HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

اوائل عمر میں تصور خدا کی تشکیل میں والدین اور اساتذہ کے شخصی اثرات

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

بچے کے ذہن میں خدا کا ابتدائی تصور عموماً اس کے ماں، باپ اور اساتذہ کی شخصیات سے ماخوذ ہوتا ہے۔ ان ابتدائی تصورات کا تاثر اکثر اتنا گہرا اور پختہ ہوتا ہے کہ تمام عمر کے لیے خدا کے ساتھ ذاتی تعلق کی نوعیت طے کردیتا ہے۔ ان شخصیات کے ساتھ شفقت، محبت، احترام، خوف، اطاعت اورنفرت کے عناصر، خدا کے ساتھ تعلق کے ذاتی احساس میں بغیر کسی شعوری کوشش کے پیوست ہو جاتے ہیں۔

ناظرہ قرآن کی ہماری استانی میرے لیے ایسی ہی ایک شخصیت تھیں۔ وہ محلے کی ایک بزرگ خاتون تھیں۔ انھیں بُوا جی کہتے تھے۔ وہ بڑے جثےکی ایک رعب دار خاتون تھیں۔ گھر کے کام کرتے کرتے ہمیں سبق بھی پڑھاتی جاتی تھیں۔ دل کی نرم اور زبان کی سخت تھیں۔ انھیں کبھی مارتے نہیں دیکھا تھا، اس کے باوجود ان سے ڈر لگتا تھا۔ ان میں بچوں کے لیے دبی دبی شفقت محسوس ہوتی تھی۔ اب سوچتا ہوں تو میرے دل میں ان سےڈر نہیں تھا، حیا تھی۔ چھٹی کر لیتا تو ان کا سامنا کرنے میں ڈر سے زیادہ شرمندگی محسوس ہوتی تھی اور شرمندگی کا یہ احساس میرے لیے ڈر سے زیادہ بھاری تھا۔

میراتصور خدا بُوا جی جیسا تھا۔ ایک عظیم الجثہ ہستی جو اپنے کام کرتے کرتے کائنات کا انتظام بھی دیکھتی جاتی ہے۔ جو پردے میں رہ کر اپنے بندوں پر اپنی شفقت کا اظہار کرتی ہے۔ خدا سے مجھے ڈر سے زیادہ حیا آتی ہے۔ علم و آگہی کے ورود کے بعد خدا کا تصور بہت کچھ بدل گیا، لیکن حیا نما ڈر کا تاثر آج بھی ویسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

علم نفسیات کے مطابق بچہ اپنے لیے خدا کا پہلا تصور اپنے والدین سے اخذ کرتا ہے۔ پہلے ماں کی مہربان شخصیت سے خدا کا تصور کشید کرتا ہے اور پھر باپ کا تاثر اس کی جگہ لے لیتا ہے، جوایک مر بی اورمحافظ کا تاثر ہے۔ باقی ساری عمر وہ اپنے باپ جیسے خدا کا تصور ذہن میں بسائے رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف ماں، باپ ہی نہیں، اساتذہ کی شخصیت کا تاثر بھی خدا کا پہلا تصور قائم کرنے میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ مسلمان بچے مولوی صاحب اور مسیحی بچے پادری صاحب کو خدا یا خدا کا روپ سمجھ لیتے ہیں۔

علم نفسیات کے مطابق انسان کا بچپن ساری عمر اس کے اندر زندہ رہتا ہے۔ یہ بات افراد ہی نہیں، اقوام کے لیے بھی درست ہے۔ افراد اور اقوام کے مزاج اور نفسیات کے درست مطالعے کے لیے ان کے بچپن اور قومی تشخص کی تشکیل کے دورکا مطالعہ اہم ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی فرد یا قوم کے دینی مزاج کےتشکیلی دور میں داخل ہو جانے والے تصور خدا کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً ہر مذہبی روایت نے مادری اور پدری اصطلاحات میں خدا کے تصور کو پیش  کیا۔ مسیحیت میں خدا کے لیے ’باپ‘ ہی کا لفظ اختیار کر لیا گیا۔ ہندو مت میں دیوتا، باپ جیسی اور دیویاں ماں جیسی ہستیاں مانی جاتی ہیں۔ دین اسلام کی روایت میں مخلوق کو’’اللہ کا کنبہ‘‘ کہا گیا ہے۔خدا کے لیے ’رب‘ کا لفظ اختیار کیا گیا جو باپ اور سرپرست کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ ہم اپنے لیے فرزندان توحید اور فرزندان اسلام کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔ خدا کی محبت کا اندازہ ستر ماؤں کی محبت کے پیمانے سے بیان کیا جاتا ہے۔

ہمارے سماج میں علاقائی لحاظ سے دو بڑی مذہبی سماجی روایات پائی جاتی ہیں: ایک پختون علاقوں کی روایت؛ دوسری ہندوستانی علاقوں سے آنے والی روایت۔پختون روایت میں باپ ایک سخت گیر شخصیت ہوتا ہے۔ اولاد سے اس کا تعلق ڈر، احترام اور اطاعت کے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔ محبت فطری طور پر موجود ہوتی ہے، لیکن جذباتی حد کو نہیں چھوتی اور دائرۂ اظہار میں  نہیں آتی۔ ادھر حفظ و ناظرہ قرآن کے لیے ہر بچہ مدرسے یا مسجد میں قاری اور حافظ صاحبان سے دوبدو ہوتا ہے۔ یہاں اساتذہ میں بھی عمومی طور پر سختی پائی جاتی ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور زد و کوب کا رواج ہے۔ اساتذہ کے ساتھ تعلق ادب، احترام، اطاعت، خوف، خدشے، بے زاری، لا تعلقی اور بعض صورتوں میں ظالم اور مظلوم کا ہوتا ہے۔

کم سنی میں مدارس میں داخل کرا دیے جانے والے بچے والدین سے دور رہنے کی وجہ سے ان کے ساتھ اپنا جذباتی تعلق پوری طرح استوار نہیں کر پاتے۔ والدین اور اساتذہ کے ساتھ تعلق کا یہ تاثر خدا کا تاثر تشکیل دیتا ہے اور اس تاثر میں خدا سے بھی جذباتی تعلق کم زور ہوتا ہے۔ اس میں بھی بے زاری، لا تعلقی، بلکہ توحش کے احساسات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ بچے جو والدین کی شفقت، محبت اور ان کی دیکھ بھال کے بغیر جینا سیکھ لیتے ہیں، خدا کی محبت، رحمت اور اس کے سامنے اپنی محتاجی کے احساس سے بھی بڑی حد تک آزاد ہوتے ہیں۔یہ ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے روایتی دینی طبقے میں دین پر عمل کے میدان میں ایک طرف خدا سے محبت اور رحمت کے احساس میں کمی دیکھتے ہیں تو دوسری طرف ایسا قانونی اور فقہی مزاج پاتے ہیں جس کے نزدیک دین پر عمل محض خشک قسم کی اطاعت پر مبنی ہوتا ہے۔ اسلام کے نفاذ میں جو دل چسپی دکھائی دیتی ہے، وہ اس پرعمل کرنے میں نظر نہیں آتی۔ نفا ذاسلام کی کاوشوں میں بھی قانون کا نفاذ، اطاعت، جبر، خوف اور تشدد کے عناصر ملتے ہیں، لیکن رحم دلی، ہم دردی، انسانی مسائل اور مشکلات کا ادراک اوراس کے حل کے لیے کوشش کرنے جیسے عناصر بہ حیثیت طبقہ خاصے کم پائے جاتے ہیں۔

مدارس میں پائی جانے والی دوسری دینی روایت ہندوستانی علاقوں سے پاکستان میں آئی ہے۔ ہندوستانی والدین عموماً سخت گیر نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہندوستانی (اوراب پاکستانی) اساتذہ بھی زیادہ سخت گیر نہیں پائے گئے۔ دین کا فقہی اور قانونی پہلو اگرچہ یہاں بھی غالب ہے، لیکن ان کی طرف سے مذہب پر عمل کے معاملے میں تشدد کا رویہ بھی کم ہے۔ صوفیانہ روایت کے تحت خدا کی رحمت اور محبت کا پرچار بھی نسبتاً زیادہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ یہاں آپ کو خدا سے محبت و تعلق کے نمونے بھی زیادہ ملتے ہیں۔

سماج میں ایک تیسری جہت خدا کے تصور کو ماں کے تصور سے اخذ کرنے کی ہے۔ اس کی بنیاد ایک بے اصل روایت پر ہے جس میں ماں کی محبت کو ستر ماؤں کی محبت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بخاری شریف کی ایک صحیح الاسناد روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک عورت، جس کا بچہ گم ہو گیا تھا، اپنی بے تابی میں جو بچہ ملتا اسے سینے سے لگا کر دودھ پلا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے یوں تبصرہ فرمایا:

’’تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ جب تک اس کو قدرت ہوگی، یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہو سکتی ہے۔‘‘[1]

اس ارشاد میں مقصود خدا کی رحمت کو ماں کی رحمت سے زیادہ بتانا تھا، نہ کہ خدا کو ماں جیسا جذباتی اور سادہ مزاج بتانا۔ دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ خدا رحیم ہے، مگر جذباتی نہیں۔ وہ عدل کے خلاف نہیں کرتا۔ یہ اس کے اصول اور شان کے خلاف ہے، مگر ان روایات کے بل پر خدا کی رحمت سے متعلق جو مبالغہ آمیزی کی گئی، اس نے خدا کے ساتھ دلی محبت کا احساس تو پیدا کیا، مگر خدا کو ایک ماں جیسا جذباتی اور سادہ مزاج بنا کر بھی پیش کر دیا، جس سے جذباتی اپیل کے ذریعے سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے برخلاف اپنے گناہوں اور جرائم کی معافی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اس تصور نے خدا کی اطاعت اور اس کے احکام پر عمل درآمد سے بے نیازی کا رویہ پیدا کیا اور تقویٰ کی بنیاد ہلا کر رکھ دی۔ ایسے تصورات قرآن مجید میں خدا کے تعارف سے بالکل مختلف، بلکہ متضاد ہیں۔ قرآن مجید خدا کا محفوظ کلام ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح کے تمام خارجی تاثرات سے خالی الذہن ہو کر خدا کا وہ تعارف حاصل کرے جو اس نے قرآن مجید میں اپنے بارے میں خود بتایا ہے۔

قرآن مجید کے مطابق، خدا سخت گیر باپ کی طرح ہے نہ کہ تشدد پسند استاد کی طرح، اور نہ ہی وہ ماں جیسی جذباتی طبیعت رکھتا ہے۔ وہ لوگو ں کا رب، ان کا معبود اور ان کا بادشاہ ہے۔[2] وہ رحمٰن و رحیم ہے، اوراسی لیے عادل ہے۔ عدل اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔[3] وہ اگر عدل نہ کرے تو ظالموں پر اس کی رحمت، مظلوم کے حق میں ظلم اور ناانصافی بن جائے، جب کہ خدا ہر ظلم سے بری ہے۔ اس کی رحمت اس کے عدل کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ خطا میں معقول عذر قبول کرتا ہے،[4] مگر سرکشی کو معاف نہیں کرتا۔ اس نے حدود اللہ سے تجاوز کرنے والے سرکشوں کے لیے ابدی جہنم کی سزا سنائی ہے۔[5]۔ ان میں کافر و مشرک[6]کے علاوہ قاتل[7] بھی شامل ہے۔ یہ اس لیے کہ بے دلیل شرک پر اصرار ہو یا اپنے ضمیر کے خلاف کسی کے ناحق قتل کا جرم یا خدا کے قائم کردہ دیگر حدود سے جان بوجھ کر تجاوز، یہ سب سرکشی کے جرائم ہیں۔ اس لیے ان سب کی سزا بھی ایک ہے۔

ضروری ہے کہ بچپن اور ماحول سے ملے ہوئے تصور خدا کی درستی قرآن مجید کی روشنی میں کی جائے۔ اس کے لیے قرآن مجید کا شعوری مطالعہ ضروری ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ رقم۵۲۲۲۔

[2]۔ الناس ۱۱۴: ۱- ۳۔’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ. مَلِكِ النَّاسِ. اِلٰهِ النَّاسِ‘، ’’تم دعا کرو، (اے پیغمبر) کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ، انسانوں کے معبود کی۔‘‘ 

[3]۔ الانعام ۶: ۱۲۔’كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ‘،’’اُس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے۔ وہ تم سب کو جمع کر کے ضرور روز قیامت کی طرف لے جائے گا، جس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘

اس آیت سے معلو م ہوتا ہے کہ عدل کا قیام، خدا کی صفت رحمت کا تقاضا ہے۔

[4]۔ البقرہ ۲: ۲۸۶۔’رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا٘ اِنْ نَّسِيْنَا٘ اَوْ اَخْطَاْنَا‘،’’پروردگار، ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو اُس پر ہماری گرفت نہ کر۔‘‘

[5]۔ النساء ۴: ۱۴۔’وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ‘،’’اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

[6]۔ النساء ۴: ۴۸۔’اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰ٘ي اِثْمًا عَظِيْمًا‘، ’’اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کا شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔‘‘

[7]۔ النساء ۴: ۹۳۔’وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا‘،’’ اُس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘

B