HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاحزاب ۳۳: ۲۸-۳۵ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ٢٨ وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ٢٩
(اِس طرف سے مایوس ہو کر اب یہ منافقین تمھارے گھروں میں فتنے اٹھانا چاہتے ہیں، اِس لیے)،اے نبی، اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمھیں دے دلا کر خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اوراگر تم اللہ اور اُس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہو تو اِن سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر اُسی کے لیے سرگرم رہو، اِس لیے کہ اللہ نے تم میں سے خوبی کے ساتھ نباہ کرنے والیوں[52]کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔[53]۲۸- ۲۹

يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِﵧ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا ٣٠ وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا٘ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِﶈ وَاَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيْمًا ٣١

نبی کی بیویو، تم میں سے جو کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے گی،[54]اُس کے لیے دہرا عذاب ہے[55]اور یہ اللہ کے لیے آسان سی بات ہے۔[56]اور تم میں سے جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں بردار بنی رہیں گی اور نیک عمل کریں گی، اُنھیں ہم اُن کا دہرا اجر عطا فرمائیں گے[57]اور اُن کے لیے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔[58]۳۰- ۳۱

يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ٣٢ﶔ

 نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
[59]اگر تم خدا سے ڈرو[60]تو (اِن لوگوں کے ساتھ) نرمی کا لہجہ اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے،[61]وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہو جائے اور معروف کے مطابق بات کرو۔[62]۳۲

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗﵧ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ٣٣ﶔ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰي فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا ٣٤
تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور اگلی جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔[63]اور نمازکا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔[64]اللہ تو یہی چاہتا ہے ،اِس گھر کی بیبیو کہ تم سے (وہ ) گندگی دور کرے(جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔[65]اور تمھارے گھروں میں اللہ کی آیتوں اور اُس کی حکمت کی جو تعلیم دی جاتی ہے، اُس کا چرچا کرو۔[66]بے شک، اللہ بڑا ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے۔[67]۳۳- ۳۴

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ٣٥

(تاہم اُس کا تمام فضل و رحمت صرف اِسی گھر کے ساتھ خاص نہیں ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مرد اورجو عورتیں مسلمان ہیں،[68]مومن ہیں،[69]بندگی کرنے والے ہیں،[70]سچے ہیں،[71]صبر کرنے والے ہیں،[72]اللہ کے آگے جھک کر رہنے والے ہیں،[73]خیرات کرنے والے ہیں،[74]روزہ رکھنے والے ہیں،[75]اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں[76]اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہیں،[77]اللہ نے اُن کے لیے بھی مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔[78]۳۵

[52]۔ اصل میں لفظ ’مُحْسِنٰت‘استعمال ہوا ہے۔ اِس میں ’نباہ کرنے والیوں‘ کا مفہوم موقع کلام نے پیدا کر دیا ہے۔

[53]۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ یہ سوال جب امہات المومنین، خاص کر سیدہ عائشہ صدیقہ کے سامنے رکھا گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں اور اُن سے کہا گیا کہ اِس کے جواب میں وہ جلدی نہ کریں، بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلیں تو اُنھوں نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ مجھے اِس معاملے میں کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں ہے، میں اللہ اور اُس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔ باقی امہات المومنین کا جواب بھی یہی تھا*۔(* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۳/ ۶۲۸۔)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تدبیر اُس فتنے کے سدباب کے لیے کی گئی جو منافقین اٹھانا چاہتے تھے۔ اِس میں ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہیں تو دنیا اور اُس کے عیش کی طلب میں حضور سے الگ ہو جائیں اور چاہیں تو اللہ و رسول اور قیامت کے فوز و فلاح کی طلب گار بن کر پورے شعور کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ فیصلہ کر لیں کہ اُنھیں اب ہمیشہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ازواج مطہرات نے اِس کے جواب میں جو کچھ کہا، اُن سے وہی متوقع تھا۔ چنانچہ یہ تدبیر نہایت کارگر ثابت ہوئی اور ہر شخص پر واضح ہوگیا کہ اہل بیت رسالت کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور اِس حرم کے اندر کسی کے لیے دراندازی کی گنجایش نہیں ہے۔

منافقین یہ فتنہ جس طریقے سے اٹھا رہے تھے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اِس پوری سورہ پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دور میں منافقین کی ریشہ دوانیاں جس طرح عام مسلمانوں کو اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بدگمان و برگشتہ کرنے کے لیے بہت بڑھ گئی تھیں، اُسی طرح منافقات کے ذریعے سے اُنھوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کے سکون کو درہم برہم کرنے کے لیے بھی بڑی خطرناک مہم چلا رکھی تھی۔ منافق عورتیں امہات المومنین کے گھروں میں جاتیں اور نہایت ہم دردانہ انداز میں اُن سے کہتیں کہ آپ لوگ شریف اور معزز گھرانوں کی بیٹیاں ہیں، لیکن آپ لوگوں کی زندگی ہر راحت و لذت سے محروم بالکل قیدیوں کی طرح گزر رہی ہے۔ اگر آپ دوسرے گھروں میں ہوتیں تو آپ کی زندگی ’بیگمات‘ کی طرح نہایت عیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ گزرتی۔ ساتھ ہی وہ یہ وسوسہ اندازی بھی کرتیں کہ اگر یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو طلاق دے دیں تو بڑے بڑے رئیس اور سردار آپ لوگوں سے نکاح کریں گے اور آپ لوگوں کی زندگیاں قابل رشک ہو جائیں گی۔ آگے کی آیات سے یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ منافقین کو بھی جب کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں جانے اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ اِس موقع سے فائدہ اٹھا کر اُن کے اندر کچھ نہ کچھ وسوسہ اندازی کی ضرور کوشش کرتے۔ اِن کوششوں سے اُن کا اصلی مقصد تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کے اندر کوئی اُس طرح کا فتنہ کھڑا کرنا تھا ،جس طرح کا فتنہ اُنھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے متعلق کھڑا کر دیا تھا جس کی تفصیلات سورۂ نور میں آپ پڑھ چکے ہیں، ورنہ ادنیٰ درجے میں یہ فائدہ تو اُن کو بدیہی طور پر نظر آتا تھا کہ اِس سے ازواج نبی (رضی اللہ عنہن) کے اندر بے اطمینانی پیدا ہو گی اور کیا عجب کہ اِس طرح کوئی ایسی شکل نکل آئے کہ وہ آپ کی ازواج کے ساتھ نکاح کرنے کا جو مذموم ارادہ رکھتے ہیں، وہ پورا ہو جائے۔
منافقین و منافقات کی اِن چالوں سے اگرچہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن بالکل بے خبرنہیں تھیں، بعض تلخ تجربے اُن کو ہو چکے تھے، لیکن شریف، کریم النفس اور باحیا لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اُن کے سامنے اگر ہم دردی و خیر خواہی کے انداز میں بات کرتا ہے تو وہ اُس کے کھوٹ سے واقف ہوتے ہوئے بھی، اُس کو جواب نرمی ہی سے دیتے ہیں۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی اپنی کریم النفسی کے سبب سے اُن لوگوں کو نرمی ہی سے جواب دیتیں، جس سے یہ کمینے لوگ اِس طمع خام میں مبتلا ہو جاتے کہ اُن کا پروپیگنڈا کامیاب ہو رہا ہے اور وہ بہت جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۱۶)

[54]۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ازواج مطہرات سے، معاذ اللہ، کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا۔ قرآن نے یہ الفاظ فتنہ پردازوں کے مخفی ارادوں کو سامنے رکھ کر استعمال کیے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... وہ رات دن اِسی تگ و دو میں تھے کہ اہل بیت رسالت سے متعلق کوئی اسکینڈل (scandal) پیدا کریں تاکہ اُن کا کلیجہ ٹھنڈا ہو اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ برباد ہو۔ قرآن نے یہ لفظ استعمال کر کے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو آگاہ کر دیا کہ منافقین ہم دردی و خیر خواہی کے بھیس میں درحقیقت اپنے بہت بڑے شیطانی منصوبے کی فکر میں ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۲۱۹)

[55]۔ یہ اِس قانون کے مطابق ہے کہ جس کا خدا کے ہاں جو درجہ و مرتبہ ہے، اُس کا محاسبہ بھی اُسی کے لحاظ سے ہو گا۔ اِس سے قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو یہ احساس دلایا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں اُن کا مقام کس قدر بلند ہے اور اِس مقام بلند سے کسی پستی کی طرف اترنے کا نتیجہ اُن کے لیے کیسا سنگین ہو سکتا ہے۔

[56]۔ یعنی تم میں کوئی اِس بھلاوے میں نہ رہے کہ نبی کی بیویاں ہونا تمھیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے یا تمھارا مرتبہ کچھ ایسا بلند ہے کہ اُس کی وجہ سے تمھیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آسکتی ہے۔ ہرگز نہیں، خدا کا قانون بے لاگ ہے، وہ کسی کے درجے اور مرتبے یا نسبت و تعلق کی بنا پر کوئی رعایت نہیں کرے گا۔

[57]۔ یعنی سزا بھی دگنی ہے اور جزا بھی دگنی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ اِن آیات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ خدا کے ہاں مواخذہ اتمام حجت کے اعتبار سے ہو گا اور اعمال کا صلہ اُن حالات کے اعتبار سے ملے گا جن میں وہ انجام دیے گئے ہیں۔ ازواج نبی (رضی اللہ عنہن) کو چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معیت حاصل ہوئی اور رسول اتمام حجت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اِس وجہ سے اُن سے مواخذہ سخت ہو گا۔ اِسی طرح رسول کی رفاقت پوری وفاداری کے ساتھ چونکہ بڑا کٹھن کام ہے، اِس وجہ سے اُس کا صلہ بھی دگنا ہے۔ جرموں کے مواخذہ اور اعمال کے صلے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے اور یہ بالکل مبنی برعدل و حکمت ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۲۱۹)

[58]۔ قرآن میں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کی تعبیر ہے اور اِس کے ساتھ با عزت، یعنی ’كَرِيْم‘ کی صفت اِس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ یہ رزق و فضل اُن کے حق کے طور پر، ہمیشہ کے لیے اور کسی قید و شرط اور اندیشۂ احتساب ومواخذہ کے بغیر ملے گا۔

[59]۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت و تعلق کی وجہ سے تمھاری ایک خاص حیثیت ہے جس کو تمھیں ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو اِس مرتبے اور مقام کے منافی ہو۔ تمھارے ہر طرزعمل کے اثرات اُس دعوت اور مشن پر ہوں گے جس کے لیے خدا نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا ہے۔

[60]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ آگے جو ہدایات دی جا رہی ہیں، اُن پر اِس تقویٰ کے بغیر اُن کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکتا۔

[61]۔ اِس سے وہ کینہ و حسد مراد ہے جو اشرارمنافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔ اِس کے سبب سے وہ اِس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ آپ کی ازواج مطہرات کو بدنام کرنے کی کوئی صورت پیدا کر سکیں۔

[62]۔ یعنی جیسے اُن لوگوں سے کی جاتی ہے جن سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو۔ چنانچہ جو کچھ کہنا ہو، بغیر کسی رورعایت کے سیدھے صاف طریقے سے کہہ دیا جاتا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ ہدایت بھی خاص اُنھی حالات کے لحاظ سے کی گئی جو اُس وقت امہات المومنین کو درپیش تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...عام حالات میں تو پسندیدہ طریقۂ کلام یہی ہے کہ آدمی تواضع کا انداز اختیار کرے، لیکن بعض اوقات حالات و مصالح کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اِس سے مختلف روش اختیار کی جائے۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اِس دور میں منافقین و منافقات رات دن اِس تگ و دو میں تھے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے کوئی ایسی بات نکالیں جس کو ایک فتنہ بنا سکیں۔ اِن لوگوں کی باتیں ہم دردانہ رنگ میں ہوتی تھیں، اِس وجہ سے امہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی اُن کا جواب اپنی شرافت نفس کے سبب سے نرم انداز ہی میں دیتی تھیں جس سے یہ مفسدین دلیر ہوتے جا رہے تھے اور اِن کو یہ توقع ہو چلی تھی کہ وہ بہت جلد اپنی سازش میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اِن خاص حالات کی بنا پر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو اپنا رویہ بدل دینے کی ہدایت ہوئی۔ فرمایا کہ اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔ نبی کے ساتھ نسبت کے باعث تمھاری نیکی اور بدی، دونوں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ تمھاری نیکی دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بنے گی اور تم سے کوئی غلطی صادر ہو گی تو اُس کو بھی اصحاب الاغراض حجت بنائیں گے۔ اِس وجہ سے تمھارے لیے احتیاط کی روش اولیٰ ہے۔ اگر منافقین تمھارے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنے کی کوشش کریں تو بربناے مروت و شرافت اُن کی بات کا جواب نرمی و تواضع سے نہ دو کہ جس کے دل میں اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف بغض و حسد ہے، وہ کوئی غلط توقع کر بیٹھے، بلکہ صاف انداز میں اُس سے اِس طرح بات کہو کہ اگر وہ اپنے دل میں کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اُس کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے کہ یہاں اُس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۲۲۰)

[63]۔ یہ ہدایت بھی اُسی منصب اور اُس کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے ہے جو ازواج مطہرات کو حاصل تھا کہ اُنھیں زمانۂ جاہلیت میں بڑے لوگوں کی بیگمات کے طریقے پر اپنی زیب و زینت کی نمایش کرتے ہوئے باہر نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ جو حالات اُنھیں درپیش ہیں، اُن میں باہر نکلنے ہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اِس لیے کہ منافقین شب و روز اِسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اُن سے متعلق کوئی اسکینڈل پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ عام عورتوں کے ساتھ اِس ہدایت کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اپنے حالات اور اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے اُس زمانے میں بھی، جہاں چاہیں،جا سکتی تھیں اور اب بھی جا سکتی ہیں۔ اجنبیوں کے سامنے زیب و زینت کی نمایش، البتہ اُن کے لیے بھی ممنوع ہے، اِس لیے کہ سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے اِس کی ہدایت اُنھیں الگ فرما دی ہے۔ یہاں اتنی بات مزید واضح ہوئی کہ اجنبی مردوں کے سامنے زیب و زینت کی نمایش جاہلیت کا طریقہ ہے، اِس کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

[64]۔ یعنی گھروں میں رہ کر اِنھی کاموں میں سرگرم رہو تاکہ اپنی وہ ذمہ داری کما حقہ ٗپوری کر سکو جو رسول کی بیویوں کی حیثیت سے تم پر عائد ہوتی ہے۔ آگے وضاحت فرما دی ہے کہ یہ دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے جس کے لیے علما اُٹھیں یا پیغمبر کے گھرانے کے لوگ، اُنھیں سب سے بڑھ کر اِنھی چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

[65]۔ مطلب یہ ہے کہ تمھارے باطن کی پاکیزگی میں شبہ نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تمھارے منصب کے لحاظ سے تمھیں لوگوں کی نگاہ میں بھی ہر طرح کی اخلاقی نجاست سے بالکل پاک دیکھنا چاہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نہایت شفقت و محبت کے ساتھ خطاب کرکے یہ اب اُن ہدایات کا مقصد بتایا ہے جو اُنھیں یہاں دی جا رہی ہیں اور اُن کے لیے ’اہل بیت‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح کر دیا ہے کہ اِس کا شرف اصلاً اُنھی کو حاصل ہے۔ دوسروں کی شمولیت اِس میں ہو سکتی ہے تو اصلاً نہیں، بلکہ تبعاً و ضمناً ہو سکتی ہے۔

[66]۔ یعنی جو آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی اوراُن کے ذریعے سے ایمان و اخلاق کے جو حقائق واضح کیے جاتے ہیں، اُن کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس طرح مردوں کی رہنمائی کے لیے ہوئی تھی، اُسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہوئی تھی۔ آپ جس طرح باہر لوگوں کو تعلیم دیتے رہتے تھے، اُسی طرح اپنے گھروں کے اندر بھی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ وحی جس طرح باہر آپ پر نازل ہوتی تھی، اُسی طرح گھر کے اندر بھی نازل ہوتی تھی۔ نیز جس طرح آپ کا ہر قول لوگوں کے لیے تعلیم و ہدایت تھا، اُسی طرح آپ کا ہر فعل بھی لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ تھا۔ آپ کی زندگی ’پرائیویٹ‘ اور ’پبلک‘ کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں تھی، بلکہ آپ کی حیات مبارک کا ہر لمحہ امت کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف تھا، اِس وجہ سے ضروری ہوا کہ جس طرح آپ کی باہر کی زندگی کی ایک ایک ادا کو محفوظ کرنے کے لیے آپ کے جاں نثار سایے کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ رہیں، اُسی طرح آپ کے گھر کے اندر کی زندگی کا بھی ایک ایک پہلو محفوظ رکھنے کا انتظام ہو۔ یہ کام، ظاہر ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کے ذریعے سے ممکن تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم و عمل جتنا آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ذریعے سے پھیلا ہے، اُس کی مقدار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعے پھیلے ہوئے علم سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اور اِس آیت سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اِس مشن پر آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اللہ تعالیٰ نے خود مامور فرمایا تھا کہ اُن کا کام دنیا کے خزف ریزے جمع کرنا نہیں،بلکہ علم و حکمت کے اُن خزانوں کو خلق کے اندر لٹانا ہے جن کی بارش اُن کے گھروں کے اندر ہو رہی ہے ۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۲۳)

[67]۔ چنانچہ کوئی گھر کے اندر ہو یا باہر، اُس کی کوئی خدمت اُس سے مخفی نہیں رہتی۔ وہ اُس کا صلہ دنیا اور آخرت میں ضرور دیتا ہے۔

[68]۔ یعنی جنھوں نے اسلام کو اپنے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ’اسلام‘ کا لفظ جب اِس طریقے سے ’ایمان‘ کے ساتھ آتا ہے، جس طرح یہاں آیا ہے تو اِس سے دین کا ظاہر مراد ہوتا ہے، یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دینے کی وہ کیفیت جو انسان کے قول و فعل اور اعضا و جوارح سے نمایاں ہوتی ہے اور اُس کو دیکھ کر ہر شخص جان لیتا ہے کہ اللہ و رسول کی اطاعت کو اُس نے پوری طرح اختیار کر لیا ہے، اُس کی زندگی کا کوئی گوشہ اب اُس سے باہر نہیں ہے۔

[69]۔ ایمان دین کا باطن ہے اور یہاں اِس سے مراد وہ یقین ہے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے وعدوں کے بارے میں اُس کی حقیقی معرفت کے ساتھ پایا جائے۔ چنانچہ جو خدا کو اِس طرح مانے کہ تسلیم و رضا کے بالکل آخری درجے میں اپنے دل و دماغ کو اُس کے حوالے کر دے، قرآن اپنی اصطلاح میں اُسے مومن کہتا ہے۔

[70]۔ اصل میں لفظ ’قُنُوْت‘استعمال ہوا ہے۔ یہ وہ قلبی کیفیت ہے جو انسان کو پورے اخلاص اور یک سوئی کے ساتھ دائماً اپنے پروردگار کی اطاعت پر قائم رکھتی ہے۔ بندۂ مومن کے نہاں خانۂ وجود میں عبد و معبود کے تعلق کا سب سے نمایاں ظہور یہی ہے۔ چنانچہ ’قٰنِتِيْن‘ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ بندگی میں رہیں۔ غم ، خوشی ، جوش، ہیجان اور لذت و الم کی کسی حالت میں بھی اپنے خالق سے سرکش نہ ہوں۔ شہوت کا زور، جذبات کی یورش اور خواہشوں کا ہجوم بھی اُنھیں خدا کے سامنے کبھی بے ادب نہ ہونے دے۔ اُن کا دل خدا کا عرش ہو اور اُس کی شریعت کو وہ حضوری میں دیا گیا حکم سمجھیں جس سے سرتابی کا تصور بھی دربار میں کھڑا ہوا کوئی شخص نہیں کرسکتا۔

[71]۔ یعنی قول و فعل اور ارادہ، تینوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قرآن نے اِس کے ضد کردار کو نفاق اور اِسے اخلاص سے تعبیر کیا ہے۔

[72]۔ نفس کو اضطراب اور بے چینی سے روک لیا جائے تو عربی زبان میں اِسے صبر سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اِس کا ابتدائی مفہوم ہے۔ پھر اِسی سے مشکلات اور موانع کے علی الرغم پامردی، استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنے کے معنی اِس میں پیدا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ آیت میں جس صبر کا ذکر ہے، وہ عجز و تذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جسے بے بسی اور درماندگی کی حالت میں مجبوراً اختیار کیا جائے، بلکہ عزم و ہمت کا سرچشمہ اور تمام سیرت و کردار کا جمال و کمال ہے۔ اِس سے انسان میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ناخوش گوار تجربات پر شکایت یا فریاد کرنے کے بجاے وہ اُنھیں رضا مندی کے ساتھ قبول کرلے اور خدا کی طرف سے مان کر اُن کا استقبال کرے۔ اِس مفہوم کے لحاظ سے ’صَابِر‘ وہ شخص ہے جو ہر خوف و طمع کے مقابل میں اپنے موقف پر قائم اور اپنے پروردگار کے فیصلوں پر راضی اور مطمئن رہے۔

[73]۔ آیت میں اِس کے لیے ’خٰشِعِيْن‘ کا لفظ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اُس کی عظمت و جلال کے صحیح تصور سے جو تواضع، عجز اور فروتنی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے، قرآن اُسے خشوع سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ ایک قلبی کیفیت ہے جو اُسے خدا کے سامنے بھی جھکاتی ہے اور دوسرے انسانوں کے لیے بھی اُس کے دل میں رحمت و رأفت کے جذبات پیدا کر دیتی ہے۔

[74]۔ اللہ کی راہ میں انفاق کا ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے فرض زکوٰۃ ادا کرتا رہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اپنی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں سے زیادہ جو کچھ ہو، اُسے معاشرے کا حق سمجھے اور جب کوئی مطالبہ سامنے آئے تو اُسے فراخ دلی کے ساتھ پورا کرے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کو دبا کر اور اپنی ضرورتوں میں ایثار کرکے بھی وہ دوسروں کی ضرورتیں پوری کرے۔خیرات کرنے والوں کی تعبیر اِن سب صورتوں کو شامل ہو سکتی ہے، لیکن بیان اوصاف کے موقع پر جب کسی شخص کو ’مُتَصَدِّق‘ کہا جائے گا تو اِس سے اشارہ اصلاً اُس کے درجۂ کمال کی طرف ہو گا، یعنی جو سخی اور فیاض ہو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔ بندوں کے تعلق سے یہ اُسی خشوع کا اظہار ہے جو اِس سے پہلے مذکور ہے۔ نماز اورانفاق کا ذکر قرآن میں اِسی بنا پر ساتھ ساتھ آتا ہے۔

[75]۔ یہ ضبط نفس اور تربیت صبر کی خاص عبادت ہے۔ قرآن میں اِس کا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ اِس سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ ’صَآئِمِيْن‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تقویٰ کے ایسے حریص ہیں کہ اِس کے لیے زیادہ تر روزے سے رہتے ہیں۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ معلوم ہوئی کہ وہ منکرات سے بچتے ، فواحش سے اجتناب کرتے اور اپنی زندگی میں تمام اخلاق عالیہ کا بہترین نمونہ ہوتے ہیں۔

[76]۔ یہ ضبط نفس اور تقویٰ کا ثمر ہے۔ برہنگی، عریانی اور فواحش سے اجتناب کرنے والوں کے لیے یہ تعبیر قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی آئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی بالکل آخری درجے میں حفاظت کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اللہ نے جہاں اجازت دی ہے، اُس کے سوا خلوت و جلوت میں اپنا ستروہ کسی کے سامنے نہیں کھولتے اور نہ کوئی ایسا لباس کبھی پہنتے ہیں جو اُن اعضا کو نمایاں کرنے والا ہو جو اپنے اندر کسی بھی لحاظ سے جنسی کشش رکھتے ہیں۔ فواحش سے اجتناب کا یہی درجہ ہے جس سے وہ تہذیب پیدا ہوتی ہے جس میں حیا فرماں روائی کرتی اور مرد و عورت، دونوں اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ کھولنے کے بجاے، جہاں تک ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ ڈھانپ کر رکھنے کے لیے مضطرب ہوتے ہیں۔

[77]۔ بندۂ مومن کے دل میں جب اپنے پروردگار کا خیال پوری طرح بس جاتا ہے تو پھر وہ مقررہ اوقات میں کوئی عبادت کر لینے ہی کو کافی نہیں سمجھتا، بلکہ ہمہ وقت اپنی زبان کو خدا کے ذکر سے تر رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھتا ہے تو ’سبحان اللہ‘ کہتا ہے۔ کسی کام کی ابتدا کرتا ہے تو ’بسم اللہ‘ سے کرتا ہے۔ کوئی نعمت پاتا ہے تو ’الحمدللہ‘ کہہ کر خدا کا شکر بجا لاتا ہے۔ ’ان شاء اللہ‘ اور ’ماشاء اللہ‘ کے بغیر اپنے کسی ارادے اور کسی عزم کا اظہار نہیں کرتا۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد چاہتا ہے۔ ہر آفت آنے پر اُس کی رحمت کا طلب گار ہوتا ہے۔ہر مشکل میں اُس سے رجوع کرتاہے۔ سوتا ہے تواُس کو یاد کرکے سوتا ہے اور اٹھتا ہے تو اُس کا نام لیتے ہوئے اٹھتا ہے۔ غرض ہر موقع پر اور ہر معاملے میں اُس کی زبان پر اللہ ہی کا ذکر ہوتا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ نماز پڑھتاہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے،قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، انفاق کرتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے،برائی سے بچتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے، اُس کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اللہ کو یادکرتا ہے اورفوراً اُس سے رجوع کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔

اِس ذکر کی ایک صورت فکر بھی ہے۔ خدا کی اِس دنیا کو دیکھیے تو اِس میں ہزاروں مخلوقات ہیں،اُن کی رنگارنگی اور بو قلمونی ہے، پھر عقل انسانی اور اُس کے کرشمے ہیں، سمندروں کاتلاطم ہے، دریاؤں کی روانی ہے، لہلہاتاسبزہ اور آسمان سے برستا ہوا پانی ہے، لیل و نہار کی گردش ہے، ہوا اوربادلوں کے تصرفات ہیں، زمین و آسمان کی خلقت اور اُن کی حیرت انگیز ساخت ہے، اُن کی نفع رسانی اور فیض بخشی ہے، اُن کی مقصدیت اور حکمت ہے، پھر انفس و آفاق میں خدا کی وہ نشانیاں ہیں جو ہر آن نئی شان سے نمودار ہوتی ہیں۔ بندۂ مومن اِن آیات الہٰی پر غور کرتا ہے تو اُس کے دل و دماغ کویہ خدا کی یاد سے بھر دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ پروردگار، یہ کارخانہ تو نے عبث نہیں بنایا۔ تیری شان علم و حکمت کے منافی ہے کہ تو کوئی بے مقصد کام کرے۔ میں جانتا ہوں کہ اِس جہان رنگ و بو کا خاتمہ لازماً ایک روز جزا پر ہو گا جس میں وہ لوگ عذاب اور رسوائی سے دوچار ہوں گے جو تیری اِس دنیا کوکھلنڈرے کا کھیل سمجھ کراُس میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کے انجام سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔

[78]۔ انسان کے اخلاقی وجود کا حسن جب خلق اور خالق، دونوں کے معاملے میں درجۂ کمال کو پہنچتا ہے تو اُس سے جو اوصاف پیدا ہوتے ہیں یا قرآن مجید کی رو سے ہونے چاہییں، وہ یہی دس اوصاف ہیں۔ پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اِن پر کوئی اضافہ نہیں کیا۔ دین کا جمال و کمال قرآن کے نزدیک یہی ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو اِسی تک پہنچنے اور اِسی کو پانے کی دعوت دیتا ہے۔ اِس کا صلہ خدا کی مغفرت اور وہ اجر عظیم ہے جس کی بندۂ مومن تمنا کر سکتا ہے۔ اِس سے آگے اگر کوئی درجہ ہے تو وہ نبوت کا درجہ ہے اور اُس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اخذ و اکتساب کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اللہ ہی نے جس کو چاہا ہے، یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B