قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ روزازل ابلیس نے اللہ تعالیٰ کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ خدا کی بندگی اور اطاعت کی سیدھی راہ سے لوگوں کو بھٹکانے کے لیے اس راہ میں بیٹھ جائے گا اور ہرجگہ سے انسانوں کو گم راہ کرنے کی کوشش کرے گا (الاعراف ۷: ۱۶)۔
ابلیس اور اس کی اولاد نے ہر دور میں اپنے اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس راہ میں انھوں نے ہمیشہ برائی ہی کا راستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ان چیزوں کو بھی استعمال کیا جو اچھی اور مذہبی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم چیز محبت ہے۔نصاریٰ کے متعلق معلوم ہے کہ انھوں نے اسی مثبت جذبے میں غلو کرکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنادیاتھا۔
یہی پس منظر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محبت کے معاملے میں لوگوں کی براہ راست رہنمائی کرکے کچھ چیزیں اصول کے طور پر بیان کردی ہیں۔ ان چیزوں کو ملحوظ رکھا جائے گا تو محبت کا جذبہ انسان کے دین کو وہ حسن و جمال عطا کرے گا جو نیکیوں میں سبقت اور آخرت میں رب کی قربت کا سبب بنے گا۔
ان میں سے پہلی چیز محبت کا ایمان سے یہ تعلق واضح کرنا ہے کہ محبت ایمان کا لازمی نتیجہ ہے۔کوئی شخص اگر سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہے تو اس کا ایمان اللہ کو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بنادے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ جولوگ ایمان لائے، وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ۲: ۱۶۵)
ایمان کے ساتھ محبت کے تعلق کی یہی وہ نوعیت ہے جس کی بنا پر پورا قرآن ایمان کے مطالبے سے بھرا ہوا ہے، لیکن ایک مقام پر بھی قرآن مجید نے محبت کو کسی دینی مطالبے کے طور پر پیش نہیں کیا۔ یہی معاملہ روایات کا بھی ہے کہ وہاں اسے کسی مستقل دینی مطالبے کے بجاے ایمان سے متعلق کرکے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی، وہ ان کے سبب سے ایمان کا مزہ چکھے گا۔ان میں سے تیسری یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول دوسری تمام چیزوں سے زیادہ انسان کو محبوب ہوجائے (بخاری، رقم ۱۶۔مسلم،رقم۴۳)۔
یہی چیز دیگر روایات میں بھی بیان ہوئی ہے اور عین قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین کا اصل مطالبہ ایمان خالص ہے۔ جب یہ پیدا ہوگا تو اللہ کی محبت اور تبعاً اس کے رسول کی محبت بھی خودبخود پیدا ہوگی۔عقل عام بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔ ہمیں اپنے ماں باپ سے محبت اُس تعلق کی بنیاد پر ہوتی ہے جو اولاد اور والدین کے درمیان ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے وجود کا ماخذ اور قربانیاں دے کر ہمیں بچپن کی عمر سے بڑا کر کے پختگی کی عمر تک پہنچانے والے ہیں۔
ایمان ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ اللہ ہے جس نے ہمیں وجود دیا اور ہر طرح کی نعمتیں دی ہیں۔ یہ علم خدا کو ہمارا محبوب بنادیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمارا ایمان یہ بتاتا ہے کہ آپ ہی کی ہستی ہے جنھوں نے ہمیں اپنے خداکی صفات، اس کی بندگی اور رضاحاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا ہے۔جس طرح والدین ہمارے جسمانی وجود کا ماخذ ہیں، نبی ہمارے ایمانی وجود کا ماخذ ہیں۔ یہیں سے حضور کریم علیہ السلام کی محبت جنم لیتی ہے۔چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایمان ہے تو محبت لازمی ہوگی اور ایمان نہیں ہے تو محبت نہیں ہوگی۔ہاں نفس و شیطان کا ایک دھوکا محبت کے نام پر البتہ ہوسکتا ہے اور اکثر ہوتا بھی وہی ہے۔
امتوں کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس وشیطان کے اس دھوکے کے تین دائرے ہوتے ہیں۔ پہلاوہ جس میں انسان اللہ کی محبت کے ساتھ غیر اللہ کی محبت کو جمع کرلیتا ہے اور سمجھتا یہ ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں اللہ کی محبت میں کررہا ہوں۔ اس پر قرآن نے اس طرح توجہ دلائی ہے:
’’لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے برابر ٹھیراتے ہیں،وہ ان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں، جس طرح اللہ سے کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۶۵)
تمام مشرک اقوام اور اہل کتاب میں سے نصاریٰ نے یہ دھوکا کھایا۔ وہ خود بھی گم راہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گم راہ کیا۔
نفس و شیطان کے دھوکے کا دوسرا دائرہ وہ ہے جس کی نمایاں مثال یہودی ہیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ خدا ان کا محبوب اور وہ خدا کے محبوب ہیں۔ چنانچہ اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے دعویٰ محبت کی حقیقت کو جاننے کی ایک کسوٹی قرآن نے اس طرح بیان کردی:
’’ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گااور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا،اور اللہ بخشنے والاہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘ (آل عمران ۳: ۳۱)
یہود کے پس منظر میں حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اتباع کا بیان دو بڑی نمایاں حکمتیں رکھتا تھا۔ایک اپنے گروہی تعصبات سے بلند ہوکرایک ایسی ہستی کی پیروی جس کا تعلق دوسرے گر وہ سے تھا۔ دوسرے اپنے خود ساختہ معیارات سے اوپر اٹھ کر خدا کے طے کردہ معیارات پر اپنی وفاداری ثابت کرنا۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی مشکل ہیں اور سچے ایمان اور خدا سے غیر معمولی محبت کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتیں۔
چنانچہ محبت کے جھوٹے دعوے داروں کو نفس و شیطان اس طرح دھوکا دیتے ہیں کہ وہ درحقیقت اپنے گروہی اور فرقہ دارانہ تعصبات کا شکار ہوتے ہیں، مگرخود ساختہ معیارات کے مطابق چند مراسم ادا کرنے کو بندگی اور ایمان کی معراج سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ خدا کی محبت کا ثبوت دینا ہے تو اپنے گروہ سے اوپر اٹھ کر صرف خدا کے لیے جینا ہوگا اور اپنے خود ساختہ معیار کے بجاے خدا کے معیار کے مطابق، اُس کی بندگی اختیار کرنی ہوگی۔
نفس وشیطان کے دھوکے کا تیسرا دائرہ وہ ہے جس میں لوگ دعویٰ محبت کرتے ہیں، لیکن جہاں ان کے مفادات پر ضرب لگے، خواہشات کا راستہ رکے اور راہ وفا میں دیگر مشکلات پیش آئیں، لوگ عملاً کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب ایمان کے دعوے داروں نے یہ رویہ اختیار کیا تو قرآن مجید میں اُن کو اس طرح تنبیہ کی گئی:
’’ان سے کہہ دواگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، تمھارے بھائی،تمھاری بیویاں،تمھارا خاندان اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا ہے اور تمھاری وہ تجارت جس کے مندے ہو جانے سے تم ڈرتے ہواور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو، یہ سب تمھیں اللہ سے، اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو،یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کردے۔‘‘ (التوبہ ۹: ۲۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایمان لانے والوں کو جو امتحان درپیش تھا، اس میں ایک طرف انھیں خدا کی بندگی اور اطاعت رسول کے سارے تقاضے پورے کرنے تھے اور دوسری طرف انھیں کفار سے لڑ کر سرزمین عرب میں خدا کے دین کو غالب کرنا تھا۔ اس راہ میں ایک طرف اپنے مال، تجارت وزراعت اور سب سے بڑھ کر جان کی قربانی دینی تھی اور دوسری طرف جن کفار سے لڑنا تھا، ان میں ان کے باپ، بھائی،بیٹے اور دیگر رشتہ دار بھی تھے۔چنانچہ مال واسباب اور رشتے ناتوں کی یہی وہ محبت تھی جس کے تقابل کے طور پر اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کو پیش کردیا گیا۔ مطلب یہ تھا کہ جس خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو اورمانتے ہو کہ جہاد کانتیجہ خدا کی جنت ہے تو پھر اس ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ان محبتوں سے بڑی محبت کوئی نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ تمھیں کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو۔
یہی وہ چیز ہے جس کی شرح و وضاحت میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ (بخاری، رقم ۱۵۔مسلم،رقم۴۴)
اِس روایت سے واضح ہوتاہے کہ خدا اور اس کے رسول کی محبت ایک اصولی محبت ہے جو ایمان سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے بالمقابل اگر دیگر محبتیں آ کر کھڑی ہوجائیں اور اپنے وہ مطالبات پیش کردیں جو دینی تقاضوں کے برخلاف ہوں تو پھر ترجیح اللہ اور اس کے رسول کو ہونی چاہیے، ورنہ ایمان معتبر نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قرآن و حدیث میں محبت کا یہ تصور سمجھے بغیر مطلقاً محبت کو دین کی دعوت بناکر معاشرے میں پیش کیا جاتا ہے۔چنانچہ محبت تو پیدا ہوجاتی ہے، مگر اس کے ساتھ خالص ایمان ہوتا ہے، نہ کامل اتباع۔ صرف شاعرانہ تعلی اور خطیبانہ دعوے ہوتے ہیں جن سے خون تو گرم ہوجاتا ہے، مگر مفادات و خواہشات کی ایک چھوٹی سی قربانی بھی ایسا شخص نہیں دے پاتا۔ بدعملی خوب فروغ پاتی ہے۔ غلو وشرک پر مبنی شاعری وجود میں آجاتی ہے۔دین میں اضافے اور بدعتیں جنم لیتی ہیں۔ عشق کے نام پر دوسروں کی نفرت، گستاخی کے فتوے، قانون کی پامالی اور بے گناہوں کے قتل کا چلن عام ہوجاتا ہے،مگر حقیقی دین داری کا نام ونشان نہیں ملتا۔ بہت ہوا تو کچھ ظاہری وضع قطع اور رسمی دین داری وجود میں آجاتی ہے۔ بدقسمتی سے محبت کے نام پر یہی ہمارے ہاں ہورہا ہے۔
قرآن و حدیث کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ دین کی اصل دعوت ایمان ہے اور محبت اس ایمان کا فطری نتیجہ ہے۔ چنانچہ لوگوں میں محبت اگر نظر نہ آئے یا کم نظرآئے تو یہ ایمان میں کمی کی علامت ہے۔ ایسی حالت میں دعوت ایمان کی دینی چاہیے۔ بتانا چاہیے کہ محبت کے دعووں کو جاننے کا معیار اتباع رسول ہے۔ اپنی خواہشات،مفادات اور تعلقا ت پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ترجیح دینا ہے۔ یہی سچے اہل علم کے کرنے کا اصل کام ہے۔ اس سے ہٹ کر کچھ کرنے کا نتیجہ خداکے حضور اپنی پکڑ اور دوسروں کی گم راہی کا سبب بنے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ