[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں،ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
كنانہ بن خزیمہ نبی صلی الله علیہ وسلم كے چودھویں جد تھے۔مشہور روایت كے مطابق كنانہ كے چار بیٹے تھے:مالك ،نضر، ملكان اور عبد مناة۔ طبری نے اضافہ كر كے ان كی تعداد پندرہ بتائی ہے۔ نضربن كنانہ كو قریش اكبر مانا جاتا ہے ،انھی كی اولاد قریش كہلاتی ہے،آپ كے گیارھویں جد فہر بن مالك كو قریش اوسط اورپانچویں جد قصی بن كلاب كو قریش اصغر كہا جاتا ہے۔ كنانہ بن خزیمہ كے باقی بیٹوں كی اولاد كنانی كہلاتی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت صفوان بنو كنانہ كی فرع بنو مخدج سے تعلق ركھتی تھیں۔ان كے دادا كا نام امیہ بن محرث تھا۔ مخدج بن عامر ان كے ساتویں، جب كہ مالك بن كنانہ گیارھویں جد تھے۔كنانہ پر ان كا شجره نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرۂ نسب سے جا ملتا ہے۔ حضرت اسمٰعیل كے بیٹے قیدار یا نابت كی اولاد میں سے عدنان بن ادد حضرت فاطمہ كی انیسویں پشت پر تھے۔ اموی حكمران مروان بن الحكم كی والده آمنہ بنت علقمہ حضرت فاطمہ بنت صفوان كی بھتیجی تھیں۔حضرت ابوبكر كی اہلیہ حضرت ام رومان بنو كنانہ كی فرع بنوفراس سے تعلق ركھتی تھیں۔
حضرت فاطمہ بنت صفوان كے جیٹھ حضرت خالد بن سعید ’السٰبقون الأولون‘ میں شامل تھے، جب كہ ان كے شوہر حضرت عمرو بن سعیدكی اپنے مشرك باپ سے محبت دین حق كی قبولیت میں ركاوٹ بنی رہی۔ اسلام كے بڑھتے ہوئے نفوذ سے گھبرا كر سعید بن العاص مكہ چھوڑ گئے تو حضرت عمرو كا دل ایمان كے لیے وا ہو گیا۔وه كچھ دنوں كے بعد یا بعض روا یات كے مطابق حضرت خالد بن سعید كےد و سال بعد مشرف بہ اسلام ہوئے ، اس لیے انھیں ’السٰبقون إلی الإسلام‘ كی فہرست میں جگہ نہ مل سكی۔
واقعات كے تسلسل سے پتا چلتا ہے كہ حضرت فاطمہ بنت صفوان انھی دنوں میں حضرت عمرو بن سعید كے عقد میں آئی ہوں گی اور ان كے ساتھ ہی بیعت ایمان كی ہو گی ۔
رجب ۵/ نبوی :مكہ كے مشرك سرداروں نے اپنے زیر اثر مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ كر د یاتو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كم زوروں كو سرزمین حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كی اجازت دے دی۔چنانچہ حضرت فاطمہ بنت صفوان اپنے شوہر حضرت عمرو بن سعید كے ساتھ حبشہ روانہ ہو گئیں۔ ابن عبدالبر،ابن ہشام اورابن كثیر كا كہنا ہے كہ حضرت فاطمہ اور حضرت عمرو نے اپنے بھائی حضرت خالد بن سعید اور بھابھی حضرت امینہ بنت خلف كے ساتھ سفر ہجرت طے كیا،جب كہ حضرت خالد بن سعید كی بیٹی حضرت ام خالد بتاتی ہیں كہ میرے چچا حضرت عمرو میرے والد كےہجرت كرنے كے كچھ دنوں(ابن اثیر،مستدرك حاكم، رقم ۵۰۴۸) یادو سال كے بعد (ابن سعد،ابن حجر) حبشہ پہنچے۔
حبشہ میں داخل ہونے كے بعد مہاجرین ملك میں پهیل گئے۔ان میں سے زیادہ تر موجودہ ادیس ابابا سےچار سونوے میل(سات سو نوے كلومیٹر) دورواقع نجاش (Negash)كے قصبے میں مقیم رہے ،كچھ سمندر پار كركے مشرقی ایشیا پہنچے،ایك شاذ روایت كے مطابق چند نے صومالیہ كی راہ لی۔
حضرت فاطمہ بنت صفوان كی زندگی نے وفا نہ كی ۔انھوں نے حبشہ میں جلد ہی وفات پائی اور ان كی كوئی اولاد بھی نہ ہوئی۔
قیام حبشہ كے دوران میں سات صحابہ اور تین صحابیات نے انتقال كیا۔ عبیدالله بن جحش آٹھویں مرد تھے جو نصرانی ہو كر فوت ہوئے۔ سب سے پہلے حضرت عدی بن نضلہ نے داعی اجل كو لبیك كہا۔شاہ نجاشی نے خود ان كی تدفین كی۔ مسجد نجاشی كے عقب میں شارع صحابہ پرواقع احاطے میں پندره صحابہ كے مزارات اب بھی موجود ہیں۔حضرت نجاشی كی قبر سے ملی ہوئی دس صحابہ اور پانچ صحابیات كی قبریں ہیں جن میں سے حضرت فاطمہ بنت صفوان، حضرت عدى بن نضلہ،حضرت حاطب بن حارث، حضرت حطاب بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت سفیان بن معمر، حضرت عروہ بن عبد العزیٰ اورحضرت مطلب بن ازہر كی قبروں كی شناخت ممكن ہے۔
موجود مسجد نجاشی كو ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۳ء تك جاری ر ہنے والی خانہ جنگی میں شدید نقصان پہنچاتو تركی كی فلاحی تنظیم ’’ TIKA‘‘نے اس كی تعمیر نو كی،مسجد كے عقب میں شارع صحابہ كو بحال كیا اور اس پر واقع پندره صحابہ كے مزارات كی مرمت كی۔
اہلیہ كی وفات كے بعد حضرت عمرو بن سعید اپنے بھائی حضرت خالد بن سعید اور ان كے كنبے كے ساتھ ۷ھ میں حبشہ سے آنے والے آخری قافلے كے ساتھ مدینہ پہنچے۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃوالنہایۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ــــــــــــــــــــ
حضرت نوح علیہ السلام كی ذریت میں سے قحطان كو ابو الیمن كہا جاتا ہے۔قحطان كی اولاد میں سے عامر بن یشجب نے یمن میں عظیم مملكت سبا قائم كی اور خود بھی سبا كا لقب پایا۔كہلان بن سبا ازد بن غوث كے پردادا تھے جن كے نام سے عرب قبیلہ بنو ازد موسوم ہوا۔حمیر بن سبا كہلان كے چھوٹے بھائی تھے۔عرنجج نام تھا،عام طور پر سرخ لباس پہنتے تھے،اس لیے حمیر كے لقب سے ملقب ہوئے۔ ازد كی اولاد مختلف مقامات پر پھیل گئی جس سے بنوازد چار شاخوں میں منقسم ہوگئے : ازد شنوءہ، ازد غسان،ازد السراة اورازد عمان۔ دوس اور غامد ازد شنوءہ كے مشہور ذیلی قبائل تھے۔ حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ كا تعلق دوس سے تھا،اسی لیے وه دوسی كہلاتے ہیں اور ان كو ازدی بھی كہا جاتا ہے۔شاذ روایت كے مطابق وه ذواصبح یا بنوسدوس سے تھے۔ اصبح كے معنی ہیں:سرخی مائل بالوں والا۔ابن منظور كہتےہیں: ذو اصبح حمیر كے بادشاہ تھے(لسان العرب۲/۵۰۷)۔حضرت معیقیب كا نام معیقب بھی لكھا گیا ہے۔
حضرت معیقیب اسلام كے ابتدائی دور میں مكہ میں مسلمان ہوئے۔
حضرت معیقیب كے حلیف سعیدبن العاص نے قبول اسلام كی پاداش میں اپنے سگے بیٹے حضرت خالد پر خوب تشدد كیا تھا تو حضرت معیقیب كو كیا كچھ نہ كہا ہو گا۔جب مكہ كے ضعیف مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا تو حضرت معیقیب نے نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم كی ہدایت پر حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ سیر صحابہ كے تمام مرتبین انھیں مہاجرین حبشہ میں شماركرتے ہیں۔تاہم بعض روایات كے مطابق نعمت اسلام پانے كے بعد وه اپنی قوم میں واپس چلے گئے اورحضرت ابو موسیٰ اشعری اور دیگر اشعریوں كے ساتھ حبشہ پہنچے ۔
حضرت معیقیب دیگر مہاجرین كے ساتھ آخر تك حبشہ میں مقیم رہے ۔ ۷ھ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری كو حبشہ بھیجا تو شاه نجاشی نے مہاجرین كی واپسی كے لیے دو كشتیاں مہیا كیں جن میں سولہ ا صحاب ،تین صحابیات اورتین بچے سوار ہو كر حجازکے ساحل پر پہنچے اور وہاں سے مدینہ كا سفر طے كیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوئے تو مہاجرین كا استقبال کیا۔
ایك روایت كے مطابق حضرت معیقیب كشتی سواروں سے پہلے مدینہ لوٹ آئے۔
حضر ت معیقیب نےغزوۂ خیبر میں آں حضور صلی الله علیہ وسلم كا بھرپور ساتھ دیا۔ابن منده كی روایت درست نہیں كہ انھوں نے جنگ بدر میں شركت كی، كیونكہ تب وہ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے۔حضرت معیقیب بیعت رضوان میں شریك ہوئے۔انھوں نے بعد كے معركوں میں بھی حصہ لیا۔ ابن كثیر نے كاتبین وحی میں حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ كا نام شامل كرنے كے بعد لكھاہے كہ وه آپ كی انگوٹھی كی حفاظت كرتے تھے۔
حضرت ابوبكر نے حضرت معیقیب بن ابوفاطمہ كو مال فے كا نگران مقرر كیا۔
خلیفۂ دوم حضرت عمر نےحضرت معیقیب كو بیت المال كا خازن مقرر كیا۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کے ساتھ امن وسلامتی سے رہنے کے معاہدات كیے، لیکن جب انھوں نے بدر و احد کی جنگوں میں مشرکوں کی مدد کر کے عہد شكنی کی تو آپ نے قتال کرکے انھیں مدینہ سے نکال باہر کیا۔محض خیبر میں کچھ یہودی رہ گئے جو نصف پیداوار دینے کی شرط پر اپنی زمینیں کاشت کرنے کے لیے آزاد تھے۔ نجران کے عیسائیوں سے بھی آپ نے جزیہ وصول کرنے کی شرط پر صلح فرمائی۔خلافت صدیقی میں یہ معاہدے برقرار رہے۔حضرت عمرفاروق نے خلیفہ بننے كے بعد ان معاہدوں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی، ان کی دلیل تھی کہ آپ نے حیات مبارکہ کے آخری دور میں نصیحت فرمائی تھی:جزیرۂ عرب سے مشركوں كو نكال باہركرو(بخاری، رقم ۳۱۶۸۔مسلم ، رقم ۴۲۴۱)۔ آپ نے یہ صراحت بھی فرمائی: حجاز كے یہودیوں اور نجران كے عیسائیوں كوجزیرۂ عرب سے نكال دو(احمد، رقم ۱۶۹۱۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۸۷۴۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۳۶۶۲ )۔ یہ فرمان نبوی حضرت عمر نے خود اپنے كانوں سے سنا:میں جزیرۂ عرب سے یہود و نصاریٰ كو نكال دوں گا، حتیٰ كہ صرف مسلمان رہنے دوں گا(مسلم، رقم ۴۶۱۶)۔ یہی روایت دوسرے الفاظ میں ہے:جزیرۂ عرب میں دو دین اكٹھے نہ رہیں گے (احمد، رقم ۲۶۳۵۲۔ موطا امام مالك، رقم ۲۸۱۷۔السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۸۷۵۱) ۔
عہد فاروقی میں جزیرہ نماے عرب کی وحدت قائم ہو چکی تھی، اس لیے پیغمبر علیہ السلام کے اس فرمان پر عمل کرنا ممکن ہو گیا تھا۔چنانچہ حضرت عمر فاروق نے یمن کے گورنرحضرت یعلیٰ بن امیہ کو ذمہ داری سونپی کہ نجران کے عیسائیوں میں سے جو اپنے دین پر قائم رہنا چاہتا ہے، اسے حدود عرب سے نکال کر یمن یاجزیرۂ عرب کے نواح میں آباد کردیا جائے۔ انھوں نے تلقین کی کہ اہل نجران کی مذہبی آزادی اور جان ومال کا تحفظ کیا جائے اور انھیں ویسی ہی یا اس سے بہتر زمینیں دی جائیں، جس طرح کی وہ حدود عرب میں رکھتے تھے۔ عیسائیوں کے بعدحضرت عمر نے خیبر کے یہودیوں کو بھی جزیرۂ عرب سے باہر آباد ہونے کا حکم دیا تو کسی کو حیرت نہ ہوئی، کیونکہ یہ ان کے اسی فیصلے کا اطلاق تھا۔
یہود خیبر سے نكل گئے تو خیبر سے تیما تك كی وسیع وادی جس میں كئی بستیاں آباد تھیں، اس لیے وادی القریٰ كہلاتی تھی ،خالی ہو گئی۔حضرت عمر نے یہ وادی تیس سے زیاده صحابہ میں بانٹ دی ۔انھوں نے ایك بڑا حصہ حضرت معیقیب كو عطا كیا۔
مرض جذام(leprosy)
عہد فاروقی میں حضرت معیقیب كو كوڑھ (leprosy) كا مرض لاحق ہو گیا۔حضرت عمر ان كا علاج كرانے كے لیے برابر كسی طبیب كی تلاش میں رہے ۔یمن سے دو ملاقاتی ان كے پاس آئے تو دریافت كیا :كیا تمھارے ہاں اس نیك انسان كا علاج ہے؟ جذام اس میں تیزی سے سرایت كر رہاہے۔انھوں نے جواب دیا:اس مرض كو ختم كرنا ہمارے بس میں نہیں ، البتہ ہم ایسی دوا دیں گے جو اس كا مزید پھیلاؤروك دے گی۔ حضرت عمر نے كہا: یہ بڑی صحت یابی ہو گی۔ یمنیوں نے پوچھا :كیا آپ كی سرزمین میں حنظل (اندرائن،citrullus colocynthis) پیدا ہوتا ہے؟جواب دیا:ہاں۔كہا:اكٹھا كر لائیں۔ چنانچہ دو بڑے ٹوكرے بھر كرركھ دیے گئے۔انھوں نے ایك ٹوكرا دو حصوں میں بانٹ كر حضرت معیقیب كو پہلو كے بل لٹادیا ۔دونوں یمنیوں نے حضرت معیقیب كا ایك ایك پاؤں پكڑ لیا اور تلووں پر حنظل (اندرائن )ملنے لگے۔ایك پھل ختم ہو جاتا تو دوسرا لے لیتے ۔انھوں نے یہ عمل جاری ركھا، لیكن جب دیكھا كہ حضرت معیقیب كے ناك اور منہ سے سبز صفرا جاری ہو گیا ہے تو چھوڑ دیا۔ اور حضرت عمر سے كہا:اب ان كی تكلیف میں كبھی اضافہ نہ ہو گا۔الله كا كرنا ایسا ہی ہوا،حضرت معیقیب كی بیماری رك گئی اور ان كی وفات تك اس میں شدت نہ آئی۔
حضرت عبدالله بن جعفر كہتے ہیں:حضرت عمر بن خطاب ایك برتن میں پانی حضرت معیقیب كو پینے كے لیے دیتے، جب وہ پی لیتے تو اسی برتن میں اس جگہ منہ لگا كر خود پیتے جہاں سے انھوں نے پیا ہوتا۔وه چھوت كا تاثر دور كرنے كے لیے ایساكرتے۔ایك بار انھوں نے كچھ لوگوں كو كھانے پر بلایا۔حضرت معیقیب بھی موجود تھے ، اس لیے لوگ دسترخوان پر بیٹھنے سے گھبرانے لگے،لیكن حضرت عمر نے كھانا جاری ركھا او ر حضر ت معیقیب كو نصیحت كرنے لگے:اپنے پاس سے اور اپنی جانب سے كھاؤ ۔ایك رات كو حضرت عمر كے لیے كھانا ركھا گیا كچھ اور لوگ بھی شریك تھے ۔انھوں نےحضرت معیقیب كو پاس بٹھا لیا اور كہا: تمھار ے علاوه كوئی اور ہوتا تو میرے ساتھ مل كر ایك تھالی میں كھانا نہ كھاتا،میرے اور اس كے درمیان نیزه بھر فاصلہ ہوتا۔
حضرت معیقیب كے پوتےایاس بن حارث روایت كرتےہیں كہ حضرت معیقیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی انگوٹھی كی نگرانی پر مامور تھے (ابوداؤد، رقم ۴۲۲۴۔نسائی، رقم ۵۲۰۸)، لیكن اسی روایت میں ان كا یہ كہنا كہ بسااوقات انگوٹھی میرے ہاتھ میں رہتی تھی، اشاره كرتا ہے كہ یہ عہد نبوی كے بعد كی بات ہے۔
مشہور ہے كہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی سركاری انگوٹھی حضرت عثمان كے ہاتھ سے بیر اریس میں گری۔ لیكن چونكہ یہ انگوٹھی حضرت معیقیب كی نگرانی میں تھی اس لیےكہا جاتا ہے كہ یہ ان كے ہاتھ سے كنویں میں گری(مسلم، رقم ۵۵۲۸)۔شاید تب تك جذام كے اثرات ختم ہو گئے ہوں اور وه انگوٹھی پہنتے ہوں۔
ابن اثیر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی انگوٹھی كی گم شدگی كے اثرات كاحضرت سلیمان علیہ السلام كی انگشتری سے موازنہ كیا ہے۔ كہتے ہیں كہ حضرت سلیمان كی انگوٹھی گم ہونے كے بعد ملك شام میں فتنہ وفساد برپا ہوا، جب كہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم كی موروثی انگوٹھی گم ہونے كے بعد خراسان سے لے كر مراكش تك عالم اسلام سے اتفاق جاتا رہا اور پورا خطہ فتنوں كی آماج گاه بن گیا(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ۴/ ۴۰۳)۔
حضرت سلیمان كی انگوٹھی پراسم اعظم کندہ تھا اور اسی سے وه جن و انس پر حکومت کرتے تھے۔ایك بار رفع حاجت كے لیے گئے تو انگوٹھی اپنی ام ولد امینہ(دوسری روایت:سب سے زیاده قابل اعتماد بیوی جراده) كوپكڑادی ۔صخر (دوسری روایت:حبقیق) نامی شیطان نے ورغلا كر انگوٹھی اس سے لے لی۔ حضرت سلیمان تخت و سلطنت سے محروم ہو گئے اورشیطان نے ان كا روپ دھار كر حكومت چلانا شروع كر دی۔حضرت سلیمان كو ہر كسی نے پہچاننے سے انكار كر دیا تو وه ساحل سمندر پر چلے گئے،مچھلیاں ڈھوتے تو معاوضے كے طور پر دو مچھلیاں ملتیں۔ ایك كو بیچ كر رو ٹی لے لیتے اور دوسری پكا كر كھا لیتے۔ادھر حضرت سلیمان كے مصاحب آصف بن برخیا اور بنی اسرائیل كے سركرده لوگوں كوشیطان كے طرز حكمرانی پر شبہ ہوا اور انھوں نے تورات كھول كر سنانا شرع كر دی۔ شیطان نے دیكھا كہ راز افشا ہونے لگا ہےتو مجلس سے اڑا اور انگوٹھی سمندر میں پھینك دی ،الله كے حكم پر ایک مچھلی نے اسے نگل لیا۔حضرت سلیمان كو ساحل پر چالیس روزگزر چكے تھے كہ روزانہ ملنے والی مچھلیوں میں سے ایك کےپیٹ سے انگوٹھی برآمد ہوئی۔ اس طرح ان كوسلطنت وحکومت دوباره مل گئی۔انھوں نے شیطان صخر(یا حبقیق) كو لوہے كے صندوق میں بند كر كے ،قفل اور مہر لگوا كر سمندر میں پھینكوا دیا(تاریخ الامم والملوك۱/۲۹۵۔الكامل فی التاریخ ۱/ ۲۰۸- ۲۰۹۔بحار الانوار،باقر مجلسی ۶/ ۲۴۱)۔
شیعہ عقیدے كے مطابق یہ انگشتری حضرت سلیمان كے بعد مختلف نبیوں سے ہوتے ہوئے شیعہ اماموں كے پاس آگئی اور اب امام مہدی كے پاس ہے ۔ان كا ظہور ہوگا تو منظر عام پر آ جائے گی(ویكی شیعہ ،فارسی: انگشتر سلیمان)۔
مشہور روایت كے مطابق حضرت معیقیب نے عہد عثمانی كے آخر میں وفات پائی تاہم ایك روایت كے مطابق ان كا انتقال حضرت علی كے عہد خلافت میں ۴۰ھ میں ہوا۔
حضرت معیقیب سے سات احادیث مروی ہیں جو انھوں نے خود نبی صلی الله علیہ وسلم سے سماع كیں ۔ان كےبیٹوں محمد،حارث اور پوتے ایاس بن حارث نے ان سے حدیث روایت كی۔ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بھی حضرت معیقیب سے روایت كرنے والوں میں شامل ہیں۔
حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ كی یہ روایت كثرت سے نقل كی گئی ہے۔انھوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص كے بارے میں استفسار كیا جو نماز میں سجده كرتے ہوئے مسجد كی مٹی ہمواركرتا ہے؟آپ نے جواب فرمایا:اگر ایسا كرنا ضروری ہے تو ایك بار كر لے(بخاری، رقم ۱۲۰۷۔ مسلم، رقم ۱۱۵۶۔ ابو داؤد، رقم ۹۴۶۔ ترمذی، رقم ۳۸۰۔نسائی، رقم ۱۱۹۳۔ابن ماجہ، رقم ۱۰۲۶۔احمد، رقم ۱۵۵۰۹۔صحیح ابن حبان، رقم ۲۲۷۵)۔
حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ كے آزادكرده ابوراشد نے پوچھا:كیابات ہے كہ میں نے آپ كواس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی احادیث بیان كرتے نہیں سنا، جیسے دوسرے اصحاب بیان كرتے ہیں؟ فرمایا: والله، میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے ان صحابہ میں سے ہوں جنھیں شروع سے آپ كی صحبت میں رہنے كا شرف حاصل ہوا، لیكن زیاده خاموش رہنا زیاده بولنے سےبہتر ہے۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،الكامل فی التاریخ (ابن اثیر)،تہذیب الكمال فی اسماء الرجال(مزی)،سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ