HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۴)

خلاصۂ کلام

۱۔ محدثین کا  اپنی  دریافت شدہ اور محققہ صحیح احادیث میں ترک و اختیار کا رویہ  اور ثقہ راویوں میں سے کئی راویوں سے روایات نہ لینے کا فیصلہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ حدیث کی جمع و تدوین کو انفرادی اور اختیاری کام سمجھا جاتا ہے۔ محدثین اپنی ذاتی تحقیق، ذاتی اطمینان اور ذاتی ذوق کی بنا پر روایات کا انتخاب کرتے تھے  اوراسے اپنی ذاتی کاوش کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اُن کے کام میں دوسروں سے اختلاف پایا جاتا تھا اور وہ اپنے کام سے اختلاف کی گنجایش کو تسلیم کرتے تھے۔

۲۔ اِن کی تحقیق و تنقیح کا کام مسلسل جاری رہتا ہے۔  اِس معاملے میں انتہائی کڑے معیارات پر پرکھنے کے بعد اِن کے رد و قبول کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اِس فیصلے کے بعد بھی نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اِس کی وجہ یہ کہ علما و محدثین جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی مشتبہ بات کی روایت دنیا اور آخرت ، دونوں میں  نہایت  سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا وہ آپ کی نسبت سے روایت ہونے والی ہر خبر واحد کو زیر تحقیق لاتے ہیں اور سند اور متن، دونوں پہلوؤں سے اُس کا جائزہ لیتے ہیں۔ سند کے لحاظ سے وہ راویوں کی عدالت ،[36] اُن کے ضبط [37]اور سلسلۂ روایت کے اتصال [38] کی جانچ کرتے ہیں۔کسی روایت کا متن کتنا ہی دل نواز کیوں نہ ہو، اگر وہ سند کے معیارات پر پوری نہیں اترتی تو اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد متن کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا اُس میں کوئی چیز قرآن و سنت کے یا علم و عقل کے مسلمات کے خلاف  تو نہیں ہے۔ اِن معیارات سے گزارنے کے بعد بھی اُسے یقین کے درجے میں نہیں، بلکہ غالب گمان کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔ یعنی اُنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قطعی الثبوت نہیں، بلکہ ظنی الثبوت سمجھا جاتا ہے ۔   اِسی بنا پر اِن کے رد و قبول کے معاملے میں محدثین اور فقہا کے مابین اختلاف بھی عام ہے۔بعض اوقات ایک محدث ایک راوی کو ثقہ سمجھتا  ہے، جب کہ دوسرا ایسا نہیں سمجھتا ۔ اِسی طرح بعض اوقات ایک فقیہ ایک روایت کو درایتاً قبول نہیں کرتا، جب کہ دوسرا قبول کر لیتا ہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک روایت بعض علما کے نزدیک مقبول اور بعض کے نزدیک نا مقبول یا مردود قرار پاتی ہے۔

۳۔ حدیث کی تحقیق و تنقیح کا یہ کام نہ کسی فرد تک محدود ہوتا ہے اور نہ کسی زمانے میں مقیدہوتا ہے۔ یہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مزید لوگ میدان میں آتے ہیں اور اِس ذخیرے کو کھنگال کر نئی تحقیقات سامنے لے آتے ہیں۔ مثلاً حدیث کی نمایاں کتابوں میں سے  موطا امام مالک اور صحاح ستہ کے نسخے ۱۵۰ ھ تا ۳۰۰ھ کے درمیان تالیف ہوئے۔ابو یعلیٰ، دار قطنی، مستدرک علی الصحیحین، بیہقی، دیلمی کے مجموعے ۳۰۰ ھ تا ۵۰۰ ھ مرتب ہوئے۔ یہ کام دور حاضر میں بھی جاری ہے۔ چودھویں صدی ہجری میں علامہ ناصر الدین البانی کا کام اِس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ علماے حدیث میں تحقیق کی استعداد کا تفاوت، حالات اور وسائل کے فرق اور روایت اور درایت کے اصولوں اور اطلاقات میں اختلاف ہی کا نتیجہ ہے کہ حدیث کے بیسیوں مجموعے مرتب کیے جا چکے ہیں جو اپنے متن کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں احادیث کی تعداد میں بھی فرق ہے اور مقبول و مردود کی تعیین میں بھی اختلاف ہے۔

 مدعا کی تفہیم کے لیے یہ چند مثالیں کفایت کریں گی۔ ایک مثال امام دارقطنی کی ہے جنھوں نے اپنی کتاب ’’الالزامات والتتبع‘‘ میں بخاری ومسلم کی کم و بیش دو سو روایتوں کی اسناد پر نقد کیا ہے۔[39]دوسری مثال محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری کی   ہے۔ اُنھوں نے  اپنی کتاب ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں امام بخاری اور امام مسلم کے اصولوں کو بنیاد بنا کر ایسی روایات کو شامل کیا ہے جنھیں صحیحین میں درج نہیں کیا گیا۔ یہ امام بخاری اور امام مسلم سے کم و بیش   ڈیڑھ سو سال بعد کا کام ہے۔اِ س لحاظ سے اِسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی توسیع کا کام بھی کہا جا سکتا ہے۔دور حاضر میں علامہ ناصر الدین البانی کا کام بھی حدیث کی تحقیق وتدوین پر مشتمل ہے۔ اُنھوں نے بخاری اورمسلم کی قرار دادہ کئی صحیح احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور کئی ضعیف احادیث کو حسن اور صحیح کے درجے میں رکھا ہے۔

۴۔ حدیث کی تحقیق و تدوین کے کام کا یہ تسلسل اِس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ علماے امت   ذخیرۂ احادیث میں دستیاب روایتوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت  کو یقینی نہیں سمجھتے۔ اگر وہ اِسے یقینی سمجھتے ہوں تو اِس میں نہ تحقیق کی جسارت کر سکتے ہیں  اور نہ کسی اختلاف کو گوارا کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ یقین ہو کہ فلاں الفاظ یا فلاں اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے  فرمودہ ہیں تو اُن کی کھوج کرید کرنا اور اُن میں اختلاف کی راہ ڈھونڈنا ایمان کے منافی ہے۔ کوئی مسلمان اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ [40]

۵۔حدیث کے حوالے سے یہی وہ مسلمہ حقائق ہیں جن کی بنا پر استاذ گرامی کا موقف ہے کہ اِنھیں قرآن و سنت کے برابر نہیں ، بلکہ ان کے تابع اور ماتحت رکھنا چاہیے اور اِن کے مندرجات کو دین میں کسی منفرد اور مستقل بالذات حکم کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔

________


خلاصۂ مباحث


یہاں جملہ مباحث کا خلاصہ نکات کی صورت میں درج ہے:

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے حوالے سےجو بات ارشاد فرمائی ہے، اُس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ اصلاً اللہ کی بات ہے، جو آپ کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچی ہے۔

۲۔ چنانچہ آپ اگر عالم بالا کی خبر دیں، ارض و سما کی معلومات سے آگاہ فرمائیں، قیامت اور جنت و جہنم کے احوال بتائیں، غیب کے معاملات سے پردہ اٹھائیں، حکایت سنائیں، حاضر کی اصل بتائیں، ماضی کا کوئی واقعہ ارشاد فرمائیں، مستقبل کی کوئی پیشین گوئی بیان فرمائیں تو اِن کی حیثیت قطعی حقائق کی ہے، جن کے وقوع پر کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔

۳۔ صاحب ایمان کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ  آپ کے فرمودات پر شک و شبہے کا اظہارکرے۔ ایسا انکار کفر کے مترادف ہے، جس کی جسارت کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا۔

۴۔ تاہم، جس طرح آپ کی بات کا انکار کفر ہے، اُسی طرح آپ سے ایسی بات منسوب کرنا جو آپ نے ارشاد نہیں فرمائی،  آپ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف اور نری معصیت ہے۔ ایسی شعوری جسارت کا نتیجہ ابدی جہنم ہے ۔

۵۔ مسلمانوں کے جلیل القدر اہل علم نے ان مسلمات کو ہمیشہ اپنے علم و عمل کا حصہ بنایا ہے۔ چنانچہ وہ آپ کی نسبت سے سامنے آنے والی ہر یقینی بات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں  اور جو یقینی نہیں ہے، اُس کے بارے میں بہت احتیاط کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

۶۔ اِسی ایمان اور اِسی احتیاط کے مجموعی تقاضوں کے پیش نظر اُنھوں نے آپ کی نسبت سے حاصل ہونے والے دین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک حصہ اجماع و تواتر پر مبنی ہے اور دوسرا حصہ اخبار آحاد پر منحصر ہے۔

۷۔ اجماع و تواتر سے جو دین ملا ہے، اُس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی ہے، اِس لیے اُس کا انکار کفر ہے۔

۸۔ اخبار آحاد سے ملنے والے حصے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی نہیں ہے۔ اُس کی نوعیت ظن غالب کی ہے، اِس لیے اُس کے بارے میں غور و فکر ، تحقیق و تفتیش اور ضبط و احتیاط ضروری ہے۔

۹۔ احتیاط سے مقصود دین کو خارجی آمیزش سے محفوظ رکھنا ہے، اس کا مقصد بے اعتنائی ہرگز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اگرکوئی بات سامنے آئے تو اُس سے صرف نظر کرنا مکابرت ہے۔ کوئی صاحب ایمان اس کا عامل نہیں ہو سکتا۔

۱۰۔ یہ امر مسلم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دین یقینی ذرائع، یعنی اجماع و تواتر سے پہنچا ہے ، وہ قرآن مجید اور سنت ثابتہ میں محصور ہے۔

۱۱۔ اِسی طرح یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ آپ کی نسبت سے جو دین ظنی ذریعے سے، یعنی اخبار آحاد سے پہنچا ہے، وہ احادیث کی صورت میں موجود ہے۔

۱۲۔احادیث مبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے بارے میں   صحابۂ کرام میں سے بعض افراد کے بیانات ہیں۔

۱۳۔ بیان کرنے والوں نے اُنھیں اپنی خواہش سے اور انفرادی حیثیت میں بیان کیا ہے۔

۱۴۔یہ قرآن و سنت کی طرح اجماع و تواتر سے منتقل نہیں ہوئیں۔ یعنی نہ اُنھیں صحابۂ کرام نے اجتماعی طور پر منتقل کیا ہے، نہ اُنھیں مسلمانوں کی ایک نسل نے دوسری نسل کو    بلا انقطاع اور بحیثیت مجموعی پہنچایا ہے۔

۱۵۔ یہ اخبارِ آحاد کے ذریعے سے منتقل ہوئی ہیں۔ یعنی اُنھیں افراد نے انفرادی طور پر سنا ہے اور انفرادی حیثیت سے آگے منتقل کیا ہے اور پھر یہ انفرادی سطح پر ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتے ہوئے محدثین تک پہنچی ہیں۔

۱۶۔ یہ بالعموم، روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں۔ یعنی اِن میں سے بیش تر کے الفاظ بعینہٖ وہ نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے صادر ہوئے تھے۔صحابۂ کرام میں سے بعض راویوں نے اِنھیں آپ سے سن کر اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔

۱۷۔ روایت بالمعنیٰ کا یہ سلسلہ صرف صحابہ کے رواۃ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اُن سے آگے تابعین نے اور اُن سے آگے تبع تابعین نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ یعنی بالعموم لفظوں کو نہیں، بلکہ معنی و مفہوم کو منتقل کیا ہے۔

۱۸۔ جب واقعہ یہ ہے کہ صحابی نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اپنی سماعت، اپنے فہم اور اپنی یادداشت کے لحاظ سے انفرادی طور پر بیان کیا ہے تو اُس میں سہو و نسیان اور ترمیم و اضافے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہی معاملہ صحابی کی بات کی نسبت سے تابعی کے ساتھ ہے اور تابعی کی نسبت سے تبع تابعی اور اُس سے آگے کے راوی کے ساتھ ہے۔

۱۹۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی موقعے یا ایک ہی واقعے کی روایات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق الفاظ و اسالیب کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے، مفہوم کے اعتبار سے بھی اور کمی اور زیادتی کے لحاظ سے بھی۔[41]

۲۰۔ یہ فرق بعض اوقات اختلاف اور تناقض کی صورت میں بھی سامنے آ جاتا ہے۔[42]

۲۱۔ احادیث کی جمع و تدوین اور تحقیق و تفتیش خالص انسانی کام ہے۔ محدثین مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے مختلف افراد سے احادیث حاصل کرتے ہیں۔ یہ کام وہ اپنی زندگی، اپنے حالات، اپنے تصور، اپنی ترجیح ، اپنی حدوسع اور اپنی استعدادو صلاحیت کے لحاظ سے انجام دیتے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ اِس معاملے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ، لیکن اِس کے باوجود صورت واقعہ یہ ہے کہ احادیث کی جمع و تدوین کا کام مکمل طور پر مرتب  نہیں ہو پاتا۔ مزید برآں، جتنا کام بھی مرتب ہو کر سامنے آتا ہے، اُس میں کمی اور کوتاہی کے امکان کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔

۲۲۔ یہی وجہ ہے کہ معاصرین ایک دوسرے کے کام پر نقد و جرح کرتے ہیں اور متاخرین متقدمین کے کام سے اختلاف یا اُس میں ترمیم و اضافے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

۲۳۔ چنانچہ محدثین نے احادیث کے بیسیوں مجموعے مرتب کیے ہیں اور ان میں سے ہر مجموعہ کسی نہ کسی پہلو سے دوسرے مجموعوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ان میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی روایت کو بعض محدثین نے صحیح اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہو۔

۲۴۔ محدثین کا  اپنی  دریافت شدہ اور محققہ صحیح احادیث میں ترک و اختیار کا رویہ  اور ثقہ راویوں میں سے کئی راویوں سے روایات نہ لینے کا فیصلہ اِس امر کو ثابت کرتا ہے کہ حدیث کی جمع و تدوین کو انفرادی اور اختیاری کام سمجھا جاتا ہے۔ محدثین اپنی ذاتی تحقیق، ذاتی اطمینان اور ذاتی ذوق کی بنا پر روایات کا انتخاب کرتے ہیں  اوراُسے اپنی ذاتی کاوش کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اُن کے کام میں دوسروں سے اختلاف پایا جاتا ہےاور وہ اپنے کام سے اختلاف کی گنجایش کو تسلیم کرتے تھے۔

۲۵۔ حدیث کی تحقیق و تنقیح کا یہ کام نہ کسی  فرد تک محدود ہوتا ہے اور نہ کسی زمانے میں مقیدہوتا ہے۔ یہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مزید لوگ میدان میں آتے ہیں اور اِس ذخیرے کو کھنگال کر نئی تحقیقات سامنے لے آتے ہیں۔ مثلاً  حدیث کی نمایاں کتابوں میں سے موطا امام مالک اور صحاح ستہ کے نسخے ۱۵۰ ھ تا ۳۰۰ھ کے درمیان تالیف ہوئے۔ابو یعلیٰ، دار قطنی، مستدرک علی الصحیحین، بیہقی، دیلمی کے مجموعے  ۳۰۰ھ تا ۵۰۰ ھ مرتب ہوئے۔ یہ کام دور حاضر میں بھی جاری ہے۔ چودھویں صدی ہجری میں علامہ ناصر الدین البانی کا کام اِس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ علماے حدیث میں تحقیق کی استعداد کا تفاوت، حالات اور وسائل کے فرق اور روایت اور درایت کے اصولوں اور اطلاقات میں اختلاف ہی کا نتیجہ ہے کہ حدیث کے بیسیوں مجموعے مرتب کیے جا چکے ہیں، جو اپنے متن کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں احادیث کی تعداد میں بھی فرق ہے اور مقبول و مردود کی تعیین میں بھی اختلاف ہے۔

۲۶۔ حدیث کے اسناد کی  تصحیح و تضعیف اورمتن پر غور و فکر کے اصول منصوص نہیں ہیں۔ علما و محدثین نے اُنھیں  اپنے فہم و فراست سے متعین کیا ہے۔

۲۷۔ یہ اصول چونکہ دین کی اساسات اور عقل عام کے مسلمات پر مبنی ہیں، اس لیے  اُن کے بنیادی نکات کے حوالے سے علما و محدثین میں اتفاق پایا جاتا ہے۔

۲۸۔ البتہ اطلاقی اختلافات جا بجا ہیں۔ اِن کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک محدث کے نزدیک ایک راوی ثقہ اور دوسرے کے نزدیک غیر ثقہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک محدث یا فقیہ ایک روایت کو قرآن و سنت یا عقل عام کے خلاف قرار دے کر رد کردیتا ہے، دوسرا اُس کی تاویل کر کے اُسے قبول کر لیتا ہے اور تیسرا اُس کے بارے میں توقف کا رویہ اختیار کرتا ہے۔

۲۹۔  یہ تمام نکات اس امر کو متعین کرتے ہیں کہ علماے امت   ذخیرۂ احادیث  میں دستیاب روایتوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت  کو یقینی نہیں سمجھتے۔ اگر وہ اِسے یقینی سمجھتے ہوں تو اِس میں نہ تحقیق کی جسارت کر سکتے ہیں اور نہ کسی اختلاف کو گوارا کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ یقین ہو کہ فلاں الفاظ یا فلاں اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے  فرمودہ ہیں تو اُن کی کھوج کرید کرنا اور اُن میں اختلاف کی راہ ڈھونڈنا ایمان کے منافی ہے۔ کوئی مسلمان اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ [43]

۳۰۔ یہی وہ مسلمہ حقائق ہیں، جن کی بنا پر استاذِ گرامی کا موقف ہے کہ احادیث کو قرآن و سنت کے برابر نہیں ، بلکہ اُن کے تابع اور ماتحت رکھنا چاہیے اور اِن کے مندرجات کو دین میں کسی منفرد اور مستقل بالذات حکم کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ اپنی ایک تحریر میں اُنھوں نے اِس بات کو تفصیل سے سمجھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔
پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔
یہ ہم تک کس طرح پہنچا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اِسے حدیثوں کی صورت میں سب سے پہلے صحابہ نے لوگوں تک پہنچایا۔ پھر جن لوگوں نے یہ حدیثیں اُن سے سنیں، اُنھوں نے دوسروں کو سنائیں۔ یہ زبانی بھی سنائی گئیں اور بعض اوقات لکھ کر بھی دی گئیں۔ ایک دو نسلوں تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلا، لیکن پھر صاف محسوس ہونے لگا کہ اِن کے بیان کرنے میں کہیں کہیں غلطیاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ دانستہ اِن میں جھوٹ کی ملاوٹ بھی کر رہے ہیں۔ یہی موقع ہے، جب اللہ کے کچھ بندے اٹھے اور اُنھوں نے اِن حدیثوں کی تحقیق کرنا شروع کی۔ اِنھیں ’محدثین‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے غیرمعمولی لوگ تھے۔ اِنھوں نے ایک ایک روایت اور اُس کے بیان کرنے والوں کی تحقیق کر کے، جس حد تک ممکن تھا، غلط اور صحیح کی نشان دہی کی اور جھوٹ کو سچ سے الگ کر دیا۔ پھر اِنھی میں سے بعض نے ایسی کتابیں بھی مرتب کر دیں جن کے بارے میں بڑی حد تک اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُن میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں، وہ بیش تر حضور ہی کا علم ہے جو روایت کرنے والوں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ علم کی زبان میں اِنھیں ’اخبار آحاد‘ کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِنھیں صرف گنتی کے لوگوں نے بیان کیا ہے، قرآن و سنت کی طرح یہ اجماع اور تواتر سے منتقل نہیں ہوئی ہیں۔ چنانچہ بالعموم تسلیم کیا جاتا ہے کہ اِن سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اُسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جا سکتا ہے۔
حدیث کی جن کتابوں کا ذکر ہوا ہے، وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، مگر امام مالک، امام بخاری اور امام مسلم کی کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور بہت مستند خیال کی جاتی ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑی تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اِن کے مرتب کرنے والوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ اِس علم کے ماہرین جانتے ہیں کہ اُن سے تحقیق میں غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اِسی بنا پر وہ حدیث کی کتابوں کو برابر جانچتے پرکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی حدیث کے بیان کرنے والوں کو اگر سیرت و کردار اور حفظ و اتقان کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں پاتے یا آپس میں اُن کی ملاقات کا امکان نہیں دیکھتے یا اُن کی بیان کردہ حدیث کے مضمون میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے یا علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ہے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ آں حضرت کی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ غلطی سے آپ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ یہی معاملہ اِن حدیثوں کے فہم اور اِن کی شرح و وضاحت کا ہے۔ اہل علم اِس معاملے میں بھی اپنی تعبیرات اِسی طرح پیش کرتے رہتے ہیں۔
یہ کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ابھی پچھلی صدی میں علامہ ناصر الدین البانی نے اِس سلسلے میں بڑی غیرمعمولی خدمت انجام دی ہے اور حدیث کی اکثر کتابوں پر ازسرنو تحقیق کر کے اُن کے صحیح اور سقیم کو ایک مرتبہ پھر الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(مقامات ۱۷۴-۱۷۷)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[36]۔ یعنی راوی مسلمان اور عاقل ہو، فاسق نہ ہو اور مروت سے محروم نہ ہو۔

[37]۔ حدیث کو پورے طور سے یاد رکھنا اور محفوظ کر لینا۔

[38]۔ سند کی ابتدا سے انتہا تک ہر راوی نے دوسرے راوی سے بلاواسطہ حدیث حاصل کی ہو اور سند سے کوئی راوی چھوٹا ہوا نہ ہو۔

[39]۔ امام نووی نے یہ تعداد ۲۰۰بتائی ہے، جب کہ ابن حجر نے ۱۸۸ بتائی ہے جن میں سے ۱۱۰ بخاری کی روایات ہیں (دارقطنی۱۱۶،ارشاد الحق اثری)۔

[40]۔ یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور ان کو نقل کرنے والے صحابہ بھی متعین ہیں اور دور رسالت اور دور صحابہ کے بعد ان میں کوئی اضافہ بھی ممکن نہیں ہے تو پھراس میں اختلاف اور تحقیق کے تسلسل کا کیا سبب ہے؛ہونا تو یہی چاہیے کہ جیسے دور رسالت کے بعد قرآن کے متن پر کوئی بحث نہیں ہے، اور اس کی تحقیق و تدوین کی نہ ماضی میں کوئی ضرورت پیش آئی اور نہ مستقبل میں پیش آ سکتی ہے، یہی معاملہ احادیث کے ساتھ ہونا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال درست نہیں ، کیونکہ قرآن اجماع و تواتر سے اور باللفظ منتقل ہوا ہے، جب کہ احادیث اخبار آحاد سے اور بالمعنیٰ منتقل ہوئی ہیں ۔روایت بالمعنیٰ کو ایسے سمجھیے کہ مثلاً حضرت عبدا للہ بن عمر یا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآن کی کسی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، اُنھیں قرآن کی تفسیر تو کہا جا سکے گا، قرآن نہیں کہا جائے گا۔ یعنی مطلب یہ ہو گا کہ ان حضرات نے قرآن کی آیت کو اپنے فہم کے مطابق اور اپنے الفاظ میں بیا ن کیا ہے۔ احادیث کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اس میں سامع نے اسے اپنی سماعت کے مطابق سنا ہے، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے اور اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مزید یہ کہ ہم مفسر کے قول کی صحت کو قرآن کے متن کی روشنی میں جانچ سکتے ہیں، مگر احادیث کے معاملے میں یہ موقع موجود نہیں ہے۔ نہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس موجود ہیں اور نہ آپ کے اصل الفاظ دستیاب ہیں۔

[41]۔ مثال کے طور پر اسرا و معراج کی روایتوں میں سے بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات باری تعالیٰ کے اتنے قریب ہو گئے، جیسے کمان کے دو کنارے ہوں۔ بخاری، رقم   ۷۵۱۷کے تحت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحابی) سے شریک بن عبداللہ (تابعی) کی روایت میں یہ بات نقل ہوئی ہے، جب کہ  بخاری، رقم ۳۴۹ کے تحت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحابی) کی ابن شہاب زہری (تابعی )سے منقول روایت میں یہ بات نقل نہیں ہوئی۔

[42]۔ مثال کے طور پر اسرا و معراج کی مختلف روایتوں میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آسمانوں کے سفر میں چھٹے اور ساتویں آسمان پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کس پیغمبر سے ملاقات ہوئی۔ بخاری، رقم ۷۵۱۷ کے تحت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ(صحابی) سے شریک بن عبداللہ (تابعی) کی روایت میں بیان ہوا کہ آپ نے چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور ساتویں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ، جب کہ  بخاری، رقم ۳۸۸۷ کے تحت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحابی) کی قتادہ (تابعی )سے منقول روایت میں اس کے برعکس بات نقل نہیں ہوئی ہے ، یعنی آپ نے چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا۔

ایک اور مثال دیکھیے:صحیح مسلم (کتاب الفضائل)میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے گریز کرتے تھے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی: اے اﷲ کے نبی ، میری تین گزارشات قبول کر لیجیے۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ انھوں نے پہلی گزارش یہ کی: ’’میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی حسین و جمیل عورتوں میں سے ہے۔ اس سے نکاح کرلیجیے۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔...‘‘

اس حدیث پر اشکال یہ ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر ۸ھ میں اسلام قبول کیا تھا، جب کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے قبل ہی ۶ھ یا ۷ھ میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان سے نکاح کرچکے تھے۔ پھر اس درخواست کے کیا معنی؟ محدثین نے اس حدیث کو صحیح مانتے ہوئے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں، لیکن علامہ ابن حزم نے اسے موضوع کہا ہے اور اسے ایک راوی عکرمہ بن عمار کی گھڑی ہوئی روایت قرار دیا ہے۔ اس کے جواب میں شیخ ابن الصلاح نے عکرمہ کو ثقہ راوی بتایا ہے اور ان کی تضعیف کرنے اور ان کی طرف وضع حدیث کی نسبت کرنے کے سلسلے میں ابن حزم پر سخت تنقید کی ہے، لیکن نہ انھوں نے اور نہ ان کے علاوہ کسی اور محدث نے ابن حزم کا شمار منکرین حدیث میں کیا ہے۔

[43]۔ یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور ان کو نقل کرنے والے صحابہ بھی متعین ہیں اور دور رسالت اور دور صحابہ کے بعد ان میں کوئی اضافہ بھی ممکن نہیں ہے تو پھراس میں اختلاف اور تحقیق کے تسلسل کا کیا سبب ہے؛ہونا تو یہی چاہیے کہ جیسے دور رسالت کے بعد قرآن کے متن پر کوئی بحث نہیں ہے، اور اس کی تحقیق و تدوین کی نہ ماضی میں کوئی ضرورت پیش آئی اور نہ مستقبل میں پیش آ سکتی ہے، یہی معاملہ احادیث کے ساتھ ہونا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ قرآن اجماع و تواتر سے اور باللفظ منتقل ہوا ہے، جب کہ احادیث اخبار آحاد سے اور بالمعنیٰ منتقل ہوئی ہیں ۔روایت بالمعنیٰ کو ایسے سمجھیے کہ مثلاً حضرت عبدا للہ بن عمر یا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآن کی کسی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، اُنھیں قرآن کی تفسیر تو کہا جا سکے گا، قرآن نہیں کہا جائے گا۔ یعنی مطلب یہ ہو گا کہ اِن حضرات نے قرآن کی آیت کو اپنے فہم کے مطابق اور اپنے الفاظ میں بیا ن کیا ہے۔ احادیث کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اس میں سامع نے اسے اپنی سماعت کے مطابق سنا ہے، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے اور اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔مزید یہ کہ ہم مفسر کے قول کی صحت کو قرآن کے متن کی روشنی میں جانچ سکتے ہیں، مگر احادیث کے معاملے میں یہ موقع موجود نہیں ہے۔ نہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس موجود ہیں اور نہ آپ کے اصل الفاظ دستیاب ہیں۔

B