(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۰)
عن ابی ھریرہ رضی اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: قال اللّٰه تعالیٰ: کذبنی اب آدم و لم یکن له ذلک. فاما تکذیبه ایای. فقوله: لن یعیدنی کما بدءنی ولیس اول الخلق باھون علی من اعادته، و اما شتمه ایای، فقوله: اتخذ اللّٰه ولدا، وانا الاحد الصمد، الذی لم الد ولم اولد ولم یکن لی کفرا احد.
’کذبنی ‘: مجھے جھٹلایا۔ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی۔ یہاں اس سے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے باوجود آخرت کا انکار ہے۔
’ابن آدم‘: انسان کے لیے یہ تعبیر ابو الآبا حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے اختیار کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ’یا بنی آدم‘ کا اسلوب بھی اسی پہلو سے اختیار کیا گیا ہے۔ اناجیل میں بھی یہ تعبیر ایک خاص تاثر پیدا کرتی ہے۔
’لم یکن له ذلک‘:یہ ’ما کان ینبغی له‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی درست اور موزوں نہیں ہے۔ یہ جملہ حال واقع ہوا ہے۔
’شتمنی‘: اس نے مجھے برا کہا۔ اس نے مجھ پر تہمت لگائی۔ یہ ہر اس گفتگو کے لیے آتا ہے جس سے دوسرے کے وقار اور عزت و عصمت کی نفی مقصود ہو۔
’اول الخلق‘: ’اول‘ کا لفظ جہت یعنی ظرفیت کے مفہوم میں بھی آتا ہے اور صفت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پہلے مفہوم میں آیا ہے۔ پوری ترکیب کے معنی ہیں پہلی مرتبہ تخلیق۔ ’ولیس... من اعادته‘ حال کے محل میں ہے۔
’اھون‘:’یھون‘ سے افعل ہے۔ یہاں زیادہ سہل کے معنی میں ہے۔ لفظی معنی حقیر اور ہلکا ہونے کے ہیں۔ مذکورہ مفہوم کو ادا کرنے کے لیے یہ لفظ بہت بلیغ ہے۔
’اتخذ ولدا‘: بیٹا بنانا۔ ’اتخذ‘ کا فعل کسی کو کوئی حیثیت دینے کے معنی میں آتا ہے۔ مثلاً ’اتخذہ صدیقا‘ اس نے اس کو دوست بنایا۔
’الاحد‘: یکتا، سب سے الگ، ممتاز اور بے نیاز۔ ’واحد‘ اور ’احد‘ میں فرق یہ ہے کہ ’واحد‘ صفات میں یکتا ہونے اور ’احد‘ ذات میں یکتا ہونے کے معنی کا حامل ہے۔
’الصمد‘: یہ لفظ اصل میں بڑی چٹان کے لیے آتا ہے، جس کی دشمن کے حملہ کے وقت پناہ پکڑتے ہیں۔ مونا امین احسن اصلاحی نے اللہ تعالیٰ کے لیے اس لفظ کے آنے کا پس منظر واضح کیا ہے:
’’پناہ کی چٹان سے قوم کے سردار کو جو قوم کا پشت پناہ اور سب کا مرجع ہو ’صمد‘کہنے لگے۔ زبور اور دوسرے آسمانی صحائف میں اللہ تعالیٰ کو بکثرت چٹان اور مدد کی چٹان کہا گیا ہے۔‘‘ ( تدبرِ قرآن: ج ۹ ص ۶۵۰)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ابنِ آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کے لیے موزوں نہیں تھا اور ابنِ آدم نے میری بے توقیری کی حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں تھا۔ جہاں تک مجھے جھٹلانے کا تعلق ہے تو یہ اس کا یہ کہنا ہے کہ میں اسے قطعاً نہیں لوٹاؤں گا (یعنی دوبارہ زندہ نہیں کروں گا)۔ جبکہ پہلی مرتبہ تخلیق کرنا دہرانے کے مقابلے میں آسان نہیں ہے۔ اسی طرح اس کی گالی یہ ہے کہ اللہ نے اولاد بنائی۔ جبکہ میں یکتاو بے نیاز اور سب کا پشت پناہ ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے، اور نہ میرا کوئی ہم پلہ ہی ہے۔‘‘
یہ روایت مختلف طرق میں معمولی لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ مثلاً ’ ما کان له ذلک ‘ کے بجائے دوسرے متون میں ’ما ینبغی له‘ یا ’لم یکن ینبغی له‘ روایت ہوا ہے۔ ’لن یعیدنی‘ کی جگہ ’لیس یعیدنی‘یا ’لا اعیدہ کما بداته‘ آیا ہے۔ اسی طرح ’ولیس اول الخلق باھون علی من اعادته‘ کے مفہوم کو ’ولیس آخر الخلق باعز علی من اوله‘ کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ بہر حال ان متون میں نمایاں ترین فرق یہی ہے کہ بعض روایات میں ’ولیس اول...‘ اور ’وانا الاحد...‘ والے توضیحی جملے روایت نہیں ہوئے۔
بنیادی طور پر اس روایت میں تو حید اور معاد سے متعلق قریش اور یہود و نصاریٰ کے افکار پر تنقید کی گئی ہے۔ لیکن یہ تنقیدمحض تجزیے کی نوعیت کی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غیظ و غضب بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عقائد کی زیرِبحث غلطیاں محض علمی نوعیت کی نہیں ہیں۔ اس طرح کے عقائد درحقیقت اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے اور اس کی توہین کرنے کے مترادف ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش آخرت کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ لوگ جب مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے تو ان کا دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا بعید از امکان ہے۔ اس روایت میں صرف یہی نہیں بتایا گیا کہ یہ استدل بالکل بودا ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس سے خدا کے وعدے اور اس کی قدرت و حکمت پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہوتا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے ساتھ یومِ حساب کے انعقاد کے متعلق کیا تھا۔ اسی طرح نصاریٰ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ عرب کے یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا اور قریش اور دوسرے عرب قبائل فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے۔ اس روایت میں اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے۔ یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ رکھنے والے خدا کے بے مثال، بے احتیاج اور سب کے خالق ہونے کے پہلو کو مجروح کرتے ہیں۔ اس طرح وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اس طرح یہ روایت خدا کی صفات کی حقیقی معرفت پیدا کرتی اور اس کے بارے میں اختیار کردہ غلط عقائد کی شناعت واضح کرتی ہے۔
مضمون کے لحاظ سے یہ روایت قرآنِ مجید کے دو بنیادی موضوعات پر مشتمل ہے۔ قرآنِ مجید کی دعوت شرک کے استیصال اور توحید کے استحکام کی دعوت ہے۔ اسی طرح آخرت کا انذار بھی قرآنِ مجید کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس روایت میں ان کے خلاف کیے گئے استدلال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس روایت میں توحید کی توضیح جن الفاظ میں کی گئی ہے، وہ سر تا سر سورۂ اخلاص میں موجود ہے:
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ. اَللّٰهُ الصَّمَدُ. لَمْ يَلِدْﵿ وَلَمْ يُوْلَدْ. وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ.(۱۱۲: ۱ - ۴)
’’ کہہ دو، وہ اللہ یکتا ہے۔ اللہ سب کا سہارا ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا، نہ اس کو کسی نے جنا۔ اس کا کوئی ہم سرنہیں ہے ۔‘‘
اسی طرح قرآنِ مجید نے آخرت کے آنے کا ذکر خدا کے ایک وعدے کی حیثیت سے کیا ہے۔ اہلِ ایمان کے حوالے سے فرمایا:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِﶈ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ. (المائدہ ۵: ۹)
’’اللہ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے، جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے۔‘‘
منافقین اور اہلِ کفر کے حوالے سے ارشاد ہے:
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ. (توبہ ۹: ۶۸)
’’اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں اور اہلِ کفر سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اس روایت میں آخرت کے انکار کو خدا کی تکذیب قرار دیا گیا ہے۔
سورۂ بقرہ میں آخرت کے انکار کو خدا کا انکار بھی قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْﵐ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ. (البقرہ ۲: ۲۸)
’’تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندہ کیا۔ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے۔ پھر وہ تمھیں زندہ کرے گا۔ پھرتم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
گویا وعدے کے پہلو سے دیکھیں تو آخرت کا انکار خدا کی تکذیب ہے اور قدرت کے پہلو سے دیکھیں تو یہ خدا کا انکار ہے۔
اسی طرح خدا کی اولاد کا تصور بھی قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر زیرِ بحث آیا ہے۔ اس روایت میں جو بات ’شتمنی‘ سے ادا کی گئی ہے، اس کی شدت کا صحیح اندازہ سورۂ مریم کے اس مقام سے ہوتا ہے:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا. لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا. تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا. اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا. وَمَا يَنْۣبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا. اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّا٘ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا. (مریم ۱۹: ۸۸- ۹۳)
’’اور کہتے ہیں کہ خداے رحمان نے اولاد بنا رکھی ہے۔ یہ تم نے ایسی سنگین بات کہی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمیں شق ہو جائے اور پہاڑ دھماکے کے ساتھ گر پڑیں کہ انھوں نے خدا کی طرف اولاد کی نسبت کی اور یہ بات خدا کے شایان شان نہیں کہ وہ اولاد بنائے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، سب خداے رحمان کے حضور میں بندے ہی کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔‘‘
غرض یہ کہ یہ بات خدا کی شان کے منافی ہے کہ وہ اپنی تکمیل کے لیے اولاد اختیار کرے۔ اولاد انسان کی ضرورت ہے اور انسان کی غلطی یہی ہے کہ وہ خدا کو اپنے اوپر قیاس کرنے لگتا ہے۔
ان آیات کی روشنی میں اس روایت کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ قرآن ہی کی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔
بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ۱، کتاب تفسیر القرآن، باب ۳۹۱، باب ۳۹۲۔ نسائی، کتاب الجنائز، باب ۱۱۷۔ مسند احمد عن ابی ہریرہ۔
___________