اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ خدا کی طرف سے پیش آنے والی یہ آزمایش جہاں عام انسانوں میں سے کھرے اور کھوٹے کو ممیز کر دیتی ہے، وہاں یہ انبیا و صالحین کے لیے ان کی تربیت، درجات کی بلندی اور خدا کے قرب کا باعث ہوتی ہے۔ سورۂ ص کی آیات ۳۴ اور ۳۵ میں اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام پر آنے والی ایک آزمایش کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کا یہ مقام تاویل کے اعتبار سے مشکل ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ مفسرین نے اس کی تاویل میں بڑی محنت کی ہے۔ ذیل میں ہم اس کی تاویل میں پیش کی جانے والی مختلف آرا اور ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ وما توفيقنا الا باللّٰه۔
سورۂ ص کی زیر مطالعہ آیات حسب ذیل ہیں:
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمٰنَ وَاَلْقَيْنَا عَلٰي كُرْسِيِّهٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ. قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۣبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۣ بَعْدِيْﵐ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ.
ان آیات کا سادہ ترجمہ یہ ہے:
’’اور ہم نے سلیمان کو جانچا اور اس کی کرسی پر جسد (یعنی ایک دھڑ[1] )ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا اور دعا کی: اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہ ہو۔ تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔‘‘
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایک ایسی آزمایش آئی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے تخت پر کسی دھڑ کو ڈال دیا تھا۔ وہ اس صورت حال کو دیکھنے کے بعد مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا، اس سے معافی مانگی اور مزید یہ کہ اس سے اپنے لیے ایک بے مثل بادشاہی کی دعا کی۔
مذکورہ آیات میں تاویل کی حسب ذیل مشکلات ہیں:
۱۔ جسد سے کیا مراد ہے ؟
۲۔ جسد کے کرسی پر ڈالنے کا کیا مطلب ہے ؟
۳۔ اس میں آزمایش کس پہلو سے تھی ؟
۴۔ اس موقع پر آپ نے اپنے لیے بے مثل بادشاہت ہی کی درخواست کیوں کی ؟
ان آیات کی تاویل میں درج ذیل آرا پیش کی گئی ہیں:
پہلی رائے یہ کہ ان آیات میں ’جسد‘ سے مراد ایک شیطان ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک غفلت کے نتیجے میں آپ کے تخت پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ آپ اس کی وجہ سے ایک سخت فتنے سے دوچار ہوئے۔ آپ کی وہ غفلت کیا تھی۔ اس کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ آپ کو کسی جزیرہ میں واقع شہر صیدون کے بادشاہ کے متعلق بعض ایسی خبریں پہنچیں، جن کے نتیجے میں آپ نے اس پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ اپنے لاؤ لشکر سمیت دوش ہوا پر اس شہر میں جا پہنچے۔ اس بادشاہ سے جنگ کی اور اسے قتل کر دیا۔ مال غنیمت میں آپ کے ہاتھ اس کی بیٹی بھی آئی۔ یہ مسلمان ہو گئی۔ آپ نے اس سے شادی کر لی۔ چنانچہ یہ آپ کے حرم میں داخل ہو گئی۔ شادی کے کافی عرصہ بعد تک بھی یہ اپنے مرنے والے باپ کو نہ بھول سکی۔ اسے یہ یاد کرتی اور روتی رہتی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر سلیمان علیہ السلام کے حکم پر جنات نے اس کے لیے اس کے باپ کا ہم شکل ایک بت بنا دیا اور اسے وہی لباس پہنا دیا جو وہ پہنا کرتا تھا۔ یہ ملکہ اسے دیکھ کر اپنا دل مطمئن کر لیتی۔ لیکن جلد ہی اس نے اور اس کی کنیزوں نے جو اس کی قوم سے تعلق رکھتی تھیں اس بت کی پرستش شروع کر دی۔ پرستش کا یہ سلسلہ چالیس دن تک جاری رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اس سے یکسر بے خبر تھے۔ بالآخر آپ کے وزیر اعظم آصف بن برخیا نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کے محل میں بت کی پرستش کی جا رہی ہے۔ آپ نہایت برہم ہوئے اور اس بت کو توڑ دیا، ملکہ کو سزا دی اور اپنی طرف سے توبہ کے لیے یہ کیا کہ تن تنہا بیابان میں نکل گئے، راکھ کا فرش بچھایا اور اس پربیٹھ کر اللہ کے سامنے گڑگڑائے اور اپنی اس غفلت پر خدا سے معافی کے خواست گار ہوئے۔ لیکن آپ کے مقدر میں اس غفلت کی بنا پر ایک سخت فتنے میں مبتلا ہونا لکھا تھا۔ چنانچہ آپ اس فتنے میں مبتلا ہوئے۔ [2]
اس ابتلا کا واقعہ یوں ہے کہ آپ کا سارا اقتدار ایک انگشتری میں تھا، جسے آپ ہر وقت پہنے رکھتے اور صرف قضاے حاجت یا بیویوں سے ملاقات ہی کے وقت اپنے سے الگ کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام وہ انگشتری اپنی ایک کنیز امینہ کے سپرد کر دیتے تھے۔ جب وہ وقت آ گیا، جس میں اس فتنے کا وقوع مقدر تھا تو رفع حاجت کے لیے جاتے ہوئے، جونہی آپ نے وہ انگشتری امینہ کو دی، ایک جن امینہ پر آپ کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس سے وہ انگشتری لے لی۔ انگشتری کا اس جن کے ہاتھ میں کیا آنا تھا کہ سب اقتدار اس کے قبضے میں آ گیا۔
سلیمان علیہ السلام کو اب کوئی پہچانتا بھی نہ تھا۔ ان کی شکل و صورت بدل چکی تھی جب وہ اپنے بارے میں بتاتے کہ اصل سلیمان میں ہوں تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے، انھیں گالیاں دیتے اور ان پر مٹی پھینکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمایش ہے۔ چنانچہ آپ نے خدا کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے، اقتدار اور تخت و تاج کی طرف سے اپنا دھیان ہٹایا اور نان جویں کی تلاش میں لگ گئے۔ آپ کو ماہی گیروں کے ہاں کچھ کام مل گیا۔ آپ ان کی مچھلیاں ڈھوتے تھے اور وہ آپ کو اس محنت کے عوض روزانہ دو مچھلیاں دے دیتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام اس آزمایش میں چالیس دن یعنی اتنا ہی عرصہ مبتلا رہے، جتنا عرصہ آپ کے محل میں غیر اللہ کی پرستش کی گئی تھی۔[3] پھر خداے کریم نے آپ پر دوبارہ نظر کرم فرمائی۔ چنانچہ اس نے اہل دربار کو اس شک میں مبتلا کر دیا کہ سلیمان کی کرسی پر اس وقت جوشخص براجمان ہے، وہ سلیمان نہیں ہے۔ بلکہ ان کے روپ میں کوئی اور ہے۔ اس شک کے بعد صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لیے انھوں نے اسے آزمانا چاہا، اور اس کے سامنے تورات کھولی تاکہ وہ اس میں سے پڑھ کر انھیں کچھ بتائے، لیکن وہ بھاگ گیا اور جاتے جاتے حضرت سلیمان کی انگوٹھی سمندر میں پھینک گیا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے، لیکن خدا کی قدرت کہ اس انگوٹھی کو ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر وہی مچھلی حضرت سلیمان کو ماہی گیروں سے مزدوری میں مل گئی۔ حضرت سلیمان نے اس مچھلی کو پکانے کے لیے تیار کرتے ہوئے جونہی اس کا پیٹ چاک کیا تو اس میں سے اپنی انگشتری پالی۔ انگشتری کا پہننا تھا کہ کیا وحوش و طیور اور کیا جن و انس، سب سلام کرتے ہوئے، حاضر ہو گئے۔ اور یوں وہ سخت آزمایش اپنے اختتام کو پہنچی۔ چنانچہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈالنے سے مرادیہی شیطان ہے۔ جو ان کی کرسی پر قابض ہوگیا تھا اور چالیس دن سلیمان بن کرحکومت کرتا رہا۔
یہاں تک آیت ۳۴ کے اجمال کی تفصیل تھی۔ آیت ۳۵ کے بارے میں اس رائے کے حاملین کا یہ کہنا ہے کہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے گناہ کی معافی مانگنے کے بعد خدا سے ایسی بادشاہی مانگی جس پر جنات یا شیاطین قادر نہ ہو سکیں۔ یہ رائے ابن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد رحمہ اللہ، سعید بن جبیر رحمہ اللہ، حسن رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ سے روایت کی گئی ہے۔ ابن کثیر اس رائے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قوی سند کے ساتھ مروی ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیس سال کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا۔ شیاطین نے یہ دیکھ کر کہا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہا اور سلیمان کے بعد تخت پر بیٹھ گیا تو ہم سلیمان کے بعد پھر اس کی غلامی میں گرفتار رہیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اسے قتل کرنے کی سازش کی۔ سلیمان علیہ السلام کو اس سازش کا پتا چل گیا تو انھوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تاکہ جنات کو اس کی خبر ہی نہ ہو۔ سلیمان علیہ السلام کا یہ اقدام ہی وہ فتنہ تھا جس میں وہ مبتلا ہوئے، یعنی انھوں نے خدا پر توکل نہیں کیا، بلکہ خود سے ایک اقدام کرکے لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا۔ خدا کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ چنانچہ ایک موقع پر جبکہ آپ اپنی جنگی مہمات میں مصروف تھے، وہ لڑکا مردہ حالت میں آپ کے تخت پر آن گرا۔ تب سلیمان علیہ السلام کو تنبہ ہوا کہ انھوں نے خدا پر توکل نہیں کیا۔ لہٰذا انھوں نے خدا سے بہت توبہ کی۔ پس ان آیات میں جسد سے مراد وہ مردہ لڑکا ہے جو تخت پر آن گرا تھا اور سلیمان علیہ السلام کا خدا پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں پر اعتماد کرنا وہ فتنہ تھا جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے۔
یہ رائے طبرانی ’’الاوسط‘‘ میں لائے ہیں۔ ابن مردویہ نے اسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند[4] سے روایت کیا ہے۔ الامامیہ نے اس رائے کو ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور یہی رائے شعبی سے بھی روایت کی گئی ہے۔
تیسری رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ایک واقعہ مروی ہے کہ انھوں نے ایک دن یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو بڑا ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ اس موقع پر آپ نے ان شاء اللہ نہ کہا، حالانکہ فرشتے نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی بھی کہ آپ ان شاء اللہ کہیں، لیکن آپ اس وقت کی اپنی خاص کیفیت کی وجہ سے یہ بھول گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی بیویوں میں سوائے ایک کے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی جو بچہ جنا وہ آدھے دھڑکا تھا۔ یعنی اس کا ایک ہی بازو، ایک ہی پہلو اور ایک ہی ٹانگ تھی۔ یہاں تک کا مضمون تو حدیث میں موجود ہے، لیکن اس کے بعد تفاسیر یہ کہتی ہیں کہ دائی نے یہی بچہ لا کر سلیمان علیہ السلام کے تخت پر ڈال دیا۔ چنانچہ یہ بچہ ہی وہ دھڑ ہے جس کے آپ کی کرسی پر ڈالنے کا ذکر ’والقینا علی کرسیه جسداً‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ان شاء اللہ نہ کہنا وہ فتنہ تھا جس میں آپ مبتلا ہوئے۔ اس عجیب الخلقت بچے کو دیکھ کر آپ نے توبہ و انابت اختیار کی۔
ان آیات کی یہ تفسیر’’ صحیح بخاری‘‘ اور’’ مسلم‘‘ کی ان متفق علیہ روایات کے حوالے سے بیان کی گئی ہے جنھیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ سند کے پہلو سے اس پر بحث کرنا مشکل ہے۔
چوتھی رائے ان آیات کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور اس مرض کی وجہ سے وہ بالکل ایک بے جان لاشہ بن کر رہ گئے، چنانچہ آپ اپنی کرسی پر بیٹھتے تو ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک دھڑ سا پڑا ہوا ہے۔ اس رائے کے مطابق ’القینا علی کرسیه جسداً‘ اصل میں ’القیناہ علی کرسیه جسداً‘ ہو گا۔ ’جسداً ‘اس میں مفعولی ضمیر غائب سے حال واقع ہو رہا ہے یعنی یہ لفظ سلیمان علیہ السلام کی حالت بیان کر رہا ہے۔ اس کے بعد وہ ’ثم اناب‘ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حالت صحت کی طرف لوٹے۔ چنانچہ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ آیت ۳۵ کی شرح کرتے ہوئے اس رائے کے قائلین کہتے ہیں کہ مرض کی وجہ سے آپ نے دنیا کی نعمتوں کا زوال پذیر ہونا جان لیا تو اپنے لیے دنیا میں ایسی سلطنت مانگی جو چھن کر دوسروں کے پاس نہ جائے۔ ان آیات کی یہ تاویل تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں ابومسلم اور بعض دوسرے لوگوں کی رائے کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے۔ امام رازی نے اس رائے کو محقق علما کے ایک گروہ کی طرف سے بیان کردہ رائے کے طور پر پیش کیا ہے۔
پانچویں رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس طرح آزمایا کہ آپ پر شدید خوف یا بعض اطراف سے متوقع خطرے کا احساس مسلط کر دیا۔ آپ اس شدید خوف یا خطرے کی وجہ سے بالکل کمزور ہو گئے۔ چنانچہ آپ اپنے تخت پر یوں پڑے رہتے جیسے کوئی دھڑ پڑا ہو۔ پھر اللہ نے آپ کو اس خوف سے نجات دی اور آپ کو دوبارہ صحت عطا فرمائی۔ اس رائے کے مطابق بھی ’جسداً‘ کا لفظ خود سلیمان علیہ السلام کی حالت بیان کر رہا ہے۔ یہ رائے امام رازی رحمہ اللہ کی ہے اور اسے انھوں نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔
زیربحث آیات کی تاویل میں عموماً یہی پانچ آرا پیش کی گئی ہیں۔ اب ہم ان آرا کا تجزیہ کرتے اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی رائے ہمیں آیات کی صحیح تاویل تک پہنچاتی ہے یا نہیں اور کیا کوئی رائے ان سب سوالوں کا تسلی بخش جواب دیتی ہے جو ان آیات کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں (آیات کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کا ذکر ہم نے ابتدا میں کر دیا ہے، انھیں وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔)
جہاں تک پہلی رائے کا تعلق ہے جس میں سلیمان علیہ السلام کی انگشتری چھن جانے اور آپ کے تخت پر ایک جن کے قابض ہو جانے کا ذکر ہے، اس کے مطابق سوالات کے جواب یہ بنتے ہیں:
۱۔ جسداً سے مراد وہ شریر جن ہے جس نے دھوکے سے سلیمان علیہ السلام کی انگشتری حاصل کر لی تھی۔
۲۔ کرسی پر جسد ڈالنے کا مطلب اس جن کا آپ کے تخت پر قابض ہو جانا ہے۔
۳۔ سلیمان علیہ السلام جس آزمایش میں ڈالے گئے تھے، وہ یہ تھی کہ آپ عرش سے یک دم فرش پر پھینک دیے گئے۔
۴۔ آپ سے چونکہ سلطنت چھن گئی تھی، لہٰذا آپ نے خدا سے سلطنت ہی کے حصول کی دعا کی اور ساتھ ہی یہ شرط لگا دی کہ یہ سلطنت میرے علاوہ کسی اور کو نہ ملے، یعنی کوئی پہلے کی طرح میری حکومت پر قابض نہ ہو جائے۔
اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں چار نکات بیان کیے ہیں: پہلا یہ کہ اگر شیاطین انبیا کی شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہوں تو پھر نبوت کا سارا سلسلہ ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ شرائع پر اعتماد کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی اور سارے کا سارا دین جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ چنانچہ کیا معلوم کہ حضرت محمد، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی شکل میں شیاطین ہی لوگوں سے ہم کلام ہوئے ہوں۔ دوسرا یہ کہ اگر شیطان اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام سے اس طرح کا معاملہ کر سکتا ہے تو پھر علما اور صلحا تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے، انھیں تو وہ قتل بھی کردیتا، ان کی تصانیف ضائع کر دیتا اور ان کے گھر بار تباہ کر دیتا۔ چونکہ شیطان کی طرف سے اس طرح کا معاملہ کسی ایک عالم کے ساتھ بھی پیش نہیں آیا، لہٰذا انبیا کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ تیسرا یہ کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے بالکل منافی ہے کہ وہ اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کی بیویوں پر شیطان کو تسلط دے دے۔ یہ تو بڑی ہی قبیح بات ہے، اس کا وقوع کیسے ممکن ہے۔ اور چوتھا نکتہ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر یہ مانا جائے کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی بیوی کو اس بت پرستی کی اجازت دی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس نبی نے کفر کیا، یہ کیسے ممکن ہے اور اگر آپ کی بے خبری میں بت پرستی ہوئی تو پھر اس پر آپ کا مواخذہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس تنقید کی رو سے یہ واقعہ نہ صرف خدا کی حکمت کے خلاف ہے، بلکہ شان نبوت کے بھی سراسر منافی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اس رائے کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرتے۔ اس میں ’جسداً‘ سے وہ جن مراد لیا گیا ہے جو آپ کے تخت پر قابض ہو گیا تھا اور چالیس دن تک حاکم بنا رہا۔ حالانکہ ’جسداً‘ کا لفظ تو اپنے اندر اس کی کوئی گنجایش نہیں رکھتا کہ اس سے ایک بھرپور فعال وجود مراد لیا جائے۔ ’جسداً‘ کا لفظ تو اس موقع استعمال میں اپنے اندر بے حس و حرکت اور جامد ہونے کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی ایک واضح نظیر بھی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی لفظ سونے کے اس بچھڑے کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جسے سامری نے بنا کر بنی اسرائیل کے سامنے کھڑا کر دیا اور کہا کہ یہ تمھارا خدا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید نے ’جسداً له خوار‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا مطلب ہے ’’ایک دھڑ ڈکرانے والا‘‘۔ قرآن مجید یہاں ’جسداً‘ کے لفظ سے اس کا بے جان اور بے حس و حرکت ہونا بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ اس لفظ کا اطلاق ایک ایسے وجود پر نہیں کیا جا سکتا جس میں بھرپور فعالیت پائی جائے اور جو صاحب اقتدار بن کر بیٹھ گیا ہو۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان آیات سے متصل اگلی آیات یہ بتا رہی ہیں کہ اس آزمایش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے بعد ہی سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں اور شیاطین پر اقتدار دیا گیا تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں:
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَيْثُ اَصَابَ. وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ. وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ . (ص ۳۸: ۳۶-۳۸)
’’( سلیمان نے بے مثل بادشاہی مانگی) تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے سازگار ہو کر چلتی تھی، جہاں کہیں کا وہ قصد کرتا اور سرکش جنوں کو بھی اس کے لیے مسخر کر دیا۔ نہایت ماہر معماروں اور غوطہ خوروں کو اور دوسرے جنوں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے رہتے۔‘‘
قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس آزمایش کے بعد سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں اور جنوں پر کنٹرول دیا گیا تھا، لیکن زیر بحث رائے اس بات پر مبنی ہے کہ سلیمان علیہ السلام پہلے سے جنات اور ہواؤں پر کنٹرول رکھتے تھے۔ پس یہ رائے قرآن کی صریح نصوص سے متصادم ہے۔
چوتھی اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سارا واقعہ محض ایک من گھڑت کہانی ہے جسے ان آیات کے اجمال کی تفصیل میں پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ بات ہی خلاف حقیقت ہے کہ سلیمان علیہ السلام کا اقتدار کسی انگشتری میں تھا اور وہ کبھی گم ہوئی تھی اور اس کے گم ہونے کے نتیجے میں سلیمان علیہ السلام کو حکومت سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ نہ قرآن و حدیث آپ کی کسی ایسی انگشتری کا پتا دیتے ہیں اور نہ بائیبل ہی اس کی خبر رکھتی ہے، البتہ افسانوی نوعیت کی اسرائیلی روایت میں ضرور اس کا ذکر آتا ہے۔
مولانا مودوی رحمہ اللہ اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ پورا افسانہ از سرتاپا خرافات پر مشتمل ہے جنھیں نومسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات کی تفصیلات سمجھ کر اپنی زبان میں نقل کر دیا۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے، نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے، نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیا کی شکلیں بنا کر آئیں اور خلق خدا کو گمراہ کریں اور نہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں دے۔ جس سے شیطان نبی بن کر ایک پوری امت کا ستیاناس کر دے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے۔ آگے کی آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمایش سلیمان کو پیش آئی اور انھوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا، لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلیمان کے تابع فرمان تھے۔ تعجب ہے جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی انھوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘(تفہیم القرآن ۴/۳۳۶-۳۳۷)
دوسری رائے کے مطابق جس میں سلیمان علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو بادلوں میں چھپانے کا ذکر ہے، آیات کے اجمال کی تفصیل یہ بنتی ہے:
۱۔ ’جسداً‘ سے مراد وہ لڑکا ہے جو بادلوں سے مردہ حالت میں سلیمان علیہ السلام کی کرسی پرگرا تھا۔
۲۔ کرسی پر ڈالنے کا مطلب لڑکے کو بادلوں سے کرسی پر گرا دینا ہے۔
۳۔ فتنہ یہ تھا کہ سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کی جان کو خطرہ محسوس کیا تو خدا پر توکل کرنے کے بجائے اسے موت سے بچانے کی تدابیر کرنے لگ پڑے۔
۴۔ اس موقع پر بے مثل بادشاہی مانگنے کی وجہ اس رائے میں بیان نہیں کی گئی۔
اس تاویل میں بھی بنیادی غلطی یہی ہے کہ یہ متصل بعد کی آیات سے متضاد ہے۔ حضرت سلیمان کو ہواؤں پر تصرف اس فتنے سے پہلے نہیں، بلکہ اس کے بعد دیا گیا تھا۔ دوسری غلطی اس تاویل میں یہ ہے کہ اس میں القاے جسد (کرسی پر دھڑ ڈالنے) کو آزمایش کا حصہ قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اسے خدا پر توکل نہ کرنے کی سزا قرار دیا جا رہا ہے، یعنی اس تاویل کے مطابق ان آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم نے سلیمان کو اس کے بیٹے کے حوالے سے آزمایا، وہ اس آزمایش میں ناکام ہو گیا تو ہم نے سزا کے طور پر اس کے بیٹے کو اس کے تخت پر مردہ حالت میں پھینک دیا، پھر اس نے توبہ کی اور کہا...۔ ان آیات کا اگر یہ مطلب ہوتا تو ضروری تھا کہ ’ولقد فتنا‘ پر ’القینا‘ کا عطف واؤ کے بجائے ’فا‘ وغیرہ سے ہوتا، چنانچہ آیت کے الفاظ کے مطابق یہ ضروری ہے کہ القاے جسد ہی اصل فتنہ یا فتنے کا اصل قرار پائے، تیسری بات یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی آیت کا جو مفہوم بھی لیا جا رہا ہے، وہ دوسری آیت میں موجود بے مثل بادشاہی کی دعا سے بالکل غیر متعلق ہے چنانچہ اس صورت میں دونوں آیات بالکل بے ربط محسوس ہوتی ہیں، پس یہ رائے بھی کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتی۔
تیسری رائے میں سلیمان علیہ السلام کے ایک ہی رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جانے کا ذکر ہے، اس رائے کے مطابق سوالوں کے جواب ترتیب سے یہ بنتے ہیں:
۱۔ جسد سے مراد وہ ادھورا بچہ ہے جو سلیمان علیہ السلام کے ہاں پید اہوا تھا۔
۲۔ کرسی پر القاے جسد سے مراد دائی کا اس ادھورے بچے کو آپ کے تخت پر لا کر ڈال دینا ہے۔
۳۔ آپ نے مستقبل کے پردے سے رونما ہونے والی چیز کے بارے میں بات کی، مگر خدا کی مرضی کے ساتھ اس کا مشروط قرار دینا آپ بھول گئے۔ یہ بھولنا ہی وہ فتنہ تھا جس میں آپ گرفتار ہوئے۔
۴۔ اس موقع پربے مثل بادشاہی کیوں مانگی؟ اس سوال کا جواب اس رائے میں بھی سامنے نہیں آتا۔
کہنے کو تو یہ رائے ’’بخاری‘‘ و’’مسلم‘‘ کی متفق علیہ روایت پر مبنی ہے، لیکن آپ روایت کو دیکھیں تو قطع نظر اس بات کے کہ وہ درایت کی کسوٹی پر پوری اترتی بھی ہے یا نہیں، اس میں جس ادھورے بچے کے پیدا ہونے کا ذکر ہے، اس کے بارے میں اس حدیث میں یہ بالکل نہیں بتایا گیا کہ یہی وہ جسد ہے، جسے خدا نے ان کی کرسی پر ڈالا تھا پھر مزید یہ کہ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم نہیں ہوتی ہے کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی شرح کے طور پر بیان فرمائی تھی۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابی ہریرة قال: قال سلیمان لاطوفن اللیلة علی تسعین امراة. کل تلد غلاما یقاتل فی سبیل اللّٰه فقال له صاحبه قال سفیان یعنی الملک قل ان شاء اللّٰه فنسی فطاف بهن فلم تات امراة منهن بولد الا واحدة بشق غلام فقال ابوہریرہ یرویه قال لو قال ان شاء اللّٰه لم یحنث وکان درکا فی حاجته.(بخاری، کتاب کفارات الایمان)
’’ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان نے قسم کھائی کہ میں ضرور آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ان میں سے ہر بیوی ایک لڑکا جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ سفیان راوی بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھی یعنی فرشتے نے کہا: ان شاء اللہ کہیے، تو وہ بھول گئے۔ پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس گئے بھی، لیکن ان میں سے صرف ایک عورت کے ہاں لڑکے کا آدھا جسم پیدا ہوا۔ پھر ابوہریرہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی قسم رائگاں نہ جاتی، بلکہ یہ (ان شاء اللہ کہنا) ان کے مقصد کے حصول (کا ذریعہ) ہوتا۔‘‘
اس حدیث کو دیکھ لیجیے، اس میں بس ایک ادھورے بچے کے پیدا ہونے کا ذکر تو ہے، لیکن یہ ادھورا بچہ ہی وہ جسد ہے جسے تخت پر ڈالا گیا تھا، حدیث اس سے بالکل ہی غیرمتعلق ہے اور نہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان آیات کے اجمال کی تفصیل کر رہی ہے۔
خود امام بخاری اس حدیث کو کتاب الجہاد، کتاب الانبیا اور کتاب الایمان و النذور وغیرہ میں تو لائے ہیں، لیکن کتاب التفسیر میں سورۂ ص کی تفسیر کے تحت اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، بلکہ آیت ’وهب لی ملکا‘ کے تحت ایک اور ہی روایت نقل کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں بھی وہ نقص ہے کہ فتنے اور القاے جسد کو الگ الگ قرار دیا گیا ہے اور دوسری چیز کو پہلے کی سزا مانا گیا ہے۔ حالانکہ آیت سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ القاے جسد یعنی دھڑ کا ڈالنا فتنے کا اصل حصہ بالکل اصل فتنہ تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس رائے کے قائل حضرات کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان شاء اللہ نہ کہنے پر اس وقت تنبہ ہوا جب انھوں نے دیکھا کہ جو کچھ میں نے چاہا تھا، وہ بالکل نہیں ہوا۔ میرا تو خیال یہ تھا کہ میرے ہاں ایسے نوے بچے ضرور پیدا ہوں گے جو بڑے ہو کر جہاد کریں گے، لیکن ان کی جگہ یہ ایک ادھورا بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ یقینا یہ میرے ان شاء اللہ نہ کہنے کا نتیجہ ہے۔ اس رائے میں یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس ادھورے بچے کی پیدایش تک اپنی باقی۸۹ بیویوں کے حاملہ نہ ہونے کے باوجود نوے بچوں کی امید میں مبتلا رہے اور جب یہ ادھورا بچہ سامنے آ گیا تو ان کو تنبہ ہوا کہ میری وہ خواہش ان شاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے پوری نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ تنبہ انھیں اس وقت ہو جانا چاہیے تھا، جب انھیں معلوم ہوا ہو گا کہ میری ۸۹ بیویاں تو حاملہ ہی نہیں ہوئیں۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ اس حدیث پر درایتہً بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث حضرت ابوہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور اسے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے۔ خود’’بخاری‘‘ میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد ۶۰ بیان کی گئی ہے، کسی میں ۷۰، کسی میں ۹۰، کسی میں ۹۹ اور کسی میں ۱۰۰۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے اور باعتبار روایت اس کی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا، لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ہرگز نہ فرمائی ہوگی، جس طرح وہ نقل ہوئی ہے، بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گویوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر بطور مثال بیان فرمایا ہو گا۔ اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضور خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ ایسی روایت کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے۔ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد ۶۰ ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ ۶ بیوی کے حساب سے مسلسل دس گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے۔ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضور نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی۔ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی کہ قرآن مجید میں جس جسد کے ڈالنے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے۔ اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضور نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدایش پر حضرت سلیمان کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن۴/ ۳۳۷-۳۳۸)
چنانچہ زیر بحث آیات کی تاویل میں یہ رائے بھی اس ساری تنقید کے بعد قابل قبول نہیں رہتی۔
چوتھی رائے جو ان آیات کی تاویل میں پیش کی گئی ہے، اس میں آپ کی شدید بیماری کی وجہ سے اپنی کرسی پر ایک دھڑ کی طرح پڑے رہنے کا ذکر ہے۔ اس کی رو سے ہمارے سوالوں کے جواب یہ بنتے ہیں۔
۱۔ جسد سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں جو بیماری کی شدت کی وجہ سے ایک لاشہ سا بن کر رہ گئے تھے۔
۲۔ جسد کے کرسی پر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی کرسی پر بیماری کی وجہ سے دھڑ کی طرح پڑے رہتے۔
۳۔ بیماری کی شدت ہی آپ کے لیے فتنہ یعنی آزمایش تھی۔
۴۔ مرض کی وجہ سے آپ نے دنیا کی نعمتوں کا زوال پذیر ہونا جان لیا تو اپنے لیے دنیا میں ایسی سلطنت مانگی جو چھن کر دوسرے کے پاس نہ جائے۔
یہ تاویل پہلی تین تاویلوں سے اس پہلو سے بالکل مختلف ہے کہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے اپنے وجود کو وہ جسد قرار دیا گیا ہے جو آپ کی کرسی پر ڈالا گیا تھا۔
اس میں ’جسداً‘ کو مفعول کے بجائے حال مانا گیا ہے۔ زبان کے پہلو سے یہ بالکل ممکن ہے، لیکن اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں جو یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ شدید بیمار ہوئے تھے حتیٰ کہ ایک بے جان لاشہ بن کر رہ گئے تھے۔ اس کے بارے میں ہمیں قرآن مجید، حدیث، بائیبل اور تاریخ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ واقعہ بھی اسرائیلی قصے کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا اعتراض اس تاویل پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں’ اناب‘ سے آپ کا حالت صحت کو لوٹنا مراد لیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم رجوع الی اللہ بنتا ہے۔ بہرحال انابت کا جو بھی مفہوم لیا جائے یہی وہ عمل ہے جو بیماری کی حالت میں آپ نے کیا ہے۔ اگر اس سے آپ کا صحت یاب ہونا مراد لیا جائے تو پھر ظاہر ہے کہ ’قال رب اغفرلی‘ کے الفاظ جو آپ کی جانب سے انابت الی اللہ کے الفاظ ہیں، وہ بیماری کی حالت میں نہیں، بلکہ دوبارہ صحت حاصل ہونے کے بعد آپ کی زبان پر آئے ہیں، حالانکہ بیماری کی حالت میں انابت الی اللہ کا پیدا ہونا تو ایک عام مسلمان کے ہاں بھی بالکل فطری عمل ہے اور نبی کے ہاں تو ایسے مواقع پر بے مثل انابت ہوتی ہے، جیسے کہ ہم حضرت ایوب علیہ السلام کے ہاں دیکھتے ہیں، لیکن اس تاویل کے مطابق سلیمان علیہ السلام کا معاملہ کتنا عجیب ہے کہ آپ کو انتہائی شدید مرض لاحق ہے اور آپ نے مغفرت کی دعا بھی کی تو اس وقت جبکہ اللہ نے صحت یاب کر دیا اور جب صحت یاب ہوئے تو استغفار کے ساتھ ساتھ نہ چھننے والی بے مثل بادشاہی کی دعا بھی مانگ ڈالی۔ یہ ساری تصویر کسی خشیت رکھنے والے بادشاہ کی بھی نظر نہیں آتی۔ کجا یہ کہ سلیمان علیہ السلام جو خدا کے برگزیدہ اور بڑے دانا پیغمبر تھے، ان کا معاملہ ایسا ہو۔ ان کے حوالے سے تو یہ ضروری تھا کہ ان کی جانب سے بیماری میں شاید انابت کا رویہ ظاہر ہوتا۔ پھر مزید یہ کہ اس کی تو کوئی وجہ ہی نہیں بنتی کہ آدمی بیماری سے اٹھتے ہی نہ چھن سکنے والی طاقت ور اور بے مثل بادشاہی کی دعائیں کرنے لگ پڑے۔ یہ رویہ تو سلیمان علیہ السلام کی شان ہی کے خلاف ہے۔ یہ تو کسی ایسے آدمی ہی کا رویہ ہو سکتا ہے جس کا دل دنیا میں اٹکا ہو۔ پس یہ تفسیر بھی اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر قابل قبول نہیں رہتی۔
پانچویں رائے جو ان آیات کی تاویل میں پیش کی گئی ہے، وہ امام رازی کی رائے ہے۔ اس میں انھوں نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوف یا متوقع مصیبت کا احساس مسلط کر دیا ہو اور اس نے انھیں ایک بے جان لاشہ بنا دیا ہو۔
اس رائے کے مطابق سوالوں کے درج ذیل جواب سامنے آتے ہیں:
۱۔ جسد سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام کا وجود ہے۔
۲۔ کرسی پر ڈالنے سے مراد آپ کا شدید خوف کی بنا پر اپنی کرسی پر ایک بے جان دھڑ کی طرح پڑے رہنا ہے۔
۳۔ شدید خوف اور متوقع مصیبت وہ فتنہ تھا جس میں آپ ڈالے گئے۔
۴۔ اس موقع پر بے مثل بادشاہی کیوں مانگی گئی؟ اس سوال کا کوئی جواب سامنے نہیں آتا۔
اس رائے میں بھی چوتھی رائے کی طرح ’جسداً‘ سے مراد خود سلیمان علیہ السلام ہی ہیں یعنی آیت میں ’جسداً‘ حال واقع ہو رہا ہے۔ اس پر تو خیر کوئی بحث نہیں، البتہ یہ رائے امام رازی رحمہ اللہ نے اپنے قیاس سے پیش کی ہے۔
’’تفسیر کبیر‘‘ میں آپ کے الفاظ یہ ہیں:
اقول لا یبعد ایضاً ان یقال انه ابتلاء اللّٰه تعالیٰ بتسلیط خوف او توقع بلاء.
’’میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی بعید نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی خوف یا متوقع مصیبت کو غالب کر کے آپ کو آزمایا ہو۔‘‘
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ آیات کے اجمال کی کوئی واضح تفصیل نہیں کر رہے، بس ایک امکان ظاہر کر رہے ہیں جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔
دوسرا اعتراض اس رائے پر وہی ہے جو اس سے پچھلی رائے پر کیا گیا ہے کہ اس میں انابت سے مراد اللہ تعالیٰ کا آپ کے احوال کو درست کر دینا ہے۔ حالانکہ اگلی آیت میں سلیمان علیہ السلام کی اپنی انابت کا بیان ہے۔ اگر ’ثم اناب‘ سے اللہ تعالیٰ کا حالات کو درست کرنا مراد لیا جائے تو پھر ’قال رب اغفرلی‘ کے الفاظ دوران فتنہ میں آپ کے رویے کو ظاہر نہیں کرتے، بلکہ اس کے بعد آپ کے عمل کا بیان قرار پاتے ہیں۔
حالانکہ جیسے پچھلے صفحات میں بھی ذکر کیا گیا ہے، یہ ضروری ہے کہ یہ انابت دور فتنہ ہی میں ہو۔ جبکہ اس سے متصل قبل بھی سلیمان علیہ السلام کی انابت ہی کا ایک شان دار واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
تیسرا اعتراض بھی وہی ہے یعنی یہ کہ بے مثل بادشاہی ہی کی دعا کیوں مانگی گئی۔ یہ اس دعا کا کیا موقع و محل تھا۔ اس بات کا کوئی جواب ہمیں اس رائے میں نہیں ملتا۔
چنانچہ یہ رائے بھی اپنی ان خامیوں کی بنا پر قبول نہیں کی جا سکتی۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے
دور حاضر میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ میں ان آیات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس پر اٹھنے والے سب سوالوں کا جواب دیا ہے۔ آپ کا طریقۂ تفسیر چونکہ روایتی تفاسیر سے بالکل مختلف[5] ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس رائے کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا ہے:
’’اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ہم نے اس کے تخت پر ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا۔ اس نے دعا کی: میرے رب، مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہیں۔ تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۶/۵۲۹-۵۳۰)
وہ اپنی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ میں ان آیات کے تحت لکھتے ہیں:
’’یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت کا دوسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے[6] .... تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ سخت امتحان پیش آیا کہ دشمنوں نے یورش کر کے ان کے بیش تر علاقے چھین لیے اور باقی علاقوں میں بھی ایسی گڑ بڑ پھیلا دی کہ نظم حکومت عملاً بالکل درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ ان کی تاخت سے صرف مرکز بچا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام بالکل مجبور و محصور ہو کر رہ گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام ایک خدا ترس بادشاہ تھے، اس وجہ سے انھوں نے یہ گمان فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی غلطی کی سزا دی ہے۔ اس احساس نے ان کے غم کو دوبالا کر دیا اور وہ اس غم اور بے بسی کی حالت میں اپنے تخت حکومت پر ایک جسد بے جان ہو کر رہ گئے۔ اس وقت انھوں نے نہایت تضرع کے ساتھ اپنے رب سے دعا کی کہ اے رب، میرے گناہ معاف کر اور اگرچہ میں تیرے فضل و انعام کا حق دار نہیں رہ گیا ہوں، لیکن تو بڑا بخشنے والا ہے، اس وجہ سے میرے عدم استحقاق کے باوجود مجھے ایسی بادشاہی دے جس کے سزاوار اس طرح کے گناہ کے ساتھ دوسرے نہ ہوتے ہیں، نہ ہوں گے۔‘‘ ( ۶/ ۵۳۳)
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اس اجمالی گفتگو کے بعد ’ولقد فتنا سلیمان‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یعنی ہم نے سلیمان کو امتحان میں ڈالا۔ یہ امتحان اللہ کی سنت ہے۔ ضروری نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کسی جرم ہی کی سزا کے طور پر امتحان میں ڈالے گئے ہوں۔ امتحان تمام نبیوں اور رسولوں کو پیش آئے ہیں جس سے ان کے صبر یا شکر کی آزمایش ہوئی ہے۔ اسی طرح کے ایک امتحان میں حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ڈالے گئے۔ اور چونکہ وہ ایک بادشاہ تھے، اس وجہ سے ان کو یہ امتحان ان کی بادشاہی کی راہ سے پیش آیا۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۳- ۵۳۴)
قرآن مجید نے سلیمان علیہ السلام پر آنے والے اس امتحان کو ’والقینا علی کرسیه جسداً‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ ان الفاظ کی شرح کرتے ہوئے مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ نہایت مختصر،لیکن نہایت جامع لفظوں میں اس امتحان کا بیان ہے کہ کہاں تو وہ ایک وسیع الاطراف حکومت کے نہایت طاقت ور اور صاحب اقتدار بادشاہ تھے یا ہم نے ان کو ان کے تخت پر ایک بالکل جسد بے جان بناکر ڈال دیا۔ لفظ ’جسد‘ یہاں بطور کنایہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بے بسی اور ان کے غم و الم کی تصویر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی حکومت سمٹ سمٹا کر مرکز تک محدود رہ گئی اور حالات نے ان کو اس قدر بے بس اور غم زدہ بنا دیا کہ گویا صرف جسم رہ گیا، روح غائب ہو گئی۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ایک بے بس اور غم زدہ بادشاہ کی جو اپنے مرکز میں محصور ہو کر رہ گیا ہو، اس سے بہتر تصویر نہیں ہو سکتی۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)
سلیمان علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے۔ ان پر خدا کی طرف سے یہ مصیبت آئی تو انھوں نے اس موقع پر جو رویہ اختیار کیا، وہ واقعی ایک پیغمبر کا رویہ ہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اسے ’ثم اناب‘کی شرح کرتے ہوئے بیان کیا ہے:
’’ یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام ایسے حالات میں بھی اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے، بلکہ ان کو احساس ہوا کہ یہ ان کی کسی غلطی پر ان کی پکڑ ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ اسی کی طرف توبہ و استغفار کے لیے متوجہ ہوئے۔‘‘ (تدبر قرآن۶/ ۵۳۴)
انابت کی اس حالت میں انھوں نے خدا سے کیا دعا کی مولانا اسے ’قال رب اغفرلی وھب لی ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی، انک انت الوہاب‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
’’(اس نے دعا کی: میرے رب، مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت بخش جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہیں۔) اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تو مجھے ایسی بادشاہی دے، جیسی بادشاہی میرے بعد کسی اور کو نہ ملے، بلکہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگرچہ میں اپنے گناہ کے سبب سے کسی حکومت کا اہل تو نہیں رہ گیا ہوں، تاہم تو اپنے فضل سے مجھے ایسی بادشاہی دے جس کا سزاوار نہ میں ہوں، نہ میرے بعد کوئی اور ہو گا۔
....تو بڑا بخشنے والا ہے، اس وجہ سے میں بھی اپنی غلطیوں کے باوجود امیدوار ہوں کہ تو مجھے محروم نہیں فرمائے گا۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)
دعا میں موجود الفاظ ’لا ینبغی لاحد‘کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس دعا میں اصلی زور بادشاہی کی بے مثال عظمت و شوکت پر نہیں، بلکہ بلا استحقاق بادشاہی دیے جانے پر ہے کہ مجھے میرے گناہوں کے باوجود بادشاہی دے جبکہ میرے بعد کوئی اور اس کا سزاوار نہیں ٹھیرے گا۔ اس دعا میں اپنے گناہ کا جو شدید احساس ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی غایت خشیت و انابت کی دلیل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)
تاویل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کے اقتدار کے حوالے سے آزمایش میں ڈالا۔ وہ اس آزمایش میں انتہائی بے بس و مجبور ہو گئے۔ انھوں نے ان حالات میں گھر جانے کو اپنی ہی کسی کوتاہی اور غلطی کا نتیجہ سمجھا، لیکن وہ ان حالات میں مایوس نہیں ہوئے، بلکہ پوری انابت کے ساتھ خدا کی طرف پلٹے، اس سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اور خود کو کسی بادشاہی کا مستحق نہ گردانتے ہوئے بھی خدا سے محض اس کے فضل و کرم کی بنا پر اپنے لیے اقتدار کی دعا کی۔ اور اس سے وہ بادشاہی مانگی جو ان کے بعد کسی کو بھی ایسی صورت میں نہ ملنے والی ہو۔
اس تاویل کے مطابق آیات سے متعلق زیر بحث چار سوالوں کے جواب یہ بنتے ہیں:
۱۔ جسد سے مراد خود سلیمان علیہ السلام ہیں۔
۲۔ کرسی پر ڈالنے کا مطلب سلیمان علیہ السلام کا ملک میں اپنے اختیارات کے حوالے سے بے بس ہو جانا ہے۔
۳۔ اقتدار کو قائم رکھنے کے حوالے سے آپ کو جو مشکلات پیش آئیں، یہی وہ فتنہ اور آزمایش تھیں جس میں آپ مبتلا کیے گئے تھے۔
۴۔ چونکہ آپ کو اقتدار ہی کی راہ میں مشکلات پیش آئی تھیں، لہٰذا آپ نے مغفرت طلب کرنے کے بعد اس کے اسی فضل کے لیے دست سوال دراز کیا۔
ان جوابات کے حوالے سے اس تاویل پر غور کیا جائے تو بجا طور پر مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی یہ تاویل ایک پوری بات ہے۔ اس میں انھوں نے ان آیات کا جو مدعا بیان کیا ہے، وہ ایک طرف خدا کی اس حکمت کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے صالح بندوں کو آزماتا ہے تو دوسری طرف وہ اس شان نبوت کو سامنے لاتا ہے کہ انبیا پر جب آزمایش آتی ہے تو پھر ان کا رویہ کیا ہوتا ہے، ان کے ہاں پھر عجز و انکسار کے کیا رنگ نمودار ہوتے ہیں اور خدا کے ساتھ ان کے تعلق کی شدت کیسی نیاز مندی میں ڈھلتی ہے۔
پچھلی ساری بحث کے تناظر میں، اگر ہم مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کا دقت نظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ وہ واحد تاویل ہے جو قرآن مجید کے اس مشکل مقام کو واضح طور پر حل کر دیتی ہے اور اس پر اس نوعیت کے اعتراض بھی وارد نہیں ہوتے جو اس کے علاوہ دوسری تاویلات پر وارد ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیے، ان پر ایک اعتراض یہ تھا کہ ان میں سے بعض تاویلات[7] میں قرآن مجید کے اپنے الفاظ کی صحیح رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ جبکہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ان آیات کا جو مفہوم بیان کیا ہے، اس میں افعال کے باہم عطف و معطوف کا معاملہ ہو، ’جسداً‘ کے لفظ کی بحث ہو یا ’اناب‘ کے مفہوم کا بیان، ہر حرف اور ہر لفظ ٹھیک اپنے مدعا ہی کو بیان کر رہا ہے۔ چنانچہ دیکھیے ’ولقد فتنا سلیمان‘میں فتنہ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا بتاتے ہیں کہ یہ امتحان اللہ کی سنت ہے۔ تمام نبیوں اور رسولوں کو امتحان پیش آئے ہیں، چنانچہ ضروری نہیں کہ حضرت سلیمان کسی جرم ہی کی سزا کے طور پر امتحان میں ڈالے گئے ہوں، یعنی دوسری تاویلات میں فتنہ ہی کے لفظ کی وضاحت میں جس طرح کی رکیک باتیں سلیمان علیہ السلام سے منسوب کی گئیں، مولانا نے ان سب کی یکسر نفی کر دی اور یہ بتایا کہ یہ تو خدا کا طریقہ ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کو آزماتا ہے۔ اس کے بعد ’القینا علی کرسیه جسداً‘ کے تحت آپ نے اس القا کو اس فتنے کا بیان قرار دیا ہے جس میں سلیمان علیہ السلام ڈالے گئے تھے۔ جبکہ دوسری اکثر تاویلات میں اسے کسی آزمایش میں ناکام ہونے پر خدا کی طرف سے دی جانے والی سزا قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دوسرا جملہ واضح طور پر پہلے جملے ’ولقد فتنا سلیمان‘ کا بیان ہے۔ ’ثم اناب‘ کے الفاظ سے مولانا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت مراد لی ہے جبکہ بعض دوسری تاویلات میں اسے خدا کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد آیت ۳۵ یعنی ’قال رب اغفرلی وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘ کے دونوں جملوں کو مولانا نے انابت ہی کی تفصیل قرار دیا ہے۔ آیت کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے ’ثم اناب‘ کی تفصیل ہونا چاہیے، البتہ ’وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘ کا ٹکڑا کیسے اناب کی تفصیل قرار پا سکتا ہے، فہم کے پہلو سے اس میں ضرور مشکل محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے مفسر نے اسے ’اناب‘ کی تفصیل قرارنہیں دیا،[8] لیکن مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ یہ خدا سے مغفرت طلب کرنے کے بعد کسی دنیوی جاہ وحشمت کی حرص کا اظہار نہیں، بلکہ یہ بھی ایک منکسر عاجز نبی کا خدا کے در سخاوت پر دستک دینا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کا یہ مطلب نہیں کہ تو مجھے ایسی بادشاہی دے جیسی بادشاہی میرے بعد کسی اور کو نہ ملے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگرچہ میں اپنے گناہ کے سبب سے کسی حکومت کا اہل تو نہیں رہ گیا ہوں، تاہم تو اپنے فضل سے مجھے ایسی بادشاہی دے جس کا سزاوار نہ میں ہوں نہ میرے بعد کوئی اور ہو گا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اصلی زور بادشاہی کی بے مثال عظمت و شوکت پر نہیں، بلکہ بلا استحقاق بادشاہی دیے جانے پر ہے کہ مجھے میرے گناہوں کے باوجود بادشاہی دے اور ایسی بادشاہی جس کا میرے بعد کوئی اور سزاوار نہیں ٹھیرے گا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اپنے گناہ کا جو شدید احساس ہے، وہ حضرت سلیمان کی غایت خشیت و انابت کی دلیل ہے۔ خشیت و انابت کے بھی کئی درجات ہیں۔ ان درجات میں یہ مقام بھی آتا ہے جب توبہ و انابت کرنے والا خدا کے ساتھ قرب وتعلق کی وہ منزلیں طے کرلیتا اور اس کے سامنے عجزوتذلل اختیار کرنے میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے اپنے ہاں احساس خطا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے اعتمادی اعتماد میں بدلتی اور ہچکچاہٹ اقدام میں ڈھلتی ہے۔ بندے میں اس سارے انقلاب کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری ذات کو بالکل خدا کے قدموں میں لاکرڈال دیتا اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس خداے فیاض کے سامنے اس کا کوئی بندہ جب یوں سارے دل اور ساری روح کے ساتھ آن کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کے در رحمت سے پہلی عطا جو اسے ملتی ہے وہ اپنی ذات پر اعتماد و یقین اور ہچکچاہٹ کے بجائے اقدام کی یہ دولت ہے۔ پھر خدا اس کے دل میں احساس ندامت کے بجائے یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور خدا اس کا ہے۔ چنانچہ پھر محتاج اپنے داتا سے مانگتا اور فقیر اپنے غنی سے سوال کرتا ہے۔ وہ سوال جو اس کے دل میں آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ’ھب لی ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی‘ کی جو وضاحت کر دی ہے، بس اس سے آیت کا یہ حصہ بھی ’ثم اناب‘ ہی کی تفصیل قرار پاتا ہے، ورنہ اس کے فہم میں علما بہت کوشش کے باوجودبھی یہ گوہرمقصود نہ پا سکے تھے۔
اس کے بعد آپ دیکھیں کہ سابقہ تاویلات میں سے بعض[9] تاویلات پر یہ شدید اعتراض پیدا ہوتا تھا کہ ان سے اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کی شان نبوت شدید مجروح ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس مولانا کی یہ تاویل حضرت سلیمان علیہ السلام کی شان نبوت کو پوری قوت سے سامنے لاتی ہے۔ چنانچہ دیکھیے، اس تاویل کی ابتدا ہی میں مولانا فرماتے ہیں کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس کے بعد ان آیات کی ساری شرح جو انھوں نے بیان کی ہے، وہ واقعتہً حضرت سلیمان علیہ السلام کی انابت ہی کی داستان ہے۔ پھر اپنی ساری تاویل بیان کرنے کے بعد حضرت سلیمان کی دعا کو بھی جس خاص زاویے سے آپ نے سمجھا اور بیان کیا ہے، اس سے بھی حضرت سلیمان کی غایت خشیت و انابت ہی کا اظہار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شدید خشیت و انابت ہی پیغمبر کی اصل شان ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت سلیمان کی شان نبوت کا یہ اظہار مولانا کی اس تاویل کی دوسری بڑی خوبی ہے۔ سابقہ تاویلات میں سے بعض[10] تاویلات پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ ان میں بیان کردہ مضمون ما قبل اور مابعد کی آیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس حوالے سے آپ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی تاویل کو دیکھیے تو یہ ماقبل اور مابعد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ سورۂ ص میں یہ سلسلۂ کلام دراصل متعدد انبیا کی اوابیت اور ان کی انابت کا بیان ہے۔ چنانچہ اسی حوالے سے ان آیات سے ماقبل سلیمان علیہ السلام ہی کی انابت کا ایک اور واقعہ بیان ہوا ہے، جس میں آپ کے جہاد کے گھوڑوں کا معاینہ کرتے ہوئے نماز عصر کے قضا ہو جانے اور شدید تاثر کی حالت میں آپ کے گھوڑوں پر تلوار چلانے کا ذکر ہے۔ مولانا اصلاحی نے اس واقعے کو اور زیر بحث آیات میں بیان کردہ واقعے کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں آنے والے انابت و اوابیت کے دو یادگار واقعات کے طور پر لیا ہے۔ ماقبل کی آیات سے تو آپ ان آیات کو اس طرح سے مربوط کرتے ہیں اور مابعد کی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا اور جنات کے تسخیر کر دیے جانے کا ذکر ہے، ان کی شرح کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ مذکورہ بالا امتحان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام پر آپ کی دعا کے نتیجے میں اللہ کا یہ فضل ہوا کہ اس نے آپ کو ہوا اور جنات پر کنٹرول بخشا۔ چنانچہ آپ کی یہ بیان کردہ تاویل ماقبل و مابعد کی آیات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہ اس تاویل کی تیسری خوبی ہے۔
اس کے بعد آپ یہ دیکھیں کہ سابقہ تاویلات میں سے بعض[11] تاویلات محض بے بنیاد قصے کہانیوں پر مشتمل روایات پر مبنی ہیں، لیکن اس کے برعکس مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی بیان کردہ یہ تاویل ایک تاریخی واقعے پر مبنی ہے۔ بائیبل میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
’’اور خداوند نے سلیمان کا ایک مخالف برپا کیا۔ ہدد ادومی جو ادوم کے بادشاہوں کی نسل سے تھا... اور خداوند نے سلیمان کا ایک دوسرا مخالف رزوں بن الی یاداع برپا کیا۔ وہ اپنے آقا صوبہ کے بادشاہ ہددعازر سے بھاگا تھا۔ تو اس کے پاس آدمی جمع ہوئے اور وہ ڈاکووں کا سردار بنا۔ جس وقت کہ داؤد نے ان کو ہلاک کیا تو وہ دمشق کو گئے اور وہاں رہے اور انھوں نے اس کو دمشق میں بادشاہ بنایا اور وہ ہدد کی شرارت سے بڑھ کر سلیمان کے سارے ایام میں اسرائیل کا مخالف رہا اور اس نے اسرائیل سے نفرت کی اور ادوام کا حاکم رہا۔‘‘ (کلام مقدس۱۔ ملوک ۱۱: ۱۴، ۲۳-۲۵)
کلام مقدس (بائیبل) کی ان آیات میں سلیمان علیہ السلام کے خلاف یورش برپا کرنے والوں کا ذکر جس طرح سے کیا گیا ہے، وہ خاص طور پر قابل غور ہے، یعنی خود خداوند نے سلیمان کے دو مخالف برپا کیے۔ یہ الفاظ بالکل واضح طور پر ’ولقد فتنا سلیمان‘ کی شرح کرتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کے مخالفین نے جن علاقوں میں یورش برپا کی تھی وہ کتنی شدید تھی، کب وہ کنٹرول سے باہر ہو گئی تھی اور کب اس کو کنٹرول کر لیا گیا، اس کی تفصیل گو یہود کے ہاں پوری طرح محفوظ نہیں رہی، لیکن اسرائیلی تاریخ سے انھیں پیش آنے والی مشکلات کا ایک حد تک اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
John Bright اپنی کتاب ’’A History of Israel ‘‘میں ’’سلیمان اور اس کی سلطنت‘‘ کے زیرعنوان یہ لکھتا ہے کہ: ہداد نے سلیمان کے لیے ایک عرصہ تک یورش برپا کیے ر کھی اور اس نے کچھ عرصہ کے لیے بعض علاقے اسرائیلیوں سے چھین بھی لیے۔ شام کے اندر سلیمان کے لیے صورت حال زیادہ تشویش ناک تھی، رزوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے دمشق پر قبضہ کر لیا اور وہاں کا حکمران بن گیا، اس نے سلیمان کی پوزیشن کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہم پر یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس کے جواب میں سلیمان نے کیا کیا اقدامات کیے اور ہم یہ بھی تعیین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس دور کی بات ہے، اسی طرح سلیمان کو شام میں پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔
بائیبل اور یہ اسرائیلی تاریخ گو اس صورت حال کی تفصیلات تو ہمارے سامنے نہیں رکھتی، مگر قرآن مجید کے اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہمارے سامنے وہ خاطر خواہ مواد ضرور رکھ دیتی ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سلیمان علیہ السلام اپنے دور حکومت میں اقتدار کے حوالے سے بعض سنگین مشکلات کا شکار ہوئے تھے۔
چنانچہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کی یہ چوتھی خوبی ہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت پر مبنی ہے۔
بلا شبہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی اس تاویل کی ان امتیازی خوبیوں کی بنا پر اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ وہ واحد تاویل ہے جو سورۂ ص کی زیر بحث آیات کے مدعا کو واضح طور پر بیان کر دیتی ہے۔ھذا ما عندی والعلم عند اللّٰه۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ بعض مفسرین نے ’جسدا‘ کو ’القینا‘ کے مفعول محذوف سے حال مانا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’ایک دھڑ ڈال دیا‘‘ کے بجائے اسے ’’ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا‘‘ بنتا ہے۔
[2]۔ فتنے میں پڑنے کی وجوہ اس سے مختلف بھی بیان کی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ آپ نے کاروبار سلطنت سے مسلسل تین دن گریز کیا جس کی سزا کے طور پر آپ فتنے میں ڈال دیے گئے۔ دوسری یہ کہ آپ نے ایک شیطان سے پوچھا: تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں مبتلا کرتے ہو۔ تو اس نے کہا: میں آپ کو بتاتا ہوں آپ ذرا مجھے اپنی بادشاہت کی انگشتری دے دیں۔
[3]۔ بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس سارے عرصے میں سلیمان علیہ السلام کی ازواج مطہرات کی عصمت بھی اس شیطان سے محفوظ نہ رہی، لیکن بہت سے دوسرے علما نے اس کا انکار کیا ہے۔
[4]۔ اس کی سند ضعیف ہے، لیکن مفسرین نے اسے ایک رائے ہی کے طور پر بیان کیا ہے۔
[5]۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ قرآن مجید کی تفسیر میں قرآن کے اپنے الفاظ اور آیات کے نظم کو آخری درجے میں فیصلہ کن قرار دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ متن کو شرح اور اصل کو فرع پر حاکم قرار دیتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: مقدمۂ تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ از مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ۔
[6]۔ پہلا واقعہ ان آیات سے ما قبل کی متصل آیات میں بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ دراصل سلطنت کے کاموں میں آپ کی مشغولیت کی بنا پر نماز عصر قضا ہو جانے کے بعد آپ کی انابت کا ایک یاد گار واقعہ ہے۔
[7]۔ دیکھیے، دوسری اور تیسری تاویل کے تجزیے میں ’فتنا‘ اور ’القینا‘ کے باہم عطف و معطوف ہونے کی بحث، پہلی تاویل کے تجزیے میں ’جسداً ‘کے لفظ پر بحث اور چوتھی اور پانچویں تاویل میں ’اناب‘ کے لفظ پر بحث۔
[8]۔ آیت کے اس ٹکڑے سے عموماً سات باتیں مراد لی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے لیے معجزہ طلب کیا۔ دوسری یہ کہ انھوں نے ایسی سلطنت کو اپنے ساتھ اس لیے خاص کیا کہ آپ کے خیال میں آپ تو اسے سنبھال سکتے تھے اور دوسروں کے بس کی یہ چیز نہ تھی۔ تیسری یہ کہ آپ نے چاہا کہ پہلے کی طرح مجھ سے کوئی سلطنت چھین نہ سکے۔ چوتھی یہ کہ آپ نے چاہا کہ آپ کو دنیا اپنی آخری حد تک حاصل ہو جائے تاکہ آپ کا دل اس کے لیے کبھی بھی نہ ترسے۔ پانچویں یہ کہ آپ لوگوں کے لیے اتنے بڑے اقتدار کے ساتھ بہترین اسوہ بنیں۔ چھٹی یہ کہ آپ اپنی فضیلت کے خواہاں تھے۔ ساتویں یہ کہ مرض سے شفا یاب ہونے کے بعد آپ نے جب یہ جان لیا کہ دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں تو خدا سے اپنے لیے لازوال بادشاہی مانگی۔
[9]۔ دیکھیے، پہلی تاویل پر امام رازی کی تنقید حاشیہ ۴ میں اور تیسری تاویل کے تجزیے میں مولانا مودودی کی متعلقہ حدیث پر درایت کے حوالے سے تنقید۔
[10]۔ دیکھیے، پہلی اور دوسری تاویل کا تجزیہ۔
[11]۔ دیکھیے، پہلی، دوسری اور چوتھی تاویل کا تجزیہ۔