’’الہامی صحائف کے علما جانتے ہیں کہ دنیا میں دو خطہ ہاے ارض ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کیے تھے: ایک فلسطین اور دوسرے جزیرہ نماے عرب۔ یہ اِس لیے خاص کیے گئے کہ عالمی سطح پر دین کی شہادت کے لیے اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ قومیں اِن خطہ ہاے ارض میں اُس کی توحید کے مراکز قائم کریں۔ یہ مراکز مکہ اور یروشلم میں دو مسجدوں کی صورت میں قائم کیے گئے جنھیں ’بیت الحرام‘ اور ’ہیکل سلیمانی‘ کہا جاتا ہے۔ اِن مراکز کی حفاظت اور اِن کے ذریعے سے دین کی دعوت اقصا ے عالم تک پہنچانے کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ اِن خطہ ہاے ارض میں کسی دوسرے دین کے ماننے والے مستقل طور پر کبھی آباد نہیں ہوں گے۔ اِس کا لازمی نتیجہ وہاں اُن قوموں کی حکومت تھی جو اِس مقصد کے لیے منتخب کی گئیں۔‘‘ (میزان ۴۸۵)
یہاں تین نکتے ترتیب وار قابل توضیح ہیں:
پہلا نکتہ بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل کی خصوصی حیثیت سے متعلق ہے۔ اس کی تفصیل مصنف نے ’’قانون دعوت‘‘ کے تحت بیان کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قوموں پر اتمام حجت کے لیے جیسے مختلف اوقات میں اپنے پیغمبروں کا انتخاب کیا ہے، اسی طرح حضرت ابراہیم کی ذریت کا بھی بطور قوم انتخاب فرمایا ہے۔ اس مقصد سے بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل، دونوں کو شام وعرب کی سرزمین میں د و الگ الگ خطوں کا اقتدار اور اللہ کی عبادت کے لیے قائم کیے گئے دو مراکز کی تولیت عطا کی گئی (میزان ۵۵۰)۔
’’البیان‘‘ میں سورۂ مائدہ کی آیت ۲۱ کی تشریح میں مصنف نے اس اصول کی بھی وضاحت کی ہے جس کے تحت ان خطوں میں اور بالخصوص فلسطین میں بنی اسرائیل کا اقتدار قائم کرنے کے لیے وہاں پہلے سے آباد قوموں کو بے دخل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مصنف لکھتے ہیں:
’’دشت فاران میں بنی اسرائیل کو فلسطین پر حملے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ حملہ اِس لیے ضروری تھا کہ فلسطین کے علاقے کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی میراث کا علاقہ قرار دے کر اُنھیں حکم دیا تھا کہ اِس علاقے کو اپنی دعوت کا مرکز بنائیں۔ نبیوں کی قیادت میں جو حکومت قائم ہوتی ہے، وہ چونکہ براہ راست اللہ کی حکومت ہوتی ہے، اِس لیے اُس کو جس طرح اتمام حجت کے بعد لوگوں کی جزا و سزا کا حق حاصل ہو جاتا ہے، اُسی طرح یہ حق بھی آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ جس علاقے سے چاہے، لوگوں کی حکومت ختم کر کے اُس میں اپنی حکومت قائم کر دے۔ اِس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُن کی حکومت کو یہ حق نہ حاصل ہے اور نہ کسی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔“( ۱ /۶۱۳)
دوسرا نکتہ فلسطین اور جزیرۂ عرب کے خصوصی احکام سے تعلق رکھتا ہے۔ مصنف نے بیان کیا ہے کہ ’’ اِن خطہ ہاے ارض میں کسی دوسرے دین کے ماننے والے مستقل طور پر کبھی آباد نہیں ہوں گے۔“ اس کی مزید تفصیل مصنف نے دیگر مقامات پر کی ہے۔ مثلاً ’’مقامات‘‘ میں ’’خدا کے فیصلے“ کے زیر عنوان مصنف نے لکھا ہے:
’’فلسطین اوراُس کے گردو نواح میں کنعان کا علاقہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے اور جزیرہ نماے عرب کا علاقہ بنی اسمٰعیل کے لیے خاص کر دیا ہے تاکہ دنیا کی سب قومیں اُن کے ساتھ اُس کی معیت کا مشاہدہ کریں اورہدایت پائیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو اِسی بنا پر حکم دیا گیا کہ اپنی میراث کے اِس علاقے کو اُس کے باشندوں سے خالی کرالیں، اُس میں کسی کافرو مشرک کو زندہ نہ چھوڑیں اور نہ اُس کی سرحدوں سے متصل کسی علاقے میں کافروں اور مشرکوں کی کوئی حکومت قائم رہنے دیں، الاّ یہ کہ وہ اُن کے باج گزار بن جائیں۔وہ اِس سے انکار کریں تو سزا کے طور پر اُن کے مرد قتل کر دیے جائیں او رعورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ استثنا کے باب۲۰ میں یہ حکم پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو اِسی کے تحت تسلیم و انقیاد کے لیے مجبور کیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جزیرہ نماے عرب میں مشرکین کے تمام معابد اِسی کے تحت ختم کیے گئے۔ ’لایجتمع دینان في جزیرة العرب‘ کی ہدایت بھی اِسی کے تحت ہے۔ چنانچہ سرزمین عرب میں اِسی بنا پر نہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معبد تعمیر کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کافر و مشرک کو رہنے بسنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ تمام احکام توحید کے اِسی مرکز سے متعلق ہیں۔ اِن کا دنیا کے کسی دوسرے علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ “(۲۵۳)
تیسرے نکتے کا تعلق فلسطین کی مذکورہ خصوصی حیثیت میں واقع ہونے والی تبدیلی سے ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات کے تحت مصنف نے واضح کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرانے اور مختلف نشانیاں دکھانے کامقصد بنی اسرائیل کو اس بات کی اطلاع دینا تھا کہ انھیں شہادت حق کی جو ذمہ داری اور مسجد اقصیٰ کو آباد رکھنے کی جو امانت سپرد کی گئی تھی، وہ اب ان سے لے کر بنی اسمٰعیل کو تفویض کی جا رہی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:
’’بنی اسرائیل اِس گھر میں جو کچھ کہتے اور کرتے رہے ہیں، اُس کو سننے اور دیکھنے کے بعد یہی ہونا تھا۔ چنانچہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اِس گھر کی امانت اب نبی امی کے حوالے کر دی جائے گی۔ آپ کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے یہاں تک اِسی مقصد سے لایا گیا ہے۔ خدا ہر عیب سے پاک ہے، لہٰذا وہ کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ ایک قوم کو لوگوں پر اتمام حجت کے لیے منتخب کرے اور اُس کی طرف سے اِس درجے کی سرکشی کے باوجود اُسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔ ناگزیر تھا کہ پیش نظر مقصد کے لیے وہ کوئی دوسرا اہتمام کرے۔ اُس نے یہی کیا ہے اور عالمی سطح پر دعوت و شہادت کی ذمہ داری بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی ہے۔“ (البیان ۳/ ۶۳)
مصنف کی اس وضاحت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل کو چونکہ الگ الگ تاریخی ادوار میں عالمی سطح پر دین کی شہادت کےلیے منتخب کیا گیا، اس لیے ان کے اقتدار میں دیے جانے والے خطوں کے خصوصی احکام کا تعلق بھی مختلف ادوار سے ہے۔ چنانچہ جس دور میں یہ ذمہ داری بنی اسرائیل کے سپرد کی گئی تھی، اس میں کسی دوسرے دین کے ماننے والوں کے مستقل قیام کی ممانعت کا تعلق بھی فلسطین سے متعلق تھا۔ اس کے بعد جب یہ ذمہ داری بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی گئی اور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں بیت الحرام کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تو فلسطین کی یہ خصوصی حیثیت بھی باقی نہیں رہی۔ چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں ’’ریاست اورحکومت“ کے زیر عنوان مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جزیرہ نماے عرب کی ریاست جس کے حدود خود خالق کائنات نے متعین کرکے اُس کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم پر اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکز اُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کر دیا گیا کہ ’لا یجتمع فیھا دینان‘ (اب قیامت تک کوئی غیر مسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا)۔ اِس سے پہلے کئی صدیوں تک یہی حیثیت ریاست فلسطین کی تھی۔“ (۲۰۹)
مسلمانوں کے سیاسی طور پر ایک عالمی نظم کے تحت متحد ہونے کے تصور کے لیے عموماً ’’خلافت “ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مصنف نے ’’قانون سیاست“ کے مباحث میں اس کا ذکر نہیں کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصنف کی راے میں مسلمان، اس کے پابند نہیں ٹھیرائے گئے۔ اس نکتے سے متعلق مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت اپنی دیگر تحریروں میں کی ہے۔ یہاں مختصراً ان کے استدلال کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
’’مقامات‘‘ میں ’’قانون سیاست“کے زیر عنوان مصنف نے لکھا ہے:
’’ یہ بات کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی حکومت ہونی چاہیے اور یہ اسلام کا حکم ہے تو قرآن سے واقف ہر صاحب علم جانتا ہے کہ وہ اِس طرح کے کسی حکم سے یکسر خالی ہے۔... اِن حدیثوں میں وہ بات ہرگز نہیں کہی گئی جو اِن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِن میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی حکومت کے لیے کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور اِس کے بعد کوئی دوسرا بغاوت کر کے اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دے تو ہر مسلمان کو پہلی بیعت پر قائم رہنا چاہیے۔ نیز یہ کہ اگر دوسرا اپنی حکومت کا اعلان کر دے اور کچھ لوگ اُس کی بیعت بھی کر لیں تو اُس کو قتل کر دیا جائے۔...
آپ نے جو کچھ فرمایا، وہ یہی تھا۔ اِن سے یہ بات کسی منطق سے بھی برآمد نہیں کی جا سکتی کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے داعی اگر کبھی امریکا، برطانیہ یا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں لوگوں کی اکثریت کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اِن احادیث و آثار کی رو سے وہ اپنے ملک میں اپنی الگ حکومت قائم نہیں کر سکتے اور اگر کریں گے تو گناہ گار ہوں گے، جس طرح کہ اِس وقت پچاس کے قریب ممالک کے مسلمان ہو رہے ہیں۔“(۲۱۸- ۲۲۰)
مصنف کا یہ نقطۂ نظر عصر حاضر کے بیش تر مسلم اہل علم کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہے اور اس کے تاریخی شواہد اسلامی فکری روایت میں بھی ملتے ہیں۔ روایتی مذہبی فکر میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے ’خلافت‘ کے عنوان سے ایک مرکزی سیاسی ادارے کے تحت منظم ہونے کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مسلم سیاسی مفکرین اس سیاسی مرکزیت کو اسلام کے سیاسی نظام کی ایک مثالی شکل کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں اور کم از کم اسلام کے زیر نگیں مرکزی علاقے (جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کے خطے) کسی نہ کسی رنگ میں پہلے عرب اور پھر بعد میں ترکی خلافت کے زیر سایہ ایک مرکزی سیاسی نظام سے مربوط رہے ہیں۔
تاہم اسلامی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر جب اندلس میں مسلمانوں کی ایک مستقل خلافت قائم ہو گئی، جس کا مرکزی خلافت کے ساتھ کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا تو اس کے بعد اہل اندلس نے حکمرانی کے تسلسل اور انتقال اقتدار کے لیے اپنا سیاسی نظام بھی الگ وضع کیا اور اس علاقے کے مسلمان آیندہ تاریخ میں مرکزی خلافت سے آزاد رہ کر اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کرتے رہے۔ دونوں حکومتوں کے اپنے اپنے دار الحکومت اور اپنے اپنے ارباب حل وعقد تھے اور دونوں سلطنتوں میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے مقامی ارباب حل وعقد کا اتفاق اسی علاقے کے لیے اور انھی جغرافیائی حدود میں موثر مانا جاتا تھا جن میں ان میں سے ہر ایک سلطنت عملاً قائم تھی۔ یہی معاملہ عالم اسلام کے ان دوسرے خطوں کا بھی رہا ہے جہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے مرکزی خلافت سے الگ اپنا نظام حکمرانی قائم کیا۔
مسلم سیاسی مفکرین اور فقہا، امت کی سیاسی مرکزیت کے آئیڈیل کے تناظر میں مذکورہ واقعاتی صورت حال کا جواز عملی ضرورت او رمصلحت کے مختلف اصولوں کی روشنی میں پیش کرتے رہے ہیں۔ امام الحرمین الجوینی اور شوکانی وغیرہ کی تحریروں میں اس حوالے سے فتنہ سے اجتناب اور امور سلطنت کے انتظام میں دشواری وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الجوینی کہتے ہیں کہ اگر مسلمان ایک حکمران کے تقرر پر متفق نہ ہو سکیں اور اقتدار کے دو مدعی کھڑے ہو جائیں تو مسلمانوں کی باہمی جنگ سے بچنے کے لیے بہتر ہوگا کہ اتفاق پیدا ہونے تک دونوں کی حکومت کو بالفعل درست مان لیا جائے۔ اسی طرح اگر حدود سلطنت اتنی وسیع ہو جائیں کہ ایک حکمران کے لیے پوری سلطنت کا موثر انتظام وانصرام ممکن نہ رہے یا مسلمانوں کی سلطنت کے دو حصوں کے مابین کوئی غیرمسلم سلطنت واقع ہو جس کی وجہ سے باہمی رابطے اور رسل ورسائل کے معاملات میں دشواری پیش آتی ہو تو بھی مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ حکمران مقرر کیے جا سکتے ہیں (الجوینی، غیاث الامم فی التیاث الظلم ۱۲۶- ۱۲۷۔ الشوکانی، السیل الجرار ۱/ ۹۴۱)۔
اس تناظر میں بیسویں صدی میں قومیت کے جدید سیاسی تصورات کے زیر اثر خلافت کے تحت سیاسی مرکزیت کے بجاے آزاد اور خود مختار قومی حکومتوں کا تصور مقبول ہوتا چلا گیا اور ’خلافت‘ کے ادارے کے خاتمے کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں ساٹھ سے زیادہ مسلم قومی حکومتیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئیں تو مذہبی اہل فکر نے عموماً اس کو ایک امر واقعہ کے طور پر قبول کیا۔ انھوں نے یہ قرار دیا کہ مسلمانوں کا لازمی طور پر کسی ایک ہی نظم اجتماعی کے تحت سیاسی طور پر متحد ہونا ضروری نہیں اور سیاسی وحدت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ الگ الگ اور خود مختار حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی لکھتے ہیں:
”دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی، وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی، خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہو کر اپنا ایک عالم گیر وفاق قائم کر سکیں گی۔“ (خلافت وملوکیت ۵۶)
مصنف نے اسی نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے ان فکری رجحانات پر تنقید کی ہے جو قومی ریاست کو اسلامی تصور سیاست کے منافی قرار دیتے اور تمام مسلمانوں کے لیے ایک ہی مرکزی نظم حکومت کے تحت مجتمع ہونے کو ایک دینی حکم کا درجہ دیتے ہیں۔ ’’اسلام اور قومیت“ کے زیر عنوان مصنف نے لکھا ہے:
’’میں نے ... اپنی قوم کے اُن نوجوانوں کے لیے اسلام کے صحیح فکر کی وضاحت کر دی ہے جنھیں یہ کہہ کر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر عرب، ایرانی اور پاکستانی یا افغانی قومیتوں کا وجود بالکل ناجائز ہے، مسلمانوں کی قومیت اسلام اور اُن کا نظام خلافت ہے جس میں دورحاضر کی قومی ریاستوں کے لیے کوئی گنجایش پیدا نہیں کی جا سکتی، لہٰذا خدا کی زمین کو اِن کے وجود سے پاک کر دینا چاہیے۔ میں نے اُن کو بتایا ہے کہ قومی ریاست کوئی کفر نہیں ہے اور قومیت کی تمام فطری اساسات مسلمانوں کے لیے بھی اُسی طرح بناے قومیت ہو سکتی ہیں، جس طرح دوسری قوموں کے لیے ہو سکتی ہیں۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ چنانچہ جو مسلمان وطنی قومیت کے تصور کو قبول کر کے امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس یا ہندوستان، بلکہ پاکستان میں بھی رہ رہے ہیں، وہ شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ اسلام کے مآخذ اِس طرح کے کسی حکم سے یکسر خالی ہیں کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے۔“ (مقامات۲۲۲)
قومی ریاستوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے نقطۂ نظر کے استدلال اور اس کی تنقید کے لیے ملاحظہ ہو ہماری تحریر: ’’دولت اسلامیہ اور قیام خلافت۔ ایک سنگین مغالطہ“ (ماہنامہ الشریعہ، فروری ۲۰۱۶ء)
’’اولی الامر کی اطاعت کا یہ حکم ، ظاہر ہے کہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے۔ سورۂ نساء کی زیر بحث آیت کے سیاق سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر لینے کے بعد اطاعت کا یہ حکم اُن سے متعلق نہیں رہتا ۔... تاہم اِس حد کو پہنچ جانے کے بعد بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا حق کسی شخص کو اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتا ،جب تک مسلمانوں کی واضح اکثریت اُس کی تائید میں نہ ہو ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھر حکومت کے خلاف نہیں،بلکہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت قرار پائے گی جو اسلامی شریعت کی رو سے فساد فی الارض ہے اور جس کی سزا قرآن میں قتل مقرر کی گئی ہے۔... پھر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ بغاوت اگر مسلح بغاوت ہے تو اِس پر وہ تمام شرائط بھی آپ سے آپ عائد ہو جائیں گے جو اسلامی شریعت میں جہاد و قتال کے لیے بیان ہوئے ہیں ۔ لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہ ہو گا کہ وہ اُنھیں پورا کیے بغیر اِس نوعیت کا کوئی اقدام اپنے حکمرانوں کے خلاف کرے۔ “(میزان ۴۸۷- ۴۸۹)
یہاں تین سوالات تنقیح وتوضیح کا تقاضا کرتے ہیں:
پہلا یہ کہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے؟
دوسرا یہ کہ اگر سرکش حکمرانوں کو مسلمانوں کی واضح اکثریت کی تائید حاصل ہو تو ان کے خلاف بغاوت کا کیا حکم ہے؟
تیسرا یہ کہ مسلح بغاوت، یعنی جہاد وقتال کے لیے وہ کون سے شرائط ہیں جو اسلامی شریعت میں بیان ہوئے ہیں؟
پہلے نکتے کے ضمن میں مصنف نے ان احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ حکمران کسی کھلے کفر کا مرتکب ہو جس کے بارے میں مسلمانوں کے پاس اللہ کی ایک واضح اور قطعی حجت موجود ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح بعض احادیث میں ہے کہ حکمران جب تک نماز قائم کرتے رہیں، ان کے ظلم وجبر کی وجہ سے ان کے خلاف قتال نہ کیا جائے۔ ان احادیث کے مجموعے سے مصنف نے یہ اخذ کیا ہے کہ حکمران کی اطاعت کی ہدایت اصلاً مسلمان حکمرانوں سے متعلق ہے اور اگر خدانخواستہ مسلمانوں کا حکمران کفر وارتداد اور احکام شریعت سے کھلی سرکشی پر اتر آئے تو مسلمان اس کی اطاعت کے پابند نہیں ہیں۔
دوسرے نکتے سے متعلق مصنف کا موقف یہ ہے کہ اگر دین وشریعت سے کھلے انحراف اور سرکشی کے باوجود حکمران کو مسلمانوں کی اکثریت کی تائید حاصل ہو تو اس کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں۔ فقہا ومحدثین حکمران کی طرف سے ارتکاب کفر کی صورت اس کے خلاف بغاوت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی کوشش ہر مسلمان پر واجب ہے اور جس گروہ کے لیے بھی یہ ممکن ہو، اس پر بغاوت کرنا واجب ہوگا ۔ اگر وہ ایسا کرنے سے عاجز ہوں تو ان پر وہاں سے ہجرت کر جانا واجب ہوگا (نووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۲۲۹۔ ابن حجر، فتح الباری ۱۳/ ۱۱۶، ۱۲۳)۔ ایک معاصر عالم نے فقہا ومحدثین کے موقف کی تعبیر یوں کی ہے کہ اگر لوگوں کو بغاوت کے کامیاب ہونے کا غالب گمان ہو تو ان پر بغاوت واجب ہے۔ بصورت دیگر انھیں اس کے اسباب اور امکانات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے (عبد اللہ بن عمر بن سلیمان الدمیجی، الامامۃ العظمیٰ عند اہل السنۃ والجماعۃ ۵۴۷- ۵۴۸)۔
جہاں تک لوگوں کی اکثریت کی راے کا تعلق ہے تو فقہا حکمران کے فسق وفجور کی صورت میں اس کی رعایت کو اہم قرار دیتے ہیں اور اکثریت اگر حکمران کے فسق وفجور کے باوجود اس کی اطاعت پر متفق ہو تو اقلیت کے لیے اسے معزول کرنے کی کوشش کو جائز قرار نہیں دیتے (بیہقی، شعب الایمان ۱۰/ ۱۳)۔ البتہ حکمران کے ارتداد کی صورت میں اکثریت کی تائید کا نکتہ ان کے کلام میں نہیں ملتا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس صورت میں اکثریت کی تائید کو بغاوت سے مانع نہیں سمجھتے۔ تاہم جدید جمہوری نظام کے تناظر میں ، بعض اہل علم کے ہاں اس کی تصریح ملتی ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں لادینی نظام قائم ہوجائے تو جب تک جمہوری طریقے سے عوامی راے کو تبدیل کرنے کے مواقع موجود ہوں، مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنا درست نہیں ہوگا۔ مثلا ً مولانا ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ …….ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔“ (”تصریحات“، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور ۳۲۰، ۳۲۲)
مصنف کا نقطۂ نظر بھی اس نکتے کے حوالے سے اسی موقف کے قریب تر ہے۔
تیسرےنکتے سے متعلق مصنف کے نقطۂ نظر کی توضیح ’’برہان‘‘ میں ان کی تحریر ’’اسلامی انقلاب“ میں ملتی ہے۔ مصنف کے نزدیک مسلح بغاوت کے لیے چار شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، جو حسب ذیل ہیں:
پہلی یہ کہ حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کریں،
دوسری یہ کہ اُن کی حکومت کو مسلمانوں کی اکثریت کی تائید حاصل نہ ہو،
تیسری یہ کہ باغی قیادت پر قوم کی اکثریت مجتمع ہو،
اور چوتھی یہ کہ بغاوت کرنے والے پہلے کسی آزاد علاقے میں جاکر اپنی حکومت قائم کریں۔
ان میں سے پہلی شرط کی دلیل کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے۔ دوسری اور تیسری شرط کا ماخذ مصنف کے نزدیک ’اَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ‘ کا اصول ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں پر اقتدار کا حق انھی کو ہے جن کو اکثریت کی تائید حاصل ہو، چنانچہ اگر مسلمانوں کی اکثریت حکومت کے ساتھ کھڑی ہو یا بغاوت کرنے والوں کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہ ہو تو دونوں صورتوں میں یہ اقدام شرعاً ناجائز ہوگا۔ چوتھی شرط کے لیے مصنف نے عقلی استدلال کے علاوہ انبیا کی سیرت سے بھی استنباط کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ باغی قیادت کو جب تک خود اپنے گروہ پر ایک آزاد علاقے میں مکمل اختیار حاصل نہ ہو اور وہ انھیں قانون اور ضابطوں کا پابند نہ رکھ سکتی ہو، اس وقت تک اس کو ایک منظم حکومت کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ اس کا نتیجہ محض فساد اور انتشار کی صور ت میں نکلے گا۔ مصنف کی راے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی وجہ سے اس وقت تک جہاد اور قتال کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا جب تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصر اور مکہ سے ہجرت کر کے ایک آزاد علاقے میں اپنا اقتدار قائم نہیں کر لیا (برہان۲۹۸)۔
ـــــــــــــــــــــــــ