HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

جبری تعلیم

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حصول تعلیم ہر فرد کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ دور جدید کا یہ ایک غیر متوازن رجحان ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہرفرد تعلیمی رجحان کا حامل نہیں ہوتا۔ تعلیم پر بھرپور وسائل خرچ کرنے والے ممالک میں بھی یہ ممکن نہیں ہوسکا کہ ہر بچے کو رسمی تعلیم کے ذریعے سے تعلیم یافتہ بنایا جا سکے۔ فطری رجحانات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

جس طرح تعلیمی رجحان رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے بجاے کسی کام دھندے یا ہنر سیکھنے پر لگا دینا ظلم ہے، اسی طرح تعلیمی رجحان نہ رکھنے والے بچوں کو حصول تعلیم پرمجبور کرنا زیادتی ہے۔ تعلیمی رجحان نہ رکھنے والےبچے موافق حالات اور وسائل کے باوجود بھی پڑھنے کی طرف مائل نہیں ہو پاتے۔ اس میں ان کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی اس رجحان کی کمی کوئی بری چیز ہے۔ ایسے بچے ہم نصابی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ کچھ تکنیکی ذہن رکھتے ہیں، چیزوں کو کھولنے جوڑنے میں ہوشیار ہوتے ہیں۔ بعض کھیل کود میں بہت مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں، کچھ کھیتی باڑی یا جانور وغیرہ پالنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، بعض کاروباری صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لڑکیوں میں یہ، مثلاً گھر داری کے کاموں میں زیادہ رجحان رکھتی ہیں۔ ان کا ٹیلنٹ تصویر کشی، فیشن ڈیزائننگ یا بیوٹیشن وغیرہ کی ہنرمندی میں ظاہر ہوتا ہے۔ 

ان بچوں کو اگر ان کے طبعی رجحان کے مطابق آگے بڑھنے دیا جائے تو اکثر بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر رائج نظام تعلیم میں ہر بچے کو کم از کم دس بارہ سال رسمی تعلیم کی چکی میں پیسنا ضروری سمجھا گیا ہے، حتیٰ کہ غیر تعلیمی شعبہ جات کی ملازمتوں کے لیے بھی کم سے کم معیار تعلیم میٹرک رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ اگر تعلیمی رجحان نہ رکھتا ہو تو اسے بھی ایک ادنیٰ ملازمت کے لیے دس بارہ سال ناچاہی تعلیم کی مشقت میں بسر کرنا ہوں گے۔ ایک ناگوار کام مسلسل دس بارہ سال کرتے رہنے کی اذیت سے انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا احساس تک موجود نہیں۔ 

ایسے ہنرمند افراد کی کثیر تعداد موجود ہے جو اس تعلیمی چکر میں پڑے بغیر اپنی مرضی کا ہنر سیکھ کر اپنے شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ پیشہ یا ہنر سیکھنے کے لیے دس بارہ سال کی عمومی رسمی تعلیم کی پابندی غیر ضروری ہے، نہ صرف غیر ضروری ہے، بلکہ تعلیمی رجحان سے عاری بچوں کے لیے بڑی تکلیف اور نقصانات کا سبب بنتی ہے۔ 

 تعلیم سے بچنے کے لیے ایسے بچے جب ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں تو نکمے اور باغی کہلاتے اور اپنی نظر میں مجرم بنتے اور منفی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے بچوں کو زبردستی تعلیم دلا بھی دی جائے تو بہت محنت کے بعد بھی معمولی کارکردگی ہی دکھا پاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ معمولی تعلیمی کیرئیر کی وجہ سے کوئی ڈھنگ کی ملازمت پانے میں بھی ناکام رہتے ہیں اور اپنے طبعی ٹیلنٹ کو برتنے کی مسرت اور اس کے ذریعے سے ممکنہ کامیابی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔

ایسے تعلیم بے زار طلبہ امدادی کتب سے تیاری کرتے، اسائنمنٹس کاپی کرتے، امتحانات میں نقل کرتے اور شارٹ کٹس کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور کم گریڈز کی وجہ سے مغموم بھی رہتے ہیں۔ اساتذہ اور اداروں کے قیمتی وقت اور وسائل کا بہت بڑا حصہ ان کے تعلیمی نقائص دور کرنے اور سرقے کے حیلوں سے نمٹنے پر لگتا ہے، مگر کامیابی پھر بھی نہیں ملتی۔ ڈگری کی مجبوری ختم کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ کتنے افراد تعلیم کی کٹھنائیوں میں شامل ہونا پسند کریں گے۔ 

ایسے طلبہ رسمی تعلیم کے علاوہ دیگر کاموں کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ اگر یہ اپنا قیمتی وقت درست مصرف میں لگائیں، اس اذیت سے بھی بچیں گے اورپیشہ ورانہ زندگی میں بہت جلدمناسب مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

پیشہ ورانہ یا ہنر کی تعلیم ہمارے ہاں ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ سائنسز اور پھر سوشل سائنسز کی تعلیم ہی اولین ترجیح ہے۔ ان مضامین میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکنے پر طلبہ کو جب پیشہ ورانہ تعلیم یا کاروبار کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو تب تک بچے کا بہت وقت ضائع چکا ہوتا ہے۔ 

بچے کے رجحانات دیکھ کر اس کا فیصلہ پہلے کیا جانا چاہیے کہ اسے تعلیم دلانی ہے تو کس قسم کی تعلیم اس کے طبعی رجحان کے مطابق مفید رہے گی اور اگر تعلیم اس کا میدان ہی نہیں تو پھر کون سا شعبۂ زندگی یا ہنر اس کے لیے بہتر رہے گا۔

دور جدید سے پہلے، تعلیم ہمیشہ سے متوسط طبقے کا مسئلہ اور میدان رہا تھا، اشرافیہ اور غربا بطور طبقہ باقاعدہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ تعلیمی ذوق رکھنے والے حصول تعلیم کا اہتمام انفرادی طور پر کیا کرتے تھے۔ شہنشاہ اکبر کا دربار علم و ہنر میں یکتا نو رتنوں سے سجتا تھا، مگر اس رونق افروزی کے لیے خود اکبر کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہ تھا۔ اشرافیہ اپنے وسائل سے وہ میدان سجاتے ہیں جہاں ہنر مند، تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اپنے علم و ہنر سے سماج کو مستفید کرتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے ڈگری اہم نہیں ہوتی اور ملازمت بھی عموماً وہ کرنا پسند نہیں کرتے۔

لیکن، سماج میں عزت اور معاش کو رسمی تعلیم سے منسلک کردینے کے بعد اشرافیہ اور غربا بھی تعلیم کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ یوں وسائل پر بے جا بوجھ میں اضافہ ہوا۔

تعلیمی اسناد کے حصول کی دوڑ میں سب سے بڑا نقصان غریب کا ہوا۔ وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس کا بچہ پڑھ لکھ کر اچھا کمانے کے قابل ہو جائے اور سماج میں عزت بھی مل جائے۔ اسی کوشش میں وہ اپنے تمام وسائل بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیتا ہے، مگر معیاری تعلیم پھر بھی نہیں دلوا سکتا۔ کسی نمایاں کامیابی کے لیے بچے کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے ساتھ خوش قسمتی کا ساتھ بھی درکار ہوتا ہے؛ اور ایسے کتنے ہوتے ہیں؟ میٹرک، ایف اے یا بی اے کرنے کے بعد اس کا بچہ اب چھابہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا اور نہ کسی دکان پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ دفتری ملازمت کا خواب تمام عمر ایک ناتمام حسرت بن کر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے۔

حصول تعلیم کی پابندی اچھے کاروباری خاندان کے بچوں کے لیے بھی بعض اوقات ناگوار صورت حال کا باعث بنتی ہے۔ تعلیم کے حصول کے بعد جب وہ ملازمت اختیار کرتے ہیں تو کاروباری آمدنی کے مقابل اپنی کم تر آمدنی والی ملازمت سے بد مزہ ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر کاروبار کی طرف رخ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت دیر ہوچکی۔ 

ایک اچھا کاروباری ذہن عموماً تعلیم میں بہت اچھا نہیں دیکھا گیا، اور اچھی تعلیمی کارکردگی دکھانے والے اکثر اچھا کاروباری ذہن نہیں رکھتے۔ 

یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ تعلیم سے فرد کے سماجی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دیکھا گیا ہے کہ تعلیمی مصروفیات کی زیادتی بچوں کو عملی سمجھ بوجھ سے محروم کرنے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ جو بچے تعلیم کی طرف کم رجحان رکھتے ہیں، عملی سمجھ بوجھ میں اکثر فائق نظر آتے ہیں۔ شعور، علم اور تجربہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے رسمی تعلیم لازم نہیں ہوتی، خصوصاً طبعی سائنس کی تعلیم کا شعور کے اضافے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ سماجیات، بشریات اور تاریخ کے علوم سے شعور کی آب یاری میں معاون ہوتےہیں۔

تعلیم سب کے لیے، یہ غلط فہمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت کی بنا پر بھی پیدا ہوئی، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی دین کا ابلاغ تھا، اورآپ  کے بیان میں علم سے مراد دین کا علم ہے۔ دنیاوی علوم کی ترغیب کے لیے پیغمبر کی تلقین کی ضرورت نہیں۔ انسان یہ علوم ان ترغیبات کے بغیر بھی اپنی ضروریات کے تحت ہمیشہ سے حاصل کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔

تعلیم اگر صرف وہی افراد حاصل کریں جو پڑھنے لکھنے کا فطری اور طبعی رجحان رکھتے ہیں تو یہ دستیاب محدود وسائل کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔تجویز یہ ہے کہ پرائمری سطح کی تعلیم سب بچوں کے لیے لازم ہونی چاہیے تاکہ وہ بنیادی زبانی مہارتیں سیکھ لیں۔ اس کے بعد بچوں کا رجحان پرکھنے کا جامع طریقۂ کار اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں۔ 

صرف منتخب بچوں کو ان کے رجحان کے مطابق رسمی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے اگلے مراحل میں بھیجنا چاہیے۔ اس طرح تعلیمی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور کم وسائل سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔ دوسری طرف رسمی تعلیم سے باہر ہونے والے بچے اپنے اپنے ٹیلنٹ کے مطابق دیگر پیشوں اور کاروبار میں مشغول ہو کر اپنے اور سماج، دونوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ حکومت پر نوکریاں پیدا کرنے کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔

تعلیم اور ڈگری سے سماجی رتبہ (status symbol) کے حصول کے تصورات کی نفی ضروری ہے۔ فرد کی عزت اس کے ہنر، خدمات اور کردار کی بنا پر ہونی چاہیے، نہ کہ محض تعلیم کی بنا پر۔

تعلیم کو سماجیات سے عملاً منسلک ہونا چاہیے تاکہ کتاب اور عملی زندگی میں دوری ختم ہو۔ اس کے لیے نظام تعلیم میں عملی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کی چار دیواری سے باہر کی دنیا کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ضروری ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B