HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

شیرو (نوشیروان) کا ایک سال اور بیت گیا

جواد احمد غامدی


(بیٹے کے نام باپ کا خط جو اس کی ساتویں سال گرہ پر لکھا گیا تھا)


آج سے چھ سال قبل جب تم ایک سال کے تھے تو ہم تمھارےایک سال کا ہو جانے کی خوشیاں مناتے تھے۔ پھر اچانک تم بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ باپ کے کاندھوں پر بیٹا پڑا تھا اور میں اور تمھاری ماں ہسپتال کو بھاگتے تھے۔ پہنچے تو معلوم ہوا کہ تمھیں گردن توڑ بخار ہوا ہے۔ تمھیں و ینٹیلیٹر پر ڈال دیا گیا۔ ایک ایک دن صدیوں میں گزرتا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تمھیں GSD بھی ہے۔ چھبیس دن وہیں پڑے رہے۔ جب ہم و ینٹیلیٹر اتارنے کا سوچ رہے تھے، خدا نے تمھاری آنکھیں کھول دیں، اور یوں لگا جیسے سوکھے دھانوں پانی کی ایک بوند۔ پھر معلوم ہوا کہ تم آٹسٹک بھی ہو۔

تمھیں ایسے ہی سنبھالتے رہے اور کورن سٹارچ پلا پلا کر سانس کی امید بڑھاتے رہے۔ تمھاری ماں نے اس دن سے آج تک شاید کوئی رات ایسی نہ گزاری ہو کہ ساری رات اُس کی جاےنماز اشکوں سے بھیگ نہ رہی ہو۔ بس کام سے فارغ ہوئی اور سر سجدے میں رکھ دیا؛ خدا کے گھر سے صبح کی اذان ہوئی تو اٹھا۔ صبح اُس کا جاے نماز نچوڑا جائے تو ماں کی حسرت سے دریا بھر جائیں۔ تمھاری بیماری کا ذکر کسی سے ہو جائے اور اُس میں کوئی ذرا ادھر کا جملہ نکل جائے تو فوراً بپھر جاتی ہے، کیا ہوا میرے بچے کو ہنستا کھیلتا ہے ماشاءاللہ۔ اللہ کا کتنا کرم ہے ہم پر۔ بیمار ہوں اُس کے دشمن، اور پھر ساتھ ہی بول دیتی ہے، نہیں خدا اُس کے دشمنوں کو بھی تندرست ہی رکھے۔

اُس نے اور میں نے جس سے جو معلوم پڑا، کیا، لیکن جادو ٹونے والوں کی کسی سے سنی،  نہ اُس طرف کبھی دھیان دیا، اور کیوں دیتے میرا خدا اُن سب سے بہت بڑا ہے ۔اُن سب سے جو یہ سب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو اُس سب سے بڑے کو چھوڑ کر کسی اور کا در کھٹکھٹانا ہمیں منظور نہ تھا۔ سو تمھارےلیے جو بن پڑا کیا، اور کررہے ہیں، سواے اِس کے کہ کسی جادو ٹونے والے کے در پر جائیں۔

اب تم سات سال کے ہوئے ہو۔ ہر سال ایک چٹھی لکھ رکھتا ہوں کہ جب تم بولنے، سمجھنے لگو گے تو بھائی ہم سے تو سارے قصے سنائے نہ جائیں گے۔ اور یوں بھی جب تم ٹھیک ہی ہو جاؤ گے ان شاء اللہ تو پھر کس کم بخت کو ماضی کو یاد کرنا ہے۔

ہم دونوں باپ بیٹا بیٹھیں گے، باتیں کریں گے۔ ہم تو اب بھی دوست ہی ہیں۔ تم میں جانے اتنی جان کہاں سے آ جاتی ہے۔ ایسا زور سے مارتے ہو کہ تارے نظر آنے لگتے ہیں، مگر ایسی جپھی ڈالتے ہو کہ تارے زمیں پر آنے لگتے ہیں۔ تو بھائی کل ملا کر بات یہ ہے کہ ہم دونوں کی دوستی بڑی عجیب سی ہے، تم مارتے بھی ہو اور پیار بھی کرتے ہو۔ مجھے بس ایسے ہی چاہیے۔ مارتے رہنا، مگر ٹھیک ہو کر۔ ہم دونوں پھر کشتی کر لیا کریں گے، لیکن یہ نہیں کہ اب تم خود ہی، جب دل چاہے یہ کرو، جب دل چاہے وہ کرو۔ بھئی، ہم بھی دل رکھتے ہیں، بھلے تم جیسا نہ سہی۔ معمولی سا ہی سہی۔ ہمیں کبھی خود بھی پیار کرنا ہے اور کبھی اپنی مرضی سے مار بھی کھانی ہے۔

سنا تھا کہ میرا خدا جب کچھ لیتا ہے تو کچھ ایسا دے دیتا ہے، جو کمال ہوتا ہے۔ تم جانتے ہو اُس نے تمھیں کیا کمال عطا کیا ہے اور دیکھو وہ کیسا رحیم ہے، اُس نے جو ذرا سا نہیں دیا، ہم اُس پر پریشان ہوتے ہیں اور جو اُس نے تمھیں ایک منفرد کمال عطا کر دیا ہے، اُس کا ذکر ہی نہیں، انسان ناشکرا ہے نا۔ ابھی تمھیں پتا نہیں، اِس لیے لکھ رہا ہوں۔ جب تمھیں پتا چلنے لگے گا نا تب خود پڑھ لینا، ہم سے مت پوچھنا۔ جانے میں اور تمھاری ماں اُس وقت تک ہوں نہ ہوں، یا جانے ہم اتنے بوڑھے ہو چکے ہوں کہ سنا سکیں یا نہیں۔

اچھا سنو، وہ کمال یہ ہے کہ یار تمھاری آنکھیں بولتی ہیں اور تمھارا چہرہ دیکھ کر تم پر مر مٹنے کو دل چاہتا ہے؛ صرف ہمارا ہی نہیں، سب لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں، تم میں وہ اٹریکشن ہے، جو عام نہیں ملتی۔

اور پھر دیکھو تم ہنستے ہو اور بے تحاشا ہنستے ہو، ہے نہ نعمت خداوندی۔ تم چلتے ہو، پھرتے ہو، بھاگتے ہو، دوڑتے ہو، اپنا مدعا بتاتے ہو، گو اِس کا طریقہ عام لوگوں سے مختلف ہے، وہ بول کر بتاتے ہیں، تم ہاتھ پکڑ کر بتاتے ہو۔ اور اچھا ہی ہے یار ہم بولنے والے کون سا تول تول بول رہے ہیں، جو بکواس ہونٹوں پر آ جاتی ہے، اگل پھینکتے ہیں۔ کل ملا کر یہ کہ سب کچھ تو ہے یار تمھارے پاس۔ اور دیکھو خدا کتنا مہربان ہے تم پر کہ اُس نے تمھیں ایک مکمل انسان پیدا کیا ہے۔ چھوٹے موٹے مسائل تو یار ہم سب کے بھی ہوتے ہیں۔

اچھا، میں سوچ رہا تھا کہ اب جب تم سات سال کے ہو گئے ہو تو کبھی کبھی ماں باپ سے محبت کا اظہار ایک آدھ حرف بول کر کر دیا کرو، دیکھو وہ بھی اگر تمھیں مناسب لگے۔

بھئی، بات یہ ہے کہ ہم سے براہ راست رابطے میں ہوتے اللہ میاں تو ہم ہاتھ پکڑ لیتے، گھٹنوں پر بیٹھ جاتے، سر اُن کے قدموں میں رکھ دیتے اور بس اتنا کہتے کہ اتنی سی زبان دے دے کہ تم اپنی تکلیف بتا سکو۔ اتنا تڑپنا اور بتا بھی نہ سکنا کہ ہوا کیا ہے۔ بس یہ تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ وہ بھی اُسی کی کوئی مصلحت ہو گی۔ کوئی گلہ نہیں ہے، بس ایک درخواست ہے۔ رحیم و کریم ہے، کسی روز بس ایسے ہی بیٹھے بیٹھے اشارہ ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔

اور ہاں تمھارا جو بھائی ہے نا ،وہ تو کمال ہے بھئی۔ ہم سب کو اُس سے ڈانٹ پڑتی ہے، شیرو کا یہ کیوں نہیں ہوا، وہ کیوں نہیں ہوا۔ تمھیں بس یاد کرا دوں،  جب تم خدا کی رضا سے کچھ بولتے تھے نا تو تم نے اپنے بڑے بھائی کو ’’ایا‘‘ کہنا شروع کیا تھا۔

تمھاری بہن بھی تم پر جان دیتی ہے۔ اُس سے تم ڈر بھی جاتے ہو۔ وہی تو تمھیں غلط کاموں سے روکتی ہے۔ خود سوچو !اب یہ کوئی اچھی بات ہے: چیزیں توڑ دینا، لکڑی چبا جانا، پلاسٹک چبانا اور نہ جانے کیا کیا۔ تو تھوڑی سی ڈانٹ تو بچو پھر ’’آنا‘‘ سے پڑے گی نا۔ یہ نام بھی تم لیا کرتے تھے بہن کا۔

اچھا سنو، تم سے تو کوئی فرشتہ بات وات کرنے آتا ہی ہو گا نا۔ کچھ پو چھتا ہو گا۔ کچھ سنتا ہو گا، سناتا ہو گا۔ تو سنو کبھی خدا سے گلہ نہ کرنا، بس درخواست کر دیا کرو کہ اللہ میاں جی میں ٹھیک ہوں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس میرے امی ابا ذراسے کم زور ہیں۔ تو نے ہی بنائے ہیں وہ بھی۔ اُن کو کچھ تکلیف پہنچتی ہے مجھ سے، تو آپ بس ذرا اتنا سا کرم، کچھ نظر عنایت فرما دیں، وہ بھی اگر آپ چاہیں، ورنہ سب بہترین چل رہا ہے۔ آپ کی عنایتوں کی بارش ہے بارش۔ تو جو کچھ تھوڑا بہت ہے، اُس کا کیا ہے۔ اب آدمی اتنا کچھ ہونے کے بعد ذرا ذراسی چیزوں کے لیے پریشان ہوتا رہے ، گلہ شکوہ کرتا رہے،کچھ دکان داروں کی سی بات لگتی ہے۔

بھئی، حوصلہ ہو تو تمھارے جیسا، نہ جانے کیا کچھ، خود میں، خود سے ہی برداشت کرلیتے ہو۔ نہ ہم سے شکایت، نہ بنانے والے سے شکوہ۔ خدا نے تمھیں پہاڑوں سا مضبوط دل دیا ہے۔ ورنہ ہم سا انسان تو اظہار کی کھلی چھوٹ لے کر ذرا سی تکلیف پر نہ جانے کیا کچھ شکوہ شکایت کرنا شروع کردیتا۔ ایک تم ہو کہ اپنے اظہار پر شکرگزاری کی مسکراہٹ سجائے اور تکلیف پر صبر کا تبسم لیے پھرتے رہتے ہو۔ بھئی، ہم نے تو زمانے میں ایسی شکرگزاری شاذ ہی دیکھی ہے۔

تم سے بس بات کیے جانے کا دل کرتا ہے، جب تک کہ تم میری کسک دیکھ کر بول نہ اٹھو۔ دنیا کے لیے تمھارا اظہار چاہے ادھورا ہو، لیکن میں تو باپ ہوں نا۔ یعقوب سا باپ۔ یوسف کے کرتے کی خوش بو پا کر کہنے لگے : اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے تو مجھے یوسف کی خوش بو آتی ہے۔ یوں ہی میں بھی تمھارے مکمل تکلم سے واقف ہوں۔ بس کبھی خواہش ہوتی ہے کہ دل کے بجاے اپنے کان سے تمھاری شیریں آواز سنوں۔

خیر، آج تمھارا جنم دن ہے۔ تمھارا دن ہے، بلکہ ہمارے گھر میں تو ہر دن تمھارا ہوتا ہے۔ تمھاری ماں کا، بہن کا، بڑے بھائی کا اور میرا۔ ہم سب کا دن تو تمھارے گرد، تمھارے لیے ہوتا ہے۔ خدا سے بس دعا ہے کہ اُس کی جناب میں تو کچھ کمی نہیں۔ وہ تمھیں بہت جلد اچھا کردے۔ وہ بے شک، میری اور تمھاری ماں کے دل سے نکلتی ہر دعا کو جانتا ہے۔ باقی ہمارا کیا ہے، تمھارے ایک حرف کو سننے کی امید میں جیے جاتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B