جواد احمد غامدی
رکے ہوئے کو وقت کیوں کہوں میں۔ چلتا ہے، یوں وقت ہے۔ آرزو کا سانس حرکت ہے، اور حرکت کو خود سانس کی خواہش۔ اب خواہش سے پھوٹتا چشمہ زندگی، تو زندگی بڑھتی رہے، مگر چشمہ موت میں غرق ہو گا۔ کر لو جو کرنا ہے۔ جہاں چاہے سر مارے۔ حیات کا دامن بھیگے یا بچ بچ کر جیے۔ اُس کو بالآخر موت کے اندھیرے کنویں میں غرق ہو ہی جانا ہے۔ تو حقیقت نہ زندگی ہے نہ سانس، حقیقت موت ہے کہ باقی سب کچھ اُسی کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔
شیرو کو کل گھر سے دور ایک پر سکون سے ویرانے میں خدا کے سپرد کردیا۔ لوگ پوچھتے رہےکہ اتنی دور؟ شیرو دور ہو کر بھی پاس ہے۔ وہ ہنستا ، کھیلتا، اٹھکھیلیاں کرتامیرے اندر زندہ ہے۔ اُس کے لاپروا قہقہے اور شرارتیں۔ وہ بھاگتا تو سارا گھر دوڑ پڑتا؛ وہ ہنستا تو ہم کھل اٹھتے؛ وہ رک جاتا تو ہمارا وقت بھی ساعتوں کی پوٹلی باندھ کراس کے سرہانے ٹھیر جاتا۔
کیا کہوں، شیرو میرے لیے محض ٹھنڈی مٹی نہیں ہے، جو قبرستان میں پڑی ہے، وہ میرے گھر کے ہر کونے میں موجود ہے۔ وہ میرے گھر کی فضاؤں میں رچا بسا ہے۔ سامنے کی دیوار پہ لکھا ہوا ہے اور ہر دروازے پہ مہک رہا ہے۔ مجھے اُس ٹھنڈی مٹی پر شیرو سے ملنے کے لیے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخری چند دن تکلیف دہ تھے، جب وہ خاموش ہو کر لیٹ گیا تھا۔ وہ ایک سیل رواں تھا؛ رکنا، ٹھیر جانا اُس کی سرشت نہیں تھی۔ ایک چھلاوا سا تھا؛ پل میں یہاں پل میں وہاں۔ موج کی طرح ہر دم بپھرا ہوا رہتا ۔ کشش ثقل کے مانند محبتوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ۔ آنکھوں میں ایک طرح کی بے باکی تھی۔ اُس کی اپنی زبان تھی ، جو کوئی نہیں بول سکتا تھا۔ میرے پاس اُس کے آخری چہرے کی کوئی تصویر نہیں۔ وہ اُس کا چہرہ نہیں تھا۔
اُس کے ساتھ گزرے آٹھ سال ،شاید بہت سی آزمایشوں میں امید کا کوئی غیبی سا احساس تھا۔ میں روز اُسے گلے لگا کر اُس سے انرجی لیتا اور گھر سے نکلتا۔ وہ ہمارا معمول تھا۔ ہمارے سونے اور جاگنے کا وقت تھا۔ ہر تجویز کا مرکز تھا ،ہر منصوبے کا محور تھا۔ اُس کو اندھیروں سے نفرت تھی۔ گھر کا ہر قمقمہ اُس کے لیے جاگتا رہتا تھا۔ وہ کبھی ایک بتی نہیں جلاتا تھا، سوئچ بورڈ پر لگے ہر بٹن کو آن کرکے ہی اُس کو آرام آتا تھا۔ جب دینے والے کو شیرو کا جسد خاکی سپرد خاک کر رہے تھے تو خیال آرہا تھا کہ اُسے تو اندھیرے بالکل پسند نہیں ہیں، پھر یاد آیا کہ اُس کی اپنی انرجی اور روشنی بھی تو کم نہیں تھی۔ زمین کے نیچے ہر سوئچ آن ہوچکا ہوگا؛ قبر منور ہوچکی ہوگی۔
شیرو!
تم میری گاڑی میں پچھلی سیٹ پر ماں کی گود میں تھے۔ میٹر پر تمھاری پلس ختم ہو چکی تھی؛ میں، تمھارا بھائی اور تمھاری ماں اُس کے صفر ہو جانے کے نو منٹ بعد ہسپتال پہنچے تھے۔ ڈاکٹر نے پلس دیکھی صفر، بلڈ پریشر دیکھا صفر، شوگر دیکھی صفر۔ میں، تمھاری ماں، تمھارا بھائی، معاذ چاچو، افشاں خالہ، حسنین چاچو، منیر دادا، اور سعدیہ دادی باہر کھڑے تمھیں ایک بار پھر دیکھنا چاہتے تھے۔ ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ دل ڈوب رہا تھا۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور ٹانگیں ہمارا بوجھ اٹھانے سے انکار کر رہی تھیں، مگر امید زندہ تھی۔ خدا سے امید بھلا کب ختم ہو سکتی ہے۔
تم ہنستے کھیلتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، مگر تکلیف میں تھے؛ ایک دو دن نہیں، پورے آٹھ سال۔ آخری پانچ دن تو تکلیف حد سے گزر گئی تھی۔ ہاتھ اٹھے کہ مالک، میں نہ یعقوب ہوں، نہ ابراہیم؛ میرا صبر یوں نہ آزما کہ ٹوٹ جاؤں۔ وہ کہاں، میں کہاں۔ یعقوب روتے تھے تو اُن کے آنسو خاک پر نہیں تیرے در پر گرتے تھے۔ میں روؤں تو خاک بھی قبول نہیں کرتی کہ اندر کا پانی گناہ آلود ہے۔
تمھاری ماں بہت پریشان ہے۔ اُس کی ذات میں تم ہی تم رچے بسے ہوئے تھے۔ گئے ہو تو لگتا ہے، اُس کے اندر سے کوئی دل کھینچ کے نکال لے گیا ہے، مگر خدا سے اُس کی امید تھی؛ وہی اُس کے صبر کا سامان کرنے والا ہے۔ شیرو تم ایک امید کی طرح ابھرے، اور ڈھل گئے۔ شیرو، سنتے ہو تو سنو، ماں کی آنکھ میں تم اب بھی بھاگتے دوڑتے موجود ہو۔ اُس نے برسوں تمھارے ہی ساتھ بتائے ہیں۔ اُس کے شب و روز تم سے عبارت تھے،سو اب بھی ہیں۔ اُس کے لیے مشکل یوں بھی ہے کہ یار، اُس کی آنکھ صبح کھلتے ہی تمھیں دیکھتی اور رات تمھیں دیکھ کر ہی بند ہوتی تھی۔ اب جب کچھ وقت کو دور ہوئے ہو تو کیا کہے، کیا کرے، مگر خدا کی بندی ہے، خدا کے سوا اُس کی امید کچھ تھی نہیں اور اب بھی روشنی وہیں سے پاتی ہے۔ کہتی ہے: تم تب تک اُس سے جدا ہو، جب تک وہ زندہ ہے۔ نہ اُس خدا نے تمھیں ہمیں دیتے ہوئے پوچھا تھا، نہ تمھیں لے جاتے وقت پوچھا؛ اور پوچھتا بھی کیوں! اُسی نے بھیجا تھا، وہی لے گیا۔
میرا کیا ہے۔ زندگی کو سدھارتے یا یوں کہو کہ آزمایشوں سے گزرتے ،گزر رہی ہے۔ کہوں تو اُس کے کرم اور اس کی رحمتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں اور مکر جاؤں تو سواے رسوائی کے ہے نہیں کچھ میرے پاس۔ اب تمھارا آنا اُس کی رحمت کا اظہار تھا تو شاید تمھارا جانا تمھارے لیے اُس کی رحمت کا اظہار۔ یہاں رہتے، تمھیں کچھ اندرونی مسائل ضرور تھے۔ تم تکلیف میں تھے، مگر ہنستے تھے، کھیلتے تھے، بھاگتے تھے، دوڑتے تھے۔ اب وہاں اِن اندرونی تکلیفوں سے دور خوش و خرم رہنا۔
اُس کے فضل اور کرم کے آگے سر جھکتا ہے۔ کیا کیا کرم کر چھوڑے اُس نے۔ جب تم پہلی بار بیمار ہوئے، تب بھی لے جا سکتا تھا؛ اُس نے کرم کیا اور سات سال مزید دیے۔ ہم خوش ہوئے، ہم رو دیے، مقصود تھا کرم اُس کا۔ ہم ساتھ رہے، ہم نے زندگی کے مزے کیے۔ ہم دن رات ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ کیا کم کرم ہے یہ۔ درخواستیں کی تھیں، التجائیں بھیجی تھیں کہ مالک، کچھ اور وقت کہ انسان ہوں اور مانگتا ہوں۔ تمھارے سرہانے کھڑا تھا تو ہر لمحے کہتا تھا: اچھا، کچھ سال نہ سہی، کچھ مہینے نہ سہی، ہفتے دن نہ سہی، بس ایک لمحہ اور، اور دیکھو اُس کا کرم کہ اُس نے اِس بستر پر تمھیں پانچ دن دیے۔ اب اُس کا شکر ادا کروں کہ نہ کروں۔ لمحہ لمحہ مانگتا تھا، وہ دن دے دیتا تھا۔ یوں اُس نے جو پانچ دن دیے، سوچو ذرا کروڑوں اربوں لمحے اُس نے جھولی میں ڈال دیے۔ کیوں نہ سر سجدے میں رکھوں اور کہوں کہ تیرا کرم ہے مولا !
مشکل تھے وہ لمحے ،مگر تھے تو۔ مالک ہے ،نہ دیتا تو کیا کر لیتے۔ آخری پانچ دن ہم ساتھ میں تھے۔ میں کہیں نہیں گیا اور تمھیں میرا انتظار بھی نہیں کرنا پڑا۔ وہیں تمھارے در پر پڑا تھا اور اُس کی رحمتوں کے در کھلنے کا منتظر۔ یوں نہیں ہوا کہ وہ تمھیں لے گیا۔ ہوا یوں کہ میں کم زور پڑ گیا تھا، آزمایش میری تھی ،بھگت تم رہے تھے۔ بس کم زوری میں دعا کر بیٹھا کہ بس اور نہیں، اِس کی تکلیف آسان کر دے، بس اُس نے کر دی۔ میں اُس کی آزمایش میں ناکام ٹھیرا، میرا صبر ختم ہوا۔ مجھ سے تمھاری تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی اور اُس سے میرا دکھ ۔ اُس نے میری التجا سن لی کہ تجھے تکلیف سے چھٹکارا دے، لیکن شاید یہ نہ سنا کہ اِسی دنیا میں! یا شاید میں اِس طرح سے کہہ نہیں پایا اُسے، میرے الفاظ مدعا بیان نہ کرسکے۔ شاید میری آنکھوں میں دعاؤں کا جنون اور جبیں پر نمازوں کے نشان نہ تھے۔ مجھے معلوم ہے، تم کہو گے کہ وہ تو دلوں کے حال جانتا ہے، پھر الفاظ کیوں۔ وہ یوں کہ دل تو کالا پڑا ہے۔ اُس کی یاد سے منور ہوتا، تو روشن دل میں وہ کچھ دیکھ پاتا نا!
آخری چند دنوں میں تمھیں جھٹکے آنے لگے تھے، ایسا لوگ کہتے ہیں۔ میں وہاں تھا، وہیں کھڑا تھا۔ تمھارے ہاتھوں میں ہاتھ تھے۔ مجھے تو تمھارا زور سے ہلتا سر حالت حضوری کا لگتا تھا؛ اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو۔ اور تم شاید اُسی خدا کو دیکھ کر مست تھے؛ مسرور تھے؛ شادمان تھے۔ بیٹے، تم حالت حضوری میں تھے، لیکن دنیا کو جھٹکے نظر آتے تھے۔ میرا بیٹا خدا کے حضور پیش ہونے کی خوشی میں تھا ،کیوں نہ ہوتا کہ میرا بیٹا تھا۔ خدا، خدا اور بس خدا۔ تمھارے زور کے سر ہلانے سے پہلے میں ڈرا، پھر خوش ہوا کہ میرا مسرور و خوش بچہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر اور ’لبیک، اللّٰھم لبیک‘، کی صدا لگاتا خدا کی بارگاہ دیکھتا ہے اور خوش کہ بس اب داخل ہوا کہ تب۔
بیٹے، میں بہت کم زور ہوں، اپنے خدا سے لڑ نہیں سکتا تھا، سو نہیں لڑا، بس کہہ دیا کہ بالکل نہیں کوئی مصنوعی زندگی بالکل نہیں۔ ڈاکٹروں سے کہہ دیا تھا کہ صرف اپنی سی کوشش کریں، انسانی کوشش ۔ کوئی مصنوعی طریقے سے سانس مجھے قبول نہ تھا۔ اِس لیے کہہ دیا تھا، میرے بچے کو بلانے کا حق اُسی کا ہے؛ جب بلا لے توایک لمحے کی تاخیر نہ کرنا کہ سواے اُس کے ہے نہیں کچھ میرے پاس۔ میں مطمئن ہوں۔ اُس نے تمھاری خوشی مجھے تمھاری حالت حضوری سے دکھا دی تھی۔
اب وہاں ہو تو بھائی، ذرا سی سفارش کرنا؛ کہنا، آپ کا ایک ادنیٰ سا بندہ چھوڑ آیا ہوں۔ دیکھتا تھا کہ وہ آپ کے لیے جیتا تھا۔ بس بہت گناہ گار ہے، مگر ’’چنگا ہے یا مندا ہے، بس آپ ہی کا بندہ ہے‘‘۔ اُسے معاف فرما دیں اور اُس کے گناہوں سے نظریں پھیر لیں۔ کہنا، اُس نے مجھے بالکل نہیں روکا۔ وہ کہتا تھا کہ جاؤ میرا خدا تمھیں بلاتا ہے۔ شان سے جاؤ کہ جنت تمھاری منتظر ہے۔ اُس کو یقین تھا کہ میں جنت میں ہوں گا۔ کہنا، وہ کہتا تھا کہ جب اُس نے دیا تھا تو خوشیاں منائی تھیں، شکر بجا لایا تھا؛ جب لے جا رہا ہے تو خندہ پیشانی سے واپس کروں گا کہ لوٹانے کا یہی اصول ہے۔ ’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى‘۔
ہاں یار، ایک آخری بات، معاف کرنا، لوگ کہتے رہے، مگر میں نے خدا سے براہ راست دعا کے سوا کوئی ایسا کام نہیں کیا، جو مجھے اُس سے دور کرنے کا باعث بنتا۔ میں نہیں مانا، بلکہ میں اُن سے کہتا تھا کہ مجھے ڈر ہے، شدید ڈر ہے کہ کہیں وہ تمھیں صرف اِس لیے ٹھیک نہ کر دے کہ میں نے اُس کا در چھوڑ کر کسی اور کی طرف نظر کی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہی میری آزمایش ہے۔ مجھے یقین تھا کہ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے، کیونکہ یہی تو امتحان تھا کہ میں اُس در کی چوکھٹ سے ہٹوں اور وہ کہے کہ بس، جاؤ لے لو اِسے اور اب شکل مت دکھانا۔ میں نہیں گیا۔ میں تمھیں اُسی سے پانا اور اُسی کے لیے کھونا چاہتا تھا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بھائی، تم تو ہو گے جنت میں، تو ہماری ملاقات مشکل ہے کہ مجھ سا گناہ گار کہاں، جنت کہاں۔ بھائی ، ہم تو خدا کی رحمت وکرم کی امید پر ہیں بس، نہ کوئی زاد سفر ہے، نہ نیک اعمال کی پوٹلی، ہاں البتہ مجھے یقین ہے کہ تمھاری ماں سے تمھاری ملاقات ان شاء اللہ لازماً ہو گی، تو بس اُس سے اپنے گناہ گار باپ کے حالات پوچھتے رہنا۔
صبح پانچ بج کر دس منٹ پر ڈاکٹر نے آئی سی یو میں بلایا تھا۔ تم و ینٹیلیٹر پر تھے، سانس اکھڑ رہا تھا۔ میرا سانس شاید کہیں جسم میں ہی بھٹک گیا تھا۔ دل کی دھڑکن ڈوب ڈوب کر ابھرتی تھی۔
تم اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھتے تھے۔ شاید، میں نے تمھاری آنکھوں کو اپنے لرزتے ہاتھوں سے بند کردیا تھا۔
تجھے آغوش میں لینے کو آئی رحمت باری
تجھے فردوس میں اماں سے حوریں ہو گئیں پیاری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ