HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

پوتے کی وفات پر غامدی صاحب کے تاثرات

(محمد حسن الیاس صاحب کے ساتھ اُن کی گفتگو سے ماخوذ)

 

نوشیروان ہمارا لختِ جگر تھا، ہم پر اللہ کا انعام تھا۔ جب تک رہا ، اللہ کا کرم اور اُس کی عنایت بن کر رہا۔ اب وہ ہم سے رخصت ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔  اُس کے چلے جانے  پر رنج بھی ہوا ہے، تکلیف بھی پہنچی ہے، آنسو بھی ٹپکے ہیں۔ ـــــ  یہ سب اُس محبت و رحمت کا فطری اظہار ہے، جو اللہ نے انسانوں کے دلوں میں رکھی ہے ـــــ اپنے رب سے  کوئی جزع فزع نہیں ہے۔ اُس نے اُسے عارضی مدت کے لیے بھیجا تھا، مدت پوری ہوئی تو  واپس بلا لیا  ہے۔ اُس کی زندگی کی نعمت بھی عارضی تھی اور اُس کی موت کا غم بھی عارضی ہے۔ جس طرح یہ زندگی عارضی ہے، اُسی طرح اِس کی خوشیاں اور غم بھی عارضی  ہیں۔ اصل اور مستقل زندگی وہ ہے، جو موت کے بعد شروع ہونی ہے۔ وہ زندگی موت کے دروازے سے گزر کر ملنی ہے۔ لہٰذا  ہمیں اپنی اور اپنے عزیزوں کی موت کے لیےہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

ماں باپ کے لیے  اِس سے بڑا  کوئی امتحان نہیں  ہو سکتا کہ اُنھیں اپنے بچے کو اپنے بازوؤں میں لے کر دفن کرنا پڑے۔ میں نے خود اپنی  کم سن بیٹی کی قبر کھودی اور اُسے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہے۔ یہ آسان چیز نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے جو شفقت باپ میں رکھی ہے، جو محبت اور ممتا کے احساسات ماں میں رکھے ہیں، وہ اتنے قوی، اتنے غیر معمولی ہوتے ہیں اور اِس طرح انسان کے وجود کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ جب اِن سب کے باوصف اللہ تعالیٰ بچے کی نعمت لے لیتا ہے تو اُسے برداشت کرنا  بہت مشکل ہوتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کا سہارا اور آخرت پر ایمان ہی صبر دیتا ہے۔ اِس لیے ایسے موقع پر ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا٘ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ*‘، ’’ہم اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی طرف لوٹیں گے‘‘۔ اِسی طرح حدیث میں آتا ہے: ’إنَّ لِلَّه ما أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى‘، یعنی جو اُس نے لے لیاہے، وہ اُسی کا تھا اورجواُس نے دیا ،وہ بھی اُسی کا ہے۔پھر یہی نہیں ہے، اِس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ’وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى**‘،یعنی میرے لیے، آپ کے لیے، میرے احوال کے لیے، آپ کے احوال کے لیے، ہر معاملے کے لیے ایک اجل، ایک موت مقرر کر دی گئی ہے، جسے ہر حال میں آنا ہے۔ جب یہ مقرر ہے اور اِسے بہرحال آنا ہے توپھر اِس  کا استقبال کرنا چاہیے، اِسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔

آپ جانتے ہیں کہ اللہ نے  انسانوں کی تذکیر کے لیے اپنی کتابیں نازل کی ہیں، اپنے  پیغمبر بھیجے ہیں۔ اِسی طرح دنیا میں جو مختلف واقعات  اور حوادث پیش آتے ہیں،  اُن میں بھی اصلی مقصود یہی تذکیر، یہی تنبیہ، یہی یاددہانی ہوتی ہے۔ اِس بچے کا وجود بھی ہمارے لیے اللہ  اور آخرت کی یاددہانی کا باعث تھا۔ آٹھ، ساڑھے آٹھ سال تک ایک امتحان کی زندگی تھی، جو اُس نے بھی بسر کی اور ہم نے بھی بسر کی۔ یہ امتحان ہمارے لیےاللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت تھا۔ اُس  کی عنایت  کو دیکھنے کے دسیوں مواقع ہمارے سامنے آتے تھے۔ اُس کی شخصیت، اُس کی زندگی، اُس کے شب و روز ہمارے لیےتذکیر کاباعث بنتے تھے۔ اِس دنیا میں ہمیں کیا رویے اختیار کرنے چاہییں، اُن کی رہنمائی ملتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی امتحان میں ڈالے تو اُس میں کیا کیا مراحل آ سکتے ہیں، اُن کی بھی ایک کتاب کھل جاتی تھی۔  چنانچہ وہ سراپا نعمت تھا۔ اللہ تعالیٰ کی اِس سے بڑی نعمت کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بچے کی خدمت ،اُس کی محبت، اُس کے ساتھ تعلق خاطرآپ کے لیے جنت کا سامان کر رہے ہوں اور اُس کی زندگی اور اُس کے احوال آپ کے لیے اللہ اور اُس کے قانون کی یاددہانی کا ذریعہ  بن رہے ہوں۔ اِن تمام پہلوؤں سے وہ ہمارے لیےنعمت ہی نعمت تھا۔

 اُس کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ وہ صبر اور استقامت کے ساتھ اُس کے معاملات کو دیکھیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ دونوں نے اِس موقعے کو نہایت خوبی سے نبھایا۔ باپ کی شفقت غیر معمولی تھی، مگر  ماں نے تو اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ماں کیاہوتی ہے، ماں کے جذبات کیا ہوتے ہیں، ماں کی ممتا چیز کیا ہے ، اُس کے شب و روز میں اِس کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ میں  یا آپ ہو سکتا ہے کہ  کسی موقعے پر گریز بھی کر جائیں، لیکن وہ  تو  اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے، کسی حال میں اپنے ماتھے پر شکن نہیں آنے دیتی تھی۔ پوری محبت اور دل جوئی کے ساتھ اُس کی خدمت کرتی تھی۔  بہرحال، اِن دونوں کو اللہ نے جس امتحان سے گزارا ہے،وہ چونکہ بڑا غیر معمولی ہے، اِس لیے اگر  وہ صبر کریں، جزع فزع نہ کریں، اپنے رب پر بھروسا رکھیں، ہمت کے ساتھ آگے بڑھیں تو  اِس کا صلہ جنت ہے۔ ایسے موقعوں پر راضی بہ رضا رہنا معمولی درجے کا عمل نہیں   ہوتا،اِسی لیے اِسے ’صبر‘ سے تعبیر کیا ہے اور اِس کا صلہ  ابدی جنت رکھا ہے۔ یہ  صبر ہی ہے کہ جس کے بارے میں اللہ نے  یہ بشارت دی ہے کہ دنیا میں میری معیت صابرین کو حاصل ہو جاتی ہے*** اور آخرت کے حوالے سے  تو یہ بتا دیا  ہے کہ ’جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا**** ‘، یعنی جنت ہے ہی اصل میں صبر کا صلہ۔

ہمارا یہ بچہ ہفتہ بھرموت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہا۔ اِس دوران میں بہت سے لوگوں نے  ہم سے رابطہ کیا، ہمارے ساتھ محبت کا اظہار کیا، بچے کا حال پوچھا،  اُس کے لیے دعا کی، ہم اُن سب  کے بہت شکر گزار ہیں۔ اب جب کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گیا ہے تو لوگ تعزیت کر رہے ہیں، ہمارے غم میں شریک ہیں، ہم اِس پر بھی حد درجہ شکر گزار ہیں۔ اُن سے درخواست ہے کہ وہ بچے کے ماں باپ کے لیے، اُس کے بہن بھائیوں کے لیے سکینت کی دعا کریں تاکہ جس غم سے وہ گزرے ہیں، جس صدمے سے دوچار ہوئے ہیں، جس نعمت سے محروم ہوئے ہیں، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ اُنھیں وہ اطمینان اورسکون عطا فرمائے کہ وہ اپنی باقی زندگی اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر گزار سکیں۔ اِس لیے کہ رب کی طرف توجہ، اُس کی جانب رجوع ، اُس کی رضا  پر راضی رہنا، یہی دین ہے، یہی ایمان ہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے یہ چیز پا لی، اُس نے ایمان کی حلاوت چکھ لی۔ میں  دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِس حادثے کے نتیجے میں اُنھیں ایمان کی یہی حلاوت  نصیب فرمائے۔ آمین

ـــــــــــــــــــــــــ

* البقرہ ۲: ۱۵۶۔

** نسائی، رقم ۱۸۶۸۔

*** البقرہ ۲: ۱۵۳۔

**** الدہر ۷۶: ۱۲۔


B