HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

دجال اکبر کا ظاہرہ

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

دجال اکبر کے متعلق حدیث میں ارشاد ہوا ہے: ’مَا بینَ خَلْقِ آدمَ إلٰی قیامِ السَّاعةِ خَلْقٌ أکبرُ مِنَ الدّجّالِ‘ (مسلم، رقم  ۲۹۴۶) ۔ بعض روایات میں ’خَلْق‘ کے بجاے ’أمْر‘(صحیح الجامع، رقم  ۵۵۸۸) اور ’فِتْنَة‘(تخریج المسند، رقم  ۱۶۲۶۵) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، یعنی آدم کی پیدایش سے لے کر قیامت تک  دجال سے بڑا اور کوئی فتنہ نہیں۔

 دجال کے شخصی وجود سے متعلق لمبے غور و فکر اور مطالعے کے بعدراقم اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دجال دراصل شیاطین الانس و الجن کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں تیار کیا جانے والا ایک ناقابل تصور حد تک عجیب وجود (مخلوق) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال اکبر ، شیاطین الانس و الجن کی تمام فکری اور تکنیکی صلاحیتوں کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے وجود کاآخری نمونہ ہوگا۔ گویا دجال اکبر کا وجود شیاطین الانس والجن کی صنعت و تخلیق کا شاہ کار اور اُن کے ترکش کے آخری تیرکی حیثیت رکھتا ہے ۔

 جس طرح انسانی ذہن نے بے شمار قسم کے محیر العقول ایجادات کیے ہیں۔ جیسے ہوائی جہاز، راکٹ، سیٹلائٹ، وغیرہ، اُسی طرح دجال اکبر بھی شیاطین الجن والانس کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں ظاہر ہونے والا تاریخ کا ایک حیرت ناک حد تک عجیب وجود ہو گا۔ دجال اکبر، انسانی صلاحیتوں کے ساتھ تمام صنعتی اور تکنیکی صلاحیتوں [1] کا ایک عجیب مجموعہ ہوگا ۔ اِنھی کے ذریعے سے وہ لوگوں کو خدا کی صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا اور اِس طرح انسان کی صورت میں وہ بظاہرلوگوں کے سامنے ایک پر اسرار مسیحا اوربالآخر ایک خدائی وجود بن کر ظاہر ہو گا۔

فتنۂ دجال

 دجال کا فتنہ اور اُس کا شخصی وجود دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دجال کا فتنہ معرکۂ آدم وابلیس کی صورت میں ابتدا ہی سے جاری ہے اور اِس وقت وہ اپنے آخری نقطۂ انتہا کو پہنچ چکا ہے۔دجالی فتنہ اصلاً ابلیسی فتنے کے آخری ظہور ہی کا دوسرا نام ہے۔ تاہم اقوال رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے خود دجال اکبر شخصی طورپر بھی ظاہر ہوگا ۔  احادیث و آثار[2]

میں بیان کردہ تعبیر و تفصیل کے مطابق، دجال کو شخصی وجود کے بجاے محض دور یا صرف ایک فتنہ انگیز ظاہرہ سمجھنا درست نہیں ۔اِس کے علاوہ ایسا سمجھنا خود زبان وبیان کے اصول و قرائن کے بھی سرتا سر خلاف ہوگا ۔

دجال کا تذکرہ نہیں

دجال کے متعلق ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ’جامع المسانید والسنن[3] ‘ (رقم ۵۲۶۱) کے الفاظ یہ ہیں: ’لا یَخْرُجُ الدَّجّالُ حتٰی یَذْھلَ الناسُ عن ذِکْرِہ، وحتٰی تَتْرُكِ الأئمَةُ ذِکْرَہ عَلَی الْمَنابِر‘، یعنی دجال کا ظہور اُس وقت ہوگا، جب کہ لوگ اُس کے تذکرے سے غافل ہوجائیں، حتیٰ کہ ائمہ بھی اپنے منبر و محراب سے اُس کے متعلق بات کرنا چھوڑ دیں ۔

دجال کا تذکرہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے لیے دجال کے فتنوں سے واقفیت اور اُس کی سنگینی کا علم ضروری ہے۔ اِس فتنے سے عدم واقفیت کے نتیجے میں یہ ہو گا کہ عام طورپر لوگوں کے درمیان دجال کا چرچا بند ہوجائے گا، حتیٰ کہ علما اور ائمہ بھی اُس کی فریب انگیزی سے مسحور اور اُس کے فتنے میں مبتلا ہونے کی بنا پر عموماً لوگوں کو دجال کے فتنے اور اُس کی حقیقت سے باخبر کرنا ترک کر دیں گے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں فتنۂ دجال سے متعلق تقریباً یہی صورت حال ہے۔مذکورہ حدیث  رسول کا ذکر کرتے ہوئے عرب عالم عبد الکریم بن صالح الحمید نے اپنی کتاب ’’مقدمات الدجال‘‘ میں بجا طور پر لکھا ہے: ’الذ ھُولُ عَنْ ذِکرِ الدجّالِ أظهرُ مِنْ أن یَحْتاجَ إلٰی بَیانٍ في زَمانِنا ھٰذا‘ (۱۱)، یعنی فتنۂ دجال کے تذکرے سے غفلت موجودہ زمانے میں اِس قدر عام ہو چکی ہے کہ اُسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں؛ وہ اب بالکل ایک بدیہی ظاہرہ بن چکا ہے۔

ایسی حالت میں ضروری ہے کہ لوگ دجال اور اُس کے فتنوں سے باخبر ہوں؛ خصوصاً علما اور ائمہ اپنے منبر و محراب سے اُس کے متعلق لوگوں کو آگاہ کریں۔اِس کے لیے قرآن مجید ، ارشادات نبوی، خصوصاً ’’مستدرک الحاکم‘‘  میں ’’ابواب فتن‘‘ پر گہرے مطالعہ وتدبر کے ساتھ دعا کی سخت ضرورت ہے۔ خاص طورپر اُس دعا کا اہتمام جس کے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو اِس دعا کے اہتمام کی اِس قدرتلقین کرتے کہ قرآن ہی کی طرح آپ اِس کی تعلیم اور تاکید فرمایاکر تے تھے ۔(اِس دعا کی اہمیت پر اِن شاء اللہ، آیندہ گفتگو کی جائے گی)۔

اِس پیغمبرانہ دعا کے الفاظ یہ ہیں: ’اللّٰھمّ إنّي أعوذُبک مِنْ عذابِ جھنّم، وأعوذُبک مِنْ عذابِ القبر، وأعوذُ بک مِن فتنةِ الْمَسیحِ الدّجّال، وأعوذُ بک مِنْ فتنةِ الْمَحْیا والْمَمَات‘ یعنی خدایا،میں تجھ سے جہنم کے عذاب، قبر کے عذاب، مسیح دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کی آزمایش سے پناہ مانگتا ہوں ( موطا، رقم  ۵۰۱)۔

[لکھنؤ، ۲۰ ؍ اگست ۲۰۲۱ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ غالباً اِسی بنا پرامام ابن حزم الاندلسی (وفات: ۱۰۶۴ء)نے دجال اکبر کو ’أبُوالعجائب‘قرار دیتے ہوئے اُسے تکنیکی ذرائع سے چیزوں کو اپنے قابو میں کرنے والا بتایا ہے: ’إنما ھو محیلٌ یتحیّلُ بحِیَلٍ معروفة‘ (الفِصَل في المِلَل  ۴۱/۲ )۔ 

[2]۔  (’إنّ مسیحَ الدجّالِ رَجُلٌ‘ابوداؤد، رقم  ۴۳۲۰۔ ’وأنّه شَخْصٌ  بِعَینْهِ‘)۔ملاحظہ فرمائیں: شرح النووی ۱۸ / ۵۸۔ التذکرہ، قرطبی ۷۷۸۔

[3]۔ حافظ ابن کثیر (وفات: ۷۷۴ ھ) نے مذکورہ کتاب میں اِس روایت کے تحت یہ الفاظ لکھے ہیں: ’لا بأسَ بإسنادہ‘ (یعنی یہ ’صحیح‘ اور’ حسن ‘کے درجے کی روایت ہے)۔ اِسی طرح محدث الہیثمی (وفات: ۸۰۷ ھ) نے زیر نظر روایت کو صحیح اور ثقہ راویوں سے مروی قرار د یا ہے (مجمع الزوائد ۷/ ۳۳۸ )۔

B