HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۱۴)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں،ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ

سلسلۂ نسب

حضرت عتبہ بن غزوان ہجرت مدینہ سے چالیس برس قبل ۵۸۱ء یا  ۵۸۴ء میں مكہ میں پیدا ہوئے۔ان كے دادا كا نام حارث بن جابر (یا جابر بن وہیب) تھا۔ بنو قیس كی شاخ بنو مازن ان كا قبیلہ تھا جو مغربی عرب حجاز میں آباد تھا ۔بانی قبیلہ مازن بن منصور ان كے دسویں جد تھے ۔ پندرھویں جد مضر بن نزار پر ان كا شجرۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجره سے جا ملتا ہے۔مالك بن نضر آپ كے بارھویں، جب كہ ان كے بھائی قیس عیلان بن مضر حضرت عتبہ كے چودھویں جد تھے۔ ابن ہشام نے حضرت عتبہ كے سلسلۂ نسب سے تین اور ابن سعد نے ایك نام حذف كر دیا ہے، اس طرح مازن ان كے ساتویں یا نویں جد بنتے ہیں۔

حضرت عتبہ زمانۂ جاہلیت میں قریش كے ذیلی قبیلے بنو نوفل (دوسری روایت :بنو شمس بن عبد مناف)كے حلیف تھے۔ابو عبدالله یا ابوغزوان ان كی كنیت تھی۔ حضرت بسره بنت غزوان ان كی بہن تھیں جنھوں نے حضرت ابوہریرہ كو ملازمت دی، پھر ان سے نكاح كر لیا۔ حضرت عتبہ كو اپنے جد مازن بن منصور كی نسبت سے مازنی اور مازن كے بھائی سلیم بن منصور كے نام پر سلمی بھی كہا جاتا ہے۔ابن ہشام كہتے ہیں: عرب یہ تجاوز اس وقت كرتے ہیں جب جد كا بھائی زیاده مشہور ہو۔حضرت خدیجہ كی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نسبت طے كرانے والی حضرت نفیسہ بنت منیہ حضرت عتبہ كی پھوپھی زادتھیں۔

حضرت عتبہ بن غزوان كی شادی بنو ثقیف كی حضرت عزدہ یا صفیہ بنت حارث سے ہوئی تھی۔

ایك بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش سے دریافت فرمایا:كیا تم میں ایسا شخص بھی ہے جو قریش سے نہ ہو؟لوگوں نے جواب دیا :ہاں ،ہمارے بھتیجے عتبہ بن غزوان۔آپ نے فرمایا:قوم كا بھتیجا (او ر قوم كا حلیف) قوم ہی میں شمار ہوتے ہیں (مستدرك حاكم، رقم  ۵۱۴۰)۔

قبول اسلام

حضرت عتبہ بن غزوان ان اصحاب رسول میں سے تھے جو ابتداے اسلام میں نور ایمان سے منور ہوئے۔ بصره میں خطبہ دیتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ سابقین اسلام میں ان کا نمبر ساتواں ہے۔ تاریخ كے دوسرے ذرائع میں یہ شمار بیان نہیں ہوا۔ ابن اسحاق اور ان كے متبع ابن ہشام نے السابقون الاولون كی فہرست میں حضرت عتبہ كا نام شامل نہیں كیا ۔

ہجرت حبشہ

۵/نبوی میں نادار مسلمانوں پر کفار مکہ کی ستم آرائیاں حد سے بڑھ گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ كو سرزمین حبشہ میں پناه لینے كامشورہ دیا۔حضرت عتبہ حبشہ کی دوسری ہجرت میں شامل ہوئے ۔تب ان كی عمر چالیس برس تھی۔سمندر پار كی اس سرزمین میں کچھ عرصہ گزرا تھا كہ آپ كی محبت انھیں كشا ں كشاں مكہ واپس لے آئی۔ ہجرت مدینہ تك وه آپ كی صحبت میں رہے۔ابن اسحاق كہتے ہیں كہ وه كفار كے قبول اسلام كی افواه سن كر واپس آئے اور مكہ میں داخل ہونے والے تینتیس مسلمانوں میں شامل تھے۔

ہجرت مدینہ

ربیع الاول ۱۳/نبوی (ستمبر ۶۲۲ء) میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ كوالله كی طرف سے مدینہ ہجرت كرنے كا اذن ہو ا۔تب حضرت عتبہ بن غزوان مكہ میں مقیم تھے۔ انھوں نے حضرت مقداد بن اسود كے ساتھ مدینہ ہجرت كی۔ہجرت كےبعد وه اور ان كے آزاد كردہ حضرت خباب بن ارت قبا میں بنو عجلان كے حضرت عبداللہ بن سلمہ کے ہاں ٹھیرے ۔ ایك دوسری روایت میں حضرت عتبہ كو بنو عبدالاشہل كے حضرت عباد بن بشركا مہمان بتایا گیا ہے۔

جب نبی صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار میں مواخات قائم فرمائی تو حضرت ابودجانہ انصاری (دوسری روایت:حضرت معاذ بن ماعص)كو حضرت عتبہ كا انصاری بھائی قرار دیا (مستدرك حاكم، رقم ۵۰۱۷)۔

غزوات و سرایا میں شرکت

حضرت عتبہ نے عہد رسالت میں ہونے والی تمام جنگوں میں حصہ لیا اور شجاعت وپامردی کا مظاہرہ كیا۔ تیراندازی میں وه ماہر کامل تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی موجودگی میں انھوں نے نیزه بازی كے جوہر دكھائے۔ انھوں نے كئی سرایا میں بھی حصہ لیا۔

سریۂ عبیده بن حارث

شوال ۱ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ساٹھ (یا اسی) مہاجرین کا ایک دستہ ترتیب دیا۔حضرت عبیدہ کو عہد اسلامی کا پہلا پرچم عنایت کر کے آپ نے بطن رابغ کی طرف جانے کا حکم دیا۔مکہ کی طرف جانے والے راستے پر واقع جحفہ سے دس میل آگے ثنیۃ المرہ کے زیریں علاقے میں احیا نامی جھیل پر اس دستے کی مشرکوں کے دو سو پر مشتمل ایک بڑے جتھے سے مڈ بھیڑ ہوئی جس کی سربراہی ابو سفیان بن حرب یا عکرمہ بن ابو جہل یا مكرز بن حفص کے پاس تھی۔ اسلام کی آمد کے بعد یہ پہلا سریہ تھاجس میں جنگ ہوئی نہ تلوار سونتی گئی۔محض آمنا سامنا ہوا اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے تاریخ اسلامی کا پہلا تیر پھینکا۔ اسی سریہ میں حضرت مقداد بن عمرو(اسود)اور حضرت عتبہ بن غزوان جوحیلہ کر کے کفار کے ساتھ آئے تھے، اپنے مسلمان بھائیوں سے آن ملے۔

حضرت عبدالله بن جحش كی مہم

اواخرجمادی الثانی ۲ھ(جنوری ۶۲۴ء)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش کی قیادت میں نویا باره مہاجرین کا سریہ طائف كے قریب نخلہ كی طرف روانہ كیا۔ حضرت عتبہ بن غزوان،حضرت واقد بن عبداللہ ،حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا حضرت عبدالله بن جحش كے ساتھ تھے۔ آپ نے قتال كا حكم نہ دیا اور ارشاد فرمایا: وہیں ٹھیرنا اور قریش کی آمد ورفت كی اطلاع ہم تك پہنچانا۔بحران (حران: ابن سعد) کے مقام پر حضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعد بن ابی وقاص کا مشترکہ اونٹ کھو گیا تو دو نوں اسے تلاش کرنے لگے۔اس اثنا میں حضرت ابن جحش باقی ساتھیوں کو لے کر نخلہ پہنچ گئے۔ قریش كا ایك چار ركنی قافلہ کشمش، کھالیں، شراب اور دوسرا سامان تجارت لے كر یہاں ٹھیرا ہوا تھا۔ حضرت واقد بن عبداللہ نے تیر پھینك کر قافلے کے سردار عمرو بن عبدالله حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل(یا مغیرہ) بن عبداللہ فرار ہو گیا۔ یہ جمادی الثانی کا آخری دن یا حرام مہینے رجب کی پہلی رات تھی۔

عمر و بن حضرمی حرب بن امیہ كے حلیف عبدالله بن حضرمی كا بیٹا، جب كہ عثمان بن عبدالله مغیره بن عبدالله مخزومی كا پوتا تھا۔ابن كیسان ہشام بن مغیره كا غلام تھا۔ہجرت کے بعد یہ پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اور حکم بن كیسان پہلے اسیر تھے۔حضرت عبداللہ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کر کے ۵/۱ حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلیےرکھ لیا، حالاں کہ خمس کاحکم نازل نہ ہواتھا ۔

اہل سریہ مدینہ پہنچےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:میں نے تمھیں ماہ حرام،رجب میں جنگ کرنے کو نہیں کہاتھا۔ مسلمان بھائیوں نے خوب ملامت كی اورقریش نےپیغام بھیجا كہ آپ حرام مہینوں كی تعظیم كرتے ہیں اوران میں قتال جائزنہیں سمجھتے۔ آپ كے صحابی نےہماراآدمی كیوں مارڈالا؟تب یہ ارشادربانی نازل ہوا:

يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِﵧ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌﵧ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۣ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِﵯ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.(البقرہ ۲: ۲۱۷)
’’آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے، اس مہینے میں جنگ کرنا بہت براہے(اس کےساتھ ساتھ) لوگوں کو اللہ کی راہ سےروکنا، اللہ کو نہ ماننا، مسجدحرام کا راستہ بندکرنااورحرم کےرہنےوالوں کو نکال باہر کرنااللہ کےہاں اس سےبھی بدتر ہےاورفتنہ و فساد قتل سےبھی بڑاجرم ہے‘‘

اس حکم وحی کےبعدآپ نےمال غنیمت اورقیدیوں کواپنی تحویل میں لے لیا۔ حضرت عتبہ اورحضرت سعد صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نےسولہ سودینارفدیہ لےکرقریش کےاسیروں عثمان اورحکم کو چھوڑ دیا۔ حضرت حکم بن کیسان نےرہائی کے فوراً بعدآپ کی دعوت پراسلام قبول کرلیا۔عثمان مكہ لوٹ گیااورآخری دم تك مسلمان نہ ہوا۔

سریۂ عبداللہ بن جحش جنگ بدرکےوقوع کاسبب بنا،کیونکہ اس سے قریش کی معیشت کوسخت دھچکالگااوروه آمادہ بہ جنگ ہو گئے۔ شام سےتجارت پران کی خوش حالی كاانحصارتھا،حبشہ اوریمن سےتجارت کاحجم بہت كم تھا۔

 بدر،احد اور خندق كے معركے

حضرت عتبہ بن غزوان جنگ بدر (۱۷/ رمضان ۲ھ،۱۳/ مارچ ۶۲۴ء)كے تین سو تیره مجاہدین میں شامل تھے۔ان كے آزاد كردہ حضرت خباب بن ارت بھی ان كے ساتھ تھے۔حضرت عتبہ نے جنگ احد(۱۷؍شوال ۳ھ،۲۳؍مارچ ۶۲۵ء) اور جنگ خندق(شوال،ذی قعد۵ھ، مارچ۶۲۷ء) میں بھی بھرپورشركت كی ۔

عہد صدیقی

خلیفۂ اول حضرت ابوبكر صدیق نے حضرت عتبہ بن غزوان كو مسیلمہ كذاب كی سركوبی كے لیےیمامہ كی مہم میں حصہ لینے كا حكم دیا۔

خلافت فاروقی ،ابلہ كو روانگی

ربیع الاول ۱۴ھ :حضرت عمر نماز عشا ادا كرنے كے بعد سونے جا رہے تھے كہ ایران سے ایك نامہ بریہ خبر لایا كہ اسلامی فوج جب فتح حاصل كرنے لگتی ہے تو ایرانی لشكر كو ادھر ادھر سے كمك آجاتی ہے ۔ ابلہ كاشہران مواقع پر مال اسباب اور افراد فراہم كرنے كا اہم مركز بنا ہوا ہے۔ تب انھوں نے ابلہ زیر كرنے كا ارادہ كر لیا۔ علی الصبح انھوں نے حضرت عتبہ غزوان كو بلا كر كہا: الله نے تمھارے بھائیوں كو حیره میں فتح دی ہے اور ایرانیوں كا سورما مہران بن باذان اپنے انجام كو پہنچا ہے۔مجھے اندیشہ ہے كہ ایرانی اس كا بدلہ لینے آئیں گے، اس لیے میں چاہتا ہوں كہ تمھیں ارض ہند(ابلہ ) بھیج دوں تاكہ تم ایرانیوں كی دفاعی لائن منقطع كر كے ان كی مزاحمت ختم كردو۔

مشكل یہ تھی كہ اس وقت تك اہل ایمان كی اكثریت جہاد پر نكل چكی تھی،نوجوان كیا بوڑھے بھی مختلف مہمات پر جا چكے تھے۔ان حالات میں حضرت عمر نے ایك چھوٹی فوج كو ایك طاقت ور كمانڈر حضرت عتبہ بن غزوان كی قیادت میں بھیجنے كی اسٹریٹیجی اپنائی۔طبری اور ابن اثیركے بیان كے مطابق انھوں نے ربیع الاول ۱۴ھ میں حضرت عتبہ كو تین سو دس كی مختصر فوج كا سالار مقرر كركے عراق روانہ كیااور كہا: میں نے تمھیں ارض ہند(ہندوستان كی سرحد، ابلہ ) پر مقرر كیا ہے،یہ دشمن كے اہم جنگی مقامات میں سے ایك ہے۔ توقع ہے كہ الله تمھارا مددگار ہو گا۔ میں نےعلاء بن حضرمی كوخط لكھا ہے كہ عرفجہ بن ہرثمہ كی قیادت میں تمھیں كمك بھیجے۔ وه دشمن سے جہاد كرنے اور جنگی چالیں چلنے میں مہارت ركھتا ہے،اس سے مشوره كر لینا۔اپنی ذمہ داری ادا كرتے ہوئے الله كا تقویٰ اختیار كرنا،كسی غرے میں مبتلا ہو كر ایمان ضائع نہ كر لینا۔ذہن میں ركھنا كہ تم رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے صحابی ہو۔ مملكت عرب كی انتہا اور عجمی سلطنت كی ابتدا تك چلتے جاؤ گے تو دشمن كے اہم مقام تك پہنچ جاؤ گے ۔ ابلہ دشمن كا مضبوط قلعہ ہے،وہاں پہنچ كر باشندگان كو اسلام كی دعوت دینا۔ اگر وه نہ مانیں تو انھیں زیركر كے جزیہ عائد كرنا۔ اگر جزیہ نہ دیں توكسی نرمی كے بغیر تلوار سے جہاد كرنا۔ راستے میں آنے والے عربوں كو فوج میں شامل ہو كر جہاد كرنے كی دعوت دینا۔میں تمھاری كامیابی كی دعا كرتا ہوں۔مدائنی كی روایت كے مطابق حضرت عمر نے حضرت قطبہ بن قتادہ كی درخواست پر حضرت عتبہ بن غزوان كوابلہ بھیجا۔

 بنو ثقیف كے نوجوان فوج میں شامل ہوئے،راستے میں عرب خانہ بدوش قبائل كے افرادكا اضافہ ہوا تو نفری پانچ سو ہو گئی۔حضرت عتبہ كی اہلیہ او ر پانچ اصحاب كی بیویاں شریك سفر تھیں۔

دوسری روایت كے مطابق۱۶ ھ میں جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے جلولا،تكریت اور حصنین فتح كرلیے تو حضرت عمر كے حكم پر انھوں نےحضرت عتبہ بن غزوان كو مدائن سے بصره روانہ كیا۔ ابن جوزی كہتے ہیں :۱۵ھ كا سن صحیح طور پر ثابت ہے اور جمہور مؤرخین نے اسی كو اختیاركیا ہے۔

رستے كی مشكلات

جیش عتبہ قصبہ كے مقام پر پہنچا تو خوراك كا ذخیرہ ختم ہو گیا۔سپاہی بھوك سے بے تاب ہو گئے تو حضرت عتبہ نے انھیں خوراك كی تلاش میں بھیجا۔ راستے میں ان كوجھاڑیوں میں پڑی دو ٹوكریاں نظر آئیں، ایك كھجوروں سے بھری ہوئی تھی اور دوسری میں سفید اناج تھا۔ سپاہیوں نے اناج كو زہر آلوده قرار دے كر چھوڑ دیا اور كھجوریں كھانے میں مصروف ہوگئے۔اس اثنا میں ایك گھوڑا رسی ڈھیلی پا كر اناج كی ٹوكری كی طرف بڑھا۔ اس نے اس میں سے كچھ كھایا ہی تھا كہ اس كی حالت غیر ہوگئی۔ سپاہی گھوڑے كو فوراً ذبح كر كے اس كا گوشت كھانا چاہتے تھے، لیكن اس كے مالك نے شام تك انتظار كرنے كو كہا۔ اگلی صبح گھوڑا مكمل تندرست تھا۔ ایك خاتون نے كہا: اگر زہر كو آگ پر ركھ كر خوب پكا لیا جائے تو اثر نہیں كرتا۔سپاہیوں نے اناج پكا یا تو زہر یا اناج كا چھلكا اتر گیا اور سفید دانے الگ ہو گئے ۔حضرت عتبہ نے بسم اللہ پڑھ كر كھانے كی تلقین كی۔سب لطف اندوز ہوئے ،بعد میں ان كو پتا چلا كہ یہ چاول تھے۔ اسی سفر میں سپاہیوں نے بادام دیكھے تو انھیں پتھر سمجھا اور پھر مزے سے كھانا شروع كر دیا۔

ایران كی سرزمین میں

حضرت عتبہ خریبہ كے مقام پر ركے جو سرزمین عرب كا آخری اور اہل عجم كا پہلا مقام تھا۔قریبی بندرگاہ كی حفاظت پر پانچ سو عجمی سپاہی مامور تھے۔انھوں نے حضرت عمر كو علاقے كی صورت حال لكھ بھیجی كہ یہاں سات بڑے گاؤں ہیں۔ حضرت عمر نے فوج كومنتشر كرنے كے بجاے ایك جگہ مجتمع كرنےكا حكم دیا۔پھر حضرت عتبہ آگے بڑھے اور اجانہ كے مقام پرڈیرا ڈالا۔یہاں ایك ماه قیام كے بعد وه ابلہ پہنچے۔ حضرت عتبہ جنگ كیے بغیر كئی ماه وہاں ركےرہے۔

 رجب یا شعبان ۱۴ھ:حضرت عتبہ كا لشكر مربد(كھلا میدان،موجوده بصره كا ایك محلہ) كے مقام سے آگے دریاے فرات كے چھوٹے پل تك پہنچا تو فرات كا حاكم چار ہزار كی فوج لے كر نكلا۔دوپہر كے بعد جنگ شروع ہوئی، شام تك دشمن كی ساری فوج كا صفایا ہو گیا۔حضرت عتبہ نے حاكم كوگرفتار كرلیا۔مسجد ابلہ كے پاس ستر مسلمان شہید ہوئے۔

ابلہ كی فتح

جمادی الثانی تا رمضان ۱۴ھ(جون تا ستمبر۶۳۵ء):ابلہ میں اسلحے كا بڑا ذخیره تھا، كئی قلعے تھے جن میں گرد و پیش كی نگرانی كے لیےٹاور بنے ہوئے تھے۔اسے اتنی تھوڑی فوج كے ساتھ فتح كرنا نا ممكن تھا۔ حضرت عتبہ نے خریبہ كو مركز بنا كر پیش قدمی كی۔انھوں نے سپاہیوں كو الله اكبر كا نعره لگا كر آگے بڑھنے كا حكم دیا اور كہا: الله تم سےكیا ہوا اپنا وعده پوراكرے گا۔انھوں نے نیزوں پر پرچم لٹكا كر عورتوں كے ہاتھوں میں پكڑا دیے،انھیں فوج كے پیچھے پیچھے چلنے كا حكم دیااور شہر كے نزدیك پہنچ كرپیچھے گرد اڑانے كو كہا تاكہ دشمن كو فوج كی تعداد كا پتا نہ چل سكے۔ایسے ہی ہوا،ابلہ كی فوج نے تاثر لیا كہ ایك بڑا لشكر ان پر حملہ كرنے آرہا ہے ۔انھوں نے مقابلہ كرنے كے بجاے شہر خالی كرنے كا فیصلہ كیا ۔اپنی قیمتی اشیااٹھاكر وہ كشتیوں میں بیٹھے اور دجلہ كے راستے فرار ہو گئے۔ چنانچہ حضرت عتبہ نے بغیر كسی جانی نقصان كے ابلہ زیر كر لیا۔ انھوں نے مال غنیمت كی تقسیم كے لیے حضرت نافع بن حارث كو مقرر كیا۔ملنے والے كل چھ سو درہموں میں سے ہر سپاہی كے حصے میں دو درہم آئے ۔ ابن اثیر كہتے ہیں: یہ ۱۵ ھ كا واقعہ ہے۔ فتح ابلہ میں حضرت ابوبكره بھی شریك تھے۔

ابلہ كی فتح میں مسلمہ بن محیق كے حصے میں كچھ تانبا آیا،بعد میں انھوں نے غور كیا تو معلوم ہوا كہ یہ سونا ہے جس كا وزن اسی ہزار مثقال (موجوده وزن:تین سو چالیس كلوگرام)نكلا۔ابن جوزی نے وزن چالیس ہزار مثقال بتایا ہے۔ حضرت عمر سے استفسار كیا گیا توانھوں نے جواب بھیجا:مسلمہ سے حلف لیا جائے كہ انھوں نے اسے تانبا سمجھ كر قبضہ كیا تھا تو انھی كے سپرد كر دیا جائے، بہ صورت دیگر اس كو تمام مسلمانوں میں بانٹ دیا جائے۔ ان كے حلف كے بعد سونا انھی كو سونپ دیا گیا۔

ابلہ سے اگلی مہمات

 شہر فتح كرنے كے بعد حضرت عتبہ نے حضرت مجاشع بن مسعود كو فوج دے كر آگے بھیجا ۔انھوں نے حضرت مغیره بن شعبہ كو ابلہ كا نگران مقرر كیا اور كہا كہ اس وقت تك نماز پڑھائیں جب تك مجاشع فرات سے واپس نہیں آجاتے،تب وه امیر ہوں گے ۔ حضرت مجاشع نے زیریں دریاے فرات كے كنارے پر آباد شہر فرات ، میسان اور دست میسان پر قبضہ كیا۔دست میسان سے مال غنیمت كے علاوه كئی باندیاں اور غلام ہاتھ آئے۔ ان میں حسن بصری كے والد یسار اور بصره كے راوی حدیث عبدالله بن عون كے دادا ارطبان تھے۔

حضرت عمر كو حضرت مجاشع كی امارت كا علم ہوا تو حضرت عتبہ كو ڈانٹا كہ ایك بادیہ نشین كو اہل شہر پر حاكم كیوں بنایا ہے۔انھوں نے حضرت مغیرہ كی امارت كو برقرار ركھا۔

میسان كے بعد حضرت عتبہ آبر قباذ كی طرف بڑھے،ایك بڑی فوج كو شكست دے كر اس كے رئیس كو پكڑ كر اس كی گردن اڑا دی۔اس كے لباس اور پٹكے میں بیش قیمت سونا اور جواہرات تھےجو امیر المومنین حضرت عمر كو بھیج دیے۔مدینہ كے مسلمان بے حد مسرور ہوئے۔ حضرت عمر نے ڈیڑھ سو سپاہیوں كا تازه دم دستہ حضرت عتبہ كی مدد كے لیے روانہ كیا۔

ہرمزان كی شكست در شكست

جنگ قادسیہ میں شكست كھانے كے بعد ہرمزان خوزستان پر قابض ہو گیا اور وہاں سے میسان اور دست میسان پر حملے كرنے لگا،تب حضرت عتبہ بن غزوان نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے كمك مانگی تو انھوں نے حضرت نعیم بن مقرن اور حضرت نعیم بن مسعود كو میسان اور دست میسان كے بالائی طرف بھیجا۔ادھر حضرت عتبہ نے، حضرت سلمی بن قین اور حضرت حرملہ بن مریطہ كو میسان اور دست میسان كی سرحد پر مامور كیا۔ حضرت سلمی اور حضرت حرملہ نے اہل خوزستان میں سے غالب وائلی اور كلیب بن وائل كو ساتھ ملایا اور مناذر اور نہرتیری پر قبضہ كر لیا ۔ اس طرح دجلہ سے لے كر دجیل تك كا علاقہ مسلمانوں كے قبضے میں آ گیا۔ ہرمزان نے پسپا ہوكر سوق اہواز كا پل عبور كیا اور دوسرے كنارے پر مقیم ہو گیا۔جب مسلمان یہاں بھی پہنچ گئے تواس میں مقابلے كی تاب نہ رہی، اس نے صلح كی درخواست كی جو حضرت عتبہ نے منظور كر لی۔انھوں نے احنف بن قیس كے ہاتھ فتح كی بشارت اور خمس مدینہ روانہ كیا۔لیكن جب اس كا غالب اور كلیب سے اپنی اراضی كی حدود متعین كرنے میں اختلاف ہوا تو وه كردوں سے مدد لے كر پھر آماده بہ جنگ ہو گیا ۔حضرت عتبہ نے حضرت عمر كو مطلع كیا تو انھوں نے حضرت حرقوص بن زہیر كی سربراہی میں كمك بھیجی۔سوق اہواز كے پاس پھر جنگ ہوئی اور ہرمزان كو شكست مكرر ہوئی۔ہرمزان فرار ہوا تو حضرت حرقوص نے حضرت جزء بن معاویہ كو اس كا پیچھا كرنے كے لیے بھیجا ۔رامہرمز پہنچ كر ہرمزان قلعہ بند ہو گیا۔وه حضرت جزء كے ہاتھ نہ آیا تو انھوں نے اس علاقے كو مغلوب كركے اس پر جزیہ عائد كر دیا۔نہریں كھدوا كر زمینو ں كو سیراب كر دیا۔ہرمزان قلعہ بندی سے تنگ آ گیا تو پھر صلح كی فریاد كی ۔حضرت جزء نے حضرت حرقوص كو اور انھوں نے حضرت عتبہ كو خط لكھااور حضرت عتبہ بن غزوان نے حضرت عمر سے اجازت لے كر صلح منظور كر لی۔

حضرت علاء بن حضرمی بحرین میں تھے كہ حضرت عمر نے انھیں خط لكھ كر حضرت عتبہ بن غزوان كے پاس جانے كی ہدایت كی ۔ وه حضرت عتبہ تك نہ پہنچ سكے اور راستے ہی میں ان كی وفات ہو گئی۔

بصره كی بنا

۱۵ھ(۶۳۶ء):ابلہ كی فتح مكمل ہو گئی تو حضرت عتبہ بن غزوان نے حضرت عمر كو خط لكھا كہ یہاں پر موجود فوجیوں كے لیے چھاؤنی بنانے كی ضرورت ہے۔حضرت عمر كے مشورے اور حكم سے ابلہ کے قریب دجلہ و فرات کے ڈیلٹا کا انتخاب کیا گیا جہاں سے دونوں دریا خلیج فارس میں گرتے ہیں۔ صحرا اور خلیج فارس كی بندرگاه كے مابین یہ جگہ عربوں كے مزاج كے مطابق تھی اور فوجی حركات كےلیے موزوں ترین تھی۔ حضرت عتبہ نے خود شہر كا نقشہ بنایا اور خود بناڈالی۔ انھوں نے مختلف قبائل کے لیے الگ الگ احاطہ کھینچ کر گھاس پھوس اور سركنڈوں کے مختصر مکانات بنوائے۔ عاصم بن دلف کو مقرر کیا کہ جہاں جہاں جس قبیلے کو اتارنا مناسب ہو، اتاریں۔ خاص سرکاری عمارتیں جو تعمیر ہوئیں ان میں سے مسجد جامع اور ایوان حکومت جس کے ساتھ دفتر اور قید خانے کی عمارت بھی شامل تھی، زیادہ ممتاز تھا۔حضرت محجن بن الادرع كی بانسوں سے بنائی ہوئی مسجد میں بڑے بڑے اجتماع بھی منعقد كیے جا سكتے تھے۔ فوجیوں نے اپنے مكانات تعمیر كیے، مگر حضرت عتبہ كمبلوں والے خیمے میں مقیم رہے۔ ابن جریر اوربلاذری کا خیال ہے،حضرت عمر نے حضرت عتبہ کو ۴ ۱ ھ میں کوفہ آباد ہونے سے پہلے بصرہ بسانے کے لیے بھیجا۔ پہلے اسے ارض ہند (ہندوستان كی سرحد)كہا جاتا تھا اور یہاں تاریخی شہر ابلہ آباد تھا ۔ بصره آباد ہونے كے بعد ساتویں صدی ہجری تك ابلہ كے نقوش قائم رہے۔

جب مسلمانوں كی تعداد زیاده ہو گئی تو كچی ا ینٹوں كے سات محلے بن گئے۔پھر حضرت عتبہ نے دریاے فرات سے بصره تك نہر كھدوائی۔

بصرہ عربی میں نرم كالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں اور یہاں کی زمین اسی قسم کی تھی، لیکن ایک مجوسی فاضل کا قول زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس کا كہنا ہے كہ بصرہ كے معنی بہت سے راستوں کے ہیں۔ چونکہ یہاں سے بہت سی راہیں ہر طرف کو جاتی تھیں، اس لیے اہل عجم اس کو اس نام سے موسوم کرتے تھے۔

بصرہ كی امارت

شہر كی تعمیر كے بعد حضرت عمر نے حضرت عتبہ بن غزوان كوبصره كا پہلا گورنر مقرر كیا۔ وه اس عہدے پر چھ ماه تك فائز رہے۔

حضرت عتبہ بصره كے حاكم مقرر ہوئے تو ان كی اہلیہ حضرت صفیہ بنت حارث ،سالےحضرت نافع بن حارث،  سالی حضرت ارده بنت حارث ،ہم زلف حضرت شبل بن معبد اور عزیز حضرت ابوبكرہ بھی ان كے ساتھ رہے۔

حضرت علاء بن حضرمی كی مہم جوئی

۱۷ھ:حضرت سعد بن ابی وقاص نے قادسیہ میں فتح عظیم پائی تو بحرین کے گورنر حضرت علاء بن حضرمی بھی عجمیوں کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کرنے کی پلاننگ کرنے لگے۔حضرت عمر نے انھیں کسی بھی سمندری مہم سے روک رکھاتھا، لیکن حضرت علاء نے اس ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارود بن معلیٰ، سوار بن ہمام اور خلید بن منذر کی قیادت میں تین دستے ترتیب دیے۔ خلید نے جوچیف کمانڈر بھی تھے،ان دستوں کوکشتیوں میں سوار کر کے اصطخر پہنچے۔یہ فارس کا علاقہ تھا جہاں ہربزکی حکومت تھی۔اسلامی فوج کشیوں سے اتری تو اہل فارس نے ساحل پر قبضہ کر کے ان کی واپسی کا راستہ مسدود کر دیا۔خلید نے فوج کو دلاسہ دیا، صبر اور نماز سے مدد لو،یہ سر زمین اور کشتیاں اسی کو ملیں گی جس نے غلبہ پایا۔ طاؤس کے مقام پر گھمسان کی جنگ ہوئی،فارسیوں کے کشتوں کے پشتے لگ گئے۔جیش خلید کو فتح حاصل ہوئی، تاہم سوار اور جارود جنگ میں کام آگئے۔مسلمانوں کی کشتیاں ڈوب چکی تھیں،انھوں نے بصرہ لوٹنا چاہا، لیکن وہ فارسی فوجیں ان کے راستے میں رکاوٹ بن گئیں جو ان کے جرنیل شہرک(سہرک:ابن اثیر) نے خشکی کے راستوں پراکٹھی کر رکھی تھیں۔ حضرت عمر کو اطلاع ملی کہ جیش اسلامی خطرے میں ہے توحضرت علاء بن حضرمی پر سخت ناراض ہوئے۔انھیں معزول کرنے کے ساتھ حضرت عتبہ بن غزوان کو تحریركیا: اگرمحصور لشكر كو امدادی فوج نہ بھیجی تو وه مغلوب ہو كر تباه و برباد ہو جا ئے گا۔ حضرت عتبہ نے حضرت عمر كا خط دكھا كر اہل ایمان کو شمولیت کی عام دعوت دی۔ ہاشم بن ابووقاص،حضرت عاصم بن عمرو،عرفجہ بن ہرثمہ، حذیفہ بن محصن اور احنف بن قیس جیسے بہادرشامل ہوئے تو بارہ ہزارکالشکر تیار ہو گیا۔اسے انھوں نے حضرت ابوسبرہ بن ابورہم کی سربراہی میں روانہ کردیا۔ حضرت علاء بن حضرمی کوحضرت عمر نے سرزنش کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص کی کمان میں بھیج دیا۔

حضرت ابوسبرہ نے فوج کو خچروں پر سوار کیااور سمندرکے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے طاؤس میں خلید کی محصورفوج سے جا ملے۔ فارس کی دشمن فوج نے جسے تمام اطراف سے تازہ دم فوجوں کی مدد آ چکی تھی،اسے ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوا تھا۔جیش ابوسبرہ کے پہنچنے کے بعد دوبدو لڑائی ہوئی۔حضرت ابوسبرہ نے فارسی فوج پر کاری ضر ب لگائی،فارسیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے اور شکست فاش کو ان کا مقدر بنا دیا۔انھوں نے بھاری مال غنیمت حاصل کرنے کے ساتھ خلید اور ان کی فوج کو حصار سے چھڑا لیا۔فتح کے بعدحضرت ابوسبرہ فوج لے کر بصرہ میں حضرت عتبہ بن غزوان کے پاس واپس پہنچ گئے، كیونكہ انھوں نے فوراً لوٹنے كی ہدایت كی تھی ۔

بصره میں الوداعی خطبہ

حضرت عتبہ كو اندیشہ تھاكہ فتوحات و غنائم حاصل كر لینے كے بعد مسلمانوں پر دنیا غالب آ جائے گی۔انھوں نے بصره كی مسجد میں لوگوں كو جمع كر كے خطبہ دیا اور حمد وثنا كے بعد فرمایا :دنیا نے اپنے ختم ہونے كی خبر دے دی ہے، وه دوڑتی ہوئی واپس جا رہی ہے۔اس میں سے اتنا ہی بچا ہے،  جتنا كہ ایك برتن میں كچھ پانی لگا ره جاتا ہے اورانسان اسی پر گزاره كرنے كی كوشش كرتاہے ۔تم اس دنیا سے دار آخرت میں جانے والے ہو جس کو کبھی زوال نہ ہو گا ،اس لیے اپنے مقدور میں میسر بہترین اعمال لے كر وہاں جاؤ۔ ہمیں مستقبل كی خبر دی گئی ہے كہ اگر پتھر کا کوئی ٹکڑا جہنم کے کنارے سے لڑھکایا جائےگا تو وه ستر برس كی مدت گزارنے كے باوجود اس کی تہ كو نہ پہنچ سكے گا ۔والله،پھر بھی اتنی بڑی جہنم بھرجائے گی، كیا تمھیں تعجب نہیں ہو رہا؟ہمیں غیب كی یہ اطلاع بھی دی گئی ہے كہ جنت کے دروازے كے پٹوں میں اتنا فاصلہ ہو گا كہ اسے عبور كرنے كے لیے چالیس برس لگیں گے ، لیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ ہجوم سے بھر جائے گا۔

میں جب ایمان لایا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صرف چھ اہل ایمان تھے اور میں ساتواں تھا ۔ عسرت و ناداری کا یہ عالم تھا کہ كانٹے دار درختوں کے پتوں پر گزارہ تھا، جن سے ہمار ی باچھیں پھٹ جاتیں اور ہونٹ جلتے تھے۔مجھے ایک دفعہ ایک چادر مل گئی جس کو چاک کرکے میں نے اورسعد بن ابی وقاص نے تہ بند بنایا ۔ ایک یہ دن آیا ہے جب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا امیر ہے۔ میں الله سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے آپ كو بڑا سمجھوں اور الله كے ہاں حقیر ٹھیروں۔ نبوت ختم ہوچکی ہے اور اس كا اثر جاتا رہا، انجام کار بادشاہت قائم ہو گی، اورتم ہمارے بعد كے حاكموں كی آزمایش میں پڑو گے(مسلم، رقم ۷۵۴۵۔ترمذی، رقم ۲۵۷۵۔ ابن ماجہ ، رقم ۴۱۵۶۔ احمد،رقم ۱۷۵۷۵۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۱۳۹۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۶۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۵۹۴۱ )۔

یہ الفاظ ادا كر كےحضرت عتبہ نےحضرت مغیره بن شعبہ كو اپنا قائم مقام مقرر كر كے نماز پڑ ھانے كو كہا اور حج كے لیے روانہ ہو گئے۔

امارت سے بے زاری

 حضرت عتبہ بن غزوان حضرت سعد بن ابی وقاص كے ماتحت تھے۔حضرت سعد وقتاً فوقتاً حضرت عتبہ كو احكامات لكھتے رہتے تھےجو انھیں ناگوار گزرتے تھے۔ بصره كا گورنر بننے كےبعدحضرت سعد نے انھیں خط لكھا جس پر وه بہت رنجیدہ ہوئے۔ حج كرنے كے بعدوه مدینہ پہنچے اور حضرت عمر سے شكایت كی۔انھوں نے جواب دیا: تمھیں قریش كے ایك فرد كی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا صحابی بھی ہے ، امارت پر كیا اعتراض ہے۔حضرت عتبہ نے كہا: قریش كا حلیف ہونے كی وجہ سے میں بھی قریشی ہوں اور میری بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے طویل اور قدیم صحبت رہی ہے۔حضرت عمر نے كہا:ہاں، میں انكار نہیں كرتا۔تب حضرت عتبہ نے گورنری چھوڑنے كا فیصلہ كر لیا ،انھوں نے حضرت عمر سے درخواست كی كہ ان كی جگہ كسی او ر كو گورنر بنا دیا جائے ۔ حضرت عمر ان كی بے حد عزت كرتے تھے اور ان كی بنی ہوئی ساكھ سے فائده اٹھانا چاہتے تھے۔انھوں نے كہا: تم نے مجھے اپنے بھروسے اور اعتماد سے زیر بار كر دیا ہے اور اب اپنی امانتیں میری گردن پر ركھ كر مجھے اكیلا چھوڑ رہے ہو۔ انھوں نے ان كا استعفا قبول کرنے سے انکار كیا اوربصرہ واپس جا كر اپنی ذمہ داری سنبھالنے كو كہا ۔وه بوجھل دل كے ساتھ یہ دعا كرتے ہوئے روانہ ہوئے كہ الله انھیں بصره اور اس كی گورنری سے بچالے۔یہ دعا یوں قبول ہوئی كہ معدن بنو سلیم (ابن سعد)یا ربذه (مدائنی)كے مقام پر ان كے اونٹ كو ایسی ٹھوكرلگی كہ وه گر كر سخت زخمی ہوئے اور ان زخموں كی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ دوسری روایت كے مطابق انھیں پیٹ كامرض لاحق ہوا جس سے ان كی وفات ہوئی۔ حضرت عتبہ كا غلام سوید ان كا تركہ لے كر حضرت عمر كی خدمت میں حاضر ہوا۔

حضرت عتبہ كی وفات كے بعد حضرت ابوسبرہ، پھر حضرت مغیرہ بن شعبہ والی بصره مقرر ہوئے۔

سن وفات

حضرت عتبہ بن غزوان نے۱۷ھ( ۶۳۸ء) میں وفات پائی ۔ ایك قول كے مطابق وه ۱۵ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے۔ تیسری روایت میں ان كا سن وفات ۱۴ ھ بتایا گیا ہے جب بصره كی تعمیر مكمل ہوئی ۔ان كی عمر ستاون برس ہوئی۔ان كی تدفین مدینہ منوره كے قر یب ربذه (بطن نخلہ :طبری) كے مقام پر ہوئی۔حضرت عمر كو اطلاع ملی تو ان كی قبر پر پہنچےاور كہا:اگر مقرره اجل اور لكھی ہوئی قسمت كا عقیدہ نہ ہوتا تو میں كہتا: تمھیں میں نے قتل كیا ہے۔ حضرت عتبہ بن غزوان نے كوئی زمین حاصل نہ كی تھی، اس لیےان كے لڑكے كو اپنی پھوپھی حضرت فاختہ بنت غزوان كی طرف سے گھر كا حصہ ملا جو حضرت عثمان بن عفان كی زوجیت میں تھیں۔

ایك منفرد شخصیت

حضرت عتبہ طویل القامت،روشن رو اور نرم دل تھے۔ تقویٰ اور خاک ساری ان کے چمن اخلاق كے گل ہاے رنگا رنگ تھے۔تکبر و غرور سے قطعی نفرت تھی، گورنری پر ان كا جی نہ لگتا تھا۔انھوں نے دنیا سے بے رغبتی ، پرہیزگاری اور آسایش و تنعم سے پاك ساده زندگی بسر كرنے كی مثال قائم كر دی۔حضرت عتبہ كو اس حكمرانی كے آداب بتائے جاتے جو ایران و روم میں مروج تھی توفرماتے: میں لوگوں كی نظروں میں بڑا بن كر الله كے ہاں چھوٹا نہیں بننا چاہتا۔مزید كہتے:كل تم دیكھو گے كہ حكمران میری راه پر چلیں گے۔

انكساری كے باوجود حضرت عتبہ ایك عظیم مجاہد بھی تھے۔وه نیزه اٹھاكر ایك مختصر اسلامی فوج كے آگے آگے چلے ،نعرۂ تكبیر بلندكر كے پیش قدمی كی اور ایك بڑی ایرانی فوج كو راه فرار اختیار كرنے پر مجبور كر دیا۔ الله و رسول كی كامل اطاعت نےانھیں زاہداور طالب آخرت بنا دیا تھا۔

روایت حدیث

حضرت عتبہ بن غزوان كی روایات مسلم،ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہیں۔ ان سے حدیث روایت كرنے والے راویوں كے نام:خالد بن عمیر، قبیصہ بن جابر،ابوالرقاد شویس،غنیم بن قیس،ان كے پوتے عتبہ بن ابراہیم،ہارون بن رئاب،ابراہیم بن ابوعبلہ اورحسن بصری ۔آخری تینوں كی ان سے ملاقات ثابت نہیں۔ جس نے مجھ پرجان بوجھ كر جھوٹ باندھا ،اپنا ٹھكانا جہنم میں بنا لے(المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۳۷۳۵۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۱۴۱)۔یہ مشہور حدیث دوسرے راویوں كے علاوه حضرت عتبہ بن غزوان نے بھی روایت كی ہے۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،تاریخ الامم و الملوك (طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الكامل فی التاریخ (ابن اثیر)،تہذیب الكمال فی اسماء الرجال (مزی)،  تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء(ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)،Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B