کچھ نفوس صرف امرِ ربی کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں آتے ہیں۔ یہ پروردگار کے کارکنان ہوتے ہیں، جو خاص ذمہ داریوں کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اِنھیں دوسروں کی آزمایش پر مامور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ اُن کی تعلیم و تربیت، تنبیہ و تذکیر اورہدایت و نصیحت کا سامان کرتے اور نتیجتاً تزکیہ و تطہیر کا باعث بنتے ہیں۔ اِس اعتبار سے اِن کا وجود آیۃٌ من آیاتِ اللہ ہوتا ہے ـــــ خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ـــــ چنانچہ یہ ستارے کی طرح نکلتے اورافلاک کی راہ دکھا کر اوجھل ہو جاتے ہیں، بادل کی طرح برستے اورزمین کو سیراب کر کے تحلیل ہو جاتے ہیں، پھول کی طرح کھلتے اور فضا کو مہکا کر مرجھا جا تے ہیں، دیےکی طرح جلتے اور ماحول کو جگمگا کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ یہ خداکی معرفت اور قربت کا وسیلہ ہوتے ہیں ۔ لوگ اگر حق شعار اور حکمت شناس ہوں تو اِن کا وجود اُن پر اللہ کے انعام و اکرام کے دروازے کھول دیتا ہے اور پھر اُنھیں اپنی بخشش اور نجات کے لیے کسی اور جانب دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اِنھی کارکنانِ قدرت، اِنھی کروبیانِ رحمت، اِنھی فردستگانِ خاک اور ـــــ اِنھی بلاکشانِ محبت ـــــ میں سے ایک نوشیروان غامدی بھی تھا۔ وہ اللہ کے حکم کے عین مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دے کر ۷/ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
وہ آٹھ برس تک جیا اور اِن تمام برسوں میں مبتلاے آزار رہا۔ اُس کے ساتھ کئی عوارض وابستہ تھے۔تنفس کا عارضہ، دل کا عارضہ ، جگر کا عارضہ ، حد درجہ ناتوانی کا عارضہ اور سب سے بڑھ کر اپنی تکلیف نہ بتا سکنے کا عارضہ۔ وہ اِن غموں کو ایسے سہتا رہا ، جیسے ـــــ غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے ـــــ مگر کبھی اُنھیں بیان نہیں کر پایا ۔ شاید اپنے دادا کی طرح اِس کا حوصلہ نہیں کر سکا:
روح و بدن، دل و جگر، زخم کہاں کہاں نہیں!
کس سے کہوں یہ ماجرا، حوصلۂ بیاں نہیں!
اُس کا یہ سکوت پہاڑوں کو لرزا دینے والا اور دریاؤں کو دو نیم کر دینے والا تھا۔ اِس لیے پہاڑوں اور دریاؤں جیسا دل رکھنے والا اُس کا باپ بھی تڑپے بغیر نہ رہ سکا اور سات سال کے جاں گسل انتظار کے بعد بالآخر گڑگڑا اٹھا۔ اُس کے نام اپنے خط میں لکھتا ہے:
’’...بھئی بات یہ ہے کہ اگر اللہ میاں ہم سے براہ ِراست رابطے میں ہوتے تو ہم اُن کا ہاتھ پکڑ لیتے، گھٹنوں پر بیٹھ جاتے، سر اُن کے قدموں میں رکھ دیتے اور بس اتنا کہتے کہ تمھیں اتنی سی زبان دے دے کہ تم اپنی تکلیف بتا سکو۔ اتنا تڑپنا اور بتا بھی نہ سکنا کہ ہوا کیا ہے!‘‘
زمانی لحاظ سے اُس کا عرصۂ حیات آٹھ برس ہے۔ لیکن جو زندگی وہ جیا ، اُس میں گھڑیاں مہینوں کی ، مہینے برسوں کے اور برس صدیوں کے ہو جاتے ہیں، اِس لیے ہم نہیں جانتے کہ وہ اصل میں کتنی مدت تک جیتا رہا۔ اِس کا شمار وہ خود کر سکتا ہے ، اُس کا باپ کر سکتا ہے یا سب سے بڑھ کر اُس کی ماں کر سکتی ہے۔دیکھیے، اُس کی موت پر باپ نے کیا لکھا ہے:
’’... شیرو، تم ہنستے کھیلتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، مگر تکلیف میں تھے؛ ایک دو دن نہیں، پورے آٹھ سال۔ آخری پانچ دن تو تکلیف حد سے گزر گئی تھی۔ ہاتھ اٹھے کہ مالک، میں نہ یعقوب ہوں، نہ ابراہیم؛ میرا صبر یوں نہ آزما کہ ٹوٹ جاؤں۔... شیرو تم ایک امید کی طرح ابھرے، اور ڈھل گئے۔ شیرو، سنتے ہو تو سنو، ماں کی آنکھ میں تم اب بھی بھاگتے دوڑتے موجود ہو۔ اُس نے برسوں تمھارے ہی ساتھ بتائے ہیں۔ اُس کے شب و روز تم سے عبارت تھے ،سو اب بھی ہیں۔ اِس کے لیے مشکل یوں بھی ہے کہ یار، اُس کی آنکھ صبح کھلتے ہی تمھیں دیکھتی اور رات تمھیں دیکھ کر ہی بند ہوتی تھی۔ اب جب کچھ وقت کو دور ہوئے ہو تو کیا کہے، کیا کرے۔ مگر خدا کی بندی ہے، خدا کے سوا اُس کی امید کچھ تھی نہیں اور اب بھی روشنی وہیں سے پاتی ہے۔ کہتی ہے: تم تب تک اُس سے جدا ہو، جب تک وہ زندہ ہے۔ ‘‘
وا دریغا، باپ کہتا ہے کہ مالک، میرا صبر یوں نہ آزما کہ ٹوٹ کر بکھر جاؤں اور ماں کا کہنا ہے کہ میں تب تک اُس سے جدا ہوں ، جب تک میں زندہ ہوں ۔ گویا اب زندگی بھر بس موت کا انتظار کرنا ہے:
ای دریغا ای دریغا ای دریغا ای دریغ
نوشیروان جہاں سے آیا تھا ،وہاں واپس چلا گیا۔ وہ اب ہم میں نہیں ہے۔ وہ خدا کا خاص بندہ تھا ۔ اُس نے بلاچون و چرا اپنے رب کے ارشاد کی تعمیل کی۔ اُس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی مالک کی اطاعت سے خالی نہیں رہا۔ اُس کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا ، زندہ رہنا اور مر جانا ، سب اللہ پروردگارِ عالم کے لیے تھا۔ وہ عیبوں سے مبرااور گناہوں سے پاک ایک نفس مطمئن تھا، اِس لیے راضيۃ ًمرضيۃ ً کی بادشاہی کا حق دار ہے۔ اُس کی زندگی بھر کی تکلیفوں کے صلے میں اُسے ابدی زندگی ملے گی۔ وہ زندگی جس کے لیے وہ اِس جیسی ہزار زندگیاں بھی گزارنے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
تاہم، یہ آخرت کا زاویۂ نظر ہے ، جس کے برحق ہونے میں کوئی انکار نہیں ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ایک دنیا کا زاویۂ نظر بھی ہے ، جو محدود ہونے کے باوجود اپنی جگہ حقیقت ہے۔ ایک دل خراش حقیقت۔ اُس زاویے سے دیکھیں تو منظرنامہ یہ ہے کہ وہ خاموشی سے آیا اور خاموشی سے چلا گیا۔ جب تک رہا ، درد سہتا رہا، ـــــ ایسے درد جو پہاڑوں کو سہنے پڑیں تو وہ بھی الحذر، الامان پکار اٹھیں ـــــ مگروہ اُنھیں چپ چاپ سہتا رہا۔ یہ بتا یا ہی نہیں کہ وہ کہاں اٹھتے ہیں اور کس شدت سے اٹھتے ہیں۔ یہ پوچھا ہی نہیں کہ اُس زندگی کے کیا معنی ہیں، جس میں روح و بدن کے زخم ہردم تازہ رہتے ہیں!یہ سوال ہی نہیں کیا کہ ایسی دنیا میں کب تک رہوں ، جس میں نہ زمانے ہیں، نہ موسم ہیں، نہ رنگ ہیں! یہ کہا ہی نہیں کہ اُس عمر کا کیا کروں،جسے میرے بجاے دوسرے بسر کرتے ہیں! ... بامروت تھا، عالی ظرف تھا، بلند ہمت تھا، اِس لیے کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ جاتے جاتے زبانِ حال سے بس اتنا سمجھا گیا کہ:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!
غالبِ خسۃ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ