HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر غلط نہیں ہو سکتی

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےنبی اور رسول ہیں۔   اِس بنا پر آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو اللہ تعالیٰ کی قطعی سند حاصل ہے۔ چنانچہ آپ کا فرمان مبنی برحق، آپ کا کلام  حجتِ قاطع اورآپ کی خبر خطا و نسیان سے پاک ہے۔  اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ماضی، حال یا مستقبل کے حوالے سے جو بات ارشاد فرمائیں ، وہ غلط نہیں ہو سکتی ۔ ممکن ہے، وہ علم و فن سے ماورا ہو، ممکن ہے وہ  تجربے و مشاہدے کے خلاف ہو، ممکن ہے وہ تاریخی شواہد کے برعکس ہو اور ممکن ہے کہ وہ عقل،  قیاس، شعور،  وجدان ، حواس اور احساس کے دائروں سے باہر ہو، مگر ہر حال میں وہ برحق ہے اور ریب و گمان سے پاک ہے۔ چنانچہ وہ اگر ماضی کا واقعہ ہے تو اُس کی اصل وہی ہے، جسے اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہے اور اگر وہ مستقبل کی پیشین گوئی ہے تو اُسے ویسے ہی وقوع پذیر ہونا ہے، جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے۔  چنانچہ عالم غیب سے متعلق آپ کی فرمودہ تمام معلومات مبنی بر حق ہیں۔اِس کی مثال زمین و آسمان اور انسان کی تخلیق کے واقعات؛ قیامت اور جنت و جہنم کے احوال ؛   نبوت، وحی، فرشتوں اور کتب سماوی کے حقائق ہیں۔

 ماضی کےوہ اخبار بھی عین حقیقت ہیں، جن سے آپ نے آ گاہ فرمایا۔ مثال کے طور پر آپ نے مطلع فرمایا کہ آدم و حواعلیہما السلام کو پیدا کر کے ایک باغ میں رکھا گیا تھا؛ آدم کے بیٹوں میں سے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا تھا؛ حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کے باوجود جب لوگ انکار پر جمے رہے تو اللہ نے منکرین کو پانی میں غرق کر دیا تھا؛  حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک شخص نے پلک جھپکتے میں سیکڑوں میل کے فاصلے سے ملکۂ بلقیس کے تخت کو حاضر کر دیا تھا۔ حضرت  موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا ایک چٹان پر مارا تو اُس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے تھے؛ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اُنھوں نے گہوارے میں کلام کیا تھا؛ اصحاب کہف برس ہا برس تک سوئے رہنے کے بعد جاگ اٹھے تھے؛ ذوالقرنین نے ایک قوم کو یاجوج و ماجوج کی تاخت سے بچانے کے لیے دو پہاڑوں کے درمیان لوہے اور تانبے کی ایک دیوار تعمیر کی تھی۔

اِسی طرح آپ نے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں فرمائی ہیں۔ اِن میں سے بعض آپ کی زندگی میں پوری ہو گئیں، بعض آپ کے رخصت ہونے کے بعد پوری ہوئیں، بعض زمانۂ حال میں پوری ہوئی ہیں اور بعض کو ابھی پورا ہونا ہے۔ اِن میں سے چند نمایاں پیشین گوئیاں یہ ہیں: 

۱۔ فتح مکہ،

۲۔   ایرانیوں سے مغلوب ہوجانے کے بعد رومیوں کی دوبارہ فتح،

۳۔  قیامت کے قریب  لونڈی کا اپنی مالکہ کو جن دینا،

۴۔ عرب کے چرواہوں کا بلندو بالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا، 

۵۔ یاجوج و ماجوج کا خروج اور دجال کا ظہور۔ 

عالم غیب اور زمانۂ ماضی و مستقبل کے یہ تمام حقائق و حوادث ہر لحاظ سے یقینی اور ہر اعتبار سے قطعی ہیں، اِن کی صداقت اور اِن کے وقوع میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِنھیں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے من جانب اللہ ارشاد فرمایا ہے اور آپ کی ذاتِ والا صفات سے کسی سہو و نسیان اور کسی نقص و خطا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کی بات ہر ریب و گمان اور ہر شک و شبہے سے پاک ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مقام و مرتبے کا تقاضا ہے کہ آپ کی نسبت سے ملنے والی اُسی بات کو یقینی سمجھا جائے، جو قطعی اور یقینی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔ جو بات قطعی ذرائع کے بجاے ظنی ذرائع سے پہنچے، اُس کی آپ سے نسبت کو ظنی قرار دیا جائے۔ سلف و خلف کے علماے امت کا عمومی موقف یہی ہے ۔  وہ حدیث کو ظنی ذریعۂ علم سمجھتے ہیں، اُسے قرآن کی شرح و تفسیر کے مقام پر رکھتے ہیں اور اُس کے مندرجات   سے دین کے اساسی تصورات کے ثبوت کو ممتنع قرار دیتے ہیں۔ وہ اُن کی تحقیق کرتے ہیں، اُنھیں قرآن و سنت اور عقل و فطرت پر پرکھتے ہیں، اُن کے راویوں پر جرح کرتے ہیں، اُن کے تقوے، اُن کی نیک نامی، اُن کے حفظ و اتقان کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے بعدجن روایتوں پر اطمینان ہوتا ہے، اُنھیں قبول کرتے ہیں اور جن پر اطمینان نہیں ہوتا، اُنھیں قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ اِس ردو قبول کے معاملے میں اُن کے مابین اختلاف بھی رہتا ہے۔ چنانچہ بعض اوقات ایک محدث کی طرف سے رد کی گئی حدیثوں کو دوسرا محدث قبول کر لیتا ہے یا اُس کی قبول کردہ حدیثوں کو قبول نہیں کرتا۔ حدیث کے بارے میں علما کے اِس طرز عمل کے دو بنیادی وجوہ ہیں:

۱۔ حدیث خبر ِواحد کے ظنی ذریعے سے پہنچی ہے ۔ یعنی اُسے راویوں نے حسبِ منشا فرداً فرداً اِس طرح منتقل کیا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کی نسبت یقینی نہیں ہے۔

۲۔  حدیث روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر منتقل ہوئی ہے۔ یعنی یہ بعینہٖ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں۔ آپ کی بات کو راویوں نے اپنی سماعت اور اپنے فہم کے مطابق اور اپنے الفاظ و اسالیب میں آگے منتقل کیا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B