HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون سیاست (۳)

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے شہریت کے شرائط

’’جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں ، اِس سے قطع نظر کہ اللہ کے نزدیک اُن کی حیثیت کیا ہے، قانون و  سیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گے اور وہ تمام حقوق اُنھیں حاصل ہو جائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے، اُن کی حکومت میں اُن کو حاصل ہونے چاہییں۔‘‘ (میزان ۴۹۳)

یہاں دو اہم نکات وضاحت کے متقاضی ہیں:

پہلا نکتہ مسلمانوں کی شہریت کے شرائط سے متعلق ہے۔   مذکورہ اقتباس میں مصنف نے اللہ اور رسول پر ایمان لانے اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرنے والوں کو  مسلمان کے طور پر حقوق شہریت حاصل  ہونے کی شرط قرار دیا ہے۔ قانون عبادات میں نماز اور زکوٰۃ کے مباحث کے تحت بھی مصنف نے واضح کیا ہے کہ جو مسلمان نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام نہ کریں، وہ مسلمان کی حیثیت سے حقوق شہریت سے بہرہ مند نہیں ہوں گے۔ مصنف کے اس بیان سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ افراد اگر ترک نماز اور ترک زکوٰۃ پر اصرار کریں تو مسلمان ریاست یہ اختیار رکھتی ہے کہ ان کے ساتھ  احکام وقوانین کے لحاظ سے وہ معاملہ نہ کیا جائے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔  

مصنف کے اس نقطۂ نظر کا تقابل اگر فقہا کے موقف سے کیا جائے تو  جزوی اتفاق اور جزوی اختلاف کی صورت سامنے آتی ہے۔ فقہا  کے نزدیک بھی مسلمانوں کے اولو الامر کو ان سے  نماز کی پابندی کا مطالبہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص  ترک نماز پر اصرار کرے تو فقہا کا ایک گروہ  اس کی تکفیر کرتا اور بر بنائے ارتداد اسے سزاے موت کا مستوجب قرار دیتا  ہے، جب کہ زیادہ تر فقہا کے نزدیک  اس صورت میں اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اسے تعزیراً‌ قتل کیا جا سکتا ہے    (ابن قدامہ، المغنی ۳/  ۳۵۱-  ۳۵۲)۔

اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی ادائیگی سے گریزاں ہو تو فقہا ریاست کو اس سے جبراً‌ زکوٰۃ وصول کرنے کا حق دیتے ہیں اور فقہا کا ایک گروہ بعض احادیث کی روشنی میں تعزیراً‌ اس کے اموال واملاک کا کچھ حصہ بحق سرکار ضبط کرنے کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔   اسی طرح اگر کوئی گروہ مجتمع ہو کر  اپنی طاقت کے بل بوتے پر ریاست کو زکوٰۃ دینے سے انکار کرے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عمل سے استدلال کرتے ہوئے فقہا اس کے خلاف جنگ کرنے کو بھی مشروع قرار دیتے ہیں۔[*]

مصنف کے زاویۂ نظر  سے ریاست کو مسلمانوں سے نماز کی پابندی   اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا حق تو حاصل ہے، لیکن اس مطالبے سے گریز کرنے والوں کو قتل  نہیں کیا جائے گا۔  تاہم اس کی پاداش میں ایسے لوگوں کو ان شہری حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے جن سے وہ بطور مسلمان بہرہ مند ہیں ۔ مثال کے طور پر ذبیحہ، نکاح وطلاق، تجہیز وتکفین اور وراثت وغیرہ سےمتعلق یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو مسلمان نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی پابندی قبول نہ کریں، ان پر مسلمانوں کے احکام کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اسی طرح سیاسی ومعاشرتی معاملات میں انھیں مسلمانوں کی نمایندگی کا حق نہیں دیا جائے گا۔

مصنف کے اس موقف سے ایک سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ایسے لوگ دائرۂ اسلام سے خارج سمجھے جائیں گے؟  اسلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرنے والوں کی تکفیر سے متعلق مصنف کے اصولی موقف سے بظاہر اس کی نفی ہوتی ہے۔    اس سلسلے میں کلمہ گو کی تکفیر کے حوالے سے مصنف کے نقطۂ نظر میں ارتقا کو پیش نظر رکھنا اہم ہے۔ ۱۹۹۰ء میں ’’دعوت کے حدود“ کے عنوان سے لکھی گئی ایک تحریر میں مصنف نے  کسی شخص کی تکفیر اور اسے غیر مسلم قرار دینے میں فرق کیا ہے اور تکفیر کے جواز کی نفی کرتے ہوئے بعض حالات میں کسی مسلمان کو غیر مسلم قرار دینے کی گنجایش تسلیم کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’کسی فرد کی تکفیر کا حق بھی کسی داعی کو حاصل نہیں ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو ، لیکن وہ اگر اِس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اِس کا اقرار نہیں کرتا تو اِس کفرو شرک کی حقیقت تو بے شک، اُس پر واضح کی جائے گی، اِسے قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جا ئے گا ،اہل حق اِس کی شناعت سے اُسے آگاہ بھی کریں گے اور اِس کے دنیوی اور اخروی نتائج سے اُسے خبردار بھی کیا جائے گا ،لیکن اُس کی تکفیر کے لیے چونکہ اتمام حجت ضروری ہے،اِس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حق اب قیامت تک کسی فرد یا جماعت کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔ مسلمانوں کا نظم اجتماعی بھی سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۵ اور ۱۱ کے تحت زیادہ سے زیادہ کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتا ہے ،اُسے کافر قرار دینے کا حق اُسے بھی حاصل نہیں ہے۔‘‘ (برہان ۳۱۹)

تاہم بعد کی تحریروں میں مصنف نے اپنا جو نقطۂنظر بیان کیا ہے، اس کی رو سے کسی کلمہ گو مسلمان کو غیر مسلم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں ’’مسلم اور غیر مسلم“ کے زیر عنوان مصنف نے لکھا ہے:

’’اِس کے بعد اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جو عام طور پر اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھا جاتا ہے یا کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تاویل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان بالکل غلط سمجھتے ہیں، مثلاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کا یہ عقیدہ کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے یا محی الدین ابن عربی کا یہ نظریہ کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات ختم ہو گئے ہیں، بلکہ صرف یہ ہیں کہ اب جو نبی بھی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہو گا یا اہل تشیع کا یہ نقطۂ نظر کہ مسلمانوں کا حکمران بھی مامور من اللہ ہوتا ہے جسے امام کہا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس منصب کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تقرر اِسی اصول کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دیا گیا تھا جسے قبول نہیں کیا گیا یا علامہ اقبال جیسے جلیل القدر مفکر کی یہ راے کہ جنت اور دوزخ مقامات نہیں، بلکہ احوال ہیں۔
یہ اور اِس نوعیت کے تمام نظریات و عقائد غلط قرار دیے جا سکتے ہیں، اِنھیں ضلالت اور گم راہی بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔‘‘ (۲۲۹)

ان تمام بیانات کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو مصنف کے نقطۂنظر کو درج ذیل تین نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ مصنف کے نزدیک اصولی طور پر کسی مسلمان کی تکفیر اس کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ خود اسلام سے ترک تعلق کا اعلان کر دے۔  

۲۔ اگر کوئی شخص یا گروہ اسلام کے ساتھ نسبت کو قائم رکھے، لیکن عقیدہ وعمل کے لحاظ سے اسلام کے کسی بنیادی حکم سے انحراف کا مرتکب ہو تو اعتقادی انحراف کی صورت میں اس کے ساتھ عملی معاملات  مسلمانوں ہی کی طرح کیے جائیں گے،   لیکن اس کو کافر یا غیر مسلم قرار نہیں دیا جائے گا۔

۳۔ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی نہ کرنے والے مسلمانوں کو ان شہری حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، تاہم  ایسے لوگوں پر عملاً‌ مسلمانوں کے احکام جاری نہ کرنے کے باوجود جب تک کہ وہ اقرار شہادتین پر قائم رہیں، ان کی قانونی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔ 

دوسرے اہم  نکتے کا تعلق اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی شہریت سے ہے۔  مصنف نے یہاں  صرف مسلمان شہریوں کے حقوق شہریت کے ذکر پر اکتفا کی ہے، جب کہ غیر مسلموں کی شہریت کے شرائط  کو موضوع نہیں بنایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف کے نقطۂ نظر سے شریعت میں ایسی کوئی ہدایات موجود نہیں ہیں جو ابدی ہوں اور جن کی پابندی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ضروری ہو۔  اس ضمن میں عہد رسالت کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے متعلق جو احکام دیے گئے، مصنف کے نزدیک وہ قانون رسالت پر مبنی تھے اور ان کا براہ راست اطلاق انھی اقوام پر ہوتا تھا جن پر ان کے نفاذ کی ہدایت اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  دی تھی۔ اس خاص دور کے گزر جانے کے بعد ان کا نفاذ مصنف کے نزدیک درست نہیں۔  چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں ’’ جہاد و قتال“ کے زیر عنوان مصنف نے ا س نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’پہلی صورت کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم سے اور اُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے۔ اِس قانون کے تحت آپ نے اور آپ کے صحابہ نے کفر کے خلاف جو جنگیں لڑی ہیں، وہ محض جنگیں نہ تھیں، بلکہ خدا کا عذاب تھا جو سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلۂ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہودونصاریٰ پر اور اِس کے بعد جزیرہ نماے عرب سے باہر کی بعض قوموں پر نازل کیا گیا۔ آپ پر نبوت ختم کردی گئی ہے۔ چنانچہ لوگوں کے خلاف محض اُن کے کفر کی وجہ سے جنگ اور اِس کے نتیجے میں مفتوحین کو قتل کرنے یا اُن پر جزیہ عائد کر کے اُنھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی آپ اور آپ کے صحابہ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اِس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔‘‘ (۲۶۰)

اس خاص تناظر سے ہٹ کر، مسلمان ریاست میں مقیم غیر مسلموں کے حقوق وفرائض کے تعین کا مسئلہ مصنف کے نزدیک اجتہاد سے تعلق رکھتا ہے ۔  اس ضمن میں مصنف کی تحریروں میں  ایک راے یہ ملتی ہے کہ میثاق مدینہ میں یہودیوں کو جو سیاسی حیثیت دی گئی، وہ ایک عمومی اصول کے طور پر مسلم ریاست کے لیے ”بہترین نمونہ“ کی حیثیت رکھتی ہے (میزان، ص ۴۹۱، طبع نہم، مئی ۲۰۱۴ء)۔  تاہم ۲۰۱۵ء میں مصنف نے پاکستان میں دہشت گردوں کے بیانیے کے حوالے سے جاری بحث میں ایک متبادل بیانیہ پیش کیا تو اس میں ریاست کے قدیم تاریخی تصورات اور جدید قومی ریاست کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھاکہ :

’’دور حاضر کی قومی ریاستیں جن کے حدود بین الاقوامی معاہدات سے متعین ہوتے اور جو وجود میں آتے ہی اپنے باشندوں کے لیے بناے قومیت بن جاتی ہیں۔ لہٰذا رنگ، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب و ثقافت کے اشتراک و اختلاف سے قطع نظر وہ اپنے آپ کو ہندی، مصری، امریکی، افغانی اور پاکستانی کہتے اور اپنی قومیت کا اظہار اِسی حوالے سے کرتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی کسی کا حاکم یا محکوم نہیں ہوتا، بلکہ سب ہر لحاظ سے برابر کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور اِسی حیثیت سے کاروبار حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔
دور حاضر کی یہی ریاستیں ہیں جن کے بارے میں میں نے لکھا ہے کہ اِن کا کوئی مذہب نہیں ہو سکتا۔ ریاست پاکستان اِسی نوعیت کی ایک ریاست ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اِس کے لیے نہ کوئی فرمان آسمان سے نازل ہوا ہے کہ جزیرہ نماے عرب کی طرح یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، نہ مسلمانوں نے اِس کو فتح کر کے اِس میں رہنے والے غیرمسلموں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے اور نہ وہ اُن کے ساتھ کسی معاہدے کے نتیجے میں اِس ریاست کے شہری بنے ہیں۔ وہ صدیوں سے اِسی سرزمین کے باشندے ہیں، جس طرح مسلمان اِس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اُسی طرح اُن کی بھی ہے۔‘‘ (مقامات ۲۱۰)

ـــــــــــــــــــــــــ

[*] تفصیل کے لیے دیکھیے: یوسف القرضاوی، فقہ الزکاۃ  ۷۸-  ۷۹۔

B