HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۶- ۲۹ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيٖ٘ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاﵧ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْﵐ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَا٘ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاﶉ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا وَّيَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًاﵧ وَمَا يُضِلُّ بِهٖ٘ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ٢٦ﶫ الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۣ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖﵣ وَيَقْطَعُوْنَ مَا٘ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖ٘ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِﵧ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ٢٧

(یہ[54]  جنت کی تمثیل ہے، اور) اللہ اِس بات سے نہیں شرماتا کہ (کسی حقیقت کی وضاحت کے لیے) وہ مچھر یا اس سے بھی حقیر کسی چیز کی کوئی تمثیل بیان کرے۔[55]   پھر جو ماننے والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، اور جو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ اِس مثال سے اللہ نے کیا چاہا ؟[56]   (اِس طرح) اللہ اِس سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو راہ دکھاتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ وہ اِس سے گمراہ کرتا ہے تو ایسے [57]   سر کشوں[58]    ہی کو کرتا ہے جو اللہ کے عہد کو اُس کے باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں[59]   اور اللہ نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُسے کاٹتے ہیں،[60]  اور اِس طرح زمین پر فساد برپا کرتے ہیں۔[61]   یہ وہی ہیں جو (دنیا اور آخرت، دونوں میں) نامراد ہیں۔۲۶- ۲۷


كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْﵐ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٢٨ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًاﵯ ثُمَّ اسْتَوٰ٘ي اِلَي السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍﵧ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٢٩

(اے[62]    لوگو،) تم اللہ کے منکر[63]    کس طرح ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی مارتا ہے، اِس کے بعد وہی زندہ کرے گا، پھر اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔[64]   وہی[65]   جس نے تمھارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا[66]  اور سات آسمان استوار کر دیے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ۲۸ – ۲۹

[54]۔   یہاں سے آگے آیت ۲۷ تک یہ ایک مناسبِ موقع تنبیہ ہے جو سلسلۂ کلام کے بیچ میں جملۂ معترضہ کے طور پر آ گئی ہے۔ یثرب کے مشرکین کو اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ یہود کی پیروی میں وہ تمثیلات کے بارے میں بیہودہ حجت طرازی کا مذاق اپنے اندر پرورش نہ کریں۔ یہ ان کے لیے حق سے محرومی کا باعث بن جائے گا۔

[55]۔   مطلب یہ ہے کہ جنت اور اس کی نعمتوں کا جو ذکر اوپر ہوا ہے، وہ بہرحال تمثیل ہی کے اسلوب میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کے بارے میں جو بات بھی اس دنیا میں سمجھائی جا سکتی ہے، تمثیل ہی کے اسلوب میں سمجھائی جا سکتی ہے، لہٰذا تمھاری نگاہ بھی اصل حقیقت ہی پر رہنی چاہیے، تمثیل کے طور پر جن باغوں اور نہروں کا ذکر ہوا ہے، ان میں الجھ کر نہیں رہ جانی چاہیے۔ اللہ جب کسی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے تو مکھی اور مچھر جیسی حقیر چیزوں کو بھی مثال میں   پیش کر دیتا ہے۔ علم و ہدایت کے جویا اس کی قدر کرتے ہیں، وہ اس کا مذاق نہیں اڑاتے۔

[56]۔    یعنی یہ کیا مثال ہے ؟ کیا خدا کو تمثیل کے لیے مکھی اور مچھر ہی میسر ہوئے ہیں ؟

[57]۔    یہ اشارہ ہے یہود کی طرف۔ اس سے آگے ان کے وہ جرائم بیان ہوئے ہیں جن کے باعث وہ توفیقِ ہدایت سے محروم ہوئے۔

[58]۔   اصل میں لفظ ’فاسق‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید کی اصطلاح میں اس کے معنی معروف سے منکر اور اطاعت سے نافرمانی کی طرف نکل جانے کے ہیں۔

[59]۔ یہود یہ عہد کس طرح باندھتے اور توڑتے رہے، اس کی تفصیلات آگے سورہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔

[60]۔   اس سے مراد رشتۂ رحم اور رشتۂ قرابت کا کاٹنا ہے۔ قرآن نے یہ اسلوب جہاں بھی اختیار کیا ہے، موقعِ کلام کی دلالت سے واضح ہے کہ رشتۂ رحم و قرابت ہی کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس میں جو ابہام ہے اس سے رشتۂ رحم کی عظمت واضح ہو جاتی ہے۔ گویا یہ ایسی معروف اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا نام لیے بغیر ہی ہر شخص سمجھ لیتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جسے خدا نے کاٹنے کا نہیں، بلکہ جوڑنے کا حکم دیا ہے۔

[61]۔   یعنی اللہ تعالیٰ سے عہدوپیمان توڑنے کے بعد جب یہ دوسرا قدم بھی اٹھا لیتے ہیں تو اس سے زمین میں فساد برپا ہو جاتا ہے، اس لیے کہ تمدن اور معاشرت میں صلاح و فلاح کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور رشتۂ رحم کی حرمت ہی پر قائم ہے۔

[62]۔   یہاں سے پھر وہ دعوت سامنے آ گئی ہے جو ’اعبدوا ربکم‘ سے شروع ہوئی تھی۔

[63]۔   اصل میں ’کیف تکفرون باللّٰه‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’کفر‘ سے مراد خدا کا انکار نہیں، بلکہ قیامت کا انکار ہے۔ اس کو خدا کے انکار سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ قیامت کا انکار درحقیقت خدا کی تمام اعلیٰ صفات  ــــــ قدرت، ربوبیت، علم اور حکمت   ــــــ کا انکار ہے۔ جو شخص ان صفات کے بغیر خدا کو مانتا ہے، اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں برابر ہیں۔

[64]۔ یہ معاد اور قیامت کے ممکن ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اس طرح گویا مردہ سے زندہ کیا ہے، وہ مرنے کے بعد دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے کیوں قاصر رہ جائے گا ؟

[65]۔ یہاں سے پیرے کے آخر تک اب قیامت کے ضروری ہونے کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ یعنی جس طرح پروردگار کی قدرت، ربوبیت اور علم و حکمت کی گواہی یہ آسمان و زمین دے رہے ہیں، کس طرح ممکن ہے کہ وہ تمھیں پیدا کر کے یوں ہی چھوڑ دے اور تمھارے نیک و بد میں کوئی امتیاز نہ کرے ؟ لہٰذا قیامت اٹل ہے، وہ ہرحال میں ہو کر رہے گی۔

[66]۔ اصل الفاظ ہیں:’ثم استوی الی السماء‘ان میں ’استواء‘ کے معنی سیدھے کھڑے ہونے کے ہیں اور ’الیٰ‘ کے ساتھ اس کا صلہ دلالت کرتا ہے کہ یہ توجہ کرنے کے مفہوم پر متضمن ہے۔ یہاں کھڑے ہونے اور توجہ کرنے کا وہی مطلب لینا چاہیے جو اللہ، پروردگارِ عالم کے شایانِ شان ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B