میزان
(نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد)
دین کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں حق کو اختیار کریں وہ اسے اختیار کر لینے کے بعد دوسروں کو بھی برابر اس کی تلقین ونصیحت کرتے رہیں۔ دین کا یہی مطالبہ ہے جس کے لیے بالعموم دعوت و تبلیغ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہم مسلمان اس حقیقت سے ہمیشہ واقف رہے کہ ایمان وعملِ صالح کی جو روشنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے، اس کا یہ حق ہم پر عائد ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو بھی اس سے محروم نہ رہنے دیں۔ اس کام کی یہی اہمیت ہے جس کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے جہاں عبادات، سیاست، معیشت اور بعض دوسرے معاملات میں اپنی شریعت انسانوں کو دی ہے وہاں اس دعوت کے لیے بھی ایک مفصل قانون اس شریعت میں واضح فرمایا ہے۔ اس قانون کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا کہ اس میں دعوت کی ذمہ داری اہلِ ایمان کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے بالکل الگ الگ صورتوں میں ان پر عائد کی گئی ہے۔ تفہیمِ مدعا کے لیے ہم اس قانون کو ان چھ عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:
فرد کی نصیحت
ریاست کی دعوت
علما کا انذار
پیغمبر کا انذار
صحابہ کی شہادت
دعوت کا طریق کار
ذیل میں ہم انھی عنوانات کے تحت اس باب میں قرآنِ مجید کے نصوص کی وضاحت کریں گے۔
وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ. اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّﵿ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.(العصر ۱۰۳: ۱- ۳)
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘
ان آیتوں میں ’تواصوا بالحق‘اور ’تواصوا بالصبر‘ کی جو تعبیر اللہ تعالیٰ نے دعوت کی ذمہ داری کو بیان کرنے کے لیے اختیار فرمائی ہے اور جس سیاق میں اسے لایا گیا ہے، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ہم عارف ہوں یا عامی، ہمارا قیام کسی بستی میں ہو یا جنگل میں، ہم غیر مسلموں کے ملک میں رہتے ہوں یا مسلمانوں کی کسی منظم ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہوں، ہر حال میں اس کے مکلف ہیں۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری اور ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے۔ بندۂ مومن نیک عمل کرے اور ایمان کا یہ تقاضا بھی پورا کر دے تو قرآن نے اس مقام پر اسے ضمانت دی ہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور جنت کی ابدی بادشاہی اسے حاصل ہو جائے گی۔
اس کام کی جو نوعیت ان آیتوں میں بیان ہوئی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ دعوت کی اس صورت میں داعی اور مدعو الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ہر شخص ہر وقت جس طرح داعی ہے، اسی طرح مدعو بھی ہے۔ قرآنِ مجید نے اس کے لیے ’تواصوا‘ یعنی ایک دوسرے کو نصیحت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہر کو بیوی کے لیے، بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے، دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہرشخص کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلافِ حق طریقہ اختیار کیا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ صبح ہم کسی شخص کو کوئی حق پہنچائیں اور شام کے وقت وہ ہمارے لیے یہ خدمت انجام دے۔ آج ہم کسی کو کوئی نصیحت کریں اور کل وہ ہمیں کسی حق کی تلقین کرے۔ غرض یہ کہ جب موقع میسر آئے، ہر مسلمان کو اپنے دائرۂ عمل میں یہ کام لازماً انجام دیتے رہنا چاہیے۔
ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہی نصیحت ہے جسے قرآنِ مجید نے بعض دوسرے مقامات پر ’امر بالمعروف‘اور ’نہی عن المنکر‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی عقل و فطرت کی رو سے جو باتیں اچھی ہیں، ان کی تلقین کی جائے اور جو بری ہیں، ان سے لوگوں کو روکا جائے۔ یہ در حقیقت منفی اور مثبت، دونوں پہلوؤں سے ’تواصی بالحق‘ ہی کا بیان ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍﶉ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ.(التوبہ ۹: ۷۱)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ باہم دگر بھلائی کی نصیحت کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
اس دعوت کا اصل دائرۂ عمل، جس طرح ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کے الفاظ سے واضح ہے، ہر شخص کا اپنا ماحول ہے۔ اس کو یہ کام اپنے گھر، اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے احباب ہی میں کرنا چاہیے۔ وہ جس خاندان میں رہتا، جس ماحول میں زندگی بسر کرتا، جن لوگوں میں کام کرتا اور اپنی مختلف ذمہ داریوں اور مشاغل کے لحاظ سے جن لوگوں سے متعلق ہوتا ہے، حق اور حق پر ثابت قدمی کی یہ نصیحت بھی اس پر اصلاً انھی کا حق ہے جو اگر ادا ہو گا تو لامحالہ انھی کو ادا کرنے سے ادا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے یہ اصل حق دار تو محروم رہیں اور وہ روم و ایران اور مصروشام میں جا کر یہ دولت ان لوگوں کو بانٹنا شروع کر دے جن کا کوئی حق اللہ اور اس کے پیغمبر نے اس معاملے میں سرے سے اس پر قائم ہی نہیں کیا۔
پھر اس دائرے میں یہ بھی ضروری ہے کہ الاقرب فالاقرب ہی کی ترجیح قائم ر کھی جائے اور آدمی سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کرے۔ اسے متنبہ رہنا چاہیے کہ وہ اگر دوسروں کے دروازے پر دستک دیتا رہا اور اس کے اپنے گھر والے شب و روز جہنم کے لیے ایندھن فراہم کرتے رہے تو ہوسکتا ہے کہ ساری جدوجہد کے باوجود اس کی یہی کوتاہی دنیا اور آخرت میں اس کے لیے وبال بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْ٘ا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا٘ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ.(التحریم ۶۶: ۶)
’’ ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن یہ لوگ اور ان کے وہ پتھر ہوں گے (جنھیں یہ پوجتے ہیں)۔ اس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے۔ اللہ ان کو جو حکم دے گا، اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہ کریں گے اور وہی کریں گے جس کا انھیں حکم ملے گا۔‘‘
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اس دائرۂ عمل میں ہر شخص کا ایک دائرۂ اختیار بھی ہے۔ دنیا میں اللہ کا قانون یہی ہے کہ سنِ رشد کو پہنچنے کے بعد آدمی کسی عورت کا شوہر اور اس کے نتیجے میں بچوں کا باپ بنے۔ بنی آدم کی یہ دونوں حیثیتیں دین و فطرت کی رو سے ان کا ایک دائرۂ اختیار پیدا کرتی ہیں۔ شوہر کی حیثیت سے بیوی اور باپ کی حیثیت سے بچوں پر یہی اختیار ہے جس کی بنا پر ہر شخص مکلف ہے کہ وہ اپنے اس دائرۂ اختیار میں رہنے والوں کے تمام معاملات کے لیے مسئول قرار پائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الا، کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیته.(مسلم، کتاب الامارہ)
’’ آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا بنایا گیا ہے اور ہر ایک سے اس کے گلے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
لہٰذا اسی ’تواصوا بالحق‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر کوئی منکر دیکھیں تو اپنے دائرۂ اختیار میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کا ارشاد ہے:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانه، فان لم یستطع فبقلبه، وذلک اضعف الإیمان.(مسلم، کتاب الایمان)
’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔‘‘
’ان لم یستطع‘ کے الفاظ اس روایت میں اس استطاعت کے لیے استعمال نہیں ہوئے جو آدمی کو کسی چیز کا مکلف ٹھیراتی ہے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں جو ایمان کی قوت اور کمزوری سے کم یا زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا ہرشخص کے دائرۂ اختیار میں اس کا پہلا کام یہی ہے کہ خود دین ہی کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو قوت سے منکر کو مٹا دے۔ زبان سے روکنے کا درجہ اس دائرے میں دوسرا ہے اور دل کی نفرت وہ آخری درجہ ہے کہ آدمی اگر اس پر بھی قائم نہ رہا تو اس کے معنی پھر یہی ہیں کہ ایمان کا کوئی ذرہ بھی اس میں باقی نہیں رہ گیا ہے۔
قرآن کی تصریحات، دین کے مسلمات، رسولوں کی سیرت اور روایت کے اپنے الفاظ کی روشنی میں اس کی صحیح تاویل یہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے۔ شوہر، باپ، حکمران سب اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں لاریب، اسی کے مکلف ہیں کہ منکر کو قوت سے مٹا دیں۔ اس سے کم جو صورت بھی وہ اختیار کریں گے، بے شک ضعفِ ایمان کی علامت ہے، لیکن اس دائرے سے باہر اس طرح کا اقدام کوئی جہاد نہیں، بلکہ بدترین فساد ہے جس کے لیے دین میں ہرگز کوئی گنجایش ثابت نہیں کی جا سکتی۔ قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ داعی کی حیثیت سے خدا کے کسی پیغمبر کو بھی تذکیر اور بلاغِ مبین سے آگے کسی اقدام کی اجازت نہیں دی گئی۔ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّمَا٘ اَنْتَ مُذَكِّرٌ. لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ. (الغاشیہ ۸۸: ۲۱- ۲۲)
’’ تم نصیحت کرنے والے ہو، تم ان پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔‘‘
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَي الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِﵧ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آلِ عمران ۳: ۱۰۴)
’’اور تمھارے اندر سے ایک جماعت اس کام پر مقرر ہونی چاہیے کہ نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے، اور (جو لوگ یہ اہتمام کریں گے) وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
یہ حکم اربابِ اقتدار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اگر کسی خطۂ ارض میں سیاسی خودمختاری حاصل ہو جائے تو اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، برائی سے روکے اور بھلائی کی تلقین کرے۔ دوسرے لفظوں میں گویا قرآن کا منشا یہ ہے کہ فوج اور پولیس کی طرح اسلامی ریاست کے نظام میں ایک محکمہ قانونی اختیارات کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے بھی قائم ہونا چاہیے جو اپنے لیے مقرر کردہ حدود کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرمِ عمل رہے۔
مسلمانوں کو یہ حکم اس وقت دیا گیا، جب ان کی ایک باقاعدہ حکومت مدینہ میں قائم ہو گئی، لہٰذا حدود، قتال اور اس طرح کے دوسرے احکام سے متعلق آیات کی طرح اس میں بھی اتنی بات مقدر ہے کہ یہ جماعت حکومت کی طرف سے مقرر ہونی چاہیے۔ اس سے واضح ہے کہ قرآنِ مجید کی رو سے امت میں قیامِ حکومت کے بعد یہ فرض اس کے اربابِ حل و عقد پر عائد ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دین سے پوری طرح وابستہ رکھنے کے لیے وہ انھیں خیر کی طرف بلاتے، منکر سے روکتے اور معروف کی تلقین کرتے رہیں۔ ان پر لازم ہے کہ نظمِ ریاست سے متعلق دوسری تمام فطری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ اپنی یہ ذمہ داری بھی لازماً پوری کریں:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ.(الحج ۲۲: ۴۱)
’’( اور یہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ