خیال و خامہ
O
جلووں کی آرزو نہ تقاضا تھا طور کا
اب کیا گلہ ہو اُن سے دلِ ناصبور کا
فرصت ملے تو درد کا درماں ہے آج بھی
فصلِ بہار میں کوئی نغمہ طیور کا
پیتے ہیں اُن کے ہاتھ سے قرآں میں روز و شب
کیا رنگ ہے ہماری شرابِ طہور کا
کھلتا نہیں کہ بستۂ تقدیر ہے ابھی
یہ سلسلہ جہاں غیاب و حضور کا
صوفی پہ کس لیے ہے گراں، جانتا ہوں میں
عقبیٰ میں ذکر بادہ و غلماں و حور کا
مشکل تھا، کر لیا مگر ہم نے معاملہ
عقل و خرد سے مستی و شوق و سرور کا
انساں، مگر حقیقتِ انساں سے بے خبر
حاصل یہی ہے وسعت علم و شعور کا؟
نغمہ سرا ہے بزم تو ایسی کوئی صدا
برپا ہو جس سے غلغلہ صبحِ نشور کا
طے کر لیا ہے نیمۂ شب کے سجود میں
ورنہ زمیں سے عرش کا رستہ تھا دور کا
ـــــــــــــــــــــــــ