ہمارے محلے کے ایک پڑوسی (فیروز احمد خان) مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔اِس بار وہ چھٹیوں پر لکھنؤ تشریف لائے تو ہم نے ’’استقبال زائر مدینہ‘‘ کے عنوان سے اپنے ادارہ (وزڈم فاؤنڈیشن،لکھنؤ) میں ایک پروگرام منعقد کیا۔ اِس موقع پر کسی رنگ آمیزی کے بغیربالکل فطری انداز میں لوگوں کے سامنے اسوۂ نبوی اور پیغمبرانہ سیرت کے واقعات بیان کر تے ہوئے اُن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، قرآن مجید سے تعلق اور آپ کی پیروی و اتباع کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایک خاص بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا گیا کہ ’نسبتیں‘ عشق و محبت کی اساس ہوا کرتی ہیں۔یہی نسبت ایک عام چیز کو ’شعائر اللہ‘(البقرہ ۲: ۱۵۸)کے اُس بلند مقام پر فائز کردیتی ہے جس کی ’تعظیم‘ (الحج ۲۲: ۳۲)نہ صرف ایک مومن کے لیے ضروری، بلکہ وہ اُس کے باطنی تقویٰ وایمان(تَقْوَي الْقُلُوْبِ) کی علامت ہوا کرتا ہے۔اِس اعتبار سے دیکھیے تو رسو ل کی نسبت اللہ سے ہے اور مدینے کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے۔ چنانچہ اللہ اور رسول سے نسبت رکھنے والی ہر چیز ہمارے لیے غایت درجہ محبت اور عقیدت کا درجہ رکھتی ہے۔
اِس موقع پر بچوں نے حمد ونعت پر مبنی بامعنی اور خوب صورت کلام بھی پیش کیا۔ اُنھیں انعام اور شیرینی کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ محلے والوں سے میں نے کہا کہ مدینہ منورہ کی عظیم نسبت کا تقاضا ہے کہ آپ حضرات مذکورہ پڑوسی کو اپنے گھر پر مدعو کریں۔اُن سے اظہارِ محبت کریں اور مدینے کے حالات و واقعات کا علم حاصل کریں۔ اِسی طرح اُن کی روانگی کے دن (۲۲؍ جنوری ۲۰۲۲ء) میں نے لوگوں کو تاکید کی کہ آپ اُن سے مل کر اپنا سلام حضور رسالت مآب(صلی اللہ علیہ وسلم) میں پہنچائیں۔میں نے کہا: افسوس کہ نسبتوں کے لحاظ و احترام کا یہ مبارک ماحول اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ د ل کی اِسی تاریکی اور قلب و ذہن کی اِسی ویرانی پر ماتم کرتے ہوئے شاعر حقیقت علامہ اقبال نے کہا تھا:
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے!
چنانچہ راقم کی دعوت پر مذکورہ پڑوسی ہمارے ہاں تشریف لائے۔روانگی کے وقت میں نے اپنے بچے ابراہیم (۶ سال) سے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی ہدیہ نہیں بھیجوگے؟ وہ اپنے معصومانہ انداز میں بولا: میں حضور پاک کے لیے عطر بھیج دوں؟ میں نے کہا: ضرور۔چنانچہ گلاب کا عطر اُن کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ابراہیم نے کہا: یہ ہماری طرف سے حضور پاک کے لیے ہدیہ ہے۔ میں نے مذکورہ پڑوسی سے کہا: اب آپ روضۂ رسول پر یہی عطر مل کر حاضر ہوں۔ اِن شاء اللہ یہی اِس نذرا نۂ عقیدت کی قبولیت و باریابی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
یہ واقعہ گویا مشہور فارسی شاعرملک الشعرا محمد تقی بہارؔ(وفات: ۱۹۵۱ء) کے الفاظ میں ’’ فرزندِ مرا عشق بیاموز و دگر ہیچ‘‘جیسا ایک معاملہ تھا۔یہ ایک قلب معصوم کے اندر محبت رسول کی تخم ریزی تھی، جس سے بڑی کوئی دولت نہیں۔یہ محبت ہی زندگی کا حاصل اور دین کا خلاصہ ہے۔ جس دین میں محبت اور ربانی و ایمانی کیفیات شامل نہ ہوں، وہ دین نہیں،بلکہ صرف ایک بے روح ’مذہب‘ہے،جو خدااورا نسان، دونوں کے یہاں قابل رد ہے۔ قرآن مجید میں اِسی بے روح ’مذہبیت‘کو ’قساوت‘(الحدید ۵۷: ۱۶)سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی غفلت و ’قساوت‘ اور یہی بے خوفی تمام مادی اور روحانی فتنوں کا سبب ہے۔
اِس موقع پر مجھے ندوۃ العلما،لکھنؤ کے دور طالب علمی کا ایک واقعہ یاد آیا۔یہ ۱۹۹۷ء کی بات ہے۔ اُس وقت میں اپنے خرچ کے لیے عام طورپر فارغ اوقات میں خطاطی کیا کرتا تھا۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہورہے ہیں۔فرط شوق میں، میں نے مولانا سے عرض کیا کہ میں اپنے نام کے ساتھ سلام لکھ کر آپ کو دوں گا۔ آپ اُسے حضور ر سالت مآب میں پیش فرما دیں۔ مولانا خوش ہوئے اور فرمایا: ضرور۔چنانچہ میں نے لفافے ہی کے سائز کا ایک آرٹ پیپر لیا تاکہ مڑکر وہ بدنما نہ ہونے پائے۔ درمیان میں سلام لکھ کر کاغذ کے چاروں طرف سرخ روشنائی سے خط دیوانی میں اِس طرح درود ابراہیمی لکھا گیا تھا کہ وہ حاشیے کا ایک خوب صورت ڈیزائن معلوم ہونے لگا۔اِس سپاس نامہ و لفافے کا عکس آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ سلام کے الفاظ یہ تھے:
الصلاة والسلام علیک یا رسول اللّٰه، من محمد ذکوان بن عثمان بن بشیر.
لفافے پر بطور سرنامہ جلی حروف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
’’ایک گداے بے نوا کا نذرانۂ عقیدت و محبت شہنشاہ کونین کے نام‘‘
اِس سرنامہ کے نیچے حزین لاہیجی(وفات: ۱۱۸۰ھ )کا درج ذیل فارسی مصرع رقم تھا:
زچشمم آستین بردار و گوہر را تماشا کن! [*]
تاہم میں جب مولانا کی قیام گاہ، مہمان خانہ، ندوۃ العلما پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولانا ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں،مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عین اُسی وقت لکھنؤ کے کچھ مقامی لوگ بذریعۂ کار مولانا سے ملاقات کے لیے ندوے پہنچے۔ اُنھیں معلوم ہوا تو وہ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ میں بھی اُنھی کے ساتھ ایئر پورٹ چلا گیا۔ اُس وقت اِس قدر سیکورٹی وغیرہ کا مسئلہ نہیں تھا۔چنانچہ ہم لوگ ایئرپورٹ کے اندر چلے گئے۔ یہاں پہنچا تو دیکھا کہ مولانا ابھی رخصت نہیں ہوئے ہیں۔چنانچہ مولانا کی خدمت میں یہ لفافہ پیش کرتے ہوئے اپنا سلام شوق عرض کرنے کی درخواست کی۔ مولانا گلوگیر ہوکر دعافرمانے لگے۔ بالآخر واپسی پر میں اُنھی حضرات کے ساتھ دوبارہ ندوے آگیا۔
اُس وقت فرط شوق کی وجہ سے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔چنانچہ مدینہ منورہ سے واپسی کے کئی دن بعدہی میں مولانا سے ملاقات کی ہمت کرسکا۔ حاضر ہوا تو مولانا نے فرمایاکہ میں نے روضۂ رسول پر تمھارا لفافہ پڑھ کر سلام پیش کر دیاتھا:
بر ایں مژدہ گر جان فشانم، روا ست!
اِس خوش خبری کو سننے کے بعد دیر تک میں زیر لب یہ ا شعار گنگنا تا رہا:
جان می دہم در آرزو اے قاصد، آخر باز گو
درمجلس ِآن نازنین حرفی کہ از ما می رود !
’’ اے قاصد، میں اِس بات پراپنی جان نثار کردوں۔ آخر یہ بتا کہ محبوب کی اُس مجلس میں گفتگو کے دوران میں کیا میرا نام بھی لیا گیا !؟۔‘‘
بہر سلام مکن رنجہ در جواب آں لب
کہ صد سلامِ مرا بس یکی جواب از تو!
’’ہر سلام کا جواب دینے کی زحمت نہ فرمائیں کہ سیکڑوں سلام کابس آپ کی طرف سے ہمار ے لیے ایک ہی جواب کافی ہوگا!۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان بالرسول کاوہ بدیہی تقاضاہے جو آپ کی نسبت سے ایک سچے مومن کے اندر فطری طورپر موجزن ہواکرتا ہے۔ میڈیا سونامی کے اِس دور میں، جب کہ عام طورپر ’بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًي وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ ‘(الحج ۲۲: ۸) کے مصداق، بہت سے ’مذہبی‘ اور غیر’مذہبی‘ فلسفہ و افکار کی اشاعت دن رات جاری اور اُن کے بانی علما ومفکرین سے ایسی والہانہ محبت اور عقیدت کا ثبوت دیا جارہا ہے جو صرف اللہ اور رسول کا حصہ ہے(البقرہ ۲: ۱۶۵)۔
اِس صورت حال میں ضرورت ہے کہ ہر قسم کی گروہ بندی اور مسلک پرستی سے بلند ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق قائم ہو اور ہر جگہ آپ کی سیرت اورآپ کی تعلیما ت کا اِس کثر ت کے ساتھ تذکرہ کیا جائے کہ وہی وقت کا غالب موضوع بن کر تمام فلسفہ ہاے حیات پر چھاجائے۔
ایمان و محبت کی اِ س عظیم دعوتی اور ربانی مہم کو عمومی بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر جگہ تذکیر بالقرآن، سیرت نبوی اور اُسوۂ صحابہ کے سنجیدہ دعوتی اور تربیتی حلقے قائم کیے جائیں۔ آپ کی سنت اور آپ کی سیرت سے بڑھ کر کوئی ’فکر وفلسفہ ‘ اور آئیڈیالوجی (ideology)نہیں جو انسانیت کے لیے حیات بخش ثابت ہو۔ شخصی ’آئیڈیالوجی‘ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، اکثر ’خیال پرستی‘ہوا کرتی ہے، وہ وحی الٰہی پر مبنی کوئی نظریۂ حیات نہیں۔لہٰذا خدا کی کتاب اور اُس کے پیغمبر سے بڑھ کر دوسری اور کوئی چیز نہیں جو ہمارے لیے محبت و اتباع کا مرکز اور ربانی ہدایت کا مستند خدائی ماخذ بن سکے۔
[لکھنؤ، ۲۵ ؍ مئی ۲۰۲۲ء]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] یہ دراصل اُس واقعے کی تعبیر ہے جب ایک شخص شدت گریہ کے دوران میں اپنی آنکھوں کو آستین سے ڈھک کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہا ہو۔اِسی بات کو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے کہ ’’تم میری آنکھوں سے آستین ہٹاؤ، پھر دیکھوکہ اِن سے اشک ہاے درد و محبت کے گوہر کس قدر رواں ہیں۔ ‘‘