’’ملاقات‘‘ کے اس سلسلے کا مقصد قارئینِ ’’اشراق‘‘ کو اہم شخصیات کے خیالات سے انھی کی زبانی آگاہ کرنا اور دین پر غور و فکر کے دوسرے زاویوں سے باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ اور بغیر کسی تعصب کے مذہبی آرا کی صحت اور عدمِ صحت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ان شخصیات کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ مدیر
محقق عالم قصرِ علم میں بنیاد کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، مگر بنیاد کا المیہ یہ ہے کہ وہ عمارت کا بوجھ اٹھائے ہمیشہ نظروں سے اوجھل زیرِ زمین رہتی ہے۔ اسی طرح محققین بھی قصرِ علم کے کلس پر چمکنے والی سنہری کلغی کے بجائے پیچیدہ اور ثقیل تحریروں کی اوٹ میں چھپے رہتے ہیں۔ جناب عبد الستار غوری بھی ایک محقق عالم ہیں۔ وہ معہد العلم الاسلامی، المورد سے وابستہ ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل میں موجود پیشین گوئیوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ تحقیق جس قدر اہمیت رکھتی ہے وہ اسی قدر خاموشی اور گوشہ نشینی سے اس میں منہمک ہیں۔
غوری صاحب مشرقی پنجاب کے ایک شہر پٹیالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد جھنگ میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور معلم کیا اور ایم اے- بی ایڈ کرنے کے بعد ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، لیکن شعوری طور پر دین کو جاننے کا عمل مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی تحریروں سے شروع ہوا۔ وہ جلد ہی جماعتِ اسلامی کے گرویدہ ہوگئے اور ۱۹۵۲ سے ۱۹۵۵ تک جھنگ شہر اور ۱۹۵۶ سے ۱۹۵۸ تک گوجرانوالہ میں جماعتِ اسلامی کے فعال کارکن رہے۔ جب ۱۹۵۸ میں قومی اسمبلی کی بساط لپیٹ کر پہلا مارشل لا نافذ ہوا اور سیاسی ہنگاموں میں کمی ہوئی تو غوری صاحب دینی تعلیم کی طرف راغب ہوئے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ وہ محض اس لیے مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا ہے۔ اگر وہ کسی غیر مسلم کے ہاں پروان چڑھتے تو کبھی مسلمان نہ ہوتے۔ اس سوچ نے انھیں مجبور کیا کہ وہ دینِ اسلام کی عقلی بنیادوں سے واقف ہوں۔ اس جستجو نے انھیں بائیبل کے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ اب جبکہ وہ گزشتہ دو برسوں سے اپنا تمام وقت اسی کام میں صرف کیے ہوئے ہیں، ہم نے ’’اشراق‘‘ کے قارئین کے لیے ان کی اس جستجو اور تحقیق کے حوالے سے گفتگو کا اہتمام کیا۔ اس گفتگو میں راقم کے علاوہ طالب محسن صاحب اور محمد بلال صاحب بھی شریک تھے۔
ہم نے رسمی گفتگو کے بعد دریافت کیا کہ انھوں نے بائیبل ہی کو اس کام کے لیے کیوں منتخب کیا تو وہ گویا ہوئے:
’’میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پیغمبرِ اسلام واقعی اللہ کے رسول ہیں تو قرآن اور اس کے مندرجات کی حقانیت واضح ہو جائے گی کیونکہ دینِ اسلام کا محور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ میں صرف اسی صورت میں یہ کہہ سکوں گا کہ دینِ اسلام کو میں نے وراثت ہی میں نہیں پایا بلکہ اسے حقیقت جان کر اختیار کیا ہے۔ جب قرآن کو اس نظر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سابق انبیا کے برعکس یہاں معجزے کو دلیلِ نبوت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس ضمن میں کفار کے مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہونے کے وجہ سے دوامی پیغمبر ہیں، جبکہ معجزہ تو محض دیکھنے والوں کے لیے دلیل ہو سکتا ہے اسی لیے آنحضرت کو حسی معجزات نہیں دیے گئے۔ اس کے بجائے قرآن نے ایک تو پیغمبرِ اسلام کی ذات کو دلیل کے طور پر پیش کیا کہ ان کے اندر پائی جانے والی خصوصیات صرف ایک پیغمبر ہی میں ہو سکتی ہیں۔ دوسری دلیل کی حیثیت سے خود قرآن کو پیش کیا گیا کہ یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں دلیلوں کی وضاحت ہمارے مسلمان علما نے بہت عمدہ طریقے سے کی ہے اور اس ضمن میں بڑا قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ اس طرح کے لٹریچر میں ایک مسلمان کے لیے تو بلاشبہ بہت اپیل ہے، مگر ایک غیر مسلم کے نزدیک اس کی حیثیت مختلف ہے۔ چنانچہ ان دو دلائل کے علاوہ قرآن نے ایک تیسری دلیل بھی پیغمبرِ اسلام کی رسالت کے ضمن میں بڑی تحدی کے ساتھ پیش کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب آپ کو اپنی کتابوں میں واضح طور پر لکھا ہوا پاتے ہیں اور اس حوالے سے وہ آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے کوئی باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر دلائل و شواہد سے یہ بات ثابت ہو جائے تو موجبِ اطمینان ہو گا۔ بھلا کوئی شخص اپنے پیدا ہونے سے کئی سو سال پہلے بطور نبی مبعوث ہونے کی پیش گوئی کیسے کر سکتا ہے۔ یہ بات نہ صرف قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی صداقت کی دلیل ہو گی بلکہ جس کتاب میں یہ بیان ہوئی ہے اس میں کلامِ الٰہی کے موجود ہونے کی بھی دلیلِ محکم ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اپنے آپ کو دوسری کتابوں کا مصدق یعنی تصدیق کرنے والا قرار دیا ہے ۔‘‘
اس موقع پر طالب محسن صاحب نے موضوع کا رخ بدلتے ہوئے سوال کیا: ’’آپ نے ایک بھرپور مذہبی زندگی گزاری ہے یہ بتائیں کہ وہ کیا چیز ہے جس سے آدمی نیکی پر قائم رہتا ہے ؟‘‘
غوری صاحب نے کچھ لمحوں کے لیے توقف کیا اور گویا ہوئے: ’’اس میں ایک چیز تو قرآنِ مجید کا مطالعہ ہے اور دوسری نیک لوگوں کی صحبت۔ اگر فی الواقع کسی سچے مسلمان کی صحبت نصیب ہو جائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ کسی زمانے میں، میں اس تلاش میں رہا اور اس دوران میں متعدد لوگوں سے فیضِ صحبت حاصل ہوا۔ اخلاص و تقویٰ میں مجھ پر سب سے زیادہ گہرا اثر جامع محمدی شریف جھنگ کے بانی مولانا محمد ذاکر اور وزیر آباد کے ایک گمنام بزرگ حکیم محمد عبد اللہ کا ہوا۔ مولانا اللہ یار خان آف چکڑالہ کی صحبت بھی نصیب ہوئی۔ ان کی محفل میں ’’ذکر‘‘ بہت اہتمام سے کیا جاتا اور اس میں لطف بھی بڑا آتا۔ اس دوران میں تہجد بھی خوب پڑھتا۔ اور اس میں بڑا انہماک ہوتا مگر یہ خلش بھی ذہن میں مسلسل رہی کہ اگر اس طرح کا ذکر کوئی مطلوب ومحبوب چیز ہوتی تو ہمارے پیارے نبی نہ صرف اس کی تعلیم دیتے بلکہ اس کی تعلیم پر بہت زور بھی دیتے۔ پھر دوسری خلش یہ محسوس کی کہ اس لطف اور لذت کا انسان کے عمل اور کردار پر اثر کیوں نہیں پڑتا۔‘‘
یہ انکشاف بظاہر بڑا حیران کن تھا۔ میں نے اس اجمال کی مزید وضاحت مناسب خیال کی اور پوچھا: ’’آپ لطف و لذت اور انسان کے عمل و کردار کا آپس میں تعلق کیسے پیدا کرتے ہیں؟‘‘
’’اس لطف و سرور نے میرے کردار اور عمل میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی۔ میرے اندر اگر کوئی نیکی تھی تو وہ پہلے سے موجود تھی، اس ذکر نے اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا نکھار پیدا نہیں کیا۔‘‘
غوری صاحب کی یہ وضاحت اگرچہ کافی تھی لیکن معاملے کو دو اور دو چار کی طرح واضح کرنے کے لیے میں نے کہا: ’’جس طرح نماز کے بارے میں قرآن کا فرمان ہے کہ: ’ان الصلوٰة تنھی عن الفحشا والمنکر‘ اس حوالے سے آپ ذکر کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ ’ان الذکر ینھی عن الفحشا والمنکر‘۔‘‘
غوری صاحب ہماری بات کی تصدیق کرتے ہوئے بولے: ’’جی ہاں، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ اس ذکر میں لذت اور سرور بہت تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن نے نماز کو بھی ذکر کہا ہے اور نماز کا یہ مقصود و منتہا قرار دیا ہے کہ اس سے انسان کے دل میں اللہ کی یاد تازہ رہتی ہے۔‘‘
لذت اور سرور کے لفظوں میں چھپی ہوئی پرُاسراریت نے ہمیں متجسس کر دیا تو ہم غوری صاحب سے ان کا مفہوم بتانے کی فرمائش کر بیٹھے۔ جواب میں انھوں نے ایک دل آویز قہقہہ لگایا اور کہا: ’’بھلا اس کیفیت کو میں الفاظ میں کیسے بیان کروں۔‘‘ میں نے اپنی پریشانی کی وجہ بیان کرتے ہوئے عرض کی کہ دراصل جو آدمی دین کو جدید طرز پر جاننے اور کہنے کا عادی ہے، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے لیکن جو شخص روایتی ذہن اور عام علمی پس منظر رکھتا ہے وہ اسی سرور اور لذت کے حصول کو حق کا معیار سمجھے گا اور پھر اس عبادت اور مشغلے کو عین دین خیال کرے گا جس سے اسے لذت ملتی ہو گی، اس وجہ سے میں ان کیفیات کی حقیقت کو واضح کرنا بہت اہم سمجھتا ہوں۔
غوری صاحب بولے: ’’یہ بالکل درست بات ہے کہ لوگ اس لذت اور سرور کو حق کا معیار اور دین میں مطلوب سمجھتے ہیں اور اس لیے اس طرح کے حلقوں میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ مگر میں اپنی بات کر رہا تھا کہ میں نے تو اس وجہ سے اس حلقے کو خیر باد کہا کہ مجھے حدیث و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہ مل سکی۔ باقی رہا معاملہ لذت و سرور کا، تو یہ ایک سنجیدہ اور ذی شعور انسان کا مقصدِ حیات نہیں بن سکتا۔ وہ تو عرصۂ حیات کے ایک ایک لمحے کو اللہ کی امانت اور اس کے متعلق اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ سمجھتا ہے۔ لذت و سرور کو اگر دینی تجربے کا مقصد قرار دے لیا جائے تو یوگا، تپیسا اور رقص و موسیقی عین دین قرار پائیں گے، جیسا کہ بعض مذاہب نے غلطی سے سمجھ لیا ہے۔‘‘
طالب محسن صاحب نے ایک مرتبہ پھر غوری صاحب کے ماضی کو آواز دی اور پوچھا: ’’ یقیناً آپ کا واسطہ ہر مذہبی حلقے سے رہا ہو گا، اس حوالے سے بتائیے کہ آپ نے مقابلتاً کس طرح کے لوگوں کو بہتر پایا؟‘‘
جماعت اسلامی کے ساتھ کام کرتے ہوئے میرا احساس یہی رہا ہے کہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے یہ لوگ معاشرے کے بہتر لوگ ہیں۔ میرا عام علما سے بھی خاصا رابطہ رہا ہے، میں خود بھی سالہاسال تک جمعے کا خطبہ دیتا رہا ہوں، لیکن علما کے طبقے نے مجھ پر زیادہ اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ بعض بہت اعلیٰ کردار کے تھے، لیکن اکثریت میں ایک طرح کا پیشہ وارانہ رویہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جماعتِ اسلامی کے ہاں ایک بے غرض، ایمان دار اور بے لوث سچائی دیکھنے کو ملتی۔ مثلاً ایک دفعہ ایک سفر کے دوران میں راستے میں میری جیب کٹ گئی یا پیسے کھو گئے۔ اب میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا۔ مجھے تقریباً ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر جانا تھا، کرایہ چند آنے تھا۔ میں گاڑی پر بغیر ٹکٹ ہی کے بیٹھ گیا اور اسٹیشن پر اتر گیا۔ وہاں جا کر میں نے جماعت کے مقامی امیر مولانا محمد یعقوب ندوی سے اس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے حکم دیا کہ میں نے جو سفر کیا ہے اس کا ٹکٹ خرید کر اسے پھاڑ دوں۔ یہ تھا ان لوگوں کے ہاں ایمان داری، ذمہ داری اور اقدار کی پاس داری کا حال۔ لیکن آج جماعت کی کیا صورتِ حال ہے، اس کے متعلق میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اب میرا جماعت سے کوئی عملی تعلق نہیں۔
غوری صاحب خاموش ہو گئے تو ہم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی ذات کے متعلق گفتگو کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، چنانچہ ان کے زیرِ تحقیق موضوع پر دوبارہ بات شروع ہوئی تو وہ کہنے لگے:
’’اہلِ اسلام قرآن کو جس طرح سے منزل من اللہ جانتے ہیں، اہلِ کتاب بائیبل کو اس طرح نہیں مانتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بائیبل میں موجودہ حالت میں کلامِ الٰہی بھی موجود ہے اور تحریفات اور اضافے بھی۔ بائیبل کے تقریباً تمام ذمہ دار علما و مفسرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں۔ بائیبل کے متعلق قرآن نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ من وعن صحیح ہے۔ جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بائیبل نے پیغمبرِ اسلام کے متعلق نہایت واضح پیشین گوئیاں بیان کی ہیں۔
ظاہر ہے اس طرح کی حقیقت کو بے نقاب کرنا یا اسے دریافت کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بطور مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے دائرۂ اثر اور استعداد کی حد تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، وہ اسے مانیں یا نہ مانیں، ان کی مرضی، لیکن اگر غیر مسلم امتِ مسلمہ کی غفلت کے باعث اسلام سے دور اور بیگانے رہتے ہیں تو یقیناً ہم گناہ گار ٹھیرتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر اس ذمہ داری سے عہدہ براہونے کے لیے مناسب خیال کیا کہ کیوں نہ قرآن کے اس دعوے کے متعلق تحقیق کی جائے کہ ’یعرفونه کما یعرفون ابناءھم‘ اور سچی بات یہ ہے کہ اگر بائیبل میں موجود پیغمبرِ اسلام کے متعلق پیشین گوئیوں کو نہ مانا جائے تو خود ان صحائف کی تکذیب ہو جائے گی۔ کیونکہ ان میں بیان کی ہوئی پیشین گوئی کے مطابق وہ ’’نبی‘‘ نہیں آیا، تو یہ پیشین گوئی اور اسے بیان کرنے والی کتاب جھوٹی قرار پاتی ہے۔‘‘
’’لیکن سوال یہ ہے کہ آپ جس شد ومد کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بائیبل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیاں اس صراحت سے بیان ہوئی ہیں تو کیا اہلِ کتاب کو یہ نظر نہیں آتیں؟‘‘
غوری صاحب قدرے توقف کے بعد بولے ’’دراصل ہمارے علما نے اس موضوع پر کبھی تحقیقی انداز اپنایا ہی نہیں، وہ اسے مناظرانہ طریقے سے سامنے لاتے ہیں اور مناظرے میں فتح حاصل ہو بھی جائے تو اس سے آپ مخاطب کا دل نہیں جیت سکتے!‘‘
بلال صاحب نے کہا: ’’ احمد دیدات صاحب کا نام اس ضمن میں بڑا اہم سمجھا جاتا ہے وہ بائیبل کے بہت بڑے عالم کے طور پر مشہور ہیں، ان کے کام کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
غوری صاحب بولے: ’’ احمد دیدات بھی اگرچہ کثیر المطالعہ، ذہین اور حاضر جواب صاحبِ ِعلم ہیں، لیکن بنیادی طور پر وہ ایک مناظر ہیں۔‘‘
غوری صاحب چند لمحوں کے لیے پھر رکے: ’’اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیاں صراحت کے ساتھ موجود ہونے کے باوجود اہلِ کتاب انھیں تسلیم کیوں نہیں کرتے تو اس کی ایک وجہ تو جہالت، تعصب اور بے اعتنائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم علما نے تحقیق و تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘
اس موقع پر ہم نے سوال کیا: ’’قرآن میں تصریح ہے کہ اہلِ کتاب نے اپنی کتب میں تحریف کی، جبکہ عیسائی یہ بات تسلیم نہیں کرتے۔ اس بارے میں کچھ بتائیے؟‘‘
یہ بات تو صرف یہاں کے عیسائی کرتے ہیں کہ بائیبل میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہے، ورنہ آپ بائیبل کی انگریزی کی کوئی تفسیر یا حواشی اٹھا کر دیکھ لیں، ہر ایک میں لکھا ہو گا کہ یہ کتاب معلوم نہیں کہاں سے آ گئی، یہ بات اضافی ہے اور یہ سطر بدل دی گئی ہے، اس پیرے میں ان الفاظ کی کمی کر دی گئی ہے۔ یعنی وہ ہر قسم کی تحریف کو مانتے ہیں۔ یوں یہ بات ہرگز متنازع نہیں کہ بائیبل میں تحریف ہوئی ہے۔‘‘
اس موقع پر ہمیں مناسب معلوم ہوا کہ بائیبل کا تاریخی پس منظر سامنے آ جائے۔ غوری صاحب نے بھی اس موضوع کی افادیت محسوس کی اور گویا ہوئے:
’’بائیبل کے دو حصے ہیں ایک عہد نامۂ عتیق (Old Testament) اور دوسرا عہد نامۂ جدید (New Testament)۔ پہلے حصے کی اصل زبان عبرانی (Hebrew) ہے اور دوسرے کی یونانی (Greek) پہلے حصے میں ۳۹ کتابیں ہیں اور ان کی تصنیفی تاریخ کہ وہ کب اور کیسے معرضِ وجود میں آئیں، اس کے متعلق کوئی بھی محقق یا مفسر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ کب لکھی گئیں، کس نے لکھیں اور ان کو مدون کس نے کیا۔ البتہ ۵۸۶ ق م میں بخت نصر کے یروشلم پر حملے سے پہلے اس کا بڑا حصہ موجود تھا۔ اور تیسری صدی قبل مسیح میں اس کا یونانی زبان میں ترجمہ بھی مکمل ہو چکا تھا جسے انگریزی میں’Septuagint‘ اور اردومیں ہفتاوی ترجمہ کہا جا سکتا ہے۔ یوں اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے اڑھائی تین سو سال قبل عہدنامۂ قدیم کی کتب معرضِ تحریر میں آچکی تھیں۔ جن میں بعض ضعیف درجے کی کتب (Apocrypha) بھی موجود تھیں۔
بائیبل کے دوسرے حصے یعنی عہد نامۂ جدید میں ستائیسں کتب و مکاتیب وغیرہ شامل ہیں ان کے زمانۂ تصنیف کے متعلق متعین طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ دوسری صدی عیسوی میں ان کا موجود ہونا کافی حد تک قرینِ قیاس ہے۔ اس کی پہلی چار کتب چار مختلف انجیلوں پر مشتمل ہیں جن کے مرتبین اور زمانۂ تدوین کے متعلق بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ ۷۰ ء اور ۱۲۰ ء کے درمیان مختلف اوقات میں منصۂ شہود پر آئیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ تمام کتب ابتدا ہی میں یونانی زبان میں لکھی گئیں۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان آرامی (Aramaic) تھی اور حضرت مسیح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام یونانی میں نہیں بلکہ آرامی زبان میں لوگوں تک پہنچایا تھا۔ گویا یہ اناجیل اپنی اصلی زبان میں سرے سے کبھی لکھی ہی نہیں گئیں۔‘‘
بائیبل کے اس تعارف کے بعد طالب محسن صاحب نے سوال کیا:
’’آپ نے بائیبل میں کتنی پیشین گوئیوں کو متعین کیا ہے؟‘‘
’’میں نے عہد نامۂ عتیق میں موجود ایک پیشین گوئی پر اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ جو تقریباً ایک سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی کتاب ’’غزل الغزلات‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام ایک آنے والے پیغمبر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی شکل و صورت ایسی ہوگی، ان کی عادات ایسی ہوں گی اور وہ کیسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیں گے۔ اس طرح شمائلِ نبوی یوں بتاتے چلے جاتے ہیں جیسے وہ پیغمبرِ اسلام کو بچشم سر دیکھ رہے ہوں اور آخر میں کہتے ہیں کہ یہ ہے میرا وہ پیارا جو آئے گا۔ آنحضرت کے لیے عبرانی زبان میں وہ جو لفظ استعمال کرتے ہیں وہ ہے محمدیم۔ اردو بائیبل میں اس کا ترجمہ ’’سراپا عشق انگیز‘‘ کیا گیا ہے اور انگریزی میں اس کا ترجمہ ’altogether desirable‘ یا ’altogether lovely‘ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ اسم علم کے طور پر استعمال ہوا ہے، صفت کے طور پر نہیں۔ اور یہاں اس کا کوئی متبادل یا ترجمہ نہیں بلکہ اصل عبرانی لفظ محمدیم (حضرت محمد) ہی لکھا جانا چاہیے تھا۔ یہ لفظ اب بھی عبرانی نسخوں میں موجود ہے۔ اور میں نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے اور اس کے متعدد حوالے دیے ہیں۔‘‘
’’اس معاملے میں اہلِ کتاب کا کیا موقف ہے ؟ کیا وہ اسے پیغمبرِ اسلام کے متعلق پیشین گوئی مانیں گے ؟‘‘
’’جہاں تک اس پیشین گوئی کا تعلق ہے تو اس میں رتی بھر شبہ نہیں کہ اس کا مصداق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بات بھی نہیں کہ غزل الغزلات کو بائیبل کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا، البتہ جس طرح مختلف مسیحی علما بائیبل کے ہر حصے پر کوئی نہ کوئی اعتراض وارد کرتے ہیں، اسی طرح اسے بھی عجیب و غریب تاویلات کی خراد چڑھا کر اس کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے ایسے کئی مستشرقین کی تحریریں دیکھی ہیں جو پیغمبرِ اسلام کے بارے میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ میں جو صفات ہیں، وہ کسی پیغمبر ہی کی ہو سکتی ہیں اور یہ بھی دلچسپ صورتِ حال دیکھنے میں آئی ہے کہ ایک مستشرق نے اگر آپ پر کوئی اعتراض کیا ہے تو دوسرا اس کا جواب دیتا ہے۔ میں نے اس حوالے سے بھی ضمنی طور پر کام کیا ہے۔ بہت سے مستشرقین بحُیرا راہب کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ وہ ذاتِ شریف ہے جس سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ’’ کاروبارِ نبوت‘‘ سیکھا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قصے کی روایات نہ سنداً قابلِ اعتنا ہیں اور نہ درایتاً ان کو درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ دراصل یہ سارا واقعہ ہی من گھڑت ہے۔ نہ یہ سفر ہوا اور نہ آنحضرت کی کسی بحیرا نامی شخص سے ملاقات ہوئی۔ ان موضوعات پر بھی میں نے کام کیا ہے۔‘‘
اس موقع پر ہم نے پیشین گوئی کے حوالے سے ایک اور سوال کیا: ’’کیا کوئی ایسا واقعہ ہے کہ بائیبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئی پڑھ کر کوئی غیر مسلم اسلام لے آیا ہو؟‘‘
’’اس دور میں تو اس طرح کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ مثلاً ملیشیا کے عبد الاحد داؤد۔ وہ بہت بڑے پادری (بشپ) تھے مگر بائیبل کے غیر جانبدارانہ معروضی مطالعے نے انھیں مسلمان کر دیا۔ اصل میں خاندانی مذہب کا انسان پر اس قدر گہرا اثر ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کو چھپا دیتا ہے۔ ورنہ بائیبل تو پیغمبرِ اسلام کے بارے میں زبانِ حال سے پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ مثلاً انجیل یوحنا کے باب چودہ، پندرہ اور سولہ کو دیکھیے۔ یہ ابواب پیغمبرِ اسلام کے بارے میں اس قدر واضح ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح باربار فرما رہے ہیں کہ میں جاؤں گا تو وہ آئے گا۔ یعنی میں اور وہ کے الفاظ میں۔ اپنے لیے متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور رسول اللہ کے لیے غائب کا۔ مگر یہ لوگ ان دونوں صیغوں سے مراد حضرت عیسیٰ ہی کو لیتے ہیں کہ عیسیٰ جائے گا اور عیسیٰ یا روح القدس آئے گا۔ عقل باور نہیں کرتی کہ کوئی ذی شعور انسان یہ تاویل کیسے کر سکتا ہے۔‘‘
اس موقع پر ہمیں انجیل برناباس کا خیال آیا کہ اس میں بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی واضح پیشین گوئیاں موجود ہیں، لیکن عیسائی اس انجیل کو مسلمانوں کی خود ساختہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں ہم نے غوری صاحب سے پوچھا تو وہ بولے:
’’انجیل برناباس میں کم از کم چودہ مرتبہ پیغمبرِ اسلام کا نامِ نامی لے کر پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس کے بیشتر مضامین بہت عمدہ ہیں۔ میں پوری انجیل کی بات نہیں کر رہا، تاہم اس کا بڑا حصہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی اللہ کا کوئی پیغمبر بات کر رہا ہے، لیکن عیسائی چونکہ اسے قابلِ اعتنا نہیں گردانتے، اس لیے میں نے اس سے کوئی استشہاد نہیں کیا۔ دراصل عیسائیوں کی علمی اور تصنیفی تاریخ میں کسی کتاب کے متعلق یہ یقین سے نہیں کہا جاتا کہ یہ کس نے لکھی یا مرتب کی۔ ہر ایک نام کے بارے میں اختلاف موجود ہے، یعنی یقینی طور پر آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ان کے جو اصول (Canon) ہیں جن پر وہ انجیلوں کوپرکھتے ہیں یہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک انجیل برناباس موجود تھی اور برناباس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ میرے نزدیک یہ ان کے بارہ حواریوں (Twelve Disciples) میں سے تھے اور حواریوں کی بعض فہرستوں میں ان کا نام شامل ہے، لیکن عیسائی اسے تسلیم نہیں کرتے۔ موجودہ انجیلوں میں موجود فہرستوں میں ان کا نام بارہ حواریوں میں نہیں آتا، لیکن بعض دوسری فہرستوں میں یہ موجود ہے۔‘‘
اس موقع پر بلال صاحب نے سوال کیا: ’’عیسائیوں کے اس انجیل کو نہ ماننے کے کیا اسباب ہیں؟‘‘
دراصل ان کا موقف یہ ہے کہ انجیل برناباس مسلمانوں کی تصنیف ہے، لیکن یہ الزام غلط ہے۔ اگر یہ مسلمانوں کی تصنیف ہوتی اسے بہت پہلے پیش کیا جا چکا ہوتا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس انجیل کو خود عیسائیوں نے ڈھونڈا ہے۔ اصل میں یہ مسّلم بات ہے کہ حضرت برناباس کی انجیل یقینی طور پر موجود تھی اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کی رد (Rejected) کی ہوئی انجیلوں کی فہرست میں اس انجیل کا نام موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نام کی انجیل موجود ہی نہیں تھی تو اس کو مسترد کیسے قرار دیا گیا۔ اس کا ممنوع قرار دینا اس کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے، عیسائیوں کے ایک پوپ ہیں جیلاشس۔ ان کا فرمان ’’جیلاشین ڈکری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں باقاعدہ اسے مسترد کردہ کتب میں شامل کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پابندی عائد کرنے یا ممنوع قرار دینے کی وجہ کیا ہے؟ یقینی طور پر اس میں کوئی ایسی بات موجود ہے جو ان لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی۔ وہ کیا بات تھی؟ اس کو جاننے کے لیے ہمیں برناباس کی حقیقت جاننا ہو گی۔
خود لفظ برناباس غور طلب ہے، بناس یانبا کا مطلب ہے نبوت اور پیشین گوئی۔ اس طرح برناباس کا مطلب بنا، نبوت والا یا خوش خبری دینے والا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ’Son of Prophecy‘ کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ حضرت برناباس کا اہم فریضہ یہ تھا کہ وہ پیغمبرِ اسلام کے متعلق پیشین گوئی بیان کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آخری تعلیم ہی یہ تھی کہ میرے جانے کے بعد جو آنے والا ہے اسے مانا جائے اور اس بات کا اعلان برناباس کرتے تھے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے ان کا نام پیشین گوئیوں والا یا خوش خبری دینے والا پڑ گیا۔ اور دورِاول میں برناباس کی انجیل کو رد کرنے کی وجہ اس میں موجود توحید تھی۔ اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی ابنیت کی نفی ہے۔ اور یہ پال کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔‘‘
اس موقع پر بلال صاحب نے کہا: ’’انجیل برناباس کے متعدد مقامات پر آنحضرت کے متعلق بعض ایسے اوصاف اور فضائل بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر ضعیف اور موضوع روایات میں ہواہے؟‘‘
غوری صاحب کہنے لگے: ’’اصل میں جب کوئی انجیل لکھی جاتی تھی تو اس کی شرح و وضاحت بھی کی جاتی تھی۔ مگر اگلے ایڈیشن میں یہ شرح و وضاحت اسی انجیل کا حصہ بن جاتی۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کر رہا، بلکہ خود عیسائی علما اسے تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ جب اندلس میں اس انجیل کے بارے میں معلوم ہوا ہو تو کسی خوش اعتقاد اور ناپختہ صاحبِ علم مسلمان نے اس کی شرح لکھی ہو اور بعد میں یہ شرح بھی اسی کا حصہ بنا دی گئی ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود میں نے اس انجیل کی پیشین گوئیوں کو موضوعِ تحقیق نہیں بنایا، بلکہ میں نے ان کتابوں اور حوالوں کو موضوع بنایا ہے جو عیسائیوں کے ہاں تسلیم شدہ ہیں۔‘‘
انجیل برناباس پر غوری صاحب کے اس تبصرے کے بعد ہم نے اس پر مزید گفتگو لاحاصل سمجھی اور پوچھا: ’’کیا یہ بات حقیقت ہے کہ پال کی ابنیت کے عقیدہ کے علی الرغم عیسائیوں کے ہاں توحید کا عقیدہ بھی رائج رہا ہے۔ کیونکہ حبشہ کے نجاشی اور حضرت سلمان فارسی کی داستان سے اسی طرح کے عیسائیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کیا اس وقت بھی عیسائیوں کا ایسا کوئی فرقہ ہے جو توحید پر ایمان رکھتا ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابنیت کو نہ مانتا ہو؟‘‘
’’خالص توحیدی عقائد تو شاید کسی کے نہ ہوں لیکن جدید پڑھے لکھے لوگ اس کی طرف آ رہے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو نواحِ عرب کے متعدد لوگ حضرت عیسیٰ کی ابنیت کے منکر تھے اور توحید پر ایمان رکھتے تھے۔‘‘
اس موقع پر ہمارے ذہن میں عیسائیوں کے دو اہم فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے نام آئے تو ہم نے غوری صاحب سے گزارش کی کہ وہ ان کے درمیان فرق کو واضح کریں؟
’’کیتھولک فرقے کی پاپاے روم کے ساتھ غیر مشروط اطاعت ہے اور اس میں کتاب یعنی بائیبل کا دخل کم ہوتا ہے اور پوپ کے ارشادات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ اور کتاب کی تعبیر و تشریح کا حتمی اختیار بھی پوپ کو حاصل ہے اور اس کے متعین کردہ مفہوم کو کسی جگہ چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ پھر پندرھویں سولھویں صدی عیسوی میں جرمنی میں ایک شخص مارٹن لوتھر ( ۱۴۸۳ تا ۱۵۴۶) نے ایک زور دارتحریک شروع کی اور کہا کہ اصل حیثیت کلامِ الٰہی کو حاصل ہے۔ اس نے پوپ کی اس اجارہ داری پر احتجاج یعنی ’Protest‘ کیا۔ یوں یہ لوگ ’Protestant‘ کہلائے۔ اصل میں کیتھولک کتاب کو عام کرنے کے بڑے خلاف تھے ۔انھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر کتاب کو عام کر دیا گیا تو ان کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔ اس موقع پر لوتھر کے ایک ہم عصر انگریز ٹنڈل (۱۴۹۴ تا ۱۵۳۶) کا ذکر بے محل نہ ہو گا ’Tyndale‘ نے بائیبل کی اشاعت کے سلسلے میں گراں قدر قربانیاں دیں اور ناقابلِ بیان اذیِتیں برداشت کیں۔ اس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ میں ایک عام کسان لڑکے کو بھی اتنی بائیبل سکھا دوں گا کہ وہ اسے پادریوں سے بھی زیادہ سمجھنے لگے گا۔ اس نے جلاوطنی برداشت کی۔ قید و بند میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ اسے زندہ جلانے کی سزا دی گئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ بائیبل سمگل ہو کر برطانیہ پہنچا۔ مصلحین کی قربانیاں رائیگاں نہ گئیں اور بائیبل کے ترجمے اور تعلیمات کی اشاعت عام ہوئی۔‘
اس موقع پر ہمارے ذہن میں ایک دوسری تحریک کا خیال آیا جو امریکہ میں سائنسی علوم کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے دوران میں وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد سائنس کے مقابلے میں بائیبل کا دفاع تھا اور جسے بنیاد پرستی (Fundamentalism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق غوری صاحب سے سوال کیا تو وہ کہنے لگے:
’’دراصل اس تحریک کے متعلق معلومات میرے دائرۂ تحقیق میں شامل نہیں۔ البتہ نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے یہ بات میں بتائے دیتا ہوں کہ جب بائیبل کے نظریات کے بالکل برعکس سائنسی حقائق سامنے آئے تو پڑھے لکھے طبقے میں بائیبل اور مذہب کو عملی زندگی سے نکالنے کا عمل شروع ہو گیا اور اسی زمانے میں خود عیسائی اہلِ علم میں ایسے مصلح (Reformers) سامنے آئے جنھوں نے بائیبل کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا جبکہ بعض لوگوں نے ایسے مطالعے کی مخالفت کی اور بنیاد پرستی کی روش اپنائی۔‘‘
موجودہ بائیبل کے بارے میں ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ اس میں شامل کسی کتاب یا تحریر کی تصنیفی تاریخ معلوم نہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں کلی طور پر خود ساختہ بھی نہیں کہا جا سکتا تو پھر کون سی رائے قرینِ صواب ہے؟‘‘
’’ان کے بارے میں محتاط ترین رائے یہی ہو سکتی ہے کہ یہ نبیوں کے قریبی ساتھیوں کی روایت کی ہوئی باتیں ہیں۔ ان میں حقیقت کے ساتھ ساتھ زیبِ داستان کے لیے بھی بہت کچھ بڑھایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر پڑھتے ہوئے آدمی پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام اور نبی کا فرمان ہی ہو سکتا ہے اور بعض جگہوں پر اخلاق سے گری ہوئی ایسی باتیں ہیں جو کسی محفل میں بیان ہی نہیں کی جاسکتیں، لیکن اہلِ کتاب یہ ایمان رکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ کتابیں لکھی ہیں، انھیں اللہ اور روح القدس کی تائید حاصل تھی۔ اللہ نے ان کے قلم سے کسی ایسی بات کو نکلنے ہی نہیں دیا جو اس کی مرضی کے خلاف تھی۔ یوں وہ اقرار کرتے ہیں یہ کلام من و عن کلامِ الٰہی ’Word of God‘ تو نہیں لیکن بہرکیف جو کچھ لکھا گیا وہ اللہ کی طرف سے ان پر نازل ہوا یا کم از کم اللہ ان کے کلام پر نگہبان تھا۔‘‘
قرآنِ مجید میں جہاں عیسائیوں کے اس باطل عقیدے کا تذکرہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کو ابن اللہ گردانتے ہیں وہاں یہودیوں کے دیگر جرائم میں ایک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ حضرت عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں۔ اس پر یہودی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہودیوں میں اس طرح کا عقیدہ کہیں نہیں پایا جاتا۔ ہم نے غوری صاحب سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا:
’’قرآن مجید نے یہ بات اپنے مخاطب یہودیوں سے کہی تھی۔ یہ یہودی اصل یہودیوں سے الگ تھے یعنی ان کے ’Main stream‘ میں نہیں تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نسلاً یہود بھی تھے یا نہیں۔ اس لیے انھیں غیر اسرائیلی یہود (Gentile) کہتے ہیں۔ ان کے ہاں نہ تو یہودیوں کی ساری کتابیں موجود تھیں نہ یہ ان تمام عقائد کے حامل تھے جو اصل یہودی مانتے تھے ان کا اصل یہودیوں سے رابطہ بھی نہ تھا۔ بلکہ یہ زیادہ تر عربوں کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے عقائد سے متاثر بھی تھے۔ حضرت عزیر جو اللہ کے نبی تھے اور یہود کے بہت بڑے مصلح، عرب کے یہودیوں نے ان کی عظیم خدمات کی بنا پر انھیں ابن اللہ کہنا شروع کر دیا۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو قرآن کے مخاطب یہود فوراً اس کی تردید کرتے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسانہیں ہوا اور قرآن نے جہاں حضرت عزیر والی بات کی ہے، وہاں یہی الفاظ ہیں کہ ’’یہودی‘‘ حضرت عزیر کے متعلق بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کے الفاظ پر اعتراض کرنے والے یا تو اس پس منظر سے واقف نہیں یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں اور محض اعتراض کرنے کی غرض سے معترض ہوتے ہیں۔‘‘
اس شافی جواب کے بعد آخر میں ہم نے غوری صاحب سے دریافت کیا کہ وہ اپنا کتنا کام مکمل کر چکے ہیں اور یہ کام کس زبان میں کر رہے ہیں وہ بولے:
’’میں اپنا سارا کام انگریزی زبان میں کر رہا ہوں اور مناسب ہوا تو اس کا اردو ترجمہ بھی کروں گا ابھی میں عہد نامۂ عتیق پر کام کر رہا ہوں۔ اور عہد نامۂ جدید یعنی اناجیل کی باری بعد میں آئے گی دراصل میں نے جو کام کیا ہے، وہ یہ بات پیشِ نظر رکھ کرکیا ہے کہ پہلے ہو چکے ہوئے کام کو آگے بڑھایا جائے اور انھی حوالوں اور کتابوں کو سامنے لایا جائے جو اہلِ کتاب کے ہاں مستند اور قابلِ قبول ہیں۔ ان شرائط اور حدود وقیود نے اس کام کو خاصا مشکل بنا دیا ہے۔ مزید یہ کہ اپنے طور پر تو میں یہ کام پچھلے پندرہ برسوں سے کر رہا ہوں، لیکن پچھلے دو برسوں سے یہ میرا اوڑھنابچھونا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے پاس مواد بھی خاصا ہے۔ کتابوں کا جو ذخیرہ اس وقت میری ذاتی لائبریری میں ہے، وہ شاید پاکستان میں نہ کسی عالم کے پاس ہو گا اور نہ مسلمانوں کی کسی لائبریری میں۔ اور میں نے جو کام مکمل کر لیا ہے عنقریب وہ شائع بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘
غوری صاحب سے اگرچہ اس موضوع پر مزید تفصیل سے گفتگو ہو سکتی تھی، لیکن اسے ہم نے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھا اور ہمارے اظہارِ تشکر پر یہ دلچسپ، مفید اورمعلومات افزا گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔
ـــــــــــــــــــــــــ