مناجات
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبُّ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ.
الہٰ صرف اللہ ہے، جو عظیم اور بردباد ہے۔
الہٰ صرف اللہ ہے، جو عرشِ عظیم کا رب ہے۔
الہٰ صرف اللہ ہے، جو آسمانوں کا بھی مالک ہے اور رب ہے اور زمین کا بھی، اور وہ عرشِ کریم کا رب ہے۔
_______________
مشکلات اور آسانیاں سب اللہ کی آزمایش ہیں، یہ آدمی کے ایمان اور حق پر ثابت قدمی کے امتحان کے لیے آتی ہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی اس امتحان میں ناکام ہو سکتا ہے اگر وہ اللہ کے طریقوں (سنن) اور صفات سے واقف نہ ہو۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے نہ وہ حق پر ثابت قدم رہ سکتا ہے اور نہ اللہ سے صحیح معنی میں طلب گارِ مدد ہو سکتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکلات کے لیے یہ دعا سکھائی ہے تو اس میں انھی صفات کے حوالے سے دعا مانگی گئی ہے۔ سب سے پہلے جن صفات کا حوالہ ہے وہ عظمت و حلم ہیں۔ عظمت وحلم یہاں ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آدمی چھوٹے مقاصد اور جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کرے۔ اور حلم بھی بردباری اور جذبات سے بلندی کا نام ہے۔ اگرچہ ایک اعتبار سے ایک میں حوصلہ مندی کا عنصر غالب ہے اور دوسرے میں درگزر کرنے کا۔
یہاں ان صفات کے حوالے سے مقصد یہ ہے کہ آدمی مشکلات میں اپنے خدا کے بارے میں نظریات درست رکھے کہ خدا کی ذات ایسی نہیں ہے کہ جذبات میں آ کر یا جہالت سے مغلوب ہو کر اپنے بندوں پر کوئی مشکل نازل کر دے۔ وہ ان منفی جذبات سے یکسر پاک ہے۔ وہ عظیم اور حلیم ہے۔ اس اعتبار سے یہ صفات اللہ کے بارے میں ہمارے لیے تسلی کا مضمون لیے ہوئے ہیں۔
لیکن چونکہ یہ دعا کے جملے ہیں، اس لیے ان میں یہ مضمون بھی موجود ہے کہ اے اللہ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو جن کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ مشکل آئی ہے، انھیں اپنی عظمت وحلم کے واسطے سے معاف کر دے۔
ان صفات سے پہلے اللہ کے واحد الہٰ ہونے کا بیان ہے۔ جیسا کہ ہم پیچھے بھی کسی دعا میں یہ بات کہہ آئے ہیں کہ آدمی اگر اللہ پر اس کی صفات کے صحیح شعور کے ساتھ ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ مشکلات میں اپنے حقیقی الہٰ کو چھوڑ کر دوسرے انسانوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگ جاتا ہے۔ اس لیے مشکل کے وقت پر پہلے ہی مرحلے میں جس چیز کی یاددہانی ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے، جس کے دروازے پر فریاد لے کر وہ جا سکتا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کا آغاز انھی الفاظ سے کیا ہے۔ اگر مشکلات کے پہلو سے دیکھیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشکلات بھی اسی کی مرضی سے آتی ہیں۔ کسی کا یارا نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر کسی کومشکل میں ڈال دے۔ خواہ یہ مشکلات ہماری کرتوتوں کا نتیجہ ہوں یاآزمایشوں کا۔ اس لیے ہر فریاد کی دادرسی اور ہر غم کا مداوا اگرکسی دروازے سے ہونا ہے تو وہ یہی ہے۔
دوسرے جملے میں ’رب العرش العظيم‘ کی صفت کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’وہ عظیم اقتدار کا مالک ہے‘‘۔ اقتدار کی عظمت خود قرآنِ مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ’وسع كرسيه السموات الارض‘ (آیت الکرسی) اس کا اقتدار اور بادشاہی زمین و آسمان پر پھیلی ہوئی ہے۔ اور دوسرے موقع پر یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کوئی پتا بھی اس کے علم کے بغیر نہیں گر سکتا۔
یعنی اس کا اقتدار پوری کائنات پر محیط ہے۔ کوئی مشکل اس کے حکم کے بغیر نہ کسی کے گھر اتر سکتی ہے اور نہ اسے پریشان کر سکتی ہے۔ اور کوئی کسی اور کے دروازے سے کیسی ہی داد رسی پا لے، اور کیسی ہی توقعات اس سے وابستہ کر لے، اگر اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ مشکل حل نہیں ہو سکتی۔
تیسرے جملے میں اس اقتدار کی وسعت کو ’رب السموات و الارض‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ یہ اقتدار ربوبیت کی نوعیت کا ہے۔ ربوبیت میں پرورش اور نگہداشت کامفہوم بھی موجود ہے۔ کرب و تکلیف کے موقع پر اس صفت کا حوالہ دے کر نگہداری کے تقاضے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اللہ ہماری نگہداری کرے اور تکلیف دور فرمائے اور اس طرح زمین وآسمان کی بادشاہی سے مراد یہ ہے کہ اس کا اقتدار ہر شے پر ہے اس لیے وہ ہر طرح سے ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اس لیے خدا کے حوالے سے اس جملے سے امید پیدا ہوتی ہے۔
’رب العرش الکریم‘ میں اس اقتدار کی فیض رسانی کا حوالہ ہے۔ اس حوالے سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی فیض رسانی ہمیں اس مشکل سے نکالنے کے لیے حرکت میں آئے اور ہمیں اس کرب سے نجات دے گویا ’رب السموات و الارض‘ سے مراد یہ ہوا کہ ہم پر جتنی مشکلیں آتی ہیں ان کے مقابلے میں اس کا اقتدار ایسا نہیں ہے کہ اس کی رعایا مشکلوں میں پڑی رہے اور بھوکوں مرتی رہے اور اس صاحبِ اقتدار کے پاس ان کا کوئی حل موجود نہ ہو اور رب العرش الکریم سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک کریم ذات کی بادشاہی ہے۔ جس کی فیض رسانی عام و خاص کے لیے جاری ہے اور جو عالمین کا فیض رساں رب ہے۔ یہ جملے بھی تسلی کے مضمون کے حامل ہیں اور ایک ایسی تسلی اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کرب و تکلیف کا احساس اس دعا کے اختتام کے ساتھ ہی دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔
اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ.
میں شیطانِ رجیم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔
________________
یہ دعا ہم برے خوابوں کے حوالے سے پہلے بھی پڑھ چکے ہیں۔ اس لیے اس کے معنی پر ہم یہاں بات نہیں کریں گے۔ صرف اس موقع کی مناسبت سے ہم دیکھیں گے کہ اس موقع کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو گالیوں کے جواب میں گالیاں دیتے سنا تو فرمایا کہ اگر یہ کلمات کہتا تو اس کا یہ غصہ رفع ہو جاتا جس کی وجہ سے وہ گالیاں دے رہا ہے۔
غصہ حق کی حمایت اور غیرت میں بھی ہو تو وہ بھی اگر اخلاق، شریعت اور قانون کی حد سے تجاوز کر جائے تو ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اگر غصہ بندۂ مومن کے خلاف ہو اور اس سطح تک چلا جائے کہ وہ اسے گالیاں دینے لگے تو یہ فسق ہے، جس کا آدمی نے ارتکاب کرلیا۔ قرآنِ مجید نے دوسروں کے برے نام رکھنے سے روکا ہے۔ گالی اس کی بدترین شکل ہے۔
ظاہر ہے اللہ کی نافرمانی فسق ہے۔ ایسا عمل شیطان کی اکساہٹ ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب آدمی کا غصہ اس سطح تک پہنچ جائے تو پھر اسے شیطان کے اثر سے باہر آنے کے لیے اللہ کی مدد مانگنی چاہیے جو یہاں اس دعا میں مانگی گئی ہے۔
___________