اسلام کے جلیل القدر عالم اورعہد حاضر کے سب سے بڑے فقیہ دنیا سے رخصت ہوئے۔
امام یوسف القرضاوی سے میرا پہلا تعارف ۱۹۷۹ء میں ہوا، جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔۲۵ ؍ ستمبر کولاہور میں مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی کی نماز جنازہ انھوں نے پڑھائی۔مولانا کی علمی حیثیت اورقدر ومنزلت سےاُس وقت زیادہ شعوری آگاہی تو نہیں تھی، لیکن گھر میں ان کا اور ان کی کتب کا جس طرح تذکرہ ہوتا،اس سے ان کی علمی وجاہت کا اندازہ تھا۔اس سے قیاس کیا کہ مولانا جیسی ہستی کا جنازہ پڑھانے کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا گیاہے،یقیناً اس کی علمی قامت بھی معمولی نہیں ہوگی۔
جب شعوری زندگی میں داخل ہوئے تواسلامی تحریکوں میں دل چسپی بڑھی۔جماعت اسلامی کے پس منظر کے باعث الاخوان المسلمون سے تعارف فطری تھا۔اخوان سے یہ تعارف، لیکن امام حسن البنا اور سید قطب تک محدود رہا جن کے احوال اور بعض کتب کو اردو میں منتقل کیا گیا تھا۔ان کے علاوہ اخوان سے متعلق علمی شخصیات سے کم واقفیت رہی۔ خلیل حامدی مرحوم نے سید قطب شہید کی معروف ترین تصنیف’’معالم فی الطریق‘‘ کا ترجمہ ’’جادہ و منزل‘‘ کے عنوان سے کر رکھاتھا۔ ’’امام حسن البنا کی ڈائری‘‘ بھی انھی دنوں پڑھی۔ اس مرحلے پر، لیکن علامہ یوسف القرضاوی یا شیخ محمد الغزالی جیسی شخصیات سے تعارف نہ ہو سکا۔
طالب علمانہ سفر میں ان کا نام کانوں میں پڑتا رہا، لیکن بالاستیعاب،ان کی کسی تصنیف کے مطالعے کا موقع نہ ملا۔ اس کی بڑی وجہ عربی زبان سے عدم واقفیت تھی۔اسی سفر میں ایک مرحلہ آیا جب میں ’عالمی ادارہ فکر اسلامی‘ سے وابستہ ہوگیا۔یہ ادارہ عالم گیر تھا اور اس کی ایک شاخ پاکستان میں بھی تھی جو ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم کی نگرانی میں علمی و تحقیقی کام کر رہی تھی۔اسی عرصے میں مجھے خیال ہوا کہ عربی زبان کے حوالے سے اپنی کم زوری کا ازالہ کیا جائے اور انصاری صاحب جیسے بڑے اسکالر کی صحبت سے فائدہ اٹھایا جائے۔
عربی کے کچھ ابتدائی اسباق میں نے پڑھ رکھے تھے۔انصاری صاحب سے ذکر کیا تو انھوں نے مشورہ دیا کہ عربی کی کسی کتاب کا انتخاب کرکے،میں ان کے ساتھ سبقاً سبقاً پڑھوں۔اس سے جہاں میری عربی زبان کی استعداد بڑھے گی، وہاں ایک کتاب کا ترجمہ بھی ہو جائے گا۔کتاب کا انتخاب بھی انھوں نے کیا اور یہ علامہ یوسف القرضاوی کی تصنیف تھی ’’کیف نتعامل مع السنتہ النبویہ‘‘ ۔اپنی کوتاہی کے باعث میں یہ ترجمہ مکمل نہ کر سکا۔ یہ قرضاوی صاحب کی تصنیفات سے پہلا باضابطہ تعارف تھا۔اسی ادارے کے زیر اہتمام ’’اسلام اور سیکولرزم‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔’’اسلام میں حلال و حرام‘‘ پر ان کی کتاب کاانگریزی ترجمہ بھی یہیں سے مل گیا۔
عالم اسلام میں جب مذہب کے نام پرانتہا پسندی کی لہر اٹھی اور اس نے دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی تو علامہ یوسف القرضاوی کی شہرت عام ہونے لگی۔اس کی وجہ ان کی وہ علمی آرا تھیں جو جہاد اور دہشت گردی کے ضمن میں سامنے آئیں۔عالم اسلام میں ان کی علمی حیثیت مسلمہ تھی۔ بہ حیثیت فقیہ اس کا اعتراف علمی حلقوں میں پہلے ہی سے موجود تھا۔ان کی کتاب ’’فقہ الزکوۃ‘‘ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اس موضوع پرکیا گیاسب سے وقیع تحقیقی کام ہے۔ ایسی شخصیت نے جب جہاد اور اس نام سے برپا ہونے والی تحریکوں کے بارے میں کلام کیا تولازم تھا کہ ان کی آواز کو غور اور توجہ سے سنا جاتا اور ایسا ہی ہوا۔واقعہ یہ ہے کہ علامہ یوسف القرضاوی جیسے لوگ کھڑے نہ ہوتے تو رہا سہا عالم اسلام بھی ان انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں کھنڈر بن چکا ہوتا۔علامہ یوسف القرضاوی عملی زندگی میں بھی متحرک رہے۔اخوان سے وابستگی کے علاوہ وہ مصر میں ایک اعتدال پسند فورم’وسطیہ‘ کا بھی حصہ رہے جس میں سیکولر نقطۂ نظر کے لوگ بھی شامل تھے۔
ایک کالم ا س کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ مرحوم کی علمی خدمات کا احاطہ کرے،اس لیے میں ان کی بڑی تصنیف ’’فقہ الجہاد‘‘ کا قدرے تفصیل سے ذکر کروں گا جوموجودہ حالات سے سب سے زیادہ متعلق ہے۔یہ ضخیم کتاب دوجلدوں میں ہے۔اس کا آخری حصہ پوری کتاب کا خلاصہ ہے۔خوش قسمتی سے چند ماہ پہلےاس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے۔برادرم عاطف ہاشمی صاحب نے ترجمے کے نئے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئےاس کا بہت اچھا ترجمہ کیا ہے جسے صاحب زادہ امانت رسول صاحب کے ’’ادارہ فکر جدید‘‘ نے خوش ذوقی کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔اس وقت میرے پیش نظر یہی ترجمہ ہے۔اس کے چند اہم نکات کو میں یہاں اپنے الفاظ میں نقل کر ہا ہوں:
۱۔جہادفرض ہے اوراس کا مفہوم وسیع ہے۔جیسے شیطان کے ورغلانے سے فرد میں برائی کا جو رجحان پیدا ہوتا ہے،اس کے خلاف جہاد کرنا۔اس کے ساتھ جہاد کی ایک قسم ’سول جہاد‘ہے جو معاشرتی برائیوں کے خلاف ہے۔
۲۔جہاد بالسیف کا تعلق فرد سے نہیں،امت وریاست سے ہے۔اس کو شرعی سیاست میں شامل کیاگیاہے جس کا فیصلہ مقصد،مصالح اور ترجیح جیسے امور کی بنیاد پر ہو گا۔
۳۔اسلامی معاشرے کے اندر ظلم کے خلاف جہاد کا سب سے اعلیٰ درجہ ارتداد اور مرتدین کے خلاف جہاد ہے، کیونکہ یہ بغاوت کے مثل ہے۔
۴۔اقدامی جہاد،اختلافی امر ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف انھی سے قتال کرتے تھے جو آپ سے جنگ کرتے تھے، لیکن جنھوں نے آپ کے ساتھ جنگ نہیں کی اور مصالحت کا رویہ رکھا،آپ نے ان سے قتال نہیں کیا۔
۵۔کافروں کے خلاف جنگ کی علت ان کا کفر نہیں، بلکہ ان کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ برپا کرنا ہے۔اگر محض کفر وجہ ہوتی تو جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا بھی جائز ہوتا۔
۶۔ سید مودودی اور سید قطب جاہلیت پر مبنی نظاموں کے خلاف اقدامی جہاد کو جائز کہتے ہیں۔یہ راے درست نہیں۔ان مفکرین اور ان کے پیروکاروں میں دو خرابیاں ہیں۔یہ اختلافی مسئلے کو بھی ایسے بیان کرتے ہیں جیسے وہ اجماعی ہو۔جیسے اقدامی جہاد۔بعض اہل علم کی راے ہے کہ اقدامی جہاد صرف صحابہ پر فرض تھا۔ان میں دوسری خرابی یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر کم عقلی اور نفسیاتی شکست کا الزام عائد کرتے ہیں۔سید قطب، مخالفین کے بارے میں مولانا مودودی کی نسبت زیادہ سخت راے رکھتے ہیں۔علامہ یوسف قرضاوی نے سید قطب کے ان افکار پر اپنی چھ تنقیدی آرا کا ذکر کیا ہے۔
۷۔ مسلمانوں کے لیے ساری دنیا دار العہد ہے،سواے اسرائیل کے۔یہ ناجائز ریاست ہے اور اس کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں۔یہ حملے کہیں اور جائز نہیں۔
۸۔جزیرۃالعرب کے سواتمام عالم اسلام میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی تعمیر جائز ہے۔
۹۔غیر مسلم اگر ’السلام علیکم‘ کہے تو اسے جواباً ’وعلیکم السلام‘کہنا جائز ہے۔
امام یوسف القرضاوی نے اس موضوع پر اور بہت کچھ لکھا ہے۔اس سے اتفاق اور عدم اتفاق، دونوں کے امکانات موجود ہیں۔دونوں صورتوں میں کسی کے پاس ان کی علمی عظمت کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انھوں نے روایت سے وابستہ رہتے ہوئےاپنے عہد کے مسائل پر غور کیا اور فکر اسلامی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ ان کی کئی کتب کے اردو تراجم ہو چکے ہیں۔علوم اسلامی کاکوئی طالب علم ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں اپنی مغفرت سے نوازے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا، لاہور، ۲۹/ ستمبر ۲۰۲۲ء)
____________