محمد حسنین اشرف
قابل نہیں رہا تو بس ایک تسلی ہے، ہمارا دل کبھی کوئی عرض گزارنے لائق تھا ہی نہیں۔ ہم نے اظہار پر ہمیشہ اخفا کو مقدم کیا۔ تم اسے بزدلی کہو یا کم ہمتی۔ بہر حال ہم نے ہمیشہ اسی کو اپنے دل میں جا گزیں پایا۔
تمھارا حال تم سے اور تمھارے چاہنے والوں سے کیا کہیں؟ تم تو ہر دم، ہر لمحہ سراپا ادائیں تھے۔ عشق کی نیاز بانٹتی ادائیں، شرارتیں، اٹھکھیلیاں۔ یہ نیاز تم اپنے اردگرد بس بانٹتے پھرے اور ہم تم سے دور اس ایک بچے کے مانند تمھیں تاکا کیے جو قیمتی شے کو حسرت کی نگاہ سے دیکھ تو سکتا ہے، لیکن اس کا دل جانتا ہے کہ یہ ہیرا اس کی بساط سے باہر کی شے ہے۔
تمھیں خدا نے اس گود میں دیا جس کی مامتا کے لائق تھے تم؛ اس باپ کے حوالے کیا جس کی پدرانہ شفقت نے سائبان کے مانند تمھیں ڈھانپنے کی کوشش میں شب و روز کی دھوپ کو پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں بنا دیا؛ وہ بھائی کہ وقت کی مسافرت میں رفیق کار ہوجائے تو منزلیں آسان ہوجاتی ہیں اور اس بہن کو تمھاری ہم راہی دی جس کی نرماہٹ نے وقت کی سختیوں کو تم پر آسان کردیا ہوگا۔
تم بولتے نہیں تھے، شاید کسی کی سنتے بھی نہیں تھے، لیکن یہ سب تمھارے دست و بازو ہی تو تھے۔ تمھارے ادھورے الفاظ کے شارحین، تمھاری اداؤں کے مفسر اور تمھارے اشاروں کے مترجم۔ کیا کھانا ہے، کب کھانا ہے، ٹھنڈا ہے، گرم ہوگا۔ مزاج کی سختی، اداؤں کی کجی۔ خدا نے ان سب کو تمھارے آنکھ، کان اور بازو ہی تو بنا دیا تھا۔
ارے! یہ قربانی نہیں، بلکہ عشق کی قیمت ہے، اداؤں کا صلہ ہے جو ہر عاشق صادق کو ادا کرنا ہی پڑتا ہے کہ محبوب کی جناب سے عشق کی نیاز میں کچھ حصہ اسی کے جواب میں ملا کرتا ہے۔
تم پھول تھے؟ نہیں! تم چاند تھے؟ ہرگز نہیں! تم، بس تم تھے۔ کسی استعارے میں تخیل کی وہ وسعت اور صفت کا ایکا نہیں کہ وہ تمھارے بیان کی تکمیل کے لیے ادنیٰ درجے میں بھی کھپایا جاسکے۔ تم، نوشیروان تھے، شیرو تھے!
انسان کا جسم منوں مٹی تلے دفنایا جاسکتا ہے، لیکن جو کفنایا نہیں جا سکتا، وہ اس کی یادیں ہیں۔ تمھاری یادیں، گھر کی دہلیز پر پڑی ہیں۔ کمرے اور دالان تمھاری شرارتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سو تم یہیں ہو۔ سب کے پاس۔
پانی کی وہ بوتل جو پچھلی ملاقات پر تم نے چبا ڈالی تھی اور سارے راستے اس سے پانی رستا رہا۔ میری میز پر پڑی ہے۔ میرے جنم دن پر تمھارا کیک کاٹنا۔ یہ سب ہمارے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہے گا۔
نیم درد بھری مسکراہٹیں!
يٰ٘اَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ. ارْجِعِيْ٘ اِلٰي رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ۔
خدا حافظ شیرو!
خدا حافظ بیٹا!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ