HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

جسمانی سزا اور تشدد پسندی کی نفسیات

ہمارے سماج میں تشدد برائے تادیب والدین اور اساتذہ کا جائز حق سمجھا جاتا ہے۔ اس سے تشدد برائے اصلاح کا جواز اور تشدد پسندی کی نفسیات پیدا ہوتی اور مسائل کو طاقت کے زور پر حل کرنے کی خُو پیدا ہوتی ہے۔ کسی انتہائی واقعہ میں بچوں کی ہلکی پھلکی جسمانی تادیب کی ضرورت ہو سکتی ہے، مگر تشدد کا کوئی جواز ہرگز پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ سماج میں پرتشدد رویوں کی نفسیات کے پیچھے تشدد برائے اصلاح کے جواز کا عامل کار فرما ہے۔ علاقائی زبانوں میں موجود محاورے اور ضرب الامثال اس کے عکاس ہیں۔ بابا بلھے شاہ سے منسوب یہ اشعار یہی بیان کرتے ہیں:

چارکتاباں اتوں لتھیاں اتوں لتھا ڈنڈا

چارکتاباں کج نہ کیتا سب کج کیتا ڈنڈا

’’چار کتابیں اوپر سے نازل ہوئیں اور ڈنڈا بھی اوپر سے نازل ہوا۔ چاروں کتابوں سے کچھ نہ ہوا، جو کچھ ہوا ڈنڈے سے ہوا۔‘‘

بچے کو استاد کے حوالے کرتے ہوئے والدین اور سرپرستوں کا یہ کہنا کہ’’ بچے کی ہڈیاں ہماری اور گوشت آپ کا‘‘، یعنی بچے کی ہڈیاں نہ ٹوٹیں، باقی کھال پر جتنا چاہیں مشق ستم کیا جا سکتا ہے، تشدد کے جواز کا بیانیہ ہے۔ لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں انھوں نے والدین اور اساتذہ سے کتنی مار کھائی۔ چنانچہ ہمارے ہاں جسمانی سزائیں آخری چارہ کار، بلکہ ترجیحاً اختیار کی جاتی ہیں۔

بچوں کو نظم و ضبط سکھانے، کچھ ضروری مہارتیں پیدا کرنے اور اخلاق وآداب کی تعلیم دینے کے لیے کچھ سختی کرنا پڑتی ہے، مگر اس کے لیے بھی کسی جسمانی سزا کی ضرورت نہیں، لیکن اس کی ضرورت اگر بار بار محسوس ہو تو یہ انداز تربیت کی غلطی ہے، اصلاح کی ضرورت اصلاح کار کو ہے۔

تشدد سے تربیت پانے والے بچوں میں ڈر، عدم تحفظ، منافقت، جھوٹ، بددیانتی، بزدلی، بد تمیزی اور طاقت کے بل پر مفاد اور مقاصد کے حصول کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہمارا سماج اس وقت اگر اخلاقی لحاظ سے ناقابل رشک سطح پر نظر آتا ہے، تشدد پسندی اور طاقت کے بل پر مسائل حل کرنے کو درست سمجھتا ہے تو اس کے پیچھے تشدد سے اصلاح کرنے کی غلط تربیت کا گہرا عمل دخل ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد یہ یقین رکھتی ہے کہ ملک میں مثبت تبدیلی لانے کا واحد موثر طریقہ یہ ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں کو سولی چڑھا کر ملک کو ان سے پاک کر کے تعمیر نو کی بنیادیں رکھی جائیں۔ ڈکٹیٹر شپ کو پسند کرنے والے بھی اسی نفسیات کے حامل ہوتے ہیں، جنھیں ملک کے مسائل کا حل ایک مطلق العنان حکمران میں نظر آتا ہے، جو ڈنڈے کے زور پر سب کچھ درست کر دے۔ اپنے مسائل کے حل کے لیے توڑ پھوڑ، سیاسی انتخابات اور مذہبی اجتماعات کے دوران میں ہونے والی گروہی لڑائیاں اسی تشدد پسندی کے مظاہر ہیں۔ طب کا شعبہ بھی اس بہیمانہ نفسیات کے اثر سے محفوظ نہیں۔ ڈاکٹر حضرات او پی ڈی بند کر کے مریضوں کی جانوں کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوانا درست سمجھتے ہیں۔ وکلا برادری جتھا بندی کر کے مخالفین پر حملے کرنے کے جواز پیش کرتی ہے۔ پولیس زیر حراست ملزمان پر تشدد کرنے کو روا سمجھتی ہے، سڑکیں بند کر کے لوگوں کے روزگار، بلکہ بسا اوقات ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اپنی مانگیں پوری کرانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

فرد اور سماج میں حقیقی تبدیلی کن عوامل کے تحت آتی ہے اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے، تشدد پسند ذہنیت اس نفسیاتی اور سماجی سائنس سے نابلد ہوتی ہے۔ جس تبدیلی کا خمیر طاقت کے استعمال اور تخریب پر رکھا جائے، اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں، تاریخ کے المناک تجربات سے یہ نفسیات آگاہی نہیں رکھتی۔ ڈر اور خوف سے اختیار کی گئی تبدیلی منفی ہوتی ہے اور دیرپا بھی نہیں ہوتی۔ تبدیلی وہی کارگر ہوتی ہے جس کے لیے انسانی شعور کو مخاطب کیا جائے اور اس میں وقت لگتا ہے۔

بچوں کے رویوں میں مثبت کردار پیدا کرنے اورمنفی عادات کی روک تھام کے لیے والدین اور اساتذہ کے ذاتی حقیقی کردار اور ماحول کی دستیابی سے بڑھ کر کوئی چیز موثر نہیں ہوتی۔ بچوں پرتشدد ایک خوف ناک عمل ہے جس کے نتائج فرد اور خاندان سمیت پورا سماج بھگتتا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B