مولانا گوہر رحمٰن صاحب نے پانچویں بات یہ فرمائی ہے کہ وہ روایات جن میں اطاعتِ امیر کو لازم ٹھہرایا گیا ہے، ان میں اصل میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ:
۱۔ امیر کے خلاف مسلح بغاوت نہ کی جائے، بلکہ دوسرے طریقوں سے اس کی اصلاح یا تبدیلی کی کوشش کی جائے۔
۲۔ یہ حکم صرف ایسی ہی حکومتوں کے بارے میں ہے، جو ملک کا نظام عملاً قرآن و سنت کے مطابق چلا رہی ہوں۔
۳۔ ان روایات کا تعلق ذاتی اور شخصی معاملات میں ظلم سے ہے۔ گویا اس سے مراد یہ ہے کہ جب ملک میں شریعت نافذ کرنے والا حکمران تم پر ذاتی طور پر ظلم بھی کر رہا ہو، تو تم اس ظلم پر صبر کرو اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’... جب حکمران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں کام کرتا ہے تو اس کی اطاعت منوب عنہ کی اطاعت ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی۔ لیکن جب حکمران قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا اور شریعتِ محمدی سے آزاد ہو کر حکومت کر رہا ہے تو اس کی اطاعت آخر کس بنیاد پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سمجھی جائے گی۔ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ امیر تمھیں پسند ہو یا نا پسند، اس کا حکم تمھاری رائے یا طبیعت و مزاج کے مطاِق ہو یا نہ ہو، وہ اگر تم پر دوسروں کو ترجیح دے رہا ہو یا تمھارے حقوق ادا نہ کر رہا ہو، جیسی بھی صورتِ حال ہو، تم اس کی اطاعت کرو اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ لیکن ایک تو ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلح بغاوت نہ کرو بلکہ دوسرے ذرائع سے ایسے امیر کی اصلاح یا اس کو بدلنے کی کوشش کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ احادیث اس حکومت کے بارے میں ہیں جو ملک کا نظام، شریعت کے مطابق چلا رہی ہو اور اس کی ریاست میں قرآن و سنت کی بالادستی عملاً تسلیم کی جاتی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس مضمون کی احادیث کا تعلق ذاتی اور شخصی حقوق سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر حکمران تم پر ذاتی طور پر ظلم بھی کر رہا ہو مگر جب ملک میں شریعت نافذ ہے تو تم صبر کرو اور اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ آخر ان احادیث کا یہ مطلب کیسے ہو سکتا ہے کہ شریعت سے باغی اور منحرف سیکولر حکومت بھی ’’الجماعتہ‘‘ ہے اور اس جماعت کا التزام تقاضاے شریعت ہے؟‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵، ص ۲۸)
اس ضمن میں ہم مولانا محترم سے سب سے پہلے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ انھوں نے ان روایتوں کے حوالے سے جو تین باتیں بیان فرمائی ہیں، وہ اس موضوع کی روایتوں میں کہاں اور کن الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔ روایت کے الفاظ اگر یہ ہیں کہ ہر حال میں اپنے امیر کی اطاعت کرو، تو اس کے معنی آخر یہ کیسے ہو سکتے ہیں کہ ’’اس کے خلاف بغاوت نہ کرو، بلکہ اس کی اصلاح کرنے اور اسے بدلنے کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کرو‘‘؟ یہ معنی زبان و بیان کے کس اصول پر مبنی ہیں ؟ آخر کس لغت میں ’’اطاعت‘‘ کے معنی: ’’بغاوت نہ کرنے اور دوسرے طریقوں کو بروے کار لاتے ہوئے اصلاح اور تبدیل کرنے ‘‘ کے بیان ہوئے ہیں ؟ مولانا محترم اگر برا نہ مانیں تو قرآنِ مجید میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا جو حکم آیا ہے، ذرا اسی اصول پر اس کی شرح و وضاحت بھی فرما دیں۔
اس ضمن میں دوسری بات مولانا محترم نے یہ فرمائی ہے کہ یہ حکم صرف ایسی ہی حکومتوں کے بارے میں ہے، جو ملک کا نظام عملاً قرآن و سنت کے مطابق چلا رہی ہوں۔
اپنے مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے اس مضمون کی ساری اہم روایات جمع کر دی ہیں۔ ان روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اسالیب اور متنوع مثالیں دے کر یہ بات فرمائی ہے کہ تم لوگ ہر حال میں اپنے حکمرانوں کی اطاعت پر قائم رہنا، کیونکہ امیر کی اطاعت کو چھوڑنا ’’الجماعتہ‘‘ سے نکلنے کے مترادف ہے۔ ان میں سے ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حکمران نماز کے اوقات کے معاملے میں تساہل برتیں گے، ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا کہ فاجر حکمران خدا کی نافرمانی کے ساتھ حکومت کریں گے، ایک روایت میں آپ کا ارشاد ہے کہ حکمران تم پر ظلم کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں تساہل، اللہ کے احکام کی نافرمانی (فجور) اور ظلم کی موجودگی میں آخر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسی حکومتوں کے بارے میں ہے، ’’جو ملک کا نظام عملاً قرآن و سنت کے مطابق چلا رہی ہوں‘‘؟ جو حکمران نمازوں کے اوقات کے بارے میں متساہل ہوں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوں اور جو اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہوں، ان کے بارے میں آخر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ملک کا نظام قرآن و سنت کی عملاً پابندی کر رہا ہے ؟ اگر یہ سب کچھ قرآن و سنت سے انحراف نہیں ہے، تو پھر قرآن و سنت سے انحراف آخر کہا کس چیز کو جاتا ہے ؟
اس ضمن میں تیسری بات مولانا محترم نے یہ فرمائی ہے کہ ان روایتوں کا تعلق ذاتی اور شخصی معاملات میں ظلم سے ہے۔ گویا اس سے مراد یہ ہے کہ جب ملک میں شریعت نافذ کرنے والا حکمران تم پر ذاتی طور پر ظلم بھی کر رہا ہو، تو تم اس ظلم پر صبر کرو، اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ان روایتوں میں اگرچہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، جس کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکے کہ ان کا تعلق محض ذاتی اور شخصی معاملات میں ظلم کرنے سے ہے، تاہم ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان روایتوں میں جس ظلم کا ذکر ہوا ہے، وہ کسی ذاتی یا شخصی معاملے ہی سے متعلق ہے۔ مگر اس صورت میں بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شخصی اور ذاتی معاملات میں ظلم کرنا، مولانا کے نزدیک شریعتِ اسلامی کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے ؟ کیا یہ قرآنِ مجید کی صریح نصوص سے انحراف نہیں ہے ؟ کیا یہ ارشاداتِ نبوی سے بغاوت نہیں ہے ؟
مولانا محترم سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ہمیں اس بات سے ضرور آگاہ فرمائیں کہ اگر کسی بھی صورت میں حکمران کے خلاف بغاوت یا اس کی اطاعت سے انکار، دین میں لازم ہے تو اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہیں فرمایا۔ آپ سے مروی احادیث میں یہ بات تو ہمیں گوناگوں اسالیب میں ملتی ہے کہ ہر حال میں حکمران کی اطاعت پر قائم رہنا، یہ بات بھی ملتی ہے کہ صرف کفرِ بواح ہی کی صورت میں تم اس کی اطاعت کا انکار کر سکتے ہو، مگر آخر یہ بات کیوں نہیں ملتی کہ فلاں فلاں صورت میں تم اپنے حکمرانوں کی اطاعت سے لازماً الگ ہو جانا ؟ مولانا محترم تو حدیث کے استاذ ہیں، وہ تو یقیناً جانتے ہوں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کون کون سی صورتوں میں حکمران کی اطاعت سے کنارہ کش ہو جانے کو مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا ہے۔ ہماری مولانا محترم سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں بھی دو چار ایسی روایات کا پتا دیں، جن میں آپ نے یہ حکم فرمایا ہے۔ لیکن اگر ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے، تو پھر ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اگر ہمارا نقطۂ نظر غلط بھی ہوا تب بھی آخرت کے روز، جب اللہ ہم سے پوچھے گا کہ تم اسلام سے عملاً منحرف اس حکومت کی اطاعت پر کیوں قائم رہے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ تیری کتاب اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جو ہمیں اس بات کی ترغیب بھی دیتی ہو کہ ہم ایسے حکمران کی اطاعت کو چھوڑ دیں۔ ہم مولانا محترم سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اگر ’’بفرضِ محال‘‘ ہماری بات صحیح ہوئی، اور روزِ آخرت آپ سے یہ پوچھ لیا گیا کہ آپ لوگوں کو اسلام سے عملاً منحرف حکمرانوں کی اطاعت کو چھوڑ دینے کا درس کیوں دیتے رہے، اور ایک ایسے اقدام کو لازم کیوں قرار دیتے رہے، جسے ہم نے لازم نہیں ٹھیرایا تھا، تو مولانا محترم اس کا کیا جواب دیں گے ؟
مولانا محترم نے چھٹی بات یہ فرمائی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے معنی یہ ہیں کہ جب مسلمان تفرقے کا شکار ہو جائیں، بدعت و ضلالت کا غلبہ ہو جائے تو تم ایسی ہر جماعت سے الگ رہنا جو اسلام کے نام پر بدعت و گمراہی کی دعوت دے رہی ہو اور مسلمانوں کی اس جماعت کے ساتھ جڑ کر رہنا جس کا امیر قرآن و سنت کا التزام کرتا ہو۔ لیکن اگر ایسی صورتِ حال سامنے آ جائے کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظم درہم برہم ہو گیا ہو، قرآن و سنت کی عملاً پابندی کرنے والی کوئی حکومت موجود نہ ہو اور نہ قرآن و سنت کی بالا دستی قبول کرنے والی کوئی ایسی جماعت موجود ہو جو اسلامی نظام کے دوبارہ قیام کی جدوجہد کر رہی ہو اور تم اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے اور دین کی ’’اقامت‘‘ کی غرض سے کوئی جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو، تو اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے تمام لوگوں سے الگ ہو کر زندگی گزار دینا۔
مولانا گوہر ر حمٰن صاحب لکھتے ہیں:
’’ہمارے لیے اس حدیث میں جو ہدایت ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ جب بدعت و ضلالت کے غلبہ کا دور آ جائے اور ہر فرقہ، گروہ اور جماعت لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو تم ان ائمہ بدعت و ضلالت میں سے کسی کی دعوت قبول نہ کرو اس لیے کہ یہ اسلام کے نام پر ضلالت کی دعوت ہو گی بلکہ مسلمانوں کی اس جماعت کے ساتھ لگے رہو اور چمٹے رہو جو قرآن و سنت کا التزام کرنے والے امیر کی امارت پر مجتمع ہوں چاہے وہ صالحیت اور صلاحیت کے اعتبار سے اپنے وقت کا معیاری مسلمان ہو یا اس کے اندر کچھ خرابیاں بھی موجود ہوں۔ مگر جب تک اس حکمران نے طاغوت کی شکل اختیار نہ کی ہو اور قرآن و سنت سے منحرف نہ ہوا ہو، اس وقت تک اسی کا التزام کرنا دین کا تقاضا ہے۔ لیکن اگر تم ایسی صورتِ حال سے دو چار ہو گئے ہو کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظام درہم برہم ہو گیا ہو اور قرآن و سنت کی بالا دستی قبول کرنے والی کوئی حکومت موجود نہ ہو اور اس نظام کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ایسی دینی جماعت بھی موجود نہ ہو جو قرآن و سنت کا التزام کرتی ہو اور تم اپنے اندر تنہا حالات کا مقابلہ کرنے یا جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو بلکہ تمھارے اپنے دین و ایمان کو خطرہ درپیش ہو، تو ایسے حالات میں اپنے ایمان کے بے بہا خزانے کے تحفظ کے لیے لوگوں سے الگ ہو کر کسی محفوظ جگہ میں بیٹھ کر زندگی کے باقی دن پورے کرنا زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اپنے دین کو بچانے کے لیے ’فرار من الفتن‘ کی رخصت ہی نہیں بلکہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔‘‘ ( ماہنامہ ’’فاران‘‘، جون ۱۹۹۵، ص ۳۳)
مولانا محترم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت کی جو شرح فرمائی ہے۔ اس پر کوئی بات کرنے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ روایت کے عربی متن کا ترجمہ خود مولانا ہی کے الفاظ میں پیش کر دیں۔ مولانا اس روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں زیادہ سوال کیا کرتا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں یہ شر مجھ پر نہ آجائے۔ چنانچہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ہم لوگ جاہلیت اور شر کی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ یہ خیر ہمارے پاس لے آئے (ایمان و اسلام اور امن و امان) تو کیا اس خیر کے بعد شر دوبارہ آئے گا ؟ آپ نے فرمایا: ہاں، آئے گا۔ میں نے کہا: اس شر کے بعد دوبارہ خیر آئے گا ؟ فرمایا: ہاں آئے گا، مگر اس میں گدلا پن ہوگا۔ میں نے پوچھا: یہ گدلاپن کیسا ہوگا ؟ فرمایا: ایسے لوگ آئیں گے، جو میری سنت کے خلاف قوم کی رہنمائی کریں گے۔ تو ان میں اچھے کام بھی دیکھے گا اور برے کام بھی دیکھے گا۔ میں نے کہا: کیا اس قسم کے خیر کے بعد شر آئے گا ؟ فرمایا: ہاں، ایسا شر آئے گا کہ جہنم کے دروازوں پر (یعنی ضلالت کے راستوں پر) بلانے والے بیٹھے ہوں گے، اور جو لوگ ان کی دعوت قبول کریں گے، وہ ان کو جہنم میں پھینک دیں گے (ضلالت کی راہ پر لگا دیں گے)۔ میں نے عرض کی کہ ان کی کچھ صفات بیان کیجیے۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے..... میں نے کہا: اگر یہ زمانہ مجھ پر آ گیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ لگے رہو۔ میں نے عرض کی کہ اگرمسلمانوں کی جماعت بھی نہ ہو اور ان کا کوئی امام بھی موجود نہ ہو تو پھرمیں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ان سارے فرقوں سے الگ ہو جاؤ، اگرچہ تمھیں کسی درخت کو دانتوں سے مضبوط پکڑنا پڑے (یعنی درخت کے نیچے لوگوں سے الگ زندگی گزارنی پڑے) یہاں تک کہ جب تم پر موت آئے تو تم اسی حالت پر ہو۔‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵، ص ۳۲- ۳۳)
واقعہ یہ ہے کہ حدیث کا یہ ترجمہ اور اس حدیث کے بارے میں مولانا محترم کی اس شرح میں سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مولانا ہمارے بزرگ ہیں، اور ہم ان کا تہِ دل سے احترام کرتے ہیں۔ مگر دین و شریعت کی تفہیم و توضیح کا معاملہ یقیناً اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی راہ میں کسی بڑے سے بڑے بزرگ کا احترام بھی آڑے نہ آئے۔ اس وجہ سے ہم مولانا سے دست بستہ یہ پوچھنا چاہیں گے کہ حدیث کے بارے میں ان کی پیش کردہ شرح اگر ’’توضیحِ حدیث‘‘ ہے، تو پھر آخر ’’توضیعِ حدیث‘‘ کس شے کا نام ہے؟
اس روایت کی مولانا محترم نے جو تشریح فرمائی ہے، اس کے حوالے سے مولانا سے ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ روایت میں جس امیر کی اطاعت کرنے کی بات ہوئی ہے، اس کے بارے میں یہ شرط کہاں بیان ہوئی ہے کہ وہ ’’قرآن و سنت کا التزام‘‘ کرنے والا ہو ؟ اس کے برعکس، اس روایت میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کو بھی ’’خیر‘‘ ہی میں شمار کیا ہے، جب لوگوں میں تفرقہ نہیں ہو گا، اگرچہ ان کے امرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کی سنت کی خلاف ورزی کرتے ہوں گے۔
دوسرا سوال ہم مولانا محترم سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ بات کہاں بیان ہوئی ہے کہ ’’جب تک اس حکمران نے طاغوت کی شکل اختیار نہ کی ہو اور قرآن و سنت سے منحرف نہ ہوا ہو، اس وقت تک اسی کا التزام کرنا دین کا تقاضا ہے۔‘‘ مولانا کی اس بات کے بالکل برعکس، روایت کے جملوں سے تو یہ بات نکل رہی ہے کہ حکمران خواہ پیغمبر کی تعلیمات اور آپ کی سنت سے منحرف ہوں، تب بھی جب تک مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی قائم رہے، اس وقت تک حکمران کی اطاعت اور اس طرح مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی سے وابستہ رہا جائے۔
تیسرا سوال ہم مولانا محترم سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ روایت کے آخر میں مسلمانوں کے اجتماعی نظم کے درہم برہم ہونے کی جو تفصیل مولانا نے فرمائی ہے، یعنی یہ کہ ’’قرآن و سنت کی بالا دستی قبول کرنے والی کوئی حکومت موجود نہ ہو اور اس نظام کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ایسی دینی جماعت بھی موجود نہ ہو جو قرآن و سنت کا التزام کرتی ہو اور تم اپنے اندر تنہا حالات کا مقابلہ کرنے یا جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو...‘‘، اس ساری تفصیل کا ماخذ روایت کے الفاظ میں کہاں ہے ؟ روایت کے الفاظ سے تو جو بات مترشح ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی قائم ہو تو اس سے وابستہ رہا جائے اور اگر ایسا کوئی نظم قائم نہ ہو تو تمام متحارب گروہوں سے الگ ہو کر رہا جائے۔ مگر مولانا صاحب کو اس بات پر اصرار ہے کہ ان کی بیان کردہ ساری تفصیل بھی روایت کے الفاظ میں موجود ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ وہ مہربانی فرما کر روایت کے ان الفاظ کی طرف ہماری رہنمائی فرما دیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے روایت کی یہ شرح فرمائی ہے۔
ہمارے نزدیک، اصل بات یہ ہے کہ روایت میں حضرت حذیفہ کا سوال کہ ’’یا رسول اللہ، ہم لوگ جاہلیت اور شر کی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر دیکھنا نصیب کیا۔ کیا اس خیر کے بعد دوبارہ شر آئے گا ؟ ‘‘ اصلاً عرب کی اس بدامنی کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جو اسلام سے پہلے پورے عرب پر چھائی ہوئی تھی۔ عربی زبان میں معاشرے میں پھیلنے والی بدامنی کے لیے لفظِ ’’شر‘‘ کا استعمال معروف ہے۔ چنانچہ، اگر غور کیجیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جو جواب دیا، وہ بھی ہماری اس بات کی تائید کر رہا ہے۔ آپ کا ارشاد کہ خیر کا ایک زمانہ وہ ہو گا جس میں ’’ایسے لوگ آئیں گے، جو میری سنت سے ہٹ کر قوم کی رہنمائی کریں گے‘‘، اس بات کا واضح قرینہ ہے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے، روایت پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حذیفہ کے مذکورہ سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عنایت سے تفرقے سے پاک مسلمانوں کا جو مضبوط نظم قائم ہو گیا ہے، یہ اسی طرح قائم نہ رہے گا، کچھ عرصے بعد اس میں اختلال پیدا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس موقع پر کچھ خانہ جنگی جیسی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس ’’شر‘‘ کے بعد پھر کوئی امن و امان (خیر) کی کیفیت بھی آئے گی ؟ آپ نے فرمایا: آئے گی، مگر اس میں کچھ ملاوٹ ہو گی۔ اس کی تفصیل کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اس میں اگرچہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی قائم ہو گا اور امن و امان بحال ہو جائے گا، تاہم اس وقت مسلمانوں کے لیڈروں میں شریعت سے بہت کچھ انحراف پیدا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہی میں مضمر ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ان امرا کی اطاعت پر قائم رہنا اور اپنے نظمِ اجتماعی سے جڑے رہنا چاہیے، تاکہ وہ اس ’’خیر‘‘ میں کسی ’’شر‘‘ یا بدنظمی کو پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ اس کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اس ’’خیر‘‘ کے بعد بھی کوئی ’’شر‘‘ یا بدنظمی کی حالت پیدا ہو گی، آپ نے فرمایا : ہاں بہت برے حالات ہوں گے۔ مسلمان تفرقے کا شکار ہو جائیں گے۔ ہر گروہ تمھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ مگر تم اس صورت میں ان تمام گروہوں سے الگ رہتے ہوئے، جیسا کچھ بھی مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ہو، اس سے جڑے رہنا اور مسلمانوں کے امیر کی اطاعت کرتے رہنا۔ اس پر حضرت حذیفہ نے عرض کیا کہ اگر یہ تفرقہ اتنا شدید ہو جائے کہ کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہ مسلمانوں کا امیر ہے، گویا مسلمانوں کا کوئی نظم باقی نہ رہے، تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں تم ہر گروہ سے الگ ہو کر، اپنی باقی زندگی تنہا بسر کر دینا۔ ظاہر ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب بڑا حکیمانہ جواب ہے۔ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ جب خانہ جنگی کی ایسی صورت پیدا ہو جائے، اس میں عام مسلمان اگر سارے گروہوں سے کٹ کر الگ رہیں گے تو اس بات کا امکان رہے گا کہ ان کی تلوار کسی دوسرے مسلمان کی گردن پر نہیں چلے گی۔ ایسی صورت میں عام مسلمانوں کا تمام گروہوں سے الگ رہنا ہی ان گروہوں کی طاقت اور قوت کو کم کر دے گا اور اس طرح امید ہے کہ انھیں ان کی شر انگیزی کا نشانہ نہیں بننے دے گا۔ مگر حیرت ہے کہ مولانا محترم یہ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں مسلمان اگر اپنی کوئی ’’جماعت‘‘ بنا سکتا ہو تو بنا ڈالے۔ کیا مولانا محترم کی رائے یہ ہے کہ جب مسلمانوں میں اتنا تفرقہ پیدا ہو جائے، تو یہ بندۂ مومن کی شان سے فروتر ہے کہ وہ صلاحیت اور ایمانی قوت رکھنے کے باوجود، اس تفرقے میں اپنا حصہ نہ ڈالے اور امتِ مرحومہ میں مزید تفرقہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے ؟
(جاری)
ـــــــــــــــــــــــــ