[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں،ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت سہلہ مكہ میں پیدا ہوئیں۔عرب كے مشہور سردار سہیل بن عمرو ان كےوالد تھے۔عبد شمس بن عبد ود ان كے پردادا اور عامر بن لؤی آٹھویں جد تھے،قریش كی شاخ بنو عامر بن لؤی انھی كے نام سے منسوب ہے۔نویں جد لؤی بن غالب پرحضرت سہلہ بنت سہیل كا سلسلۂ نسب رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے شجرے سے جا ملتا ہے۔عامر بن لؤی كے بھائی کعب بن لؤی آپ کے آٹھویں جد تھے۔
حضرت سہلہ بنت سہیل کی والدہ فاطمہ بنت عبدالعزیٰ بھی بنو عامر بن لؤی سے تھیں۔حضرت عبداللہ بن سہیل،حضرت ابوجندل بن سہیل اور حضرت عتبہ بن سہیل ان کےبھائی تھے۔
حضرت سہلہ كی ایك بہن ہند بنت سہیل كا بیاه حضرت عبدالرحمٰن بن عتاب سے ہوا تھا (جمہرة انساب العرب ۱۶۶)، جب كہ دوسری بہن حضرت ام کلثوم بنت سہیل اپنے ماموں زاد حضرت ابوسبرہ بن ابورہم كے نكاح میں تھیں۔
زمانۂ جاہلیت میں سہیل بن عمروکا شمارقریش کے بڑے اوردانش مند سرداروں میں ہوتا تھا۔عتبہ بن ربیعہ، ابوالبختری،نضر بن حارث، ابوجہل،امیہ بن خلف، سہیل بن عمرو اور دیگرسردارحاجیوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ خطاب کا ملکہ رکھنے کی و جہ سے سہیل کو خطیب قریش کہا جاتا تھا۔بعثت نبوی کے بعد سہیل دین حق کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہو گئے،اسلام کی مخالفت میں اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں پیش پیش رہے۔
حضرت سہلہ اسلام كے ابتدائی دور میں اسلام لائیں اور نبی محترم صلی ا لله علیہ وسلم كی بیعت كی۔
حضرت سہلہ بنت سہیل كا پہلا بیاه حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ سے ہوا تھا جو ’السٰبقون الأولون‘ میں سے تھے اور نبی صلی الله علیہ وسلم كے دار ارقم میں منتقل ہونے سے پہلے ایمان لا چكے تھے۔
رجب ۵؍ نبوی(۵۱۶ء) :دین حق کی طرف لپکنے والے مخلصین پرمشرکین مکہ کی ایذارسانیاں حد سے بڑھ گئیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا: تم حبشہ کی سرزمین کو نکل جاؤ، وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،(وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اللہ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔چنانچہ سب سے پہلے سولہ اہل ایمان نصف دینار فی مسافر کرائے پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے۔قریش نے ان کا پیچھا کیا، لیکن وہ سمندر میں اپنا سفر شروع کر چکے تھے۔ باره (گیاره:ابن سعد) مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل اس قافلے میں حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ اوران کی اہلیہ حضرت سہلہ بنت سہیل شامل تھے۔ دیگر شركا یہ تھے: حضرت عثمان بن عفان،ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ،ان کی زوجہ حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ، حضرت ابوسبرہ بن ابورہم، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد،ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ بنت ابو امیہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود۔اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ دو ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا، جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی۔
محمد بن ابوحذیفہ كی پیدایش حبشہ میں ہوئی۔
شوال ۵/ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع غلط تھی تو وہ پھرحبشہ لوٹ گئے۔ اسے ہجرت ثانیہ کہا جاتا ہے۔تاہم حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ،ان کی اہلیہ حضرت سہلہ بنت سہیل ، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عثمان بن مظعون،حضرت عبداللہ بن جحش،حضرت ابوسلمہ اور ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ ان تینتیس اصحاب ا ور آٹھ صحابیات میں شامل تھے جو مکہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے دو كا مكہ میں انتقال ہو گیا،سات كو مشركوں نے قیدی بنا لیا اور چوبیس نے مدینہ ہجرت كر كے جنگ بدر میں حصہ لیا۔حضرت سہلہ اور حضرت ابوحذیفہ كا شمار ان چوبیس میں تھا۔
۱۰/ نبوی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی دعوت پر یثرب سے حج کے لیےآئے ہوئے خزرج کے چھ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے،اگلے برس بارہ اور ۱۲/ نبوی میں بہتر (۷۲) لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ نصرت اسلام کی ان بیعتوں کے بعدآپ نے صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا:اللہ نے تمھارے بھائی بند بنا دیے ہیں اور ایسا شہر دے دیا ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔چنانچہ حضرت سہلہ اور ان كے شوہر حضرت ابو حذیفہ نے آپ كے ارشاد پرپھر اپنا گھر بار اور مال ودولت چھوڑ كر مدینہ كو ہجرت مكرر كی۔ سب سے پہلے حضرت ابوسلمہ مدینہ پہنچے، ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے بھائی حضرت ابو احمد عبد نے دار ہجرت کا رخ کیا۔ دو ماہ کے بعد اکثر اہل ایمان نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ حضرت سہلہ بنت سہیل اور حضرت ابوحذیفہ حضرت عمر کے بیس افراد پر مشتمل قافلہ ٔ ہجرت میں شامل ہوئے۔حضرت زید بن خطاب،حضرت خنیس بن حذافہ،حضرت سعید بن زید،حضرت عبداللہ بن سراقہ، حضرت عمرو بن سراقہ،حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خولی بن ابو خولی،حضرت مالك بن ابو خولی، حضرت ایاس بن بكیر، حضرت عاقل بن بكیر، حضرت عامر بن بكیر اور حضرت خالد بن بكیران كے شریك سفر تھے۔
حضرت سہلہ اور حضرت ابو حذیفہ قبیلۂ بنو عبد الاشہل میں حضرت عباد بن بشر كے مہمان ہوئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ؍ ربیع الاول کو تشریف لائے۔ آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت ابو حذیفہ كے میزبان حضرت عباد بن بشرہی کو ان کا انصاری بھائی قرار دیا۔
حضرت سہلہ كے شوہر حضرت ابو حذیفہ نے جنگ بدر میں بھرپور شرکت كی۔ ان كا والد عتبہ بن ربیعہ كفار كی طرف سے لڑتا ہوا جہنم واصل ہوا۔ آپ نے دریافت فرمایا:تمھیں اپنے باپ کے انجام سے دکھ پہنچا ہے؟ تو جواب دیا: میرا باپ مشرک تھا اور اس کا یہی انجام ہونا تھا۔البتہ یہ رنج ضرور ہے كہ اس كی دانش اور معاملہ فہمی اس كے كام نہ آئی۔
حضرت سہلہ كے بھائی حضرت عبداللہ بن سہیل ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے جنھوں نے حبشہ کو ہجرت کی۔ قریش کے قبول اسلام کی افواہ سن کر مکہ لوٹےتو والد سہیل بن عمرو نے مشکیں کس کر قیدکر دیا اور جنگ بدر میں مشرکوں کے لشکر میں گھسیٹ لیا۔ اہل ایمان اور اہل شرک کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو کفار کی فوج سے بھاگ نکلے اور جیش اسلامی میں شامل ہو کر اپنے والد کے جتھے کا مقابلہ کیا۔
غزوۂ بدر میں حضرت مالك بن دخشم انصاری نے سہیل بن عمرو كو قید كر لیا، لیكن اسے مدینہ لے جایا جا رہا تھا كہ وه بھاگ نكلا ۔ حضرت مالك نے اہل ایمان كو مدد كے لیے پكارا تو سب سہیل كے پیچھے دوڑ پڑے۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: جو اسے پكڑے،قتل كر دے۔ سہیل جھاڑیوں میں چھپا ملا،اس كے ہاتھ گردن سے باندھ كر مدینہ لایا گیا۔حضرت سہلہ نے اس موقع پر صبر وسكون كا مظاہرہ كیا اور جنگ بدر میں فتح پانے كی خوشیوں میں شریك رہیں۔
حضرت سالم کے والد کا نام معقل تھا، حضرت ثبیتہ بنت یعارانصاریہ کے غلام تھے، انھوں نے آزادكر دیا تو حضرت ابو حذیفہ نے انھیں متبنیٰ بنا لیااور اپنی بھانجی حضرت ہند بنت ولید سے ان کا بیاہ کر دیا (بخاری، رقم ۵۰۸۸)۔جنگ بدر كے بعد لے پالکوں كے بارے میں اللہ كا حكم ’اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ‘، ’’لے پالكوں كو ان كے باپوں كے نام سے پكارو‘‘ (الاحزاب۳۳: ۵)نازل ہوا تو انھیں سالم مولیٰ ابوحذیفہ کہا جانےلگا۔ تبھی حضرت سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا:ہمارا متبنیٰ سالم عاقل و بالغ ہو گیا ہے، وه میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی مکان (تنگ مکان: احمد، رقم ۲۵۹۱۳)میں رہتا ہے۔ میرے پاس (بے تکلف)آتا جاتا ہے، اور مجھے کام کاج کے مختصر کپڑوں میں دیکھتا رہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابوحذیفہ اس بات کوبرا سمجھتے ہیں۔اللہ نے ایسے ملازمین کے بارے میں جو حکم نازل کر رکھا ہے اس کی روشنی میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:اسے دودھ پلادو، وہ تمھارے لیے محرم بن جائے گااور ابو حذیفہ کی خفگی جاتی رہے گی۔ حضرت سہلہ نے کہا: میں اسے کیسے دودھ پلاؤں، وہ تو (ڈاڑھی مونچھ والا)بڑا آدمی ہے؟آپ مسکرائے اور فرمایا: میں جانتا ہوں کہ وہ (بچہ نہیں) بڑا ہے۔چنانچہ حضرت سہلہ نے اسے پانچ بار دودھ چسایا اور وہ ان کے رضاعی بیٹے کے مانند ہو گیا(مسلم، رقم ۳۵۹۱۔ابوداؤد، رقم ۲۰۶۱۔ نسائی، رقم ۳۳۲۵۔ ابن ماجہ، رقم ۱۹۴۳۔ احمد، رقم ۲۴۱۰۸، ۲۵۶۵۰۔ موطا امام مالك، رقم ۱۸۸۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۲۶۲۹۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۲۰۱۹۹)۔ ایك روایت كے مطابق كسی ڈبیا یا برتن میں پانچ دن تك د ودھ نكالا جاتا رہا اور سالم اسے پیتے رہے (الطبقات الكبریٰ،ابن سعد۶/۱۹۹)۔ دودھ پلائی کے بعد حضرت سہلہ بنت سہیل پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا:اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا ہے!میں اب ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگوار تاثرات نہیں دیکھتی (نسائی، رقم ۲۲۳۳)۔
حضرت عائشہ نے اپنی بہن ام کلثوم بنت ابوبکر، بھتیجیوں، بھانجیوں، حتیٰ کہ حضرت ام سلمہ کوبھی گھر میں آنے جانے والے ملازموں کے باب میں اسی طریقے پرعمل کرنے کا مشورہ دیا (احمد، رقم ۲۵۴۱۵)۔اس باب میں انھوں نے پانچ دفعہ دودھ پلانے کی شرط لگائی اورکہا: ایک بار یا دو بار دودھ چسانا حرمت رضاعت ثابت نہیں کرتا (مسلم، رقم ۳۵۸۰۔ ابو داؤد، رقم ۲۰۶۲- ۲۰۶۳۔ ترمذی، رقم ۱۱۵۰۔ نسائی، رقم ۳۳۱۲۔ احمد، رقم ۲۴۰۲۶)۔ ایك روایت میں دس بار كا حكم ہے (احمد، رقم ۲۶۳۱۵)، لیكن حضرت عائشہ كہتی ہیں :یہ حكم منسوخ ہو گیا ہے اور پانچ بار كی شرط ضروری ہے (السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم ۱۵۶۱۹۔ موطا امام مالك، رقم ۱۸۹۰۔ الام، شافعی، رقم ۵/ ۴۴)۔ سیدہ ام سلمہ اور باقی ازواج النبی نے پسند نہ کیا کہ گود میں بٹھائے بغیر اس طرح کی دودھ پلائی کے ذریعے سے وہ کسی شخص کو اپنے گھر میں داخل کر لیں۔ وہ حضرت عائشہ سے کہتی تھیں کہ شاید یہ ایک رخصت ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض سالم کے لیے جائز قرار دی ہو (مسلم، رقم ۳۵۹۵۔ ابو داؤد، رقم ۲۰۶۱۔ نسائی، رقم ۳۳۲۷۔ابن ماجہ، رقم ۷۴۹۱۔مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۳۸۸۶)۔حضرت ام سلمہ اور حضرت عبدالله بن مسعود کہتے ہیں کہ بچے کی عمر دو سال سے زیادہ ہو جائے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی (ترمذی، رقم ۲۵۱۱۔ موطا امام مالك، رقم ۱۸۸۶)۔
فقہا كے خیال میں حضرت ام سلمہ كا اجتہاد درست تھا۔نبی صلی الله علیہ وسلم كی حضرت سہلہ كو دی ہوئی اجازت كو انھی سے مخصوص ماننا اسے منسوخ كہنے سے بہتر ہے۔ رضاعت كے لیے دو سا ل تك كی عمر معتبر ہے اور یہ ضروری ہے كہ دودھ پلائی سے بچے كی نشوو نما ہو اور دودھ اس كا جزو بدن بنے۔
صلح حدیبیہ كے موقع پر حضرت سہلہ كے بھائی حضرت ابو جندل بیڑیوں میں جکڑے ،گھسٹتے ہوئے آئے اور مسلمانوں کے آگے گر گئے۔سہیل نے اپنے بیٹے کو تھپڑ مارا اوركہا:یا محمد، یہ پہلا فرد ہے جسے لوٹانے کی شرط میں نے منوائی ہے۔ پھر انھیں گریبان سے کھینچتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ وہ پکارتے رہے: مسلمانو،کیا مشرک مجھے ایذائیں پہنچا کر ا پنا دین چھوڑنے پر مجبور کرتے رہیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجندل، صبر کر و،اللہ تعالیٰ تم کم زور وں كے نکلنے کی راہیں کھول دے گا۔ہم نے قریش سے جومعاہدہ کیا ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کریں گے۔
حضرت سہلہ بنت سہیل كو استحاضہ كا مرض لاحق ہوا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے انھیں ہر نماز كے لیے غسل كرنےكا حكم دیا۔ایسا كرنا ان كے لیے دشوار ہو گیا تو آپ نے سہولت دے كر فرمایا:ایك غسل كر كے ظہر و عصر اكٹھی پڑھ لو ، اسی طرح مغرب و عشا كو ایك غسل كے ساتھ ادا كر لواور فجر كے لیے علیحدہ غسل كر لو (ابوداؤد، رقم ۲۹۵)۔
۱۱ھ میں خلیفہ ٔ اول حضرت ابوبکر نے یمامہ کے جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے تیرہ ہزار کا لشکر حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں روانہ کیا۔حضرت ثابت بن قیس اورحضرت براء بن فلان انصار کے کمانڈر تھے، جب کہ حضرت ابوحذیفہ اور حضرت زید مہاجرین کے سالار تھے۔حضرت ابو حذیفہ نے آخری دم تک دشمن سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا۔پھر پکارے:اے قرآن کے حاملو،قرآن کو اپنے کارناموں سے مزین کرو۔ مسیلمہ کے لشکر كی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور جام شہادت نوش کیا۔حضرت ابوحذیفہ کے آزادکردہ غلام حضرت سالم اور ان کے انصاری بھائی حضرت عباد بن بشر بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے۔
حضرت ابوحذیفہ سے حضرت سہلہ كے ہاں محمد پیدا ہواجواپنے چچا حضرت عثمان کی کفالت میں رہا۔ عہدعثمانی میں اس نے شراب پی تو حضرت عثمان نے اس پر حد جاری کر دی۔اس نے گورنری کا مطالبہ کیا تو انھوں نے کہا، تو اہل ہوتا توتجھے ضرور گورنر بناتا۔عہده نہ ملنے كے رنج میں وہ مصرچلا گیا اور اہل مصر كوحضرت عثمان کے خلاف ابھارناشروع كر دیا اور بلوے كے موقع پر ان پر آگے بڑھ کر حملہ کیا۔
جنگ یمامہ میں حضرت ابوحذیفہ کی شہادت کے بعد حضرت سہلہ بنو مالك بن حسل كے عبدالله بن اسود كے نكاح میں آئیں جن سے سلیط بن عبدالله پیدا ہوئے، پھر بنوسلیم بن منصور كے شماخ بن سعید كے عقد میں رہیں جن سے بكیر (یا عامر) بن شماخ نے جنم لیا۔ہمیں افسوس ہے كہ بہت كھوج كے باوجود ان دونوں كے حالات زندگی ہمیں كہیں نہ مل سكے۔ اتنا كہہ سكتے ہیں كہ وہ صحابہ میں سے نہ تھے۔ یہ ترتیب ازدواج ابن سعد كی بیان كرده تھی، ابن حجر كے كہنے كے مطابق شماخ بن سعیددوسرے اور عبدالله بن اسود تیسرے نمبر پر تھے۔ آخر میں حضرت سہلہ بنت سہیل نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے ساتھ گھر بسایا۔تب سالم كی ولادت ہوئی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف پہلےآٹھ مسلمانوں میں شامل تھے اور ان پانچ اصحاب میں سے ایك تھے جو حضرت ابوبكر كی دعوت پر ایمان لائے،عشرۂ مبشره میں سے تھے۔
حضرت سہلہ بنت سہیل سے مروی دودھ پلائی كی ایك ہی روایت ہے جو ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عبیدالله بن ابو ملیكہ نے نقل كی۔ ابن ابو ملیكہ كہتے ہیں:میں نے خوف كے مارے ایك سال تك یہ روایت كسی سے بیان نہیں كی، پھر قاسم سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے كہا :اسے میرا اور عائشہ كا نام لے كر بیان كر دو (مسلم، رقم ۳۵۹۲۔ احمد، رقم ۲۵۶۴۹۔المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۶۳۷۳۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۳۸۸۴)۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوك (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،
الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ــــــــــــــــــــ
حضرت یزید بن زمعہ زمانۂ جاہلیت میں قریش كے معتبر سردار تھے۔مكہ كے قبیلہ بنو اسد میں پیدا ہوئے۔ ان كے دادا كا نام اسود بن مطلب تھا۔ان كا قبیلہ ان كے سكڑ دادا اسد بن عبدالعزیٰ كے نام سے موسوم ہے۔ قصی بن كلاب پر ان كا سلسلۂ نسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرے سے جا ملتا ہے۔قصی ان كے چھٹے، جب كہ نبی صلی الله علیہ وسلم كے پانچویں جد تھے۔حضرت یزید كی والد ه قریبہ بنت ابوامیہ بنومخزوم سے تھیں۔ حضرت ام سلمہ ان كی خالہ تھیں۔ حضرت عبدالله بن زمعہ، حضرت وہب بن زمعہ اور مشرك حارث بن زمعہ ان كے سگے بھائی تھے۔حضرت یزید كا دادا اسود ام المومنین حضرت خدیجہ كاچچا زاد تھا،رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی نانی برہ بنت عبدالعزیٰ اس كی پھوپھی تھیں۔
دور جاہلیت میں قریش كے دس گوتوں (بطون)كےدس افراد تھے جنھیں ان كی معاشی و معاشرتی زندگی میں اہم مقام حاصل تھا۔بنو ہاشم كے عباس بن عبدالمطلب حاجیوں كو پانی پلاتے،بنو امیہ كے ابو سفیان بن حرب كے پاس قریش كا علم عقاب تھا،بنونوفل كے حارث بن عامر حجاج كی مالی ضروریات پوری كرتے،بنوعبدالدار كے عثمان بن طلحہ جنگوں میں پرچم برداری كرتے اور خانہ كعبہ كی دیكھ بھال كرتے ،كعبہ كے دروازے كی كنجی انھی كے پاس تھی ۔ بنواسد كےیزید بن زمعہ سے مشاورت كی جاتی، كیونكہ انھیں دانش مند اور ذوالراے سمجھا جاتا تھا ، قریش ان كی تصدیق كے بغیر كوئی اہم فیصلہ نہ كرتے ۔اگر انھیں اتفاق ہوتا تو اسی پر عمل كرنے كو كہتے ، دوسری صورت میں وہ خود فیصلہ كرتے اور سب ان كا بھرپور ساتھ دیتے ۔بنو تیم كے ابوبكر صدیق دیت اور تاوان كے معاملات طے كرتے۔ بنو مخزوم كے خالد بن ولید كسی معركے پر جانے سے پہلے ایك خیمہ لگواكر اس میں سامان حرب جمع كرتے اور گھڑ سواروں (cavalry)كی كمان كرتے۔بنو عدی كے عمر بن خطاب جنگوں میں سفارت كا فريضہ انجام دیتے۔ بنوجمح كے صفوان بن امیہ تیروں كے ذریعے سے فال نكالتے اوران كی فال كے مطابق عمل كیا جاتا۔ بنو سہم كے حارث بن قیس كو نزاعات میں فیصلہ كرنے كا اختیار حاصل تھا۔ بتوں پر چڑھنے والے چڑھاوے ان كے پاس جمع ہوتے ۔ ان كی بیو ی غیطلہ بنت مالك مكہ كی مشہور كاہنہ تھی (العقد الفرید، ابن عبد ربہ ۳/ ۲۶۷- ۲۶۸۔ بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب،محمود شكری ۲۴۹- ۲۵۰ )۔
آمد اسلام كے بعد
وادی بطحا میں نور اسلام كی كرنیں پھیلنا شروع ہوئیں تو حضرت یزید بن زمعہ بھی نور ایمان سے منور ہوئے۔ اگرچہ انھیں ’السٰبقون الأولون‘ میں شمار نہیں كیا گیا،تاہم وه فجر اسلام میں مشرف بہ اسلام ہو ئے۔
حضرت زمعہ كا دادا اسود بن مطلب رسول الله صلی الله علیہ وسلم كو دیكھتا تو آنكھیں مٹكاتا، ٹھٹھا كرتے ہوئے كہتا: اے محمد(صلی الله علیہ وسلم)، آج آسمان سے گفتگو نہیں كی۔صحابہ سے مخاطب ہوتا:یہ عالم پناہ ہیں جو قیصر و كسریٰ كا تخت سنبھالیں گے۔ آپ بیت الله كا طواف كرنے آتے تو وه دوسرے مشرك سرداروں عاص بن وائل،ولید بن مغیرہ اور عبد یغوث بن وہب كے ساتھ مل كر آپ كا استہزا كرتا۔آنكھوں سے تمسخر كرنے كی پاداش میں الله نے اسے اندھا كر دیا۔حضرت یزید كا بھائی حارث بن زمعہ ایمان لایاتو والد زمعہ نے اسے قید كركے تشدد كا نشانہ بنایا۔چنانچہ وه دوباره كافر ہو گیا۔ حضرت یزید كے والد زمعہ بن اسود اور دادا اسود بن مطلب نے اسلام قبول كرنے كے بجاے نبی صلی الله علیہ وسلم كو دین حق كی دعوت سے روكنے پر آماده كرنا چاہا۔ اس كا كہنا تھا، ہم مل كر ایك دوسرے كے الٰہ كو پوج لیتے ہیں، تب سورۂ كافرون نازل ہوئی ۔
حضرت یزید كے دادا اسودكے استہزا كے باوجودجب قریش نے بنوہاشم كا مقاطعہ كر كے انھیں شعب ابوطالب میں محصور ہونے پر مجبور كیا تو ان كے والد ابو حكیمہ زمعہ بن اسود نے ابوالبختری بن ہشام، ہشام بن عمرو،زہیر بن ابوامیہ اور مطعم بن عدی كے ساتھ مل كر رؤساے قریش كا كیا ہوا بائیكاٹ كا معاہد ه ختم كرانے كی كوشش كی۔ اس پر ابوطالب نے شكریہ كے چند اشعار كہے (نسب قریش،مصعب زبیری ۴۳۱)، ان میں سے پہلا یہ ہے:
جزی الله رهطاً من لؤی تتابعوا
علی ملاء یهدی لحزم و یرشد
’’الله لؤی بن غالب كی اولاد كو جزا دے جو ان اشراف كے قدم بہ قدم چلی جنھیں دور اندیشی اور راه صواب پر چلنے كی ہدایت دی گئی تھی ۔‘‘
گھر كے ان حالات میں حضرت یزید بن زمعہ كی گزربسر مشكل ہو گئی۔ا س لیے وه نبی صلی الله علیہ وسلم كے ارشاد پر دیگر مہاجرین كے ہم راه حبشہ كو روانہ ہو گئے۔یہ ہجرت ثانیہ تھی۔
حضرت یزید بن زمعہ جنگ بدركے بعد ،۷ھ میں حضرت جعفر بن ابو طالب كے قافلےكی واپسی سے پہلے یا بعد كسی وقت مدینہ پہنچے۔ ابن اسحاق نے عازمین حبشہ اور وہاں سے لوٹنے والوں كی فہرست میں حضرت یزید بن زمعہ كا نام شامل نہیں كیا۔
غزوۂ بدر كے موقع پر حضرت یزید بن زمعہ حبشہ سے مدینہ منوره نہیں پہنچے تھے ۔البتہ ان كاباپ زمعہ بن اسود، چچا عقیل بن اسود اور ایك بھائی حارث بن زمعہ مشرك فوج كی طرف سے لڑتے ہوئے انجام كو پہنچے۔ دادا اسود نابینا ہونے كی وجہ سے نہ آ سكا تھا۔زمعہ كو حضرت ثابت بن جذع ، حضرت حمزہ اور حضرت علی نے اور حارث كو حضرت عمار بن یاسر نے جہنم رسید كیا (السیرة النبویۃ،ابن ہشام۲/۲۶۷) ۔احد اور خندق كی جنگوں میں حضرت یزید بن زمعہ كی شمولیت كا ذكر نہیں ملتا۔غزوۂ فتح میں ان كی شركت كا اشاره ملتا ہے، كیونكہ وه فتح مكہ پر موجود تھے تبھی تو وہاں سے حنین جانے والی فوج میں شامل ہوئے۔
۲۰/ رمضان ۸ھ ( ۶۳۰ء):میں مكہ فتح ہوا، مکہ اور طائف کے درمیان واقع وادی حنین میں آباد بنو ہوازن اور بنو ثقیف كو یہ خبر سن كر اندیشہ ہوا كہ اب ہمیں زیر كیا جائے گا۔ اس لیےپیش بندی كے طور پر حملہ میں پہل كرنے كی تیاری شروع كر دی ۔ہوازن كا رئیس مالك بن عوف ان كی قیادت كر رہاتھا۔ اطلاع ملنے پر نبی صلی الله علیہ وسلم بارہ ہزاركا عظیم الشان لشكر لے كر مقابلے کے لیے نکلے۔ اپنی كثرت دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ کی زبان پر یہ الفاظ آگئے :بھلا آج ہم پر کون غالب آ سکتا ہے۔لیكن ۱۰/ شوال كو علی الصبح جب وه وادی حنین كی اترائی میں اترے تو گھات لگائے ہوئے دشمن كی کمین گاہوں سے زبردست تیر اندازی شروع ہو گئی اورہزاروں کی تعداد میں كفار تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ وہ دو ہزار نو مسلم جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ انھیں دیكھ کر انصار و مہاجرین بھی پریشان ہو گئے۔ چند جا ں نثار صحابہ میدان میں رہ گئے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وادی کے دائیں جانب ہٹ كر ٹھیر گئے اوردونوں طرف رخ كر كے بلند آواز میں پكارے : الله كے انصار،میرے پاس آؤ ،میں رسول الله ،محمد بن عبدالله یہاں موجود ہوں۔ آپ كے حکم پر حضرت عباس بھی مہاجرین و انصار کو پکارتے رہے۔بھاگتے ہوئے مسلمانوں كےلیے اپنی سواری پلٹانا بھی مشكل تھا،اكثر نے زرہ اتاری اورتلوار اور ڈھال پكڑ كر كود پڑے۔ كچھ ہی دیر میں صحابہ آپ كے پاس جمع ہوكر بے جگری سے دشمن كا مقابلہ كرنے لگے۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے سفید خچر دلدل پر سوار،یہ رجز پڑھ رہےتھے(بخاری، رقم ۲۸۷۴)۔
اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
’’میں نبی ہوں ،اس میں كوئی جھوٹ نہیں۔میں عبدالمطلب كا بیٹا ہوں۔‘‘
حضرت علی نے ہوازن كے سپہ سالار مالك بن عوف كے اونٹ كے گھٹنوں پر تلوار كا وار كیا اور ایك انصاری نے آگے بڑھ كے اسے موت كے گھاٹ اتار دیا۔ چشم زدن میں جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے،کچھ قتل ہو گئے، جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلۂ ثقیف کی فوجیں آخری دم تك لڑتی رہیں، یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علم بردار عثمان بن عبد اﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اکھڑ گئے۔ فتح مبین نے آں حضورصلی الله علیہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔اس غزوه میں حضرت یزید بن زمعہ، حضرت آمنہ كی وفات كے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم كی پرورش كرنے والی حضرت ام ایمن كے بیٹے حضرت ایمن بن عبید ،حضرت سراقہ بن حارث(حباب:ابن حجر) انصاری اور حضرت ابوعامراشعری نے جام شہادت نوش كیا(السیرة النبویۃ،ابن ہشام۴/۷۹۔تاریخ الامم و الملوك، طبری ۲/۱۷۱۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ابن عبد البر۴/۱۵۷۵۔الكامل فی التاریخ،ابن اثیر۲/۱۳۷۔ البدایۃ والنہایۃ ۴/ ۶۰۵)۔ ابن عبدالبر ،ابن اثیر اورابن حجر نے حضرت ابوعامراشعری كوجنگ حنین كے فوراًبعد ہونے والی جنگ اوطاس كا شہید بتایا ہے۔ قرآن مجید میں غزوۂ حنین كاذكر ان آیات میں آیا ہے:
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍﶈ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍﶈ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ. ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْاﵧ وَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ.(التوبہ ۹: ۲۵- ۲۶)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمھیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب تمھیں اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن اس فخر نے تمھیں کوئی فائده نہ دیا، بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نكلے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی تسكین اتاری اور وه لشکر بھیجے جو تم نے نہیں دیكھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا۔‘‘
ابن سعد كہتے ہیں كہ حضرت یزید بن زمعہ حصار طائف میں شہید ہوئے۔ ان كاجناح نامی گھوڑا بے قابو ہوكر انھیں طائف كے قلعے تك لے گیا۔كفار كے نرغے میں آنےكے بعد انھوں نے بات چیت كرنے كے لیے امان مانگی۔انھیں امان تو مل گئی، لیكن ان كی بات سننے كے بعد ان پر تیروں كی بوچھاڑ كر دی گئی۔ یوں وه مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے(الطبقات الكبریٰ،ابن سعد۳/۸۵) ۔ كتب تاریخ میں حصار طائف میں شہادت حاصل كرنے والے اصحاب كا كل شمار باره بتایا گیا ہے۔ان میں سات كا تعلق قریش سے،چار كا انصار سےاور ایك كا بنو لیث سے تھا۔حضرت
یزید بن ابو زمعہ كا نام كسی نے بیان نہیں كیا۔
حضرت یزید بن زمعہ كی اولاد نہ ہوئی۔
حضرت یزید بن ابو زمعہ عہد رسالت میں وفات پا گئے ، اس لیے كسی راوی حدیث كو ان سے استفاده كرنے كا موقع نہیں ملا ۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،تاریخ الامم و الملوك (طبری)، انساب الاشراف (بلاذری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر) ،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ