HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اس شمارے میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال سے مکہ میں تبلیغ کر رہے ہیں۔ دین کی حمیت کا جذبہ سب سے بڑھ کر آپ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ آپ کے ساتھی آپ کے اشارۂ ابرو پر جان لینے اور جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ایمان کے دوسرے درجے پر ہوں، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ معلوم ہے کہ شرک تمام برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بیت اللہ، بت کدہ بنا ہوا ہے، غیر اللہ کو پکارا جا رہا ہے، اہلِ توحید کو مارا جا رہا ہے، لیکن آپ ان بتوں کے خلاف کوئی طاقت استعمال نہیں کر رہے، مشرکین کے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہیں کر رہے، اہلِ توحید پر ظلم کرنے والوں پر کوئی جوابی حملہ نہیں کر رہے۔

دوسرے انبیاکو د یکھیں۔ موسیٰ علیہ السلام ہی کو لیں۔ پر ُ جلال مزاج رکھتے ہیں۔ ان کا مخاطب فرعون ہے۔ وہ بدترین برائیوں کا مرتکب ہے۔ لیکن آپ اس کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہیں کر رہے۔ لوط علیہ السلام کی قوم ایک بہت بڑی برائی میں ملوث ہے۔ لیکن آپ اسے نصیحت ہی کر رہے ہیں، کوئی سخت قدم نہیں اٹھا رہے۔ مسیح علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل ہے۔ اس نے خدا کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا دیا ہے۔ حواریوں کے ساتھ اگر ساتھی بھی ملا لیے جائیں تو ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ ہے، لیکن آپ اس قوم کو زبان ہی کے ذریعے سے راہِ راست پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان پر کسی قسم کی کوئی یلغار نہیں کر رہے۔

بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ انبیا پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ انھیں قتل کیا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں۔ جسمِ مبارک پر نجاست ڈالی جا رہی ہے۔ تین سال کے لیے آپ کو شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا گیا ہے۔ اس دوران میں آپ پتے کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ طائف کی گلیوں میں آپ پر اتنے پتھر برسائے گئے ہیں کہ جوتیاں خون سے بھر گئی ہیں۔ اور اس کے ساتھ گالیاں بھی دی گئی ہیں اور تالیاں بھی بجائی گئی ہیں۔ یرمیاہ نبی کو رسی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیا گیا ہے۔ ذکریا علیہ السلام کو عین ہیکلِ سلیمانی میں سنگ سار کر دیا گیا ہے۔ یحییٰ علیہ السلام کا سرقلم کر کے ایک رقاصہ کو پیش کر دیا گیا ہے۔ لیکن کوئی نبی (جب تک اسے سیاسی اقتدار نہیں مل گیا) برائی اور بروں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کر رہا۔

لیکن ہمارے ہاں صورتِ معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے والے مذہبی قائدین (جن کے پاس سیاسی اقتدار نہیں ہے) لوگوں کو طاقت کے ذریعے سے برائی ختم کرنے پر اکسا رہے ہیں جبکہ ان کے کارکن تو برائی کو ہاتھ سے ختم کرنے کے لیے ایک عرصے سے میدانِ عمل میں اترے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں پر نہ صرف یہ کہ جوابی وار کر رہے ہیں بلکہ اقدامی وار بھی کر رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے صالحین معاشرے میں سخت ناپسند کیے جا رہے ہیں اور بدمعاش اور غنڈے کے نام سے یاد کیے جا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال حیران بھی کرتی ہے اور پریشان بھی۔

اگر اس مسئلے کی تہ میں اتریں اور اس عمل کی بنیاد میں پائے جانے والے علم کو تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے جارحانہ عزائم اور اقدام کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وہ بہت سے دلائل دیتے ہیں۔ ایک دلیل وہ یہ دیتے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے برائی کو روکنے کو ایمان کا پہلا درجہ قرار دیا ہے۔

یہ واقعہ ہے کہ حدیث کو سمجھنا اور اس سے مسائل اخذ کرنا ایک بے حد مشکل علم و فن ہے۔ دین کے تمام اصولوں کو نظر انداز کر کے انبیا کی ساری سیرت سے اعراض کر کے، صرف ایک حدیث پر اپنے نقطۂ نظر کی بنیاد رکھنا، دنیا اور آخرت دنوں پہلوؤں سے بڑے سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اور چونکہ یہ اعراض کیا جا چکا ہے اس لیے اس کے سنگین نتائج اپنی تمام تر کراہیت کے ساتھ دنیا میں تو سامنے آ چکے ہیں اور اندیشہ ہے کہ اس معاملے میں اگر فکروفلسفہ کی اصلاح نہ کی گئی تو صورتِ حال سنگین تر ہو جائے گی۔

اس وقت ’’دین و دانش‘‘ کے ضمن میں جاوید احمد صاحب غامدی کی تحریر ’’قانونِ دعوت‘‘ کے ایک ذیلی عنوان ’فرد کی نصیحت‘کے تحت مذکورہ حدیث کی شرح کی گئی ہے جس کی غلط تفہیم نے اسلام جیسے دینِ دعوت کو دینِ فساد بنا کر رکھ دیا اور لوگوں کو مذہب کے قریب لانے کے بجائے مذہب سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاوید صاحب کی یہ چھوٹی سی تحریر ہے لیکن اس نے ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ بائیبل، تورات، زبور اور انجیل کا مجموعہ ہے۔ قرآنِ مجید کی طرح تورات زبور اور انجیل کے الفاظ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر نہیں لی تھی۔ اس لیے کمزور انسان ان کی صحیح معنوں میں حفاظت نہ کر سکا۔ اور پھر یہ کتابیں ترجمہ در ترجمہ در ترجمہ....  کے عمل سے گزری ہیں جس سے ان کی افادی حیثیت مزید کم ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود بائیبل کے اکثر مقامات ایسے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے، محبتِ الہٰی دل میں جاگزیں ہونے لگتی ہے اور حکمت و معرفت کی پرتیں کھلنے لگتی ہیں۔ اور اس کے وہ مقامات جہاں حضرتِ انسان دخل انداز ہوا ہے انھیں اگر قرآنِ مجید کی روشنی میں دیکھ لیا جائے تو وہ کسی طرح غلط راہ پر ڈالنے کا باعث نہیں بن پاتے۔ لیکن اس کے باوجود بائیبل کو پڑھنے کا رجحان ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ اور بائیبل کے بڑے اسکالرز تو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

جناب عبد الستار غوری کا انٹرویو اس اشاعت میں ’’ملاقات‘‘ کے تحت طبع کیا گیا ہے۔ غوری صاحب بائیبل کے ایک بڑے اسکالر ہیں۔

ہم انٹرویو کے لیے شخصیت کا انتخاب کرتے ہوئے اس کی شہرت کو پیشِ نظر نہیں رکھتے، بلکہ اس کے کسی علم و فن میں یا کسی اور پہلو سے بڑے ہونے کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہی چیز اس ’’ملاقات‘‘ کے لیے غوری صاحب کی وجۂ انتخاب بنی ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے مشہور لوگوں کی کمی نہیں ہے جن سے ملاقات کے بعد یا ان کی باتیں سننے یا پڑھنے کے بعد وقت کے ضیاع کا احساس بڑی شدت سے پیدا ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘ اور’’ادبیات‘‘ کے سلسلے حسبِ سابق موجود ہیں۔

ـــــــــ محمد بلال  

___________

B