(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۱)
عن ابن عباس: واما شتمه ایای فقوله: لی ولد وسبحانی ان اتخذ صاحبة اوولدا.
’سبحانی ‘: میں پاک ہوں۔ یہ ’سبح‘ سے علم ہے۔ ہمیشہ منصوب ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے ہر طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ اہلِ نحو کے نزدیک اس کے نصب کا باعث اس کا فعلِ محذوف کا مصدر ہونا ہے۔
’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ .... اس کا مجھے بے توقیر کرنا یہ کہنا ہے کہ میری اولاد ہے۔ حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔‘‘
یہ روایت دو صحابہ سے مروی ہے۔ ایک حضرت ابو ہریرہ اور دوسرے حضرت ابنِ عباس۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت حدیث (حدیث: ۲۰) تفصیل سے زیرِ بحث آچکی ہے۔ حضرت ابنِ عباس کی اس روایت کو صحاح کے مصنفین میں سے صرف بخاری نے روایت کیا ہے۔ صاحبِ مشکوٰۃ نے اس روایت کا پورا متن درج نہیں کیا۔ روایت کا متن درج ذیل ہے:
عن ابن عباس رضی اللّٰه عنه عن النبی صلی اللّٰه علیه وسلم قال قال اللّٰه تعالیٰ: کذبنی ابن آدم ولم یکن له ذلک. وشتمنی ابن آدم ولم یکن له ذلک. فاما تکذیبه ایای فزعم انی لا اقدر ان اعیدہ کما کان. واما شتمه ایای فقوله لی ولد و سبحانی ان اتخذ صاحبة اوولدا.
’’ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابنِ آدم نے مجھے جھٹلایا حانکہ یہ اس کے لیے موزوں نہ تھا۔ اس نے میری بے توقیری کی جبکہ یہ اس کے لیے درست نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ کہنا ہے کہ میں اسے جس طرح کہ وہ ہے اسی طرح کا دوبارہ نہیں بنا سکتا۔ اور اس نے میری بے توقیری یہ کہہ کر کی ہے کہ میری اولاد ہے، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔‘‘
ا س روایت میں پچھلی روایت کے مقابلے میں ’صاحبة‘ یعنی بیوی کا اضافہ ہے۔ اولاد کے تصور کے ساتھ ہی بیوی کا تصور بھی وابستہ ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں بیوی کے وجود کی بھی نفی کی گئی ہے۔ دنیا میں بیشتر جان دار جوڑا جوڑا بنائے گئے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوڑے کے دونوں فرد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ گویا جوڑے کا کوئی فرد اپنی ذات میں مکمل نہیں ہے، وہ اپنی تکمیل کے لیے ساتھی کا محتاج ہے۔ پروردگارِ کائنات اس سے بہت ماورا ہے کہ اسے کسی بھی نوعیت کے ساتھی کی احتیاج ہو۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اولاد کے تصور پر جہاں غضب کا اظہار کیا ہے وہاں استدلال کر کے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بھی واضح کیا ہے۔ سورۂ انعام میں ہے:
وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۣ بِغَيْرِ عِلْمٍﵧ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰي عَمَّا يَصِفُوْنَ. بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ اَنّٰي يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌﵧ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍﵐ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ. (۶: ۱۰۱ - ۱۰۲)
’’اور اس کے لیے بے سند بیٹے اور بیٹیاں تراشیں، وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کی اولاد کہاں سے آئی جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے با خبر ہے۔‘‘
اس آیۂ کریمہ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اس ہستی کے لیے جو زمین و آسمان کی موجد ہے یہ تصور رکھناکہ اس کی اولاد ہے اپنے اندر کس قدر تضاد رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ حماقت ایک اور حماقت کا پیش خیمہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے لیے بیوی کا وجود بھی مانا جائے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سورۂ انعام کے مخاطب قریش ہیں اور وہ خدا کے لیے کسی بیوی کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے۔
بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب ۱۰۔
___________