بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَاﵐ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ٤٩
(اِس نکاح کے لیے کسی عدت کی ضرورت نہیں ہے، جس کا حکم ہم نے پیغمبر کو دیا ہے)۔ ایمان والو، (اِس لیے کہ) جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرتے ہو،[100] پھر ہاتھ لگانے سے پہلے اُن کو طلاق دے دیتے ہو تو اُن پر تمھاری خاطر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کا تم شمار کرو گے۔[101] لیکن (اِس صورت میں بھی ضروری ہے کہ) اُنھیں کچھ سامان زندگی دو اور اُن کو بھلے طریقے سے رخصت کرو۔[102] ۴۹
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا٘ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْ٘ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّا٘ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَﵟ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَاﵯ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَﵧ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْ٘ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٥٠ تُرْجِيْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُـْٔوِيْ٘ اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُﵧ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا٘ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّﵧ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا ٥١ لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۣ بَعْدُ وَلَا٘ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيْبًا ٥٢
(اور اِس کے لیے کسی بیوی کو طلاق دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اِس لیے کہ اِس نکاح کے باوجود) ہم نے تمھاری سب بیویوں کو ، جن کے مہر تم ادا کر چکے ہو، تمھارے لیے جائز ٹھیرا دیا ہے،[103] اے نبی۔ اور (صرف اُنھی کو نہیں،اُن کے ساتھ) اُن (خاندانی عورتوں[104]) کو بھی جائز ٹھیرا دیا ہے جو اللہ نے تمھیں غنیمت میں دیں اور وہ اُن میں سے تمھاری ملکیت میں آگئی ہوں اور تمھارے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور ماموؤں کی بیٹیاں اور تمھاری خالاؤں کی بیٹیاں جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی مسلمان عورت، اگر وہ اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کر دے، اگر نبی اُس کو نکاح میں لینا چاہے۔[105] یہ حکم دوسرے مسلمانوں سے الگ خاص تمھارے لیے ہے۔[106] ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن کی بیویوں اور اُن کی لونڈیوں کے معاملے میں اُن پر فرض کیا ہے۔ اِس لیے خاص تمھارے لیے ہے کہ (اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں)تم پر کوئی تنگی نہ رہے،[107] اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ (اوربیویوں کے حقوق زوجیت میں برابری بھی اب تمھارے لیے ضروری نہیں ہے)۔ [108] تم اُن میں سے جسے چاہو الگ رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو اور جن کو (کسی وقت) الگ رکھا تھا، اُن میں سے پھر کسی کو بلوا لو تو اِس میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ہم نے یہ وضاحت اِس لیے کر دی ہے کہ اِس کے بعد) یہ زیادہ قرین ہے کہ اُن کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ تم اُن کو دو گے، سب اُس پر راضی رہیں گی۔[109] اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے اور اللہ علیم و حلیم ہے۔ اِن کے بعد اب دوسری عورتیں تمھارے لیے جائز نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ اِن کی جگہ اور بیویاں لے آؤ، اگرچہ اُن کا حسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو۔[110] تمھاری لونڈیاں، البتہ مستثنیٰ ہیں۔[111] اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔[112] ۵۰ -۵۲
[100]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ نکاح اصلاً مسلمان عورتوں ہی سے جائز ہے۔ اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ اِس کی اجازت ایک استثنا ہے جس سے اُسی صورت میں فائدہ اٹھاناچاہیے ، جب ماحول میں اسلام اور اسلامی تہذیب کا غلبہ ہو۔
[101]۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عدت کی پابندی کا حکم دیا ہی اِس لیے گیا ہے کہ عورت کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو جائے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ حمل کا امکان ہو تو عدت عورت پر ایک حق واجب ہے، جیسا کہ ’عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ‘کے الفاظ سے واضح ہے۔ لیکن اِس کا امکان نہ ہو تو عدت کی کوئی پابندی نہیں ہے، اِس صورت میں طلاق کے فوراً بعد عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کیا جا سکتا ہے۔ قرآن نے یہاں اِس قانون کا حوالہ اصلاً تو اُنھی اعتراضات کے سدباب کے لیے دیا ہے جو فتنہ پردازی کے اُس ماحول میں اِس بات پر بھی کیے جا سکتے تھے کہ اُدھر زید نے طلاق دی اور اِدھر سیدہ زینب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دینے کا اعلان کر دیا گیا، لیکن اِس کے ساتھ یہ بات بھی نہایت لطیف طریقے سے واضح کر دی ہے کہ وہ کیا صورت حال تھی جس میں زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار روکنے کے باوجود بالآخر اِسی نتیجے پر پہنچے کہ اُنھیں سیدہ کو طلاق دے دینی چاہیے۔ قرآن کے اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ کم و بیش ایک سال اُن کے نکاح میں رہیں، مگر اُن کی شخصیت سے زید رضی اللہ عنہ کی مرعوبیت کا یہ عالم تھا کہ اِس پورے عرصے میں وہ اُن کے ساتھ ایک مرتبہ بھی زن و شو کا تعلق قائم کرنے کی جرأ ت نہیں کر سکے۔ چنانچہ خود بیان کرتے ہیں کہ طلاق کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے آپ کی طرف سے نکاح کا پیغام دینے کے لیے بھیجا تو اُن کو دیکھ کر اُن کی ایسی عظمت میرے دل میں پیدا ہوئی کہ میں اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکا*۔یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات صرف اِس چیز کی وضاحت کے لیے بیان فرمائی ہے کہ طلاق کے فوراً بعد سیدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دینے کا اعلان کیوں کیا گیا۔ آپ اُن کو اپنے گھر میں کب لائے؟ اِس کا اِس وضاحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[102]۔ یعنی اِس صورت میں بھی کہ تم نے اُنھیں ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اِس کی وضاحت سورۂ بقرہ (۲) کی آیت۲۴۱ کے تحت ہو چکی ہے۔
[103]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش سے اور ازدواج کی فطری ضرورتوں کے تحت پوری زندگی میں صرف تین نکاح کیے ہیں: ایک حضرت خدیجہ سے، دوسرا اُن کی وفات کے بعد اپنی بچیوں کی نگہداشت اور گھردر کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے ایک بیوہ اور سن رسیدہ خاتون حضرت سودہ سے اور تیسرا حضرت عائشہ سے جو اپنی غیر معمولی ذہانت وفطانت کی بنا پر اُس علم و حکمت کی سب سے بڑی معلمہ بن کر آپ کے گھر میں رہیں جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔ اِس کے علاوہ آپ نے جتنے نکاح کیے ہیں، خدا کے رسول کی حیثیت سے اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے کیے ہیں۔ چنانچہ سیدہ حفصہ سے آپ نے اپنے انتہائی قریبی ساتھی سیدنا عمر کی دل داری کے لیے نکاح کیا جو اپنی بیٹی کے بیوہ ہو جانے کے بعد اُس کی شادی کے لیے سخت پریشان تھے اور سیدہ زینب بنت خزیمہ اور سیدہ ام سلمہ سے اِس لیے کہ دونوں کے شوہر اُن جنگوں میں شہید ہو گئے تھے جو آپ ہی پر ایمان لانے کی وجہ سے اُن کو لڑنی پڑی تھیں**۔
زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کا حکم آپ کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تالیف قلب اور ایک رسم جاہلی کی اصلاح کے لیے دیا۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اِس کا حکم آپ کو دیا گیا تو اُس وقت چار بیویاں، حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ آپ کے نکاح میں موجود تھیں۔ یہ معلوم ہے کہ چار سے زیادہ بیویاں کسی مسلمان کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اِس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ اِس حکم کی تعمیل کے لیے کیا پہلے سے موجود کسی بیوی کو طلاق دینا پڑے گی؟قرآن نے یہ اِسی سوال کا جواب دیا ہے کہ آپ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے اور آگے مزید وضاحت کر دی ہے کہ عام مسلمانوں سے الگ نکاح و طلاق کا ایک خصوصی قانون آپ کے لیے نازل کیا جا رہا ہے جس کی رو سے آپ اگرچاہیں تو درج ذیل مقاصد سے مزید نکاح بھی کر سکتے ہیں:
۱۔ اُن خاندانی عورتوں کی عزت افزائی کے لیے جو آپ کے کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں قیدی بن کر آپ کے قبضے میں آجائیں۔
۲۔ اپنی اُن چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں کی تالیف قلب کے لیے جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی اور اِس طرح اپنا گھر بار اور اپنے اعزہ و اقربا، سب کو چھوڑ کر آپ کا ساتھ دیا ہے۔
۳۔اُن خواتین کی دل داری کے لیے جو محض حصول نسبت کی غرض سے آپ کے ساتھ نکاح کی خواہش مندہوں اور آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ہبہ کر دیں۔
چنانچہ سیدہ جویریہ اور سیدہ صفیہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مقصد سے نکاح کیا۔ سیدہ ام حبیبہ دوسرے مقصد سے آپ کی ازواج میں شامل ہوئیں اور سیدہ میمونہ کے ساتھ آپ کا نکاح تیسرے مقصد کے پیش نظر ہوا۔
[104]۔ آیت میں ’وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ‘کے بعد ’مِمَّآ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ‘کے الفاظ بھی ہیں۔ یہ اِسی وضاحت کے لیے آئے ہیں کہ ’مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ‘ سے یہاں لونڈیاں نہیں، بلکہ وہ خاندانی عورتیں مراد ہیں جو کسی جنگ میں قید ہو کر آئیں اور اپنے حالات اور اپنی خاندانی وجاہت کی بنا پر اِس کی مستحق ہوں کہ حضور ہی اُن کے ساتھ نکاح کریں جس سے اُن کے اُس صدمے کا مداوا ہو سکے جو جنگ میں اسیرہو جانے سے اُنھیں پہنچا ہے۔ یہ نکاح ، ظاہر ہے کہ اُن عورتوں کو آزاد کرکے اُن کی رضامندی سے کیے جائیں گے۔
[105]۔ ہبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہر حق سے دست بردار ہو کر کوئی عورت اپنے آپ کو کسی کے حوالے کر دے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... یہ ایک انتہائی ایثار نفس کی صورت ہے جس کا جذبہ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محض شرف نسبت حاصل کرنے کے لیے متعدد صحابیات کے اندر موجود تھا اور اُنھوں نے حضور سے اِس کا اظہار بھی کیا۔ حضور کی گھریلو زندگی، ہرشخص کو معلوم ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی تھی۔ ...امہات المومنین کی غریبانہ زندگی ہی کی بنا پر منافقات اُن کے اندر وسوسہ اندازی کرتی رہتی تھیں کہ اگر وہ طلاق حاصل کر لیں تو وقت کے بڑے بڑے سردار اُن کو نکاح کے پیغام دیں گے اور اُن کی یہ فقروفاقہ کی زندگی عیش و عشرت کی زندگی سے بدل جائے گی۔ اِس طرح کی غریبانہ زندگی کے لیے، ظاہر ہے کہ کوئی عورت دنیا کی کوئی طمع پیش نظر رکھ کر یہ بازی نہیں کھیل سکتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ہبہ کر دے۔ یہ قربانی تو وہی خواتین کر سکتی تھیں جن کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عقیدت و فدویت کا ایسا جذبہ ہو کہ وہ حضور کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی کا ہر ارمان قربان کرد ینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ جذبہ ایک نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ جذبہ تھا، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِس کا لحاظ فرمایا اور حضور کو یہ اجازت دی کہ اگر کوئی مومنہ اپنے آپ کو اِس طرح ہبہ کر دے اور حضور اُس کو اپنے عقد نکاح میں لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ ’اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا‘ کی قید سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر چند یہ جذبہ نہایت محمود اور پاکیزہ ہے، لیکن اِس کی حوصلہ افزائی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زیادہ ممکن نہیں ہے۔ اِس وجہ سے یہ معاملہ کلیتاً آپ کی صواب دید پر منحصر ہے کہ کسی کی اِس طرح کی پیش کش کو آپ قبول کریں یا نہ کریں۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۲۵۵)
[106]۔ یعنی ایک خاص دائرے میں نکاح کی پابندی اور چار سے زیادہ بیویوں کی یہ اجازت صرف تمھارے لیے ہے، یہ عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اِس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہیں، ان میں دوسرے مسلمان آپ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔
[107]۔ یعنی جن دینی اور اخلاقی مصالح کی خاطر یہ اجازت دی گئی ہے، اُنھیں آپ بغیر کسی زحمت کے پورا کرسکیں۔ اِن مصالح کی وضاحت ہم نے اوپر کر دی ہے۔
[108]۔ یعنی جب یہ نکاح آپ نے اپنی خواہش سے نہیں کیے، بلکہ دوسروں کی تالیف قلب اور دل داری کے لیے یا خدا کے کسی حکم کی تنفیذ کے لیے کیے ہیں تو یہ کسی طرح قرین انصاف نہیں ہے کہ بیویوں کے ساتھ بالکل یکساں تعلق رکھنے کا حکم آپ کے لیے بدستور قائم رکھا جائے۔ چنانچہ یہ پابندی بھی آپ سے اٹھا دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک رعایت تھی اور حضور اگر چاہتے تو اِس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، لیکن آپ کے تمام سیرت نگار اِس پر متفق ہیں کہ اِس آزادی کے باوجود آپ نے اپنے اوپر عدل و انصاف کی پابندی پوری طرح قائم رکھی اور آخر عمر تک کبھی اِس کی خلاف ورزی نہیں کی۔
[109]۔ چنانچہ خانگی زندگی میں آپ کے لیے کوئی الجھن اِس کے نتیجے میں پیدا نہیں ہو گی اور آپ پورے سکون کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر سکیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ ازواج مطہرات کو تشویق و ترغیب ہے کہ وہ اپنے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تعلق کو عام میاں بیوی کے تعلق کی کسوٹی پر نہ پرکھیں، بلکہ پیغمبر کی اصل ذمہ داری اور اپنی اصل حیثیت کو سامنے رکھ کر جانچیں۔ اصل چیز زاویۂ نگاہ ہے۔ اگر اُس میں تبدیلی ہو جائے گی اور وہ یہ سمجھ جائیں گی کہ پیغمبر کے ساتھ اُن کا اصل تعلق صرف میاں بیوی کا نہیں، بلکہ خدمت دین کا ہے تو پھر حقوق کے معاملے میں نہ باہم ازواج میں کوئی رقابت ہو گی اور نہ پیغمبر ہی سے کوئی گلہ و شکوہ رہے گا، بلکہ اپنے مصروف لمحات میں سے پیغمبر جو کچھ جس کو بخش دیں گے، وہ اُسی پر قناعت کریں گی۔ زاویۂ نگاہ کی تبدیلی کے بعد دینی خدمت کے اعتبار سے جس کا مرتبہ بلند ہو گا ،اُس کی قدر جس طرح نبی کی نظروں میں ہو گی، اُسی طرح آپ کی ازواج کی نگاہوں میں بھی ہو گی اور باہمی رشک و رقابت کی تمام تلخیاں کافور ہو جائیں گی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۵۷)
[110]۔ یعنی آپ کے لیے جو دائرہ مقرر کر دیا گیا ہے، اُس سے باہر نہ آپ اب کوئی نکاح کر سکتے ہیں اور نہ ازواج میں مجرد پسند اور ناپسند کی بنا پر کوئی تبدیلی فرما سکتے ہیں۔ یہ پابندی، ظاہر ہے کہ عام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ آپ کو اگرچہ بعض معاملات میں آزادی دی گئی، لیکن دوسری طرف آپ پر ایسی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں کہ نکاح و طلاق ، دونوں ہی کے معاملے میں آپ دوسرے مسلمانوں کے مقابل میں کہیں زیادہ پابند ہو گئے ہیں۔
[111]۔ اُس وقت کے حالات میں یہ استثنا ضروری تھا، اِس لیے کہ جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی ممانعت کے باوجود غلامی ابھی عملاً ختم نہیں ہوئی تھی۔ قرآن نے اِسی بنا پر اِسے عام مسلمانوں کے معاملے میں بھی ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت ماریہ اِسی حیثیت سے آپ کے پاس رہیں اوراُن کے بطن سے آپ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔
[112]۔ اِس تذکیر و تنبیہ کے مخاطب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اوپر اِسی نوعیت کی تذکیر و تنبیہ ازواج مطہرات کو کی گئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں ہر ایک مسئول ہے اور جو جتنا ہی بڑا ہے، اتنا ہی زیادہ مسئول ہے۔ اِس وجہ سے ہر ایک کے لیے ضروری ہوا کہ خدا کے مواخذے سے پہلے اپنا محاسبہ کرتا رہے اور اِس یقین کے ساتھ محاسبہ کرتا رہے کہ اُس کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی خدا کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۵۸)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*مسلم، رقم ۳۴۹۱۔
**الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/۹۶، ۱۱۶، ۱۲۰، ۱۳۲۔