HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

اصول و مبادی (۱۱)

میزان


مبادیِ تدبر ِ قرآن

 متشابہاً مثانی

پانچویں چیز یہ ہے کہ قرآن اپنا مدعا اتنی مختلف صورتوں اور گوناگوں پیرایوں میں بیان کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ خود اپنے اجمال کی تفصیل اور اپنے معجزانہ کلام کی ایسی شرح و تفسیر بن گیا ہے کہ دنیا کی دوسری کتابوں میں اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اسی بنا پر اس نے اپنی تعریف ’كتاباً متشابهاً‘ کے الفاظ سے کی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ.(الزمر ۳۹: ۲۳ )
’’ اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کی آیتیں ایک دوسرے سے ملتی ہوئی اور سورتیں جوڑا جوڑا ہیں ۔ ‘‘

ولقد صرفنا فی ھذا القرآن لیذکروا‘[28]اور اس مضمون کی دوسری آیات میں یہی حقیقت قرآن نے لفظ ’تصریف‘ سے واضح کی ہے۔ اس کے معنی گردش دینے کے ہیں، یعنی ایک ہی بات کو مختلف طریقوں اور بوقلموں اسلوبوں سے پیش کرنا۔ اسی طرح فرمایا ہے:

كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ.(ہود ۱۱:  ۱)
’’ یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم اتاری گئیں، پھر حکیم و خبیر خداوندِ عالم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی۔ ‘‘

یعنی پہلے اعجاز، جامعیت اور اختصار کا طریقہ اختیار کیا گیا، پھر انھی گٹھے ہوئے، جامع اور مختصر گویا دریا بہ کوزہ جملوں کی تفصیل کر دی گئی۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی قرآن کے اس وصف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’اگر آپ قرآن کی تلاوت کیجیے تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک مضمون مختلف سورتوں میں باربار سامنے آتا ہے۔ ایک مبتدی یہ دیکھ کر خیال کرتا ہے کہ یہ ایک ہی مضمون کی تکرار ہے، لیکن قرآن پر تدبر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن تکرارِ محض سے بالکل پاک ہے۔ اس میں ایک بات جو باربار آتی ہے تو بعینہٖ ایک ہی پیش و عقب اور ایک ہی قسم کے لواحق و تضمنات کے ساتھ نہیں آتی، بلکہ ہر جگہ اس کے اطراف و جوانب اور اس کے تعلقات و روابط بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ مقام کی مناسبت سے اس میں مناسبِ حال تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ایک مقام میں ایک پہلو مخفی ہوتا ہے، دوسرے مقام میں وہ واضح ہو جاتا ہے، ایک جگہ اس کا اصل رخ غیر معین ہوتا ہے، دوسرے سیاق و سباق میں وہ رخ بالکل معین ہو جاتا ہے، بلکہ میرا ذاتی تجربہ اور مدتوں کا تجربہ تو یہ ہے کہ ایک ہی لفظ ایک آیت میں بالکل مبہم نظر آتا ہے، دوسری آیت میں وہ بالکل بے نقاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ ایک بات کی دلیل سمجھ میں نہیں آتی، لیکن دوسری جگہ وہ بالکل آفتاب کی طرح روشن نظر آتی ہے۔
 قرآن کا یہ اسلوب، ظاہر ہے کہ اسی مقصد کے لیے ہے کہ اس کی ہر بات طالب کے ذہن نشین ہو جائے۔ چنانچہ، میں بطور تحدیثِ نعمت کے عرض کرتا ہوں کہ مجھ پر قرآن کی مشکلات جتنی خود قرآن سے واضح ہوئی ہیں، دوسری کسی بھی چیز سے واضح نہیں ہوئی ہیں۔ میر انیس نے کہا ہے کہ:
 اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
ممکن ہے خود ان کے لیے اپنے کلام کے بارے میں یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی ہو، لیکن قرآن کے باب میں یہ بات بالکل حق ہے۔ ایک ایک بات اتنے گوناگوں و بوقلموں اسلوبوں سے سامنے آتی ہے کہ اگر آدمی ذہنِ سلیم رکھتا ہو تو اس کو پکڑ ہی لیتا ہے۔‘‘ ( تدبرِ قرآن، ج ۱، ص ۲۸)

یہ دورِ حاضر میں امام حمید الدین فراہی کے بعد قرآن کے سب سے بڑے عارف کا بیان اور زندگی بھر کا تجربہ ہے۔ قرآن کا جو طالب علم بھی تدبر کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے گا، اس حقیقت کو اس کے ورق ورق پر ثبت پائے گا۔ چنانچہ یہ بات اس روشنی میں بطورِ اصول ماننی چاہیے کہ ’القرآن یفسر بعضه بعضاً‘ (قرآن آپ اپنی تفسیر کرتا ہے)۔ یہ بات صرف قرآن کی تعلیمات، اس کے تاریخی اشارات اور اس کی تلمیحات ہی کے حد تک صحیح نہیں ہے، بلکہ قرآن کا یہ عجیب معجزہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ و اسالیب کی مشکلات کے حل کے لیے بھی اپنے اندر نظائر و شواہد کا ایک قیمتی ذخیرہ رکھتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہاں تفصیل میں پڑنے کی گنجایش نہیں ہے، ورنہ ہم دکھاتے کہ کس طرح قرآنِ مجید عام بول چال کے اندر سے ایک معمولی لفظ اٹھا لیتا ہے اور اس کے معروف معنی سے کہیں زیادہ بلند معنی میں استعمال کرتا ہے اور پھر اپنے طریق استعمال کے تنوع سے اس کے لیے ایسا مخصوص ماحول پیدا کر دیتا ہے کہ ’’لسان العرب‘‘ اور ’’صحاح جوہری‘‘ کی رہنمائی کے بغیر قرآن کا ایک طالب علم اس لفظ کے پورے مالہ و ما علیہ کو اس طرح سمجھ لیتا ہے کہ کوئی چیز بھی اس کے یقین کو جھٹلا نہیں سکتی۔
 مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیبِ کلام اور نحوی تالیف کے باب میں بھی قرآنِ مجید کا یہی حال ہے۔ اربابِ نحو قرآنِ مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح ان کو نہیں سلجھا سکے ہیں، خود قرآنِ مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈیے تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی۔‘‘ (مبادیِ تدبرِ قرآن، ص ۶۰- ۶۱)

(باقی)

ـــــــــــــــــــــــــ

[28]۔ بنی اسرائیل ۱۷: ۴۱۔

B