HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

تب کیا ہو گا.....

یہ ۲۰ فروری ۱۹۹۹ کی بات ہے۔ میں اپنی موٹرسائیکل پر دفترآ رہا تھا۔ صبح کے نو بجنے والے تھے۔ میں ابھی والٹن روڈ پر پیکجز لمیٹڈ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ دیکھا ایک کار نے اچانک یوٹرن لیا ہے۔ مجھے اس کار والے پر بہت غصہ آیا کہ اس نے عین سڑک کے درمیان اچانک یہ حرکت کیوں کی۔ اس سے کوئی حادثہ ہو سکتا تھا۔ مجھے ایک ذہنی جھٹکا لگا۔ بہرحال، خراب موڈ کے ساتھ میں تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا تو دیکھا کہ کچھ مزید گاڑیاں یوٹرن لے رہی ہیں۔ میں نے دیکھا، ’’قینچی‘‘ کے موڑ پر بہت سے لوگ جمع ہیں۔ اس ہجوم کے پس منظر میں دھواں اٹھ رہا ہے۔ مزید آگے بڑھا تو دیکھا تمام بسیں، کاریں، موٹر سائیکلیں، سائیکلیں واپس مڑ رہی ہیں۔ ایک آدمی نے واپس آتے ہوئے، آگے بڑھنے والے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا: ’’جماعتِ اسلامی والے آگے نہیں جانے دے رہے ۔‘‘ صورتِ حال فوراً میری سمجھ میں آ گئی۔ اس دن بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے وزیراعظم پاکستان سے صلح و سلامتی کی بات کرنے لاہور آنا تھا۔ جماعتِ اسلامی کو ان کی یہ آمد گوارا نہ تھی۔ وہ اس پر اپنے ہی انداز سے احتجاج کر رہی تھی۔ اس ساری صورتِ حال میں اگرچہ والٹن روڈ پر موجود مسافروں کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن وہ سب اس وقت جماعتِ اسلامی کے زیرِ عتاب تھے۔

میرا دفتر جانا بہت ضروری تھا۔ قریب ہی ایک کالونی تھی۔ اس کی گلیاں اندر ہی اندر سے مجھے فیروز پور روڈ پہنچا سکتی تھیں۔ لہٰذا میں نے اپنی گاڑی ادھر موڑ لی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا یہ غیر معروف راستہ خاصا معروف ہو چکا ہے۔ وہاں بہت رش تھا۔ ٹریفک وہاں رینگ رہی تھی۔ بہت سی گدھا گاڑیاں بھی وہاں پھنسی ہوئی تھیں۔ میں نے اس وقت لوگوں کے چہرے دیکھے۔ پریشانی کے تاثرات وہاں نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے۔ اس وقت ایک کار میں ایک پریشان بچے پر نظر پڑی تو اس پر بہت رحم آیا۔ تھوڑا سا آگے بڑھا تو دیکھا ایک موٹر سائیکل سوار کے پیچھے ایک خاتون بیٹھی ہوئی ہے اور آگے ٹینکی پر ایک بچہ۔ یہ بچہ صرف پریشان ہی نہیں، حیران بھی تھا۔ اس بچے کو نہیں معلوم تھا کہ واجپائی کون ہے اور جماعتِ اسلامی کون۔ لیکن اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اس وقت تکلیف میں ہے۔ اور یہ تکلیف پہنچانے والے اپنے ہی لوگ ہیں۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ اور اس وقت یقیناً اس کے اندر فطری طور پر تکلیف پہنچانے والوں کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہو گی۔ ان لوگوں کے خلاف نفرت جو یہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے۔ ہمیں ووٹ نہیں دیتے۔

بہرحال جیسے تیسے مسافر آگے بڑھ رہے تھے۔ میں بڑی مشکل سے کوٹ لکھپت کے ریلوے پھاٹک تک پہنچا۔ پھلوں کی منڈی میں داخل ہوا۔ فیروز پور روڈ قریب ہی تھی۔ اس وقت اس منڈی میں بھی بہت بھیڑ تھی۔ میں نے دیکھا، کچھ لڑکوں نے لمبے لمبے بانس اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا، مزدور ہوں گے۔ لیکن جیسے ہی اس مقام کے قریب پہنچا جہاں سے میں نے فیروز پور روڈ پر آنا تھا تو دیکھا، وہ لمبے لمبے بانس افقی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ مین روڈ پر جانے کا راستہ ان بانس بردار لڑکوں نے بند کر دیا ہے۔ وہاں اور بہت سے لڑکے بھی ہیں جنھوں نے ہاتھ میں ڈنڈے پکڑے ہوئے ہیں۔ یعنی جو آدمی ان کی بات ’’مہذب‘‘ طریقے سے نہ مانے اسے ڈنڈے کے زور پر ماننے پر مجبور کیا جائے گا۔

اب گاڑیوں کے یوٹرن لینے کا سلسلہ یہاں بھی شروع ہوگیا۔ بعض گاڑیوں میں خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ بہت سی کاروں کے لیے یوٹرن لیناناممکن ہو چکا تھا۔ ایسے لوگوں کی حالت توبہت قابلِ رحم تھی۔

میں جس ’’غیرمعروف‘‘ راستے سے آیا تھا اب اسی کی طرف لوٹ رہا تھا۔ کوٹ لکھپت ریلوے پھاٹک کے پاس میں نے ایک کار والے کو دیکھا۔ اس نوجوان کے کپڑے، عینک، کلین شیو اور بیٹھنے کا اسٹائل بتا رہا تھا کہ یہ مغربی طرز معاشرت کو پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگ بالعموم مذہبی لوگوں سے بیزار ہوتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھاکہ اگر یہ نوجوان انھی لوگوں میں سے ہے توآج اس کی بیزاری نفرت میں تبدیل ہوگئی ہو گی۔

میں مزید آگے آیا۔ کچھ کاریں پھلوں کی منڈی کی طرف آ رہی تھیں۔ ایک گدھا گاڑی والا جو لوٹ رہا تھا اس نے کار والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا: وہ شیشے توڑ رہے ہیں۔

جب میں والٹن روڈ پر پہنچا تو دیکھا وہاں ایک بس کھڑی ہے۔ اس میں بے بس سواریاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ بس کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس کے لیے یوٹرن لینا بھی مشکل ہے اور گلیوں میں جانابھی دشوار۔ سچی بات ہے بس کے مسافروں کو دیکھا تو ان پر بہت ترس آیا اور ان پر ظلم کرنے والوں پر غصہ۔

 اس سارے علاقے میں پولیس تو درکنار، ٹریفک کا ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا۔ یہاں حکومت نے بھی اپنی نااہلی کا اچھا مظاہرہ کیا۔

تیسرے دن ایک صاحب نے بتایا کہ میں بھی اس دن اس راستے کی طرف گیا تھا جو جماعتِ اسلامی کے لوگوں نے بند کیا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ان لوگوں نے مجھے روکا۔ میں نے گزرنے پر اصرار کیا تو انھوں نے کہا:  ہم تو آج یہاں سے ایمبولینس بھی گزرنے نہیں دے رہے۔

واجپائی کی لاہور آمد اور اعلانِ لاہور کے کئی پہلو ہیں۔ اس پر کئی جہتوں سے بحث کی جاسکتی ہے۔ یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ واجپائی کی آمد کی وجہ امن کی خواہش ہے یا کوئی گہری سازش۔ لیکن اس میں دو آرا ہو سکتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ واجپائی کی آمد سے مسئلۂ کشمیر حل ہونے کا عمل تیز ہو گا یا پہلے سے بھی سست ہو جائے گا۔ اس میں بھی دو آرا ہو سکتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ ہم نے بھارت کے لیے دشمن ہی بنے رہنا ہے یا اس کے لیے داعی بننے کے امکانات بھی پیدا کرنے ہیں۔ اس میں بھی دو آرا ہو سکتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جاسکتی ہے کہ مسئلۂ کشمیر میدانِ جنگ میں حل کرنا ہے یا کسی مینر کے گرد بیٹھ کر۔ اس میں بھی دو آرا ہوسکتی ہیں۔ اس پر بھی بحث کی جا سکتی کہ اعلانِ لاہور میں سیاسی جنگ پاکستان نے جیتی ہے یا بھارت نے۔ اس میں بھی دو آرا ہو سکتی ہیں۔ اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ پاکستان مسئلۂ کشمیر کے بارے میں اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہو گیا ہے یا اس نے اس معاملے میں ایک کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میں بھی دو آرا ہوسکتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ واجپائی کی اچھی میزبانی کر کے حکومتِ پاکستان نے بے حکمتی کا مظاہرہ کیا ہے یا اپنے اخلاص کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس میں بھی دو آرا ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ بات کہ اس موقع پر جماعتِ اسلامی نے جو بے قصور لوگوں کو اذیت پہنچائی اور مہمانوں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا وہ اسلامی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے، معاشرتی لحاظ سے حتیٰ کہ انسانی لحاظ سے انتہائی لایعنی اور انتہائی بے ہودہ تھا، اس میں دو آرا نہیں ہوسکتیں۔ جماعتِ اسلامی کو اسلامی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے، معاشرتی لحاظ سے، حتیٰ کہ انسانی لحاظ سے لوگوں پر اپنی رائے ٹھونسنے اور اسے بزور منوانے کا ہرگز کوئی حق حاصل نہ تھا، اس میں دو آرا نہیں ہوسکتیں۔

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ایک خاتون نفلی عبادات کا بہت اہتمام کرتی ہے مگر اس کے ہمسایے اس کے رویے کی وجہ سے بہت تنگ ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ عورت جہنم میں جائے گی۔ مزید دیکھیے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک جگہ سفر کے دوران میں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ آپ ضرورت سے کہیں تشریف لے گئے۔ جب لوٹے تو دیکھا کہ ایک صاحب نے اپنا چولہا ایسی جگہ جلایا ہوا ہے جہاں زمین میں یا درخت پر چیونٹیوں کا سوراخ تھا۔ یہ دیکھ کر آپ نے دریافت کیا کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ ان صاحب نے کہا: یا رسول اللہ، یہ میں نے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا بجھاؤ۔ بجھاؤ۔ (غرض یہ تھی کہ ان چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو یا جل کر مر نہ جائیں۔) اب کسی کو اذیت پہنچانے کے پہلو سے اس فرمانِ نبوی اور اس سیرتِ نبوی کی روشنی میں جماعتِ اسلامی کا رویہ دیکھیں تو کیا اس کے رویے کے غیر اسلامی ہونے میں دو آرا ہوسکتی ہیں ؟

ایک دفعہ مدینہ میں ایک مسلمان سے اس کی کافر والدہ ملنے آئی۔ وہ مہمان تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لی گئی۔ آپ نے فرمایا: اسے بٹھاؤ، اس کی سفر کی تھکان دور کرو۔ مزید دیکھیے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان لایا اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اب مہمان کو آرام دینے اور اس کی عزت کرنے کے پہلو سے جماعتِ اسلامی کا ’’سلوک‘‘ دیکھیں تو کیا اس سلوک کے غیراخلاقی ہونے میں دو آرا ہوسکتی ہیں۔

اسوۂ نبی یہ ہے کہ راستے سے انسانوں کو تکلیف پہنچانے والی چیزوں کو ہٹایا جائے۔ اب مسافروں کو راحت پہنچانے کے پہلو سے اس اسوۂ نبی کی روشنی میں جماعتِ اسلامی کا انداز دیکھیں تو کیا اس انداز کے غیر انسانی ہونے میں دو آرا ہوسکتی ہیں۔ یقیناً نہیں۔

جماعتِ اسلامی کے لوگ مذہبی لوگ ہیں۔ ہم بھی مذہبی لوگ ہیں۔ اس پہلو سے یہ لوگ دیگر مذہبی لوگوں کی طرح اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ اس اپنائیت کی وجہ سے ایک تشویش پیدا ہوتی ہے۔ جی ہاں، تشویش۔ اُس وقت کی تشویش جب صور میں پھونک دیا جا چکا ہو گا۔ کشمیر سمیت زمین کا ہر حصہ اپنا یہ وجودکھو چکا ہو گا۔ محاسبۂ اعمال شروع ہو چکا ہو گا۔ سیاسی مسائل کی اصل حیثیت بے نقاب ہو چکی ہو گی۔ اخلاقی معاملات کی اہمیت واضح ہو چکی ہو گی۔ درست مقصد کے لیے ذرائع بھی درست ہی اختیار کیے جا سکتے ہیں، یہ بات مسلم ہو چکی ہو گی۔ میزانِ عدل قائم ہو چکی ہو گی۔ وہ لوگ جنھیں آج آمد و رفت کے حق سے ناجائز طور پر محروم کر کے انھیں گوناگوں نقصانات سے دوچار کیا گیا اور انھیں طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا گیا۔ وہ لوگ جنھیں دکانیں بند کرنے پر ناحق مجبور کر کے انھیں ایک دن کی کمائی سے محروم کیا گیا اور انھیں طرح طرح کے اندیشوں کا شکار کیا گیا۔ وہ لوگ جن کی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے۔ وہ مزدور جن سے دیہاڑی لگانے کے مواقع چھین لیے گئے وہ آج ہو سکتا ہے کہ کسی خوف سے ایسا کرنے سے گریز کریں، مگر اس دن یہ سب لوگ جماعتِ اسلامی کے افراد کے خلاف مقدمہ کریں گے اور مقدمہ سننے اور اس کا فیصلہ کرنے والا رب ذوالجلال ہو گا..... تو تب کیا ہو گا..... !

ـــــــــ محمد بلال  

___________

B