كے وقت بھی وه آپ كے ہم سفر رہے۔

خلافت راشده

حضرت فراس بن نضرنے حضرت ابوبكر كے عہد خلافت میں مرتدین اورمانعین زكوٰة كی سركوبی میں حصہ لیا۔ انھوں نے خلیفہ ٔدوم حضرت عمر كے حكم پر بازنطینی حكومت كے خلاف ہونے والی پہلی جنگ یرموك میں حصہ لیا، جس میں مسلمانوں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی اور بلاد شام سلطنت اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ حضرت فراس بن نضر نے اس معركے میں شجاعت كے جوہر دكھانے كے بعد جان كا نذرانہ پیش كیا۔

شہادت

 حضرت فراس بن نضر نے ۱۵ھ میں رومی فوج كے خلاف لڑی جانے والی جنگ یرموك میں جام شہادت نوش كیا۔

اولاد

حضرت فراس بن نضر كی كوئی اولاد نہ تھی۔كچھ لوگوں نے ان كی كنیت ابوالحارث سے حارث نامی بیٹا برآمد كر لیا ہے، حالاں كہ عربوں كے ہاں كنیت اختیار كرنے كے لیے صاحب اولاد ہونا ضروری نہیں۔بعض اوقات غیر انسان سے خاص تعلق كو كنیت كی بنیاد بنا لیا جاتا ہے۔ جیسے  بلی سے ابو ہریرہ ،اونٹنی كے بچے سے ابوبكر ، جسم خاك آلود ہونے پرابوتراب ،جبل قبیس كی نسبت سے ابوقبیس اور پیدایشی تل ہونے كی وجہ سے ابو شامہ كنیت ركھ لی گئی ۔ حضرت عائشہ نے اپنے لیے كوئی كنیت ہونے كی خواہش ظاہركی تورسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بھانجے عبدالله بن زبیر كے نام پراپنی كنیت ام عبدالله ركھ لو(احمد، رقم ۲۵۱۸۱۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۹۸۵۸۔المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۸۵۶۸۔السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم ۱۹۳۳۵)۔ كنیت مدح و مذمت كے لیے بھی استعمال ہوتی ہے،جس طرح مدح پر مبنی كنیت ابوالحكم كو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ابوجہل میں تبدیل كر كے دائمی مذمت بنا دیا ۔

روایت حدیث

حضرت فراس بن نضر سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)،i جمل من انساب الاشراف (بلاذری)،  جمہرة انساب العرب(ابن حزم)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،  البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)،Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[*]   شام کے خطہ حوران کا ایک قصبہ۔

B