’’مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اُن کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتے اور اُس پر سزا تو دے سکتے ہیں، لیکن دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پر نافذ نہیں کرسکتے ۔ وہ، مثال کے طور پر ،اُنھیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ اُن میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو جانے کے باوجود کہ وہ صاحب استطاعت ہے ، اُسے حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے ۔ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کا کوئی قانون نافذ نہیں کر سکتے۔ مختصر یہ کہ جرائم کے معاملے میں اُن کا دائرۂ اختیار آخری حد تک وسیع ہے ،لیکن شریعت کے اوامر میں سے اِن دو ــــــ نماز اور زکوٰۃ ــــــ کے سوا باقی سب معاملات میں یہ صرف ترغیب و تلقین اور تبلیغ و تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرسکتے ہیں ۔ اِس طرح کے تمام معاملات میں اِس کے سوا کوئی چیز اُن کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے ۔‘‘ (میزان ۴۹۴)
مصنف کا یہ نقطۂ نظر مختلف پہلوؤں سے توضیح کا متقاضی ہے۔ اس سے متعلق بنیادی تنقیح طلب نکات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ریاست کے دائرۂ اختیار سے متعلق مصنف کے نقطۂ نظر کی تفصیل۔
۲۔ روایتی اہل علم کے نقطۂ نظر سے مصنف کا اختلاف۔
۳۔ سورۂ توبہ کی آیت سے استدلال۔
ذیل میں ان تینوں پہلوؤں سے مصنف کے موقف کی ضروری توضیح پیش کی جائے گی۔
اس نکتے سے متعلق مصنف کے نقطۂ نظر کی تفصیلات جو ان کی دوسری تحریروں میں موجود ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصنف کا پورا موقف درج ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ’’اسلام اور ریاست ــــ ایک جوابی بیانیہ“ کے زیر عنوان مصنف نے واضح کیا ہے کہ اسلامی شریعت میں مسلمانوں کو دو طرح کے احکام دیے گئے ہیں: ایک وہ جن کا مخاطب فرد بہ حیثیت فرد ہے اور دوسرے وہ جن کا روے سخن مسلمان معاشرے کی طرف ہے اور جن کو رو بہ عمل کرنے کی ذمہ داری نظم اجتماعی پر عائد ہوتی ہے۔ پہلی قسم کی مثال کے طور پر مصنف نے روزہ رکھنے، حج وعمرہ کے لیے جانے، ختنہ کرانے، مونچھیں پست رکھنے، خواتین کے لیے سینہ ڈھانپنے، زیب وزینت کی نمایش نہ کرنے اور سر پر اسکارف لینے جیسے معاملات کا ذکر کیا ہے۔ دوسری قسم کے احکام کے تحت مصنف نے ایک تفصیلی فہرست دی ہے جس میں مسلمانوں کے مابین عدل وانصاف کا قیام، ان کے تنازعات کا شریعت کے مطابق فیصلہ، اجتماعی عبادات میں مسلمانوں کو ضروری سہولیات مہیا کرنا، قومی املاک کا بندوبست، نماز جمعہ وعیدین کااہتمام، معاہدات کی پابندی، جرائم پر شرعی سزاؤں کا نفاذ اور دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جہاد جیسے امور شامل ہیں۔
۲۔ مسلمانوں کا نظم اجتماعی جن ذمہ داریوں کے لیے مسئول ہے، ان میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے۔ اس ذمہ داری کی بجا آوری کے لیے ریاستی ادارے مسلمانوں کے مابین معروفات کے فروغ اور منکرات کے سدباب کے لیے تلقین اور تعلیم وتربیت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔ تاہم مسلمانوں کو قانون کی طاقت سے کسی معروف کا پابند بنانے یا کسی منکر سے باز رکھنے کا ریاستی اختیار مصنف کے نزدیک مطلق نہیں ہے، بلکہ کچھ حدود کا پابند ہے (مقامات، اسلام اور ریاست ــــ ایک جوابی بیانیہ) ۔
۳۔ جہاں تک شریعت کے ایجابی احکام، یعنی مامورات کا تعلق ہے تو ان میں سے صرف نماز اور زکوٰۃ ایسے دو امور ہیں، جن کا مطالبہ نظم اجتماعی مسلمان شہریوں سے قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے۔ ان کے علاوہ باقی تمام امور میں فرد صرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ ان امور میں تعلیم وتربیت اور تلقین ونصیحت سے آگے حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کو بہ زور قانون کسی چیز کا پابند نہیں بنا سکتی (مقامات، اسلام اور ریاست ــــ ایک جوابی بیانیہ)۔ اوپر نقل کیے گئے اقتباس میں مصنف نے اس کی مثال کے طور پر کسی مسلمان کو جبراً روزہ رکھوانے، حج پر بھیجنے یا جہاد کے لیے بھرتی کرنے جیسے امور کا ذکر کیا ہے۔
۴۔ نہی عن المنکر کے تعلق سے مصنف کے نقطۂ نظر کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ ان کا مصداق مسلمہ اخلاقی برائیاں ہیں، چنانچہ ’’نہی عن المنکر“ کے زیر عنوان اپنی تحریر میں مصنف نے لکھاہے:
’’اِس سے مراد وہ برائیاں نہیں ہیں جو خالص مذہبی احکام کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتی ہیں، بلکہ وہ برائیاں ہیں جنھیں پوری انسانیت بلا امتیاز مذہب و ملت برائی سمجھتی ہے۔ چوری، جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، حق تلفی، فواحش، جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی اور اِس نوعیت کی دوسری برائیوں کوعربی زبان میں لفظ ’منکر‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘ (مقامات ۲۶۵)
دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ منکرات کی روک تھام کے لیے تعلیم وتلقین سے آگے بڑھ کر قانون کی طاقت ، مسلمانوں کی حکومت صرف ان معاملات میں بروے کار لا سکتی ہے جن کا تعلق دوسرے انسانوں کے جان ومال اور آبرو پر تعدی سے ہو ۔ ان کے علاوہ دیگر منکرات میں بھی ریاست کا اختیار صرف تعلیم وتلقین تک محدود ہے۔ مصنف کے الفاظ میں:
’’وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور اُن سب چیزوں سے روکیں گے جنھیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اُسی وقت استعمال کریں گے، جب کوئی شخص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اُس کی جان، مال یا آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہوگا۔‘‘ (مقامات۲۰۶)
۵۔ مذکورہ تمام مقدمات کی روشنی میں مصنف نے ریاست کے دائرۂ اختیار کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو جامع انداز میں’’قانون کی بنیاد“ کے زیر عنوان اپنی تحریر میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اس کے اختیار اور آزادی پر عائد کی جانے والی کسی بھی پابندی کی کوئی اخلاقی بنیاد ہونا چاہیے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان کی حق تلفی کرنا چاہے یا کسی کے جان ومال یا آبرو کے خلاف کوئی اقدام کرے تو اس کی آزادی کو سلب کر لیا جائے۔ اسی اصول کی روشنی میں مصنف کے نزدیک مسلمانوں کی حکومت کو قتل، زنا، چوری، قذف اور حرابہ کی شرعی سزائیں اور اسی طرح شراب نوشی کی تعزیری سزا مجرموں پر نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح نکاح وطلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات میں اگر مسلمان شریعت کے احکام کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تو ریاست کو انھیں باہمی حق تلفی سے بچانے کے لیے مداخلت کا حق حاصل ہے۔ اسی نوعیت کی مختلف قدغنیں، مثلاً کم سنی کی شادی اور پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی پر پابندی اجتہاداً بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
۶۔ نظم اجتماعی کے قانونی اختیار کو مثبت پہلوؤں سے واضح کرنے کے بعد مصنف نے اس اختیار کے غلط استعمال کی بہت سی مثالوں کا بھی ذکر کیا ہے جن سے مصنف کا نقطۂ نظر اطلاق وانطباق کی سطح پر بہت واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے:
’’دنیا کی ہر حکومت اور ہر قانون ساز ادارہ پابند ہے کہ وہ اپنے قانون اور ضابطوں کا جواز اِسی سے ثابت کرے اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اُس کے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لیں اور اگر دیکھیں کہ کوئی قانون یا ضابطہ اِس اصول سے ہٹ کر بنایا گیا ہے تو اُسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ چنانچہ کسی حکومت نے اگر، مثال کے طور پر، یہ قانون بنایا ہے کہ لوگ اپنی مذہبی علامتوں، جیسے زنار اور صلیب اور پگڑی اور کرپان وغیرہ کا اظہار نہیں کریں گے یا بیوی کو طلاق دیں گے تو اپنے اموال کا اتنا اور اتنا حصہ لازماً اُس کے حوالے کر دیں گے یا ڈاڑھی نہیں منڈوائیں گے یا نیکر نہیں پہنیں گے یا موسیقی نہیں سنیں گے یا عورتیں نقاب نہیں پہنیں گی یا سر پر اسکارف نہیں لیں گی یا اِس کے برخلاف یہ قانون بنایا ہے کہ وہ نقاب کے بغیر باہر نہیں نکلیں گی یا محرم کے بغیر حج و عمرہ کے لیے نہیں آئیں گی یا گاڑی نہیں چلائیں گی یا فلاں اور فلاں پیشہ اختیار نہیں کریں گی یا سیاست میں حصہ نہیں لیں گی یا ووٹ نہیں دیں گی تو یقیناً حدود سے تجاوز کیا ہے۔‘‘ (مقامات۲۳۷)
مصنف کے بیان کردہ اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے تو مذکورہ تمام امور حسب ذیل تفصیل کے مطابق ریاست کے دائرۂ اختیار سے تجاوز قرار پاتے ہیں:
۱۔ مذہبی علامات، مثلاً زنار، صلیب اور کرپان وغیرہ کے اظہار پر پابندی اس لیے جائز نہیں کہ یہ مسلمانوں کے مذہبی عقیدے کی رو سے تو منکر ہیں، لیکن ان کی نوعیت مسلمہ اخلاقی برائیوں کی نہیں ہے۔ مصنف نے ’’ریاست وحکومت“ کے عنوان سے اپنی تحریر میں واضح کیا ہے کہ غیر اسلامی شعائر وعلامات کا اظہار یا غیرمسلموں کا قیام صرف جزیرۂ عرب میں ممنوع ہے جسے اللہ کے ایک فیصلے کے تحت اسلام کے لیے خاص کردیا گیا ہے (مقامات، ریاست وحکومت)۔
۲۔ بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں اسے شوہر کے مال کے ایک مخصوص حصے کا حق دار نہ تو شریعت میں ٹھیرایا گیا ہے اور نہ میاں بیوی نے آزادانہ کسی معاہدے کے تحت یہ پابندی قبول کی ہے، اس لیے ریاست کے پاس جبراً انھیں اس کا پابند بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
۳۔ ڈاڑھی منڈوانا، نیکر پہننا یا موسیقی سننا مسلمہ اخلاقی برائیوں میں شامل نہیں۔ ان کا شرعی عدم جواز خود مسلمانوں کے مابین بھی متفقہ نہیں اور اگر ہو بھی تو ان میں جرم ، یعنی کسی دوسرے کے حق پر زیادتی کا پہلو نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ان امور میں بھی حکومت زیادہ سے زیادہ ترغیب ونصیحت اور تلقین و تعلیم ہی کا طریقہ بروے کار لا سکتی ہے۔
۴۔ خواتین کو نقاب پہننے یا سر پر اوڑھنی لینے سے روکنا بھی اسی لیے دائرۂ اختیار سے تجاوز ہے کہ سر یا چہرے کو ننگا رکھنا نہ مسلمہ معروفات میں سے ہے اور نہ ان کو ڈھانپنا مسلمہ اخلاقی برائیوں میں شامل ہے۔
۵۔ اسی اصول پر کسی مسلمان خاتون کو نقاب پہننے کا پابند نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ یہ اگر شریعت کا مطلوب ہو بھی تو مسلمان ریاست نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ایجابی شرعی حکم جبراً نافذ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح محرم کے بغیر سفر کرنے یا گاڑی چلانے یا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر شریعت میں اول تو کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور بالفرض کی بھی گئی ہو تو ان کی پابندی کا فرد اپنی انفرادی حیثیت میں مخاطب ہے۔ چونکہ ان میں کسی دوسرے پر زیادتی یا حق تلفی کا پہلو نہیں پایا جاتا، اس لیے ریاست تعلیم وتلقین سے آگے بڑھ کر انھیں قانونی جبر سے نافذ نہیں کر سکتی۔
مصنف کے مذکورہ نقطۂ نظر میں اہل علم کے عمومی اور روایتی موقف سے اختلاف کے اہم پہلو دو ہیں:
پہلا یہ کہ اسلامی روایت میں سیاست شرعیہ پر کلام کرنے والے اہل علم کے ہاں اس سوال سے تصریحاً تعرض نہیں ملتا کہ احکام شرعیہ کی تنفیذ میں حکمران کا دائرۂ اختیار کیا ہے۔ البتہ ارباب حل وعقد کی دینی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے عموماً جن امور کا ذکر کیا جاتا ہے، ان کا تعلق عبادات میں نماز کی اقامت یا حج کی سہولیات مہیا کرنے سے اور عام معاشرتی امور میں مختلف منکرات سے ہی ہوتا ہے۔ مثلاً قاضی بدر الدین ابن جماعۃ حسبہ کے ریاستی شعبے کے وظائف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الحسبة وحقيقتها ولاية الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ... والذي عليه من الوظائف فثلاثة أنواع: الأول حقوق الله تعالىٰ، فينظر من يخل بالواجبات من الطهارة والصلوات والجمعة والجماعات، ومن يرتكب المنكرات كإظهار المحرمات وشرب المسكرات وكشف العورات لاسيما في الحمامات، فيزجر فاعل ذلك ويؤدبه بما يقتضيه الحال - النوع الثاني: حقوق العباد المختصة، وهو النظر في الموازين والمكاييل وصحتها على العرف المألوف في بلده ... النوع الثالث: ما يشترك فيه حق الله تعالىٰ وحق العباد، ومنه النظر في الأرقاء والسادة وما يلزمهم شرعًا وعادة ... ومنه النظر في أهل الذمة.(تحریر الاحکام فی تدبیر اہل الاسلام ۹۲)
’’حسبہ کی حقیقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اختیار کو بروے کار لانا ہے۔ محتسب کی ذمہ داریاں تین قسم کی ہیں: پہلی قسم حقوق اللہ سے متعلق ہے، چنانچہ محتسب ان لوگوں پر نظر رکھے گا جو دینی واجبات، مثلاً طہارت، نماز، جمعہ اور جماعات کی بجاآوری نہ کریں اور جو منکرات کا ارتکاب کریں، جیسے سرعام حرام کاموں کا ارتکاب اور نشہ آور مشروبات پینا اور برہنگی کا اظہار کرنا، خصوصاً اجتماعی غسل خانوں میں۔ محتسب موقع و محل کے مطابق ایسے لوگوں کی زجر وتادیب کرے گا۔ دوسری قسم کا تعلق بندوں کے باہمی حقوق سے ہے، مثلاً ماپ تول کے پیمانوں پر نظر رکھنا اور اس کو یقینی بنانا کہ وہ اس علاقے کے معروف پیمانوں کےمطابق ہوں۔ تیسری قسم ان امور کی ہے جن میں اللہ کا حق اور بندوں کا حق، دونوں پائے جاتے ہیں۔ اسی کی قبیل سے غلاموں اور ان کے مالکوں کے معاملات پر نظر رکھنا اور ان پر شرعاً و عرفاً جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کو یقینی بنانا ہے۔ اہل ذمہ کے معاملات کی نگرانی بھی اسی کے تحت آتی ہے۔“
تاہم اس حوالے سے، خصوصاً خلفاے راشدین کے طرز عمل سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ سیدنا عمر عصر کے بعد مسجد میں نوافل ادا کرنے والوں کو درے لگایا کرتے تھے (مسلم، رقم ۸۳۶) ۔ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہے تو قینچی منگوا کر ٹخنوں سے نیچے اس کے تہ بند کو کاٹ دیا (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۴۸۸۱)۔ ایک شخص کو سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو اسے درہ لگا دیا (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۵۱۹۸)۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان، دونوں سے متعلق منقول ہے کہ وہ ایسی خواتین کو جو دوران عدت میں حج کے لیے نکلی ہوں، راستے سے واپس بھیج دیتے تھے (سنن سعید بن منصور، رقم ۱۳۴۴۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۲۰۷۱)۔ ان کی طرف سے امہات المومنین کو حج یا عمرے کے سفر پر ازخود جانے کی اجازت نہیں تھی ، اور اس کے لیے انھیں سیدنا عمر سے اجازت لینی پڑتی تھی (ابن حجر، فتح الباری ۴/ ۷۳- ۷۴) ۔ انھوں نے نصر بن الحجاج نامی ایک نوجوان کا سر منڈوا دیا، کیونکہ وہ بہت خوب صورت تھا اور مدینے کی خواتین اس کے نام سے عشقیہ شاعری کرنے لگی تھیں۔ پھر انھوں نے اس کو مدینہ سےجلاوطن کر کے بصرہ بھیج دیا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۳ / ۲۱۶۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ۲۱/ ۶۲)۔ اسی طرح سیدنا عثمان نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں سے نرد کو نکال دیں، ورنہ وہ ان کے گھروں کو جلا دیں گے (بیہقی، السنن الکبریٰ ۱۰ / ۲۱۵) ۔ انھوں نے ایک شخص کو مامور کیا کہ جو لوگ کبوتر اڑاتے ہوں یا جلاہق کھیلتے ہوں، ان کے کبوتروں کے پر کاٹ دیں اور جلاہق کو توڑ دیں (ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ۷/ ۲۱۴)۔
اس تناظر میں اسلامی روایت اصولی طور پر حکمران کے اختیار کو کسی خاص اور متعین ضابطے کا پابند نہیں کرتی۔ یوں مصنف کا نقطۂ نظر اس سوال کے حوالے سے روایتی دینی تفہیم سے کافی مختلف ہو جاتا ہے۔
اختلاف کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف نے حکومت کے دائرۂ اختیار کو منکرات کے ضمن میں صرف جرائم سے متعلق قرار دیا ہے جس سے مصنف کی مراد حقوق العباد پر تعدی کی نوعیت رکھنے والے جرائم ہیں۔ یہ نقطۂ نظر بھی روایتی فقہی موقف سے مختلف ہے۔ روایتی اہل علم نہ صرف ارتداد کی سزا کو حدود میں شمار کرتے اور مرتد کے خلاف قانونی اقدام کو مسلمان حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ عمومی طور پر بدعات کے خاتمہ اور مختلف بدعتی گروہوں کی سرکوبی کو بھی مسلمان حکمران کی دینی ذمہ داریوں میں شمار کرتے ہیں (دیکھیے: الجوینی، غیاث الامم ۳۲۹- ۳۳۰)۔
ارتداد سے متعلق مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین میں سے مشرکین عرب کے لیے قانون اتمام حجت کے تحت بیان کی گئی تھی اور مشرکین عرب ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس دائرے سے باہر ، ارتداد اختیار کرنے والے کسی شخص کو سزا دینے کا اختیار اسلامی حکومت کو حاصل نہیں ہے۔ مزید برآں، دین کے بنیادی تصورات اور احکام میں تحریف یا بدعت جیسے منکرات کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کو بھی مصنف درست نہیں سمجھتے۔ اس ضمن میں کسی قول یا عمل کی بنیاد پر کسی کی تکفیر کرنے، یعنی اسے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دینے کے متعلق مصنف کا نقطۂ نظر گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ اس کو ریاست کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں سمجھتے۔ مصنف کے نزدیک یہ دائرہ بھی دین کی شرح ووضاحت اور دعوت وتلقین سے ہی تعلق رکھتا ہے۔
مذکورہ نقطۂ نظر کے حق میں مصنف نے سورۂ توبہ کی آیت ۵ سے استدلال کیا ہے، جس میں مشرکین عرب سے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ جب وہ شرک سے توبہ کر کے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول کرلیں تو ان کی راہ چھوڑ دی جائے۔ یہ ایک منفرد استنباط ہے۔ قدیم یا جدید اسلامی روایت میں اس آیت سے حکومتی دائرۂ اختیار سے متعلق کوئی ضابطہ اخذ کرنے کی کوئی نظیر بظاہر نہیں ملتی۔ مفسرین نے عموماً اس کو اس پرمحمول کیا ہے کہ یہ شرائط پوری کرنے پر مشرکین کو جان ومال کی امان حاصل ہو جائے گی اور ان کے لیے معمول کی نقل و حرکت جائز ہو جائے گی۔ نواب صدیق حسن خان اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
(فخلوا سبيلهم) أي اتركوهم وشأنهم فلا تأسروهم ولا تحصروهم ولا تقتلوهم ولا تمنعوهم من الدخول إلى مكة والتصرف في بلادهم ولا تتعرضوا لهم. (فتح البیان)
’’’’ ان کا راستہ چھوڑ دو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان پر کوئی پابندی نہ لگاؤ، ان کو قید نہ کرو ، نہ ان کا محاصرہ کرو، نہ قتل کرو اور نہ مکہ میں داخل ہونے یا اپنے ملک میں نقل وحرکت سے روکو اور نہ انھیں کسی بھی طریقے سے تنگ کرو۔“
اسی سے اہل علم یہ عمومی ضابطہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ اگر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہونا چاہیں تو اس کے لیے اقرار شہادت کے ساتھ ساتھ نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ تاہم اہل علم کے نزدیک نماز اور زکوٰۃ کا ذکر یہاں جامع مانع شرائط کے طور پر نہیں، بلکہ قبول اسلام کی دو بڑی علامات کے طور پر ہوا ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہاں خاص طور پر ان دو نمایاں اور ظاہر فرائض کا ذکر کیا گیا ہے جن کو اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ ترک کرنا چاہے تو اس کے خلاف قتال کیا جا سکتا ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ دیگر عبادات، مثلاً وضو اور غسل یا روزہ وغیرہ پوشیدہ امور ہیں جن کی ظاہری تحقیق نہیں ہو سکتی، اس لیے ظاہری طور پر کسی گروہ کو مسلمان شمار کرنے کے لیے نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کو ہی شرط قرار دیا گیا ہے (مجموع الفتاویٰ ۷ / ۶۰۷- ۶۰۸)۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کے الفاظ میں ’’اگر بظاہر کفر سے توبہ کر کے اسلامی برادری میں داخل ہو جائیں جس کی بڑی علامت نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا ہے تو پھر مسلمانوں کو ان سے تعرض کرنے اور ان کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں‘‘ (تفسیر عثمانی، التوبہ، آیت ۵)۔
سید رشید رضا واضح کرتے ہیں کہ اس آیت کا موضوع اسلام کے فرائض وواجبات کا کوئی جامع بیان نہیں، بلکہ صرف قبول اسلام کی دو واضح اور بڑی علامات کا بیان ہے:
ولما کانت شرائع الإسلام القطعیة من فعل وترک کثیرة وکان الکثیر منھا لا یتعلق به التکلیف في حال الدخول في الإسلام کالصیام والحج من الأرکان اکتفی باشتراط الرکنین الاعظمین ... موضوع کل منھما بیان ما یشترط للکف عن قتال المشرکین المحاربین لا بیان لجملة الإسلام وما ینافیه ویعد ارتداد عنه بعد الدخول فیه. (المنار ۱۰ / ۲۰۵- ۲۰۶)
’’چونکہ اسلام کے قطعی احکام از قسم مامورات و منہیات بہت سے ہیں اور اسلام میں داخل ہوتے وقت ان میں سے زیادہ تر امور کی بجاآوری کی ذمہ داری انسان پر عائد نہیں ہوتی، جیسا کہ روزہ اور حج وغیرہ، اس لیے (قبول اسلام کے لیے) دو سب سے بڑے احکام پر اکتفا کی گئی۔ آیت اور حدیث کا موضوع ان شرائط کا بیان ہے جو برسرجنگ مشرکین کے خلاف قتال سے رکنے کے لیے ضروری ہیں۔ اسلام کے تمام احکام یا اسلام کے منافی یا اسلام سے ارتداد شمار ہونے والے تمام امور کا بیان ان کا موضوع نہیں۔“
سید قطب نے بھی ان آیات سے اور خصوصاً نماز اور زکوٰۃ کے ذکر پر اکتفا سے کسی عمومی شرعی قاعدے کے استنباط سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں مشرکین عرب کے حوالے سے ایک خاص صورت حال زیربحث ہے، اس لیے اس سے اسلام کے سیاسی نظام سے متعلق کوئی عمومی اصول اخذ کرنا درست نہیں۔ جہاں تک نماز اور زکوٰۃ کا تعلق ہے تو سید قطب کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے علاوہ دیگر احکام کی پابندی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ دراصل اس دور میں جو لوگ بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے، وہ پورے کے پورے داخل ہوتے تھے اور ان سے یہ خدشہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ قبول اسلام کی تمام شرائط کو پورا نہیں کریں گے (فی ظلال القرآن، اردو ترجمہ ۳ / ۴۷۲)۔
یہی رجحان مولانا اصلاحی کا بھی ہے جو نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کو ’’اسلام کے نظام عبادت واطاعت میں داخل ہونے کی“ ایک جامع تعبیر قرار دیتے ہیں (تدبر قرآن ۳ / ۵۴۰)۔
مولانا مودودی نے اگرچہ ان آیات سے نو مسلموں کے شہری حقوق کا دستوری ضابطہ اخذ کیا ہے (تفہیم القرآن، التوبہ، حاشیہ نمبر ۱۴)۔ تاہم مولانا کا استنباط صرف اس نکتے تک محدود ہے کہ یہ شرائط پورا کرنے کے بعد نومسلموں کو دیگر تمام مسلمانوں کی طرح یکساں شہری حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ مولانا اس سے حکومت کے دائرۂ اختیار کی تحدید کا نکتہ اخذ نہیں کرتے۔
مصنف کا نقطۂ نظر اہل علم کے مذکورہ عمومی رجحان سے مختلف ہے۔ مصنف کے نزدیک یہ آیت اپنے خاص سیاق کے لحاظ سے تو مشرکین عرب سے متعلق آئی ہے اور اس میں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم اتمام حجت کے قانون پر مبنی ہے، تاہم اس میں ان کی جان بخشی کی جو شرائط بیان کی گئی ہیں، وہ صرف ان کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ بطور مسلمان کسی بھی شخص کے شہری وسیاسی حقوق کے بنیادی شرائط ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، مذکورہ شرائط کا ذکر محض قبول اسلام کی علامت کے طور پر یا جان بخشی کی کم سے کم شرائط کے طور پر نہیں ہوا، بلکہ یہاں ایک طرف یہ قرار دیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست کے شہری حقوق سے بہرہ مند ہونے کے لیے نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہے، اور دوسری طرف یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان دو مطالبات کی تکمیل کے بعد ایجابی طور پر ریاست ان کو دین کے کسی مزید حکم کی پابندی پر مجبور نہیں کر سکتی۔ مصنف کا استدلال یہ ہے کہ جب مشرکین عرب سے اس سے زیادہ کوئی مطالبہ ریاست کی طرف سے روا نہیں رکھا گیا تو ایک عمومی ضابطے کے طور پر بھی مسلمان شہریوں سے ایسا کوئی مطالبہ درست نہیں ہونا چاہیے۔
البتہ ان شرائط کی عملی تنفیذ کے حوالے سے مصنف کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حکمت عملی اور مصلحت کا بھی دخل ہے اور نظم اجتماعی ’’اگر چاہے تو“ (مقامات، اسلام اور ریاست ــــ ایک جوابی بیانیہ) مسلمانوں سے بہ زور قانون ان کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس اقدام سے کوئی ناپسندیدہ نتیجہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو ازروے مصلحت اس سے گریز بھی کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہےکہ مشرکین عرب کے لیے جو شرائط درجۂ لزوم میں بیان کیے گئے، ان کو ریاستی اختیار کے عمومی دائرے میں منطبق کرتے ہوئے صواب دیدی قرار دینے کی وجہ مصنف کے نزدیک اتمام حجت کا قانون ہے۔ مشرکین عرب کےلیے چونکہ اسلام قبول کرنا لازم تھا ، اس لیے قبول اسلام کے شرائط کے طور پر ان سے نماز اور زکوٰۃ کی عملی پابندی بھی لازماً مطلوب تھی اور ایسا نہ کرنے پر ان کے خلاف قتال ، گویا لازم تھا۔ تاہم اس خاص دائرے سے باہر عمومی صورت حال میں مسلمان شہریوں پر ان احکام کی تنفیذ مصنف کے نزدیک حکمت عملی کے تحت صواب دیدی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ