اللہ کے نبی جس کام پر مامور ہوتے ہیں، قرآن کی اصطلاح میں وہ انذار و بشارت ہے۔ یعنی وہ آسمان سے وحی پاکر لوگوں کو حق بتاتے ہیں اور ایمان لانے والوں کو قیامت کے اچھے انجام کی خوش خبری سناتے ہیں اور انکار کرنے والوں کو برے انجام سے خبردار کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةًﵴ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ.(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر (اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے ، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے ۔‘‘
حضرت آدم، حضرت ادریس، حضرت اسمٰعیل، حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت الیاس، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کا شمار اِنھی انبیا میں ہوتا ہے۔
نبیوں میں سے بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ رسالت کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ اِن کا کام انذار و بشارت تک محدود نہیں ہوتا، اُس سے آگے بڑھ کر وہ عملاً حق کا غلبہ قائم کرتے ہیں ۔ گویا وہ خدا کی عدالت بن کر آتے ہیں اور مخاطبین کے بارے میں جزا و سزا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُن پر نافذ کر کے رخصت ہوتے ہیں۔ سورۂ یونس میں فرمایا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌﵐ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ.(۱۰: ۴۷)
’’ (اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
سورۂ مجادلہ میں ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ٘ اُولٰٓئِكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ. كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْﵧ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ. (۵۸: ۲۰- ۲۱)
’’(تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول سے دشمنی کریں گے، وہی سب سے بڑھ کر ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔ اِس لیے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘
حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت یونس، حضرت شعیب ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام رسولوں کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی رسالت کے منصب پر فائز تھے۔ چنانچہ اللہ نے آپ کے فرضِ منصبی کو ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِيْ٘ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ.(الصف ۶۱ : ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اُس کو غالب کر دے، خواہ یہ مشرکین بھی اِسے کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
رسالت کے باب میں اللہ کی اِس سنت کا نفاذ کیسے ہوتا ہے، اِسے استاذِ گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔
’’اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتا اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتا ہے ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الہٰی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جاتا ہے کہ حق کی جو نشانیاں خوداُنھوں نے بہ چشم سر دیکھ لی ہیں، اُن کی بنیاد پر اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ ’’شہادت‘‘ ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت ، دونوں میں فیصلۂ الہٰی کی بنیاد بن جاتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا اوراِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ’شَاهِد‘ اور ’شَهِيْد‘ اِسی بنا پر کہا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا٘ اَرْسَلْنَا٘ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًاﵿ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا٘ اَرْسَلْنَا٘ اِلٰي فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا. (المزمل۷۳: ۱۵)
’’تمھاری طرف، (اے قریش مکہ)، ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ ‘‘‘‘(۷۲- ۷۳)
اللہ کے رسولوں پر شہادت کی یہ ذمہ داری دعوت کے چند خاص مراحل کا تقاضا کرتی ہے۔ اِن مراحل کے کچھ لازمی نتائج بھی ہیں ، جو اللہ کی طرف سے ہرحال میں برآمد ہوتے ہیں۔ یہ کل پانچ مراحل ہیں ۔ اِن کا اجمالی بیان درج ذیل ہے:
پہلا مرحلہ ’’انذار‘‘ ہے ۔اِس کے معنی لوگوں کو اُن کے انجام سے خبردار کرنے کے ہیں ۔ اللہ کے نبی تو صرف قیامت کے عذاب سے خبردار کرتے ہیں، مگر اللہ کے رسول اُس عذاب سے بھی متنبہ کرتے ہیں، جو اُن کی دعوت کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والوں پر اِسی دنیا میں نازل ہو تا ہے۔ استاذِ گرامی کے الفاظ میں:
’’وہ اپنی قوم کو بتاتے ہیں کہ وہ زمین پر ایک قیامت صغریٰ برپا کر دینے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں ۔خدا کی حجت جب اُن کی دعوت سے پوری ہو جائے گی تو اُن کی قوم کو اپنی سرکشی کا نتیجہ لازماً اِسی دنیا میں دیکھنا ہوگا۔‘‘ (میزان ۵۳۶)
دوسرا مرحلہ ’’انذار عام‘‘ ہے ۔ یہ پہلے مرحلے ہی کا تسلسل ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اِس میں اللہ کے رسول کو حکم دیا جاتا ہے کہ اب وہ اپنی دعوت کو نج کی مجالس سے آگے بڑھا کر علانیہ اور کھلم کھلا پوری قوم کے سامنے پیش کرے۔
تیسرا مرحلہ ’’اتمام حجت‘‘ ہے ۔یعنی رسول کی مسلسل دعوت اور آیاتِ الہٰی کے ظہور کے نتیجے میں پیش کردہ حقائق روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں ۔ مخاطبین کے پاس اِن کے انکار کے لیے کوئی عذر، کوئی جواب، کوئی سند، کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ یہی موقع ہے جسے اصطلاح میں ’’اتمام حجت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے:
’’جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے ،وہ اِس طرح مبرہن ہو جائے کہ ضد ،ہٹ دھرمی اور عناد کے سوا کوئی چیز بھی آدمی کو اُس کے انکار پر آمادہ نہ کر سکے ۔اِس میں ظاہر ہے کہ خدا کی دینونت کے ساتھ اسلوب ،استدلال، کلام اور پیغمبر کی ذات و صفات اور علم و عمل ، ہر چیز موثر ہوتی ہے ، یہاں تک کہ معاملہ کھلے آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اِس موقع پر پیغمبر اپنے مخاطبین کا انجام بھی بڑی حد تک واضح کر دیتا ہے اور دعوت میں بھی بالکل آخری تنبیہ کا لب و لہجہ اختیار کر لیتا ہے۔ ‘‘(میزان ۵۴۰)
چوتھا مرحلہ ’’ہجرت و براءت‘‘ ہے ۔جب رسول کے مخاطبین پر حجت تمام ہو جاتی ہے تو یہ مرحلہ آ جاتا ہے۔ اِس میں پیغمبر اپنی قوم کو اُس کے انکار کی فرد قرارداد جرم سنا دیتا ہے اور اُس سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔ اِس کے بعد حسبِ حالات اللہ کی طرف سے بتا دیا جاتا ہے کہ قوم کی مہلت ختم ہو گئی اور اُس کی جزا و سزا کا وقت آ گیا ہے۔ قوم اگر انکار ہی پر جازِم ہو تو پیغمبر کو ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے۔
پانچواں اور آخری مرحلہ ’’جزا و سزا‘‘ ہے۔اِس میں مومنین کے لیے جزا اور منکرین کے لیے سزا کا نفاذ ہوتا ہے۔یہ جزا و سزا من جانب اللہ ہوتی ہے اور اُسی کے حکم کے مطابق اور اُسی کے مقرر ہ وقت پر دی جاتی ہے۔ اِس کی نوعیت اور اِس کی مختلف صورتوں کے بارے میں استاذ گرامی نے لکھا ہے:
’’اِس میں آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ،خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور پیغمبر کی قوم کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے ۔پیغمبروں کے انذار کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے ،اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اور اُسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اُس کے نکلنے سے پہلے ہی کسی سرزمین میں اللہ تعالیٰ اُس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتا ہے ۔ اِن دونوں ہی صورتوں میں رسولوں سے متعلق خدا کی وہ سنت لازماً روبہ عمل ہوجاتی ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان ہوئی ہے :
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌﵐ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ.(یونس۱۰ :۴۷)
’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑدینے کے بعد،عام اِس سے کہ وہ اُس کی وفات کی صورت میں ہو یا ہجرت کی صورت میں، یہ فیصلہ اِس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں، ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا اور ابروباد کے لشکر قوم پر اِس طرح حملہ آور ہو جاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا ۔تاہم یہ معاملہ اُنھی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے لیے قرآن اپنی اصطلاح میں ’مُشْرِكِيْن‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اصلاً توحید ہی سے وابستہ ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا۔ اُن کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اُن کے استیصال کے بجاے اُن پر ذلت اور محکومی کا عذاب مسلط کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا اورقوم نوح، قوم ہود، قوم صالح،قوم لوط، قوم شعیب اور اِس طرح کی بعض دوسری قومیں اِس کے برخلاف زمین سے مٹا دی گئیں۔
دوسری صورت کے لیے بھی یہی قانون ہے، لیکن اُس میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے ۔اِس صورت میں ،ظاہر ہے کہ قوم کو کچھ مہلت مل جاتی ہے۔ رسول اِس عرصے میں دارالہجرت کے مخاطبین پر اتمام حجت بھی کرتا ہے ،اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی تربیت اور تطہیر و تزکیہ کے بعد اُنھیں اِس معرکۂ حق و باطل کے لیے منظم بھی کرتا ہے اور دارالہجر ت میں اپنا اقتدار بھی اِس قدر مستحکم کر لیتا ہے کہ اُس کی مدد سے وہ منکرین کے استیصال اور اہل حق کی سرفرازی کا یہ معرکہ سر کر سکے۔‘‘ (میزان ۵۴۳-۵۴۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ