افسانہ
ایک فریادی اپنے بیٹے کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں پہنچا، بادشاہ تختِ حکومت پر بیٹھا تھا، حاضرین پر ہیبت طاری تھی، فریادی نے دہائی دی: اے بادشاہ تیری حکومت بے مثال ہے۔ تیرے خزانے بے پناہ ہیں۔ تیرے ایک اشارے سے میری بگڑی سنور سکتی ہے۔ تو مانگنے والوں کو دیتا ہے۔ تو ضرورت مندوں کا حاجت روا ہے۔ سارے دولت مند تیرے دیے ہوئے سے دولت مند ہیں۔ میں بھی تیرے در پہ آیا ہوں۔ میری فریاد سن۔ میری حاجت پوری کر۔
بادشاہ نے فریادی کی بات سنی اور اسے اس کی تمنا سے کہیں زیادہ دے دیا۔ فریادی نہال ہو گیا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ فریادی کا بیٹا یہ سب کچھ حیرت سے دیکھتا رہا۔ اس نے دربار میں کوئی بات نہیں کہی تھی۔ جب دونوں باہر نکلے تو اس نے کہا: ابا جان ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ باپ نے بیٹے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ بیٹے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: اگر آپ کی رسائی بادشاہ کے دربار تک ہے تو پھر آپ دوسروں سے کیوں مانگتے ہو۔ ہمیں دربار تک جانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بادشاہ تک پہنچنے کے لیے کسی سفارش یا رشوت کی ضرورت نہیں پڑی۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بادشاہ نے کسی کو اپنا نائب یا مددگار بھی نہیں مقرر کیا۔ جس ملک کا بادشاہ اتنا با اختیار اور اتنا اعلیٰ ہو، اس ملک کی رعایا کا کسی اور کے پاس جانا ظلم نہیں ہے ؟
فریادی خاموش رہا۔ وہ شاید کوئی بات نہیں بنا پا رہا تھا یا اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔
باپ اور بیٹا خاموشی سے چل رہے تھے۔ لیکن راستے کے پتھر، درختوں کے سائے، پھولوں کی مہک، پرندوں کے نغمے، ہر ہر شے ایک ہی بات کہہ رہی ہے:
بادشاہ سب سے برتر ہے، بادشاہ سب کی سنتا ہے۔
فریادی ظالم ہے، اسی لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔
____________
نفرت کا علاج
بصاری کے شہر میں کبھی ایک بہت ہی رحم دل شہزادہ آباد تھا۔ جس سے ساری رعایا پیار کرتی تھی۔ جس کی ساری رعایا دل سے عزت کرتی تھی۔ مگر اسی شہر میں ایک ایسا قلاش بھی رہتا تھا جسے شہزادے سے بڑی نفرت تھی اور وہ ہمیشہ اس کے خلاف زہر اگلتا رہتا تھا۔
شہزادے کے کانوں تک یہ سب کچھ پہنچ تو جاتا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہتا۔ آخر اس کا علاج یہ نکالا کہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی رات، اپنے غلام کو آٹے کی ایک بوری، صابون کا ایک گٹھا اور شکر کا ایک توڑا دے کر اس قلاش کے یہاں بھیجا۔
غلام نے اس قلاش سے جا کر کہا: شہزادے نے یہ سب کچھ حضور کی خدمت میں بھیجا ہے۔
قلاش یہ سن کر پھولا نہ سمایا اور یہ سمجھ کر اترا گیا کہ شہزادے نے اسے نذرانہ بھیجا ہے۔ اسی گھمنڈ میں وہ مفتی کے پاس پہنچا اور شہزادے کے تحائف کی تفصیل بتا کر کہنے لگا: ’’دیکھا نا شہزادے کو میری خوش نودی کس قدر منظور ہے!‘‘ مفتی یہ سن کر مسکرایا۔
’’ہاں میں نے دیکھا کہ کس قدر دانش مند ہے، شہزادہ اور کس قدر بے وقوف ہو تم۔ لیکن تم نہیں سمجھے کہ وہ باتیں استعاروں میں کرتا ہے۔ آٹے کی بوری یہ تمھارے خالی پیٹ کے لیے ہے۔ صابن میلے لباس کو اجلا کرنے کے لیے ہے اور شکر کڑوی زبان کو شریں بنانے کے لیے!‘‘
اس دن سے اس قلاش کو خود اپنے آپ سے نفرت ہو گئی، مگر شہزادے کے خلاف جو کدورت تھی اس کی شدت پہلے سے بھی بڑھ گئی.... اور اس مفتی کو تو وہ زہر سمجھنے لگا جس نے اس شہزادے کی عظمت کا راز اجاگر کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس قلاش نے اپنی زبان سے کبھی شہزادے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔
(کلیاتِ خلیل جبران، ص ۲۹۶)